www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

عرض مترجم

حکیم الامت ڈاکٹر محمداقبال کے انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ اقبال اکادمی پاکستان کے ابتدائی منصوبوں میں شامل رہا ہے۔ اس منصوبہ پرعمل درآمد کرتے ہوئے جب میں نے پہلے خطبے کاترجمہ مکمل کر لیا تو اسے اقبال اکادمی کی مجلس علمی کے ۲۲ ارکان کے سامنے رکھا گیا۔ مجلس علمی میں ملک کے ممتاز ادیب، نقاد، انشا پرداز، مترجم اور شاعر شامل تھے۔ مسودہ انہیں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا اور پھر ان کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس پر غورہوا ۔ تمام حضرات نے اس ترجمے کو سراہا۔ اسے سہل، مستند اور جدید اسلوب کا حامل قرار دیا گیا۔ ترجمے کے سلسلے میں کچھ مشورے بھی موصول ہوئے جو ترجمہ کرتے وقت میں نے پیش نظر رکھے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۴ء میں پہلا خطبہ اقبال اکادمی پاکستان کے مجلّے "اقبالیات" میں شائع کیا گیا تاکہ اہل علم کے نقد ونظر کے بعد اس میں مزید بہتری ہو سکے۔ دوسرا خطبہ ۱۹۹۵ء، تیسرا جولائی ۱۹۹۶ء، چوتھا جنوری ۱۹۹۸ء، پانچواں جنوری ۱۹۹۹ء، چھٹا جولائی ۱۹۹۹ء اور ساتواں خطبہ جنوری ۲۰۰۰ء میں "اقبالیات" کے شماروں میں شائع ہوئے۔ اس ترجمے کی مقبولیت کے سبب اس کی اشاعت کی فرمائش آنے لگی۔ ایک صاحب نے تو الگ الگ خطبات کی اشاعت کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کی بھی پیش کش کر دی۔ مناسب ہو گا کہ اس ترجمے کے سلسلے میں چند معروضات یہاں پیش کر دی جائیں۔

۱- ترجمہ کرنے سے قبل ان تمام تراجم کو پڑھا گیا جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ۔ بعض خطبوں کے الگ الگ بھی ترجمے دستیاب ہوئے انہیں بھی پڑھا گیا۔ خطبات کی تسہیلات اور دیگر متعلقہ کتب بھی دیکھی گئیں۔

۲- ترجمہ کرنے سے پہلے پوری انگریزی کتاب کو بھی بالاستیعاب پڑھا گیا۔

۳- فلسفیانہ اصطلاحات کے لیے قاموس الاصطلاحات، فلسفے کی دوسری ڈکشنریاں اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی ترجمہ شدہ فلسفے کی کتب اور آخر پر دی گئی فرہنگوں کو دیکھا گیا۔

۴- ترجمے کی زبان انتہائی سہل، رواں اور بوجھل اصطلاحات سے پاک رکھنے کی کوشش کی گئی۔ صرف ناگزیر اصطلاحات کو ہی استعمال کیا گیا ۔

۵- ترجمہ کرتے وقت ہر فقرے پر غور کیا گیا کہ کہیں ترجمے میں وہ مہمل بے معنی یااصل متن سے ہٹ تو نہیں گیا۔ اور فقرہ با معنی بھی ہے کہ نہیں۔

۶- کسی مفہوم اور عبارت کے سمجھ میں نہ آنے پر مترجم بعض مقامات پر متن کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اس ترجمے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ ترجمہ لفظی بھی ہے اور بامحاورہ بھی۔

۷- ترجمہ کرتے وقت یہ بات دامن گیر رہی کہ اگر علامہ اردو میں لکھتے تو اپنا مدعا کس طرح ادا کرتے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اسے ترجمے کی بجائے طبع زاد کتاب کا روپ مل سکے۔

۸- اقبالیات میں خطبات کی اشاعت مکمل ہونے پر اسے نظر ثانی اور مشاورت کے لیے فلسفے کے جیّد اُستاد اور پاکستان فلسفہ کانگرس کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق، سابق چیئرمین اور اقبال پروفیسر شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور کے پاس بھیج دیا گیا۔ آپ نے نہایت محنت اور انہماک سے تصحیح اور نظرثانی فرماتے ہوئے اس ترجمے کو بہتر بنانے میں میری مدد اور رہنمائی فرمائی، بلکہ کمپوزنگ کے بعد اس ترجمے کی پروف خوانی بھی کی۔ آپ میرے اُستاد ہیں۔ ان کی محبت اور شاگرد پروری کے لیے سراپا سپاس ہوں۔

۹- اس ترجمے کے لئے وہ ایڈیشن استعمال کیا گیا جو پروفیسر محمد سعید شیخ نے مرتب و مدون فرمایا۔ آپ فلسفے کے ممتاز اُستاد رہے ہیں اور یہ خطبات مدون و مرتب کرکے انہوں نے ایک اعلیٰ محقق ہونے کا بھی ایسا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک لیجنڈ بن گئے ہیں۔ دوسرے مترجمین نے غالباً یہ ایڈیشن استعمال نہیں کیا۔

ترجمے کے صبر آزما مراحل میں اقبال اکادمی پاکستان کے موجودہ ناظم محمد سہیل عمر قدم قدم میرے ساتھ رہے ہیں۔ جب ہم اقبال اکادمی میں آئے تو اقبال کے شعری اور نثری سرمایہ کو جو علامہ کی طبع زاد کتب پر مشتمل ہے، تدوین کے بعد شائع کرنے اور ان کے تراجم کا فیصلہ ہوا۔ سراج منیر مرحوم، پروفیسر محمد منور مرحوم، محمد سہیل عمر اور ہم اس پروگرام کے مرتب تھے۔ اس کے تحت کلیات اقبال اور کئی دوسری کتب شائع ہوئیں۔ پھر نظامتوں کی تبدیلیاں ان پروگراموں پر اثرانداز ہوتی رہیں۔ اور یہ کام رکا رہا۔ ڈاکٹر وحید قریشی جب اکادمی میں آئے تو انہوں نے کام تیز کرنے کو کہا اور اقبالیات میں یہ خطبات شائع ہونے لگے۔ محمد سہیل عمر جب ناظم بنے تو دو خطبے باقی تھے انہوں نے اس منصوبے میں خصوصی دلچسپی لی اور ان کی ہی نظامت میں یہ کام شائع ہو رہا ہے۔

خطبات کے دوسرے تراجم پر ایک سیر حاصل تبصرے کا بھی میں خواہاںتھا مگر میں نے دانستہ اسے ترک کر دیا۔ علامہ اقبال، ڈاکٹر عابد حسین سے خطبات کا ترجمہ چاہتے تھے۔ سید نذیر نیازی کے ترجمے کا کچھ حصہ علامہ نے دیکھا تھاتاہم یہ ترجمہ علامہ کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا۔ سید نذیر نیازی میرے محترم اور بزرگ دوست تھے۔ میرے لیے بڑے شفیق تھے۔ وہ عربی کے عالم تھے، لہٰذا ترجمے میں عربی الفاظ اور اصطلاحات ان کی مجبوری تھی۔ جس زمانے میں انہوں نے یہ ترجمہ کیا اس زمانے میں اردو زبان میں فلسفے کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن میں تراجم ہو رہے تھے۔ لہٰذا ترجمے کی مشکلات سے وہ بھی دوچار تھے۔ ان کے علاوہ بھی لوگوں نے جزواً یا کلاً ترجمے کئے ہیں۔ان میں صرف سید نذیر نیازی ہی نہیں اور بھی بڑے بڑے بزرگ شامل ہیں۔ ان سب کے کام، خلوص اور محنت کا میں قدردان ہوں، اس لیے کہ انہوں نے نو آبادیاتی دور میں ہر طرح کے وسائل سے تہی ہونے کے باوجود یہ کام کیا۔ اب ہم زیادہ باوسائل ہیں، لہٰذا ان پر کچھ کہنا اچھا نہیں لگتا۔وہ سب قابل احترام ہیں کہ انہوں نے اس تاریک دور میں علم و دانش کی شمعیں روشن کیں جن سے ہمارا آج منور ہے۔سید نذیر نیازی کا یہی کیا کم احسان ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کی عمر بھر خدمت کی اور فکر اقبال کو عام کرنے میں شب و روز ایک کر دیئے۔

اس وقت جو ترجمے دستیاب ہیں ان میں" تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ" از سید نذیر نیازی،تفکیر دینی پر تجدید نظراز ڈاکٹر محمد سمیع الحق (یہ ترجمہ دہلی سے شائع ہوا ہے)، ممتاز شاعر، مترجم سائنس اور نفسیات پر دقیق نظر رکھنے والے مصنف شہزاد احمد کا حال ہی میں شائع ہونے والا ترجمہ اسلامی فکر کی نئی تشکیل، پروفیسر شریف کنجاہی کا ترجمہ مذہبی افکار کی تعمیر نوشامل ہیں۔ اس سلسلے میں انہوںنے خطبات کا پنجابی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ احمد آرام کی احیائے فکر دینی دراسلام نے فارسی میں اور عباس محمود نے تجدید التفکیرالدینی فی الاسلام کے نام سے عربی میں بھی ترجمے کئے۔ مادام ایوا میورو وچ نے فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔پروفیسر محمد عثمان، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، پروفیسر محمد شریف بقا، سید وحید الدین، مولانا سعید اکبر آبادی کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی' تسہیل خطبات اقبال' اور 'متعلقات خطبات اقبال' از ڈاکٹر سید عبداﷲ کی بھی قابل ذکر کاوشیں ہیں۔ سید میر حسن الدین، ڈاکٹر محمد اجمل اور متعدد دوسرے حضرات نے ایک دو خطبات کے تراجم بھی کئے ہیں۔ مگر خطبات پر کام ابھی مزید توجہ چاہتا ہے۔ اقبال اکادمی پاکستان کے ناظم محمد سہیل عمر کی کتاب 'خطبات اقبال نئے تناظر میں' بھی اس سلسلے کی اہم کتاب ہے۔ خطبات کے حوالے سے اقبال اکادمی کے زیر اہتمام ۱۹۹۷ء میںا قبال ریویو(مدیر محمد سہیل عمر)اور اقبالیات (مدیرڈاکٹر وحید عشرت) کے دو خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے بھی قرآن اور علم جدید میں خطبات پر نقد و نظر کی ہے۔ خود میرا بھی ارادہ خطبات کے مباحث پر تنقیدی کام کرنے کا ہے۔ خطبات کے حواشی اور تعلیقات اس ترجمے میں اس لیے شامل نہیں کئے گئے کہ وہ ایک الگ کام ہے اور ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے۔ انشاء اﷲ اگلا کام اسی سمت ہو گا۔ میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوں جو اس ترجمے کے مختلف مراحل میں شریک رہے یا میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

ڈاکٹر وحید عشرت
اقبال اکادمی پاکستان
ایوان اقبال لاہور
۲۱- اپریل ۲۰۰۱ء

ابتدائیہ

قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے خلقی طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس اجنبی کائنات کو ایک حیاتی عمل کے طور پر قبول کرلیں۔ یہ عمل، وہ خاص طرز کا باطنی تجربہ ہے' جس پر بالآخر مذہبی ایمان کا دارومدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنا لی ہے ایسی عادت جسے خود اسلام نے اپنی ثقافتی زندگی کے کم از کم آغاز میں خود اپنے ہاں پروان چڑھایا تھا۔ اس عادت کی بنا پر وہ اس تجربے کے حصول کا کم ہی اہل رہ گیا ہے جسے وہ اس لئے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس میں التباس کی گنجائش رہتی ہے۔اس میں شبہ نہیںکہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے' مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں۔ وہ انہی طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضع کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطہ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطہ نظر سے مختلف تھا۔قرآن کہتا ہے کہ " تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق و بعثت کی طرح ہے"۔ حیاتیاتی وحدت کا زندہ تجربہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے آج ایسے منہاج کا تقاضا کرتا ہے جو موجودہ دور کے ٹھوس ذہن کے لیے عضویاتی طور پر کم شدت رکھتا ہو مگر نفسیاتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو۔ اس طرح کے منہاج کی عدم موجودگی میں مذہبی علم کی سائنسی صورت کا مطالبہ ایک قدرتی امر ہے۔ ان خطبات میں جو مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے اور مدراس' حیدرآباد اور علی گڑھ میں پڑھے گئے، میں نے کوشش کی ہے کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور مختلف انسانی علوم میں جدید ترین تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے مذہبی فکر کی تشکیل نو کروں تاکہ میں __ جزوی طور پر ہی سہی __ اس مطالبے کو پورا کر سکوں۔ اس طرح کے کام کے لیے موجودہ وقت نہایت موزوں اور مناسب ہے۔ کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پر تنقید شروع کر دی ہے۔ اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت جسے ابتدا میں اس نے ضروری سمجھا تھا تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم و گمان بھی نہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات ، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوںجو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے ارتقا پر بڑی احتیاط سے نگاہ رکھیں اور اس کی جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں۔

اقبال

اگلا>>

ابتدائیہ


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان