www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم

"انسان کی انفرادی اور اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے ۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جوازکی یافت کرتی ہے"

اقبالؒ

ہم نے دیکھا ہے کہ وہ حکم جس کی اساس مذہبی تجربے پر ہو عقلی معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔ جب ہم اس تجربے کے زیادہ اہم گوشوں کا تجزیہ ایک ایسی آنکھ سے کرتے ہیں جو ترکیبی زاویۂ نگاہ رکھتی ہے تو تمام تجربات کے لیے قطعی بنیاد حکمت اور بصیرت رکھنے والے تخلیقی ارادے کی صورت میں منکشف ہوتی ہے جسے ہم نے بوجوہ ایک انا کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ انائے مطلق کی انفرادیت پر زور دینے ہی کے لئے قرآن اسے اﷲ کا نام دیتا ہے اور مزید اس کی توضیح یوں کرتا ہے:

قُلْ ہُوَ اﷲُ أَحَدٌo اﷲُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْo وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌo (۴-۱:۱۱۲)
"کہہ دو! اﷲ ایک ہے اﷲ ہی پر ہر شے کا مدار ہے' نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ اس نے کسی کو جنا اور کوئی نہیں جو اس کی ہمسری کر سکے،،

مگر یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ حقیقتًا فرد کیا ہے۔ جیسا کہ برگساں اپنی کتاب 'تخلیقی ارتقائ' میں ہمیں بتاتا ہے' فردیت کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ اور انسانی وجود کی بظاہر الگ تھلگ اکائی کی صورت میں بھی اس کا مکمل اظہار نہیں ہوتا۔ ۱؎ برگساں کے بقول فردیت کے بارے میں خاص طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ:

"اگرچہ اس منظم دنیا میں فردیت کی جانب میلان ہر کہیں موجود ہے تاہم تولید کا رجحان اس کی راہ میں مزاحم ہوتا ہے۔ فردیت کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عضویے کا کوئی بھی حصہ اس سے جدا ہو کر زندہ نہ رہے۔ لیکن ایسی صورت میں تولید ناممکن ہو جائے گی۔ تولید اس کے سوا کیا ہے کہ پرانے عضویہ سے جدا ہو کر ایک نئے عضویہ کی تعمیر ہو۔ اس طرح فردیت خود اپنے گھر میں اپنے دشمن کو پالتی ہے"۔ ۲؎

اس اقتباس کی روشنی میں یہ تو واضح ہے کہ ایک مکمل فرد جو انا کی صورت میں اپنے آپ میں محدود' بے مثل اور یکتا ہے' اس کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے دشمن کو اپنے گھر میں پال رکھا ہے۔ اس کا تصور تو لازمی طور پر اس معاندانہ رجحانِ تولید سے برتر ہونا چاہیے۔ مکمل خودی کی یہ خصوصیت قرآن کے تصور خدا کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے اور قرآن اسے بار بار دھراتا ہے__ معاصر مسیحی تصور کی تردید کے لئے نہیں بلکہ محض خود اپنے تصور فرد کامل پر اصرار کی خاطر۔ ۳؎ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی فکر کی تاریخ حقیقت مطلق کے فردیت پسندانہ تصور سے فرار کی مختلف راہوں سے عبارت ہے جسے روشنی کی طرح مبہم' بے کراں اور ہر جگہ سرایت کرنے والے عنصر کے طور پر خیال کیا گیا ہے۔ ۴؎ یہ وہ نقطہ نظر ہے جسے اپنے گیفرڈ لیکچرز میں فارنل نے اپنایا' جن کا موضوع 'صفات خدا' تھا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ تاریخ مذہب میں فکر کے رجحانات وحدت الوجود کی طرف رہے ہیں۔ مگر میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ جہاں تک قرآن کے' خدا کے نور میں متشخص کرنے کا تعلق ہے فارنل کا نقطہ نظر درست نہیں۔ وہ پوری آیت' جس کے اس نے محض ایک حصے کا حوالہ دیا' یہ ہے:

اﷲُ نُورُالسَّمٰوٰت وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَوٰۃِ فِیْھَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ الزُّجَاجَۃُکَأَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ (۳۵:۲۴)
اﷲ ہی زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو وہ چراغ شیشے کے فانوس میں پڑا ہو وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے جو موتی کی طرح چمک رہا ہو۔ ۵؎

اس میں شک نہیں کہ اس آیت کا پہلا جملہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ خدا کی فردیت کے تصور سے انحراف کیا گیا ہے مگر جب ہم آیت کے اگلے حصے میں نورکے استعارے کا بیان دیکھتے ہیں تو یہ پہلے کے برعکس تاثر دینے لگتی ہے۔ اس استعارے کے مزید آگے بڑھانے سے اس مفہوم کو زائل کرنا مقصود ہے کہ خدا کوئی بے ہیئت کونی عنصر ہے کیونکہ نور کو شعلے میں مرتکز کر دیا گیا ہے جسے مزید فردیت یوں دی گئی ہے کہ وہ ایک فانوس میں ہے جو ایک واضح طور پر بیان کئے گئے ستارہ کی مانند ہے۔ ذاتی طور پر میری سوچ یہ ہے کہ خدا کی نور کے طور پر جو تشریح یہودی' عیسائی اور اسلامی ادبیات میں کی گئی ہے اب ہمیں اس کی تعبیر مختلف انداز میں کرنی چاہیے۔ جدید طبیعیات کے مطابق نور کی رفتار میں اضافہ ممکن نہیں اور یہ ہر مشاہدہ کنندہ کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے' خواہ اس کا اپنا نظام حرکت کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ تغیر کی دنیا میں نور ذات مطلق کے قریب ترین ہے۔ نور کے استعارے کا جہاں تک خدا کے لیے استعمال کا تعلق ہے اس کا مفہوم' علم جدید کے پس منظر میں' خدا کی مطلقیت ہونا چاہیے نہ کہ اس کا ہر جگہ موجود ہونا۔ ۶؎ موخرالذکر ہمیں آسانی سے وحدت الوجودی تشریح کی طرف لے جاتا ہے۔

اب یہاں اس سلسلے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فردیت سے مراد متناہیت نہیں ہے۔ اگر خدا ایک انا ہے اور یوں ایک فرد ہے تو ہم اس کو لامتناہی کیسے تصور کر سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو مکانی لا متناہیت کے مفہوم میں ہم لامتناہی تصور نہیں کر سکتے۔ روحانی قدر کے تعین میں وسعت اور پہنائی کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں، جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں' زمانی اور مکانی لامتناہیت مطلق نہیں ہوتی۔ جدید طبیعیات فطرت کو کسی لامتناہی خلا میں واقع ساکن خیال نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے سے باہم مربوط واقعات کا ایک نظام تصور کرتی ہے جن کے باہمی روابط سے زمان و مکان کے تصورات ابھرتے ہیں اور یہ اس حقیقت کو بیان کرنے کا ایک مختلف انداز ہے کہ زمان و مکان وہ توجہیات ہیں جو فکر، انائے مطلق کی تخلیقی فعلیت پر لاگو کرتی ہے۔ زمان و مکان انائے مطلق کے امکانات ہیں جن کا ہماری زمان و مکان کی ریاضیاتی شکل میں جزوی طور پر ہی اظہار ہوتا ہے۔ خدا سے ماورا اور اس کی خلّاقی فعلیت سے الگ نہ تو مکان ہے اور نہ ہی زمان جو اسے دوسری انائوں سے الگ ٹھہرا سکے۔ انائے مطلق نہ تو مکانی لحاظ سے لامتناہی ہے اور نہ ہی اس مفہوم میں متناہی ہے جس طرح انسان مکاناً محدود اور جسماً دوسرے انسانوں سے الگ ہوتے ہیں۔انائے مطلق کی لامتناہیت اس کی تخلیقی قوت کے لامتناہی اندرونی امکانات سے عبارت ہے جن کا ہماری معروف کائنات ایک جزوی اظہار ہے۔ مختصراً خدا کی لامتناہیت وسیع نہیں عمیق ہے۔ وہ ایک لامتناہی سلسلے کا باعث تو ہے مگر خود یہ سلسلہ نہیں۔ اس میں لامتناہی تسلسل کا دخل ہے، خود کوئی تسلسل نہیں۔

عقلی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قرآن کے تصور خدا میں دیگر اہم عناصر خالقیت 'علم' قدرت کاملہ اور ابدیت ہیں۔ ان کی یہاں بتدریج وضاحت کروں گا۔

متناہی اذہان فطرت کو خود سے باہر ایک متقابل چیز سمجھتے ہیں جسے ذہن جانتا تو ہے مگر اس کو تخلیق نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہم عمل تخلیق کو ماضی کا ایک عمل سمجھتے ہیں اور کائنات ہمیں ایک ایسی مصنوع شے دکھائی دیتی ہے جس کا اپنے صانع کی زندگی سے کوئی عضویاتی ناطہ نہیں اور صانع کا اس سے تعلق محض ایک تماشائی کا ہے۔ وہ تمام بے معنی کلامی مباحث' جو تصور تخلیق کے بارے میں اٹھائے گئے' وہ اسی متناہی ذہن کی محدود سوچ کی پیدا وار ہیں۔ ۷؎ اس نقطہ نظر کے مطابق کائنات خدا کی زندگی کا محض ایک حادثہ ہے اور ممکن ہے کہ یہ حادثہ رونما نہ ہوا ہوتا۔ وہ بنیادی سوال جس کا ہم جواب دینا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کیا کائنات خدا کی ذات سے متقابل کوئی غیر ذات ہے اور دونوں کے درمیان کیا کوئی بُعد مکانی موجود ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ الوہی نقطہ نظر سے تخلیق کوئی ایسا خاص واقعہ نہیںجس کا کوئی ماقبل اور کوئی مابعد ہو۔ کائنات کو ایسی خودمختار حقیقت تصور نہیں کیا جا سکتا جو خدا کے متقابل موجود ہو' کیونکہ یہ نقطہ نظر خدا اور دنیا کو دو ایسی اکائیوں میں بدل دیتا ہے جو لامتناہی مکان کی وسعتوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل پڑے ہوں۔ ہم قبل ازیں دیکھ چکے ہیں کہ زمان و مکان اور مادہ' خدا کی آزادانہ خلّاق توانائی سے متعلق فکر کی محض مختلف تعبیرات ہیں۔ ۸؎ وہ قائم بالذات نہیں بلکہ حیات خداوندی کی تفہیم کے عقلی پیرائے ہیں۔ ایک بار معروف بزرگ حضرت بایزید بسطامی کے مریدوں میں تخلیق کا سوال سامنے آیا۔ ایک مرید نے فہم عامہ کے نقطہ نظر کے مطابق کہا:

"ایک ایسا لمحہ وقت تھا جب خدا ہی موجود تھا اور خدا کے سوا کچھ نہ تھا'۔ جواباً حضرت بایزید بسطامی نے فرمایا: "اب بھی تو وہی صورت ہے جو اس وقت تھی"

یہ مادی دنیا کوئی ایسا مواد نہیں جو خدا کے ساتھ ہمیشہ سے تھا اور خدا گویا فاصلے پر بیٹھا اس پر عمل پیرا ہے۔ بلکہ اس کی حقیقی فطرت تو ایک مسلسل عمل کی ہے جسے فکر نے الگ تھلگ چیزوں کی کثرت میں بانٹ رکھا ہے۔ پروفیسر اڈنگٹن نے اس اہم مسئلہ پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس موقع پر اس کی کتاب "زمان و مکان اور کشش ثقل" کا حوالہ دوں:

"ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں نقاط و حوادث ہیں جن کے باہمی وقفوں میں بنیادی طور پر کچھ نسبتیں قائم ہیں۔ ان میں حسابی طور پر بے شمار مزید پیچیدہ تر روابط اور صفات کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ان ارتباطات اور خاصیتوں کی موجودگی کی نوعیت اسی طرح ہے جیسے کسی دورافتادہ زمین میں بے شمار پگڈنڈیاں موجود ہوں لیکن ان کی موجودگی اس وقت تک پوشیدہ رہتی ہیں جب تک کوئی ان پر چل کر انہیں معنویت نہ دے۔ اسی طرح صفات عالم میں سے کسی صفت کی موجودگی اس وقت معنویت حاصل کر تی ہے جب کوئی ذہن اس کو الگ سے اپنا کر معنویت دے۔ صفات کے بے معنی مجموعے سے ذہن مادے کی تقطیر کرتا ہے جس طرح منشور سفید روشنی کے بے راہ ارتعاشات سے قوس و قزح کے رنگ تقطیر کر لیتا ہے۔ ذہن مستقل اشیاء کو تو باقی رکھتا ہے مگر عارضی چیز کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اور نسبتوں کے ریاضیاتی مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طریقہ جس سے ذہن اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک خاص صفت کو قابل ادراک دنیا کے مستقل جوہر کے طور پر انتخاب کر لیتا ہے اور پھر ان کو زمان اور مکان کے ادراکات میں تقسیم کرتا ہے تاکہ ان کے لئے کوئی دوامی جگہ پیدا کرے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر کشش ثقل' میکانکیت اور جیومیٹری کے قوانین کی فرمانروائی معرض وجود میں آتی ہے۔کیایہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ ذہن کی طرف سے دوامیت کی تلاش ہی طبیعیات کی کائنات کی تخلیق کار ہے۔" ۹؎

اس اقتباس کا آخری فقرہ پروفیسر اڈنگٹن کی کتاب میں نہایت گہری سوچ کی حامل چیز ہے۔ کیونکہ ماہر طبیعیات نے اپنے طریق کار سے ابھی یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا بظاہر دکھائی دینے والی طبیعیات کی ثابت دنیا' جسے ذہن نے ثبات کی تلاش میں تخلیق کیا ہے' کی جڑیں کہیں اور زیادہ دائمی ہستی سے پیوست تو نہیں ہیں جسے صرف ایک ذات کی حیثیت سے تصور کیا جا سکتا ہو۔ صرف اسی میں تغیر اور ثبات جیسی متضاد صفات یکجا ہیں۔ استقلال اور تبدیلی دونوں اس سے موسوم ہیں۔

تاہم یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے' جس کا جواب آگے بڑھنے سے پہلے دینا ضروری ہے۔ خدا کی تخلیقی فعالیت سے کار تخلیق کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے؟ الٰہیات کے سب سے زیادہ قدامت پسند اور تاحال مقبول مکتب فکر' میری مراد اشاعرہ سے ہے' کا نظریہ یہ ہے کہ الہیاتی توانائی کا تخلیقی طریق جوہری ہے۔ اور ان کے اس نظریے کی بنیاد قرآن حکیم کی یہ آیت دکھائی دیتی ہے:

وَإِن مِّنْ شَیْ ئٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَآئِنُہُ وَمَانُنَزِّلُہُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۲۱:۱۵)
ایسی کوئی شے نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں جو چیزیں ہم نازل کرتے ہیں وہ ایک مقررہ معلوم مقدار میں ہوتی ہے۔

اسلام میں تصور جوہریت کا نشوونما پانا ارسطو کے ساکن و ثابت کائنات کے خیال کے خلاف پہلی اہم عقلی بغاوت کا اشارہ ہے۔ اس نے اسلامی فکر کی تاریخ کا سب سے اہم اور دلچسپ باب رقم کیا ہے۔ اس نقطہ نظر کی سب سے پہلی صورت گری بصرہ کے مکتبہ فکر کے ابوہاشم (م ۹۳۳) ۱۰؎ اور بغداد کے مکتبہ فکر کے سب سے جرأت مند اور سلامت فکر کے مالک الہیاتی فلسفی ابوبکر باقلانی (م ۱۰۱۲) ۱۱؎ نے کی۔ بعد میں تیرھویں صدی کے آغاز میں ہمیں اس کی ایک مربوط توضیح موسی میموندس کی کتاب دلیل الحائر میں ملتی ہے۔ وہ ایک یہودی الٰہیاتی مفکر تھا جس نے سپین کی مسلم یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی۔ ۱۲؎ اس کتاب کا فرانسیسی ترجمہ ۸۶۶ء میں مونک نے کیا۔ حال ہی میں امریکہ کے پروفیسر میکڈونلڈ نے اس کے مشمولات کی عمدہ توضیح 'آئی سیس' میں کی جہاں سے ڈاکٹر زومر نے اسے لیکر جنوری ۱۹۲۸ء کے "مسلم ورلڈ" رسالے میں شائع کیا۔ تاہم پروفیسر میکڈونلڈ نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کونسی نفسیاتی قوتیں تھیں جو مسلم علم کلام میں جوہریت کے نشوونما کا سبب بنیں۔ ۱۳؎ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یونانی فکر میں اسلام کے تصور جواہر جیسی کوئی شے نہیں مگر چونکہ وہ مسلمان مفکرین کو کسی طبع زاد نظریے کے خالق ہونے کا اعزاز نہیں دینا چاہتا ۱۴؎ اور چونکہ اُس کے نزدیک ایک بڑی ہی سطحی قسم کی مشابہت اس اسلامی تصور اور بدھوں کے ایک خاص فرقے کے مابین پائی جاتی ہے لہٰذا اُس نے دفعۃً یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ تصور اسلامی فکر پر بدھ مت کے اثرات کے باعث ہے۔ ۱۵؎ بدقسمتی سے اس خطبے میں اس انتہائی فلسفیانہ تصور کے منابع پر مکمل بحث ممکن نہیں۔ میں یہاں اس کے چند نمایاں پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان خطوط کی طرف اشارہ کروں گا جن پر میری رائے میں جدید طبیعیات کی روشنی میں اس کی تشکیل نو کا کام آگے بڑھنا چاہیے۔

اشعری مکتب کے مفکرین کے مطابق دنیا ان ذرات سے بنائی گئی ہے جنہیں وہ جواہر کہتے ہیں یعنی لاتعداد چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یا ایٹم جو مزید ناقابل تقسیم ہیں۔ چونکہ خدا کا عمل تخلیق لامحدود ہے جواہر کی تعداد متناہی نہیں ہو سکتی۔ ہر لمحہ نئے جواہر وجود میں آ رہے ہیں اور کائنات مسلسل وسعت پذیر ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَائُ (۱:۳۵)
خدا اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ ۱۶؎

جوہر کی حقیقت اس کی ہستی سے الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہستی ایک صفت ہے جو جوہر کو خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ اس صفت کو پانے سے قبل جوہر خدا کی تخلیقی توانائی کے طور پر گویا خوابیدہ پڑا ہوتا ہے۔ اس کے ہست میں آنے سے مراد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ خدا کی تخلیقی توانائی مشہود ہو گئی ہے۔ چنانچہ جوہر اپنی حقیقت میں کوئی جسامت نہیں رکھتا۔ اس کا محل تو ہے لیکن مکان سے بے نیاز۔ اپنے اجتماع کے ذریعے جواہر وسعت پذیر ہوتے ہیں اور مکانیت کو جنم دیتے ہیں۔ ۱۷؎ ابن حزم' جو نظریہ جواہر کا نقاد تھا' بڑے بامعنی انداز میں کہتا ہے کہ قرآن حکیم کی زبان عمل تخلیق اور خلق شدہ شے میں تمیز نہیں کرتی۔ جس کو ہم شے کہتے ہیں وہ اپنی ماہیت اصلیہ میں ان اعمال کا مجموعہ ہے جنہیں جواہر کہتے ہیں۔ جوہری عمل کے تصور میں مشکل یہ ہے کہ اس کی کوئی ذہنی تصویر نہیں بن سکتی۔ جدید طبیعیات بھی ایک خاص جسمی کمیت کے جوہر کا ادراک بطور ایک عمل کے کرتی ہے۔ مگر' جیسا کہ پروفیسر اڈنگٹن نے نشاندہی کی ہے، جہاں تک ایک مکمل نظریۂ مقادیر عمل کی تشکیل کا تعلق ہے وہ ابھی تک ممکن نہیں ہوا گرچہ ایک غیر واضح تصور موجود ہے کہ عمل کی جوہریت خود ایک عام قانون ہے اور یہ کہ الیکٹرون کا ظہور بھی کسی نہ کسی طور اس پر منحصر ہے۔ ۱۸؎

ہم نے دیکھا ہے کہ ہر جوہر ایک محل رکھتا ہے جس میں مکان کا دخل نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر حرکت کی نوعیت کیا ہے کیونکہ حرکت کا معروف مطلب ہے مرور فی المکان۔ چونکہ اشاعرہ نے مکان سے مراد جواہر کا اجتماع لیا تھا یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ حرکت جسمانی طور پر اوّل سے آخر تک مکان کے تمام درمیانی نکات میں سے سفر کرنے کا نام ہے کیونکہ ایسی تشریح کا مطلب لازمی طور پر یہ فرض کرنا ہے کہ خلا کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ خلا کی مشکل پر قابو پانے کے لئے ہی نظام نے طفرہ یا زقند (چھلانگ) کا تصور وضع کیا اور جسم کی حرکت کا یوں تصور کیا کہ یہ مکان کے تمام متعین مقامات سے نہیں گزرتا بلکہ خلا میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جست لگاتا ہے۔ نظام کے مطابق حرکت تیز ہو یا آہستہ اس کی رفتار ایک سی ہو گی اس کی وجہ محض یہ کہ موخر الذکر کے رکنے کے مقامات زیادہ ہوں گے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مشکل کے اس حل کو میں نہیں سمجھ پایا۔ ۱۹؎ تاہم میں یہ واضح کردوں کہ موجودہ جوہریت کو بھی اسی طرح کی مشکل کا سامنا تھا اور اس نے بھی اسی طرح کا حل پیش کیا ہے۔ پلانک کے نظریۂ مقادیر کے تجربات کے پیش نظر ہم کسی جوہر کی خلا کے کسی مخصوص راستے پر متسلسل حرکت کا تصور نہیں کر سکتے۔ پروفیسر وائٹ ہیڈ نے اپنی کتاب "سائنس اور جدید دنیا" میں نئی سمت میں ایک امید افزا تشریح یوں کی ہے کہ "ایک الیکٹرون مکان میں اپنے راستے پر سے مسلسل نہیں گزرتا۔ اس کی ہستی کا متبادل تصور یہ ہے کہ وہ خلا میں مختلف مخصوص مقامات پر مختلف زمانی مدتوں کے لئے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ایک موٹر گاڑی کی طرح ہے جو فرض کیجئے اوسطاً ۳۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سٹرک پر جا رہی ہو مگر وہ سڑک پر مسلسل نہ گزر رہی ہو بلکہ یکے بعد دیگرے مختلف سنگ میلوںپر ظاہر ہو رہی ہو' اور ہر سنگ میل پر دو منٹ کے لیے ٹھہرے"۔ ۲۰؎

اس نظریۂ تخلیق کا ایک اہم پہلو اس کا تصور 'عرض' ہے جس کی دوامی تخلیق پر جواہر کی ہستی کے تسلسل کا انحصار ہے۔ اگر خدا اعراض کی تخلیق سے ہاتھ اٹھا لے تو جوہر کی ہستی بطور جوہر ختم ہو جائے گی۔ جوہر منفی اور مثبت صفات رکھتے ہیں جنہیں علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ۲۱؎ یہ متضاد جوڑوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ مثلاً زندگی اور موت ' حرکت وسکون اور عملاً کسی دوران کی حامل نہیں ہوتیں۔ اس سے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں:

(ا) اپنی فطرت میں کسی شے کو ثبات نہیں۔
(ب) جواہر کا ایک ہی نظام ہے۔ یعنی جسے ہم روح کہتے ہیں یا تو وہ مادہ کی کوئی لطیف صورت ہے یا محض ایک عرض ہے۔

میرا خیال ہے کہ تخلیق مسلسل کے تصور کی رو سے جسے قائم کرنے کی طرف اشاعرہ راغب تھے پہلے نتیجے میں کسی قدر سچائی موجود ہے۔ میں قبل ازیں بھی کہہ چکا ہوں کہ میری رائے میں قرآن کی روح یونانی کلاسیکیت کے مکمل طور پر منافی ہے۔ ۲۲؎ میں اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کو اس کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک سنجیدہ کوشش تصور کرتا ہوں جس کی بنیاد مشیت مطلقہ یا قدرت مطلقہ ہے اور جو ساکن کائنات کے ارسطوی نظریے کی نسبت قرآن کی روح کے زیادہ قریب ہے۔۲۳؎ میرے نزدیک اسلام کے ماہرین الٰہیات کا یہ فرض ہے کہ وہ مستقبل میں اس خالصتًا فلسفیانہ نظریے کی از سر نو تشکیل کریں اور اس کو جدید سائنس کے تصورات کے قریب تر لائیں جو خود اسی سمت میں آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دوسرا نتیجہ مادیت کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اشاعرہ کا یہ نقطہ نظر کہ نفس ایک عرض ہے' ان کے اپنے نظریے کے حقیقی رجحان کے منافی ہے جس کے تحت جوہر کی مسلسل ہستی عرض کی تخلیق مسلسل پر منحصر ہے۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ حرکت' زمان کے بغیر ناقابل تصور ہے اور چونکہ زمان کا تعلق حیات نفسی سے ہے موخرالذکر' حرکت سے زیادہ بنیادی ہے۔ اگر حیات نفسی نہیں تو زمان بھی نہیں اور اگر زمان نہیں تو حرکت نہیں۔ پس اشاعرہ جسے عرض کہتے ہیں درحقیقت جواہر کے تسلسل کا ذمہ دار ہے۔ جواہر اس وقت مکانی ہوتے ہیں یا ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب وہ ہستی کی صفت پالیتے ہیں۔ قدرت الٰہی کی ایک صورت کی حیثیت سے وہ لازمی طور پر روحانی ہوں گے۔ نفس خالصتًا ایک عمل ہے' جسم محض ایک ایسا عمل ہے جو نظر آتا ہے اور قابل پیمائش ہے۔ درحقیقت اشاعرہ نے 'نقطے۔ لمحے' کے جدید نظریے کی ایک دھندلی سے پیش بینی کی' مگر وہ نقطے اور لمحے کے باہمی تعلق کی نوعیت کو درست طور پر جاننے میں ناکام ہو گئے۔ ان دونوں میں لمحہ زیادہ بنیادی ہے مگر نقطے کو لمحے سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اُس کے اظہار کا ایک لازمی انداز ہے۔ نقطہ کوئی شے نہیں ہے بلکہ یہ لمحہ کو دیکھنے کا ہی ایک انداز ہے۔ رومی' غزالی کی نسبت اسلامی روح کے زیادہ قریب ہے جب وہ کہتا ہے:

پیکر از ما ہست شد' نے ما ازو
بادہ از ما مست شد' نے ما ازو
بدن ہم سے موجود ہواہو نہ کہ ہم ب

دن سے ، شراب میں نشہ ہم سے ہے، شراب سے ہم نشہ حاصل نہیں کرتے۔ ۲۴؎
بقول ایک اردو شاعر کے
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل

چنانچہ حقیقت بنیادی طور پر روحی ہے' تاہم روح کے درجات ہوتے ہیں۔ تاریخ فکر اسلامی میں حقیقت کے درجات کا تصور شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ عصر جدید میں ہم اس موضوع پر وسیع پیمانے پر کام فریڈرک ہیگل کے ہاں اور زیادہ قریب زمانے میں آنجہانی لارڈ ہالڈن کی کتاب "اضافیت کا دور" میں جو اس کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے چھپی،۲۵؎ دیکھتے ہیں۔ میں نے حقیقت مطلقہ کو "انا" کے طور پر لیا ہے اور اب میں مزید یہ اضافہ کرتا ہوں کہ انائے مطلق سے انائوں کا ہی صدور ہو رہا ہے۔ انائے مطلق کی تخلیقی قدرت جس میں فکر اور عمل ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں' انائی اکائیوں کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ یہ کائنات اپنی تمام تر تفصیل میں مادی جوہر کی میکانکی حرکت سے لے کر انسانی انا میں فکر کی آزادانہ حرکت تک ایک عظیم اور برتر انا کا انکشاف ہے۔ ۲۶؎ قدرت الٰہیہ کا ہر جوہر خواہ وہ اپنی ہستی میں کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو خود ایک انا ہے۔ تاہم انائیت کے اظہار کے درجات ہیں۔ ہستی کے سارے سرگم میں انائیت کاسُر بتدریج بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان میں اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید انائے مطلق کو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب قرار دیتا ہے۔ ۲۷؎ حیات الہیہ کے دوامی بہائو میں ہماری ہستی موتیوں کی طرح رہتی ہے اور حرکت کرتی ہے۔

لہٰذا مسلم فکر کی بہترین روایات سے پیدا ہونے والی تنقید سے اشاعرہ کی جوہریت روحانی کثرتیت میں بدلتی ہوئی نظر آتی ہے جس کی تفصیلات مرتب کرنا مستقبل کے مسلم الہیین کا فریضہ ہے۔ تاہم یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا جو ہریت خدا کی قدرت خالقیہ میں کوئی حقیقی مقام رکھتی ہے یا ہمیں ہمارے ایک خاص متناہی انداز میں ادراک کرنے کے سبب اس طرح دکھائی دیتی ہے۔ میںیہ نہیںکہتا کہ خالصتًا سائنسی نقطہ نظر سے اس سوال کا کیا جواب ہو گا۔ مگر نفسیاتی لحاظ سے ایک بات میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ اصلاً حقیقی وہی ہے جو اپنی حقیقت کا براہ راست شعور رکھتا ہے۔ حقیقی ہونے کے درجات خودی کے احساس کے درجات کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ خودی کی ماہیت ایسی ہے کہ باوجود اس امر کے کہ اس میں دوسری خودیوں کے ردعمل پیش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ اپنی ذات میں مرتکز رہتی ہے اور انفرادیت کا ایک اپنا ذاتی نظام رکھتی ہے جس میں سے اپنے علاوہ دیگر تمام انائوں کو خارج کر دیتی ہے۔ ۲۸؎ خودی کی یہی خصوصیت اس کی اصل حقیقت کا راز ہے۔ انسان جس میں خودی اپنی اضافی اکملیت تک پہنچتی ہے خدا کی قدرت خالقیہ میں ایک مستقل مقام رکھتا ہے اور اس طرح وہ حقیقت کے اس اعلیٰ درجے کا حامل ہے جو اس کے ارد گرد کی اشیاء کو نصیب نہیں۔ خدا کی تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی ہے جو اپنے بنانے والے کی حیات خالقیہ میں شعوری طور پر حصہ لے سکتا ہے۔ ۲۹؎ ایک بہتر دنیا کے تصور کی صلاحیت کے ساتھ جو اسے ودیعت کی گئی ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ کہ وہ موجود کو مطلوب میں بدل سکتا ہے اس کی خودی انفرادیت کی طرف بڑھنے اور یکتائی حاصل کرنے کے لئے اس ماحول سے پورا استفادہ کرنا چاہتی ہے جس میں اسے غیر معینہ مدت کے لیے کام کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مسئلے پر میں اپنے خطبے "انسانی خودی اس کی آزادی اور لافانیت" میں تفصیلی اظہار خیال کروں گا۔ دریں اثناء میں چند الفاظ جو ہر زماں کے نظریے کے بارے میں کہنا چاہوں گا جو اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کا کمزور ترین پہلو ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی صفت ابدیت کا کوئی معقول نقطہ نظر اپنایا جا سکے۔

زمان کا مسئلہ مسلم مفکرین اور صوفیا کے لئے ہمیشہ توجہ طلب رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ قرآن حکیم کے مطابق دن اور رات کا یکے بعد دیگرے آنا خدا کی نشانیوں میں سے گردانا گیا ہے اور دوسری جزوی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے ایک معروف حدیث میں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے خدا کو دہر (زماں) کے مترادف قرار دیا ہے۔۳۰؎ یقینا کچھ عظیم مسلم صوفیاء دہر کے لفظ کی صوفیانہ خصوصیت کے قائل تھے۔ محی الدین ابن عربی کے بقول "دہر" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے اور امام رازی اپنی تفسیر میں ہمیں بتاتے ہیں کہ بعض مسلم صوفیا نے انہیں لفظ دھر' دیہور یا دیہار کا وظیفہ کرنے کو کہا۔ اشاعرہ کا نظریہ تاریخ فکر اسلامی میں زمان کو فلسفیانہ سطح پر جاننے کی اوّلین کوشش ہے۔ اشاعرہ کے مطابق زمان مفرد آنات کا ایک سلسلہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر مترشح ہوتی ہے کہ دو منفرد آنات یا زمان کے دو لمحوں کے درمیان زمان کا ایک خالی لمحہ بھی ہے جس کو ہم گویا زماں کا خلا کہیں گے۔ اس نتیجے کی لغویت کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے موضوع تحقیق کو مکمل طور پر معروضی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے یونانی فکر کی تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھا جنہوں نے یہ نقطہ نظر اختیار کیا تھا اور وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے تھے ۔ ہمارے زمانے میں نیوٹن نے زماں کو ایک ایسی چیز قرار دیا جو اپنی ذات میں اور اپنی ہی فطرت میں برابر رواں دواں ہے۔ اس بیان میںجو ندی کی تشبیہ میں پوشیدہ ہے اس بنا پر نیوٹن کے معروضی نقطہ نظر پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک چیز اس ندی میں غوطہ زن ہونے پر اثر پذیر ہوتی ہے اور کس طرح وہ ان اشیاء سے مختلف ہے جو اس بہائو میںشریک نہیں ہیں۔۳۱؎ اور اگر زماں کو ندی قیاس کریں تو ہم زماں کے آغاز' انجام اور اس کی حدود کے بارے میں کوئی تصور قائم نہیںکر سکتے۔ اس کے علاوہ اگر بہائو' حرکت یا مرور ہی زماں کی ماہیت کے لیے حتمی لفظ ہیں تو پھر زماں کا ایک دوسرا زماں بھی ہوگا جس میں پہلے زماں نے حرکت کی ہو گی اور پھر اس زماں کا بھی ایک اور زماں ہو گا۔ یوں یہ سلسلہ لا انتہا تک چلا جائے گا۔ لہٰذا زماں کا مکمل معروضی تصور انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ عملی رجحانات رکھنے والا عربی ذہن یونانیوں کی طرح زماں کو غیر حقیقی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس بات کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ گو ہم کوئی ایسی حس نہیں رکھتے جس سے زمان کا ادراک کیا جا سکے یہ ایک طرح کا بہائو ہے جو ایک واقعی جوہری پہلو رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس کا نقطہ نظر بھی بالکل وہی ہے جو اشاعرہ کا تھا۔ زماں کی ماہیت کے بارے میں طبیعیات کے جدید انکشافات کے مطابق مادہ تسلسل سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر رونگئیر کی کتاب "فلسفہ اور طبیعیات" کی یہ عبارت قابل غور ہے: "قدما کے نقطہ نظر کے برعکس کہ فطرت جست نہیں لگاتی اب واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کائنات میں اچانک جست لگانے سے ہی تبدیلی کا عمل رونما ہوتا ہے، بظاہر نظر نہ آنے والے تدریجی ارتقا سے نہیں ہوتا۔ طبیعیاتی نظام تو صرف مخصوص متناہی حالتوں کی ہی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ دو مختلف اور یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی حالتوں کے درمیان کائنات غیر حرکت پذیر ہوتی ہے اور زماں معطل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمان بذاتہ غیر متسلسل ہے اور اس کا بھی جوہر ہوتا ہے۔" ۳۲؎ تاہم نکتہ یہ ہے کہ اشاعرہ کی تعمیری کوشش ہو یا جدید مفکرین کی' دونوں مکمل طور پر نفسیاتی تجزیے سے محروم ہیں اور اس محرومی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ زمان کے موضوعی پہلو کے ادراک میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ سے ان کے نظریات میں مادی جواہر اور زمانی جواہر کے نظامات الگ الگ ہو گئے اور ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی عضویاتی رشتہ نہیں رہا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر ہم زمان کو خالص موضوعی نقطہ نظر سے دیکھیں تو متعدد مشکلات پیدا ہو جائیں گی اس لیے کہ ہم جوہری وقت کا خدا پر اطلاق کرتے ہوئے اُسے ایسی زندگی کا حامل قرار نہیں دے سکتے جو ابھی معرض تکوین میں ہے۔ جس طرح "مکان' زماں اور ذات خداوندی" پر اپنے ایک خطبہ میں پروفیسر الیگزنڈر نے کہا ہے، ۳۳؎ متاخرین مسلمان الہین ان مشکلات سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ ملا جلال الدین دوّانی نے اپنی کتاب "زورا" کے ایک پیرے میں' جو ایک جدید طالب علم کو پروفیسر رائس کے تصور زمان کی یاد دلاتا ہے' ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم زمان کو ایک قسم کی مدت تصور کریں تو یہ ہمیں واقعات کا ظہور ایک جلوس کی صورت میں حرکت کرتے ہوئے نظر آنا ممکن بنا دے گا۔ اور یوں یہ مدت ایک وحدت دکھائی دے گی۔ تب ہم اسے ایک الوہی عمل کی طبع زاد صورت کہنے کے سوا اور کوئی توضیح نہ کر سکیں گے جو اپنے پورے تواتر کے ساتھ تمام مراحل سے گزر رہی ہے۔ مگر ملّا دوّانی یہاں تسلسل کی فطرت کے بارے میں زیادہ گہری بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اضافی ہے۔ لہٰذا وہ خدا کے معاملے میں غائب ہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے سامنے تو تمام واقعات ایک ہی عمل ادراک میں مستحضر ہوتے ہیں۔ صوفی شاعر عراقی کا بھی تقریباً یہی نقطہ نظر ہے۔۳۴؎ وہ خالص مادیت اور خالص روحانیت کے درمیان زمان کی لاتعداد انواع کا تصور پیش کرتا ہے جو مختلف متغیر درجات وجود کے لئے اضافی ہیں۔ تاہم گردش افلاک سے پیدا ہونے والے کثیف اجسام کا وقت ماضی حال اور مستقبل میں قابل تقسیم ہوتا ہے۔ اس کی فطرت یوں ہے کہ جب تک ایک دن نہیں گزرتا دوسرا دن وجود میں نہیں آتا۔ غیر مادی وجودوں کا وقت بھی تسلسل میں ہوتا ہے مگر ٹھوس اجسام کا پورا ایک سال غیر مادی اجسام کے ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس طرح جب غیر مادی اجسام کے درجات میں آگے بڑھتے جائیں گے تو ہم زمان الٰہی کے درجے تک پہنچ جائیں گے جہاں زمان مرور کی خاصیت سے کلیتاً آزاد ہوتا ہے۔ نتیجۃً اس زمان میں تقسیم' تغیر اور تواتر طرز کی کوئی بھی چیز موجود نہیں۔ یہ ابدیت کے تصور سے بھی بالا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ابتدا و انتہا کے زمانی تصورات بھی منسلک نہیں کئے جا سکتے۔ خدا ایک ہی ناقابل تقسیم عمل ادراک میں تمام چیزوں کو دیکھتا اور سنتا ہے۔ خدا کی اوّلیت زمان کی اوّلیت کے سبب نہیں بلکہ اس کے برعکس وقت کی اوّلیت خدا کی اوّلیت کی محتاج ہے۔۳۵؎ لہٰذا زماں الہیہ وہ ہے جسے قرآن "اُم الکتاب" کے نام سے بیان کرتا ہے۳۶؎ جس میں تمام تاریخ علت و معلول کے تانے بانے سے آزاد ایک برتر ابدی آن میں مرتکز ہے۔ تمام مسلمان متکلمین میں سے فخرالدین رازی نے زمان کے مسئلے کو سب سے زیادہ سنجیدگی سے موضوع بحث بنایا۔ اپنی کتاب "مباحث مشرقیہ" میں امام رازی نے اپنے تمام معاصر نظریات زمان پر بحث کی مگر چونکہ وہ بھی اپنی منہاج فکر میں معروضی تھے لہٰذا کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ حتی کہ انہیں کہنا پڑا:

"میں اس قابل نہیں ہوا کہ زمان کی ماہیت کے بارے میں کوئی حقیقی چیز دریافت کر سکوں۔ میری اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ میں کسی کی جانبداری کئے بغیر وہ سب کچھ بیان کردوں جو نظریے کے حق میں یا خلاف کہا جا سکتا ہے۔ وقت کے مسئلہ پر بالخصوص میں نے دانستہ طور پر کسی کی طرف داری کرنے سے خود کو باز رکھا ہے"۔ ۳۷؎

اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خالص معروضی انداز فکر زمان کی ماہیت کو سمجھنے میں جزوی طور پر ہی معاون ہو سکتا ہے۔ اس کا صحیح راستہ ہمارے شعوری تجربے کا محتاط نفسیاتی تجزیہ ہے جو زمان کی ماہیت کو عیاں کرنے کا واحد راستہ ہے۔ میرا خیال ہے آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے نفس کے دو پہلوئوں نفس بصیر اور نفس فعال میں فرق کیا تھا۔ نفس بصیرخالص دوران یعنی بے تواتر تغیر میں رہتا ہے۔ نفس کی زندگی کا مدار اس کے بصیر ہونے سے فعال ہونے اور وجدان سے تعقل کی طرف حرکت زن ہونے پر ہے۔ اسی حرکت سے زمان جوہری پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارا شعوری تجربہ جو ہمارے تمام علوم کا نقطہ آغاز ہے ہمیں ایک ایسے تصور کا سراغ دیتا ہے جو ثبات و تغیر یعنی زمان بحیثیت ایک وحدت نامیہ یا بحیثیت دیمومت اور زمان بحیثیت مجموعۂ جواہر کے مابین تطبیق پیدا کر دیتا ہے۔اب اگر ہم اپنے شعوری تجربے کی رہنمائی کو قبول کرتے ہوئے انائے مطلق کو انائے متناہی پر قیاس کر لیںتو ہم دیکھتے ہیں کہ خودی مطلق کا زمان ایک ایسا تغیر ہے جو بغیر تسلسل کے ہے یعنی یہ ایسا نامیاتی کل ہے جس میں خودی کی تخلیقی حرکت کی وجہ سے جوہریت ظاہر ہوتی ہے۔ یہی میر داماد اور ملا باقر کے پیش نظر تھاجب وہ یہ کہتے ہیں کہ وقت عمل تخلیق سے پیدا ہوتا ہے جس سے خودی مطلق اپنے لا انتہا اور غیر متعین تخلیقی امکانات کو جانتی ہے اور گویا ان کی پیمائش کرتی ہے۔ پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی لامحدود قوت و ثروت لا تعداد تخلیقی امکانات پر محیط ہے۔ چنانچہ ایک طرف خودی 'ابدیت' میں رہتی ہے جس سے میری مراد ہے بے تواتر تغیر اور دوسری طرف وہ 'زمان متسلسل' میں رہتی ہے جس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ عضویاتی طور پر ابدیت سے متعلق ہے کیونکہ یہ بے تواتر تغیر کا پیمانہ ہے۔ صرف اسی مفہوم میں یہ ممکن ہے کہ ہم قرآن کی اس آیت کو سمجھ سکیں:

لَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَاِر (۸۰:۲۲)
(دن رات کا آنا جانا اس کے سبب سے ہے)۳۸؎ مسئلے کے اس مشکل پہلو پر میں اپنے پچھلے خطبہ میں بات کر چکا ہوں۔ اب ہم خدا کے علم اور اس کی قدرت مطلقہ پر بات کریں گے۔

علم کا اطلاق اگر متناہی خودی پر کیا جائے تو اس سے مراد ہمیشہ استدلالی علم ہو گا: ایک زمانی عمل جو ایک ایسے حقیقی 'غیر' پر مرکوز رہتا ہے جو عام نقطہ نظر کے مطابق انائے مدرکہ کے روبرو اپنی ذات سے قائم ہے۔اب اس مفہوم میں اگر علم کو علمِ کل تک وسعت دے دی جائے تو بھی یہ 'غیر ' کی مناسبت سے اضافی ہی رہے گا ۔ اس لئے انائے مطلق سے اسے منسوب نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ وہ ہر شے پر محیط ہے اور متناہی خودی کی طرح اس کا پس منظر متصور نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں یہ کائنات خود خدا کے روبرو اور اس سے غیر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایسی محض اُس وقت نظرآتی ہے جب ہم تخلیق کے عمل کو یوں دیکھتے ہیں کہ یہ خدا کے ہاں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ لا محدود اور لا متناہی خودی یعنی خدا کی نگاہ سے دیکھیں تو اس سے غیر کوئی چیز موجود نہیں۔ خدا کے ہاں فکر اور عمل، جاننے کا عمل اور تخلیق کا عمل باہم مترادف ہیں۔ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ خودی خواہ وہ محدود ہے یا لامحدود، وہ غیر خودی کے تقابل کے بغیر نہیں سمجھی جا سکتی اور اگر خودی مطلق کے باہر کچھ نہیں تو خودی مطلق کی بطور خودی تفہیم نہیں ہو سکتی۔ اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایک مثبت تصور کی تشکیل میں منطقی انکار سے کوئی مدد حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ تصور لازمی طور پر تجربے میں آنے والی حقیقت کی نوعیت پر اپنا انحصار رکھتا ہے۔ تجربے پر ہماری تنقید سے حقیقت مطلق کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک حیات بالبصرہے جو ہماری زندگی کے تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو سوائے ایک نامیاتی کل کے جانی نہیں جا سکتی__ اپنے آپ میں پیوست اور ایک نقطے پر مرتکز۔ حیات کی اس نوعیت کے پیش نظر حیات مطلق کی تفہیم بطور ایک خودی کے ہی ممکن ہے۔۳۹؎ علم اپنے استدلالی مفہوم میں لامحدود ہونے کے باوجود ایک ایسی خودی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا جو بیک وقت جس شے کو جانتی ہے اس کی ہستی کے لئے بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں زبان کوئی مدد نہیں کرتی۔ ہمارے پاس کوئی لفظ نہیں جو ایسے علم کی نوعیت کو بیان کر سکے جو معلوم شے کا تخلیق کار بھی ہو۔ علم الٰہی کی وضاحت کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا علم کلی ادراک کا وہ واحد ناقابل تجزیہ عمل ہے جو ایک ابدی آن کی صورت میں اسے واقعات کے مخصوص نظام کی حیثیت سے آگاہ رکھتا ہے۔ جلال الدین دوّانی اور ہمارے زمانے میں پروفیسر رائس نے خدا کے علم کے بارے میں یہی تصور پیش کیا ہے۔ ۴۰؎ اس میں سچائی کا ایک عنصر ضرور موجود ہے مگر اس سے ایک مکمل طے شدہ' منجمد' متعین مستقبل والی کائنات کا تصور ابھرتا ہے جس میں متعین واقعات کا نظم ناقابل تبدیل ہے اور جس نے تقدیر اعلیٰ کی طرح خدا کی تخلیقی فعالیت کی سمت کو ہمیشہ کے لئے متعین کر دیا ہے۔ درحقیقت علم الٰہی کوانفعالی قسم کی ہمہ دانی قرار دینا آئن سٹائن سے قبل کی طبیعیات کے اس ساکت خلا کی طرح ہے جس میں بظاہر جملہ موجودات کی وحدت موجود ہے یا جوایک آئینہ ہے جو انفعالی طور پر چیزوں کی پہلے سے تشکیل شدہ تفصیل منعکس کرتا ہے جن کا انعکاس متناہی شعور میں صرف ٹکڑوں میں ہوتا ہے۔ علم الٰہی کی تفہیم لازمی طور پر ایک زندہ تخلیقی عمل کی حیثیت سے ہونی چاہئے جس سے اپنے طور پر موجود نظر آنے والی اشیاء نامیاتی طور پر وابستہ ہیں۔ بلاشبہ خدا کے علم کو ایک منعکس کرنے والا آئینہ تصور کرنے سے ہم مستقبل کے واقعات کے بارے میں خدا کے پہلے سے موجود علم کو تو محفوظ بنا سکتے ہیں بگر یہ لازمی بات ہے کہ ہم ایسا خدا کی آزادی کی قیمت پر ہی کر پائیں گے۔ خدا کی حیات تخلیقی کے نامیاتی کل میں مستقبل لازمی طور پر پہلے سے موجود ہوتا ہے مگر اس کی موجودگی ایک یقینی طور پر لگے بندھے اور متعین نظامِ واقعات کی بجائے ایک کھلے امکان کے طور پر ہوتی ہے۔ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں ایک مثال سے واضح ہو جائے گا۔ فرض کیجئے، جیساکہ انسانی فکر کی تاریخ میں بعض اوقات ہوتا ہے، کہ آپ کے نور شعور میں ایک ایسا بار آور تصور پیدا ہوتا ہے جو اپنے اندر اطلاق کی بے پناہ باطنی قوت رکھتا ہے۔ آپ اس تصور سے ایک پیچیدہ کل کے طور پر فوری طور پر آگاہ ہو جاتے ہیں۔ مگر تعقلاتی طور پر اس کی مختلف تفصیلات کو بروئے کار لانے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ تصور وجدانی طور پر تمام امکانات کے ساتھ ذہن میں موجودہوتا ہے۔ اگر کسی لمحے کسی خاص امکان کو آپ عقلی سطح پر نہیںجانتے تو یہ اس بنا پر نہیں کہ آپ کا علم ناقص ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی اس امکان کے جاننے کی صورت ہوئی ہی نہیں۔ تجربے کے ساتھ ساتھ کسی تصور کے اطلاق کے امکانات ظاہر ہوتے جاتے ہیں ۔ بعض دفعہ تو اس تصور کے امکانات جاننے کے لئے مفکرین کی کئی نسلیں درکار ہوتی ہیں۔ مزید برآں خدا کے علم بطور انفعالی معرفت کے خالق ہونے کے تصور تک بھی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اگر تاریخ کو پہلے سے طے شد ہ واقعات کی ایک ایسی تصویر کہا جائے جو تاریخ بتدریج سامنے لارہی ہے تو واقعات میںتنوع اور بدیعیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نتیجۃً ہم لفظ تخلیق کا کوئی مفہوم متعین نہ کر سکیں گے جسے ہم اپنے طبع زاد عمل کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قضا و قدر کے تمام الہیاتی اختلافات کا تعلق خالصتاً نظریاتی مباحث سے ہے جس میں ہمارے مشاہدے میں آنے والی اس زندگی پر ہماری نظر نہیں جو از خود عمل کی استعداد رکھتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انائوں کے ظہور سے جو ازخود اعمال اور یوں ان اعمال کی اہل ہیں جن کا پیش از وقت تعین ممکن نہیں محیط کل اناکی آزادی پر ایک حد قائم ہو جاتی ہے۔ مگر اس پر یہ حد کوئی باہر سے لاگو نہیں ہوتی بلکہ یہ خود اسی کی تخلیقی آزادی سے پیدا ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ محدود انائوں کواسی بات کا اہل بناتی ہے کہ اس کی زندگی، قوت اور آزادی میں حصہ لے سکیں۔

مگر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ قدرت کاملہ کے تصور کے ساتھ اس تحدید کے تصور کی تطبیق کیونکر کی جا سکتی ہے۔ ہمیںتحدید کے اس لفظ سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجرد کلیات کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر ٹھوس حقائق پر رہتی ہے جس کا نظریہ اضافیت نے جدید فلسفے کو سبق دیا ہے۔ تمام فعالیت خواہ وہ تخلیقی ہو یا کسی اور قسم کی ہو ایک قسم کی حد ہے جس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا کو بطور ایک موجود فعال خودی کے دیکھ سکیں۔

اگر ہم مجرد معنوں میں خدا کی قدرت کاملہ کو دیکھیں تو یہ ایک اندھی، بے راہ اور غیر محدود طاقت ہو گی جبکہ قرآن حکیم کا باہم دگر مربوط قوتوں کے نظام کی حیثیت سے فطرت کا ایک صاف اور یقینی تصور ہے۔ اس نقطہ نظر سے خدا کی قدرت کاملہ خدا کی حکمت سے مربوط ہے۴۱؎ جسکی بنا پر اس کی لامحدود طاقت اپنا اظہار کسی غیر متعین من مانے انداز سے کرنے کی بجائے ایک ہموار متناسب اور متواتر نظام میں کرتی ہے۔ قرآن خدا کو تمام خیر کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔۴۲؎ اب اگر حکیمانہ طور پر اپنی متعین کردہ راہ پر چلنے والی مشیت ایزدی سرتا سرخیر ہے تو ایک اہم مسئلہ سامنے آئے گا۔ جیسا کہ جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے ارتقا کی راہ ہمہ گیر دکھوں اور غلط کاریوں سے عبارت ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غلط کاریوں کا تعلق صرف انسانوں سے ہے مگر درد اور دُکھ تو تقریباً سب کے لئے ہیں۔ گرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان نے جس چیزکو اچھا سمجھا ہے اس کی خاطر اس نے بڑے اذیت ناک دکھ برداشت کئے ہیں اور کر سکتا ہے۔چنانچہ دنیا کی زندگی میں ہمیں اخلاقی اور طبیعی دو طرح کی برائیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ شر کی اضافیت اور ان قوتوں کی موجودگی، جوہمارے دکھ میں موجب تسکین بنتی ہیں، بھی اس اذیت کا مداوا نہیں، کیونکہ اضافیت اور تسکین کے باوجود خدا کی قدرت کاملہ اور اس کا خیر کل ہونے کے ساتھ اس شر کی مطابقت کس طرح پیدا کر سکتے ہیں جس کی کائنات میں فراوانی ہے۔ درحقیقت یہ المناک مسئلہ ہی دین و مذہب کے لئے سب سے سنجیدہ عقدہ ہے۔ جدید مصنفین میں نارمن سے بڑھ کر کسی نے بھی اس مسئلہ پر روشنی نہیںڈالی۔ اس نے اپنے ایک مختصر مذہبی مکتوب میں لکھا ہے:

"ہم دنیا کا علم رکھتے ہیں جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدا باقوت اور طاقتور ہے جو بیک وقت زندگی اور موت کو اس طرح بھیجتا ہے جس طرح روشنی اور تاریکی۔ پھر وحی اور ایمان بھی ہے جو ہماری نجات کا باعث ہے اور جو اسی خدا کو باپ کہتا ہے۔ خدائے دنیا کی پیروی نے زندہ رہنے کی جدوجہد کی اخلاقیات پیدا کی اور حضرت مسیح علیہ السلام کے باپ کی خدمت، رحمت کی اخلاقیات کی باعث ہے۔ اب خدا دو تو نہیںہیں بلکہ خدا تو ایک ہی ہے تاہم کسی نہ کسی طرح دونوں آپس میںضم ہوگئے ہیں۔ مگرکوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں کے ضم ہونے کی نوعیت کیا ہے۔" ۴۳؎

رجائیت پسند برائوا ننگ کے خیال میں دنیا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۴۴؎ مگر یاسیت زدہ شوپنہار کے نزدیک دنیا ایک نہ ختم ہونے والی خزاں ہے جس میں ایک اندھی ارادی قوت اپنا اظہار لامتناہی قسم کی زندہ اشیاء میں کرتی ہے جو چند ثانیوں کے لئے اپنے ظہور کا ماتم کرتی ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتی ہیں۔۴۵؎ قنوطیت اور رجائیت میں اس جدل کا ہم کائنات کے بارے میں موجود علم کی روشنی میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہماری فکری تشکیل ایسی ہے کہ ہم چیزوں کا جزوی علم ہی رکھتے ہیں۔ ہم ان عظیم کائناتی قوتوں کی مکمل اہمیت کو نہیں جان سکتے جو ایک طرف تو تباہی لاتی ہیں اور دوسری طرف زندگی کو باقی رکھنے اور اسے برقرار رکھنے میں کام آتی ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیمات جو انسان کے روّیوں میں بہتری کے امکانات اور فطرت کی قوتوں پر اس کے اختیار پر یقین رکھتی ہیں نہ قنوطیت کی حمایت کرتی ہیں اور نہ رجائیت کی۔ وہ تو بہتری پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ ایک اضافہ پذیر کائنات کی تعلیم دیتی ہیں اور اس امید کو بڑھاتی ہیں کہ بالآخر انسان بدی پر فتح حاصل کر لے گا۔

تاہم اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس مشکل کو کسی بہتر انداز میں سمجھ سکیں تو ہمیں اس روایت کی طرف دیکھنا چاہئے جو حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے زمین پر اترنے سے متعلق ہے اور جسے ہبوط آدم کہا گیا ہے۔ اس واقعے میں قرآن نے جزوی طور پر قدیم علامتوں کو باقی رکھا ہے مگر نفس مضمون کو بدل دیاہے تاکہ اسے بالکل نئے معانی دیئے جا سکیں۔ قرآن حکیم کا روایات کو جزوی یا کلی طور پر تبدیل کرنے کا طریق کار تاکہ اس میںنئے معانی پیداہو جائیں اور یوں اسے روح عصر کے بالکل مطابق بنا دیا جائے ایک ایسی حقیقت ہے جس کو اسلام کے مسلمان اور غیر مسلم طالب علموں نے ہمیشہ نظرانداز کیا ہے۔ ان داستانوں کے بیان سے قرآن کا مقصد تاریخی واقعات کا بیان نہیںہوتا بلکہ اس سے مقصود ان کی آفاقی، اخلاقی اور فلسفیانہ اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قرآن ان واقعات سے افراد اور مقامات کے نام حذف کر دیتا ہے کیونکہ وہ انہیں معانی کے لحاظ سے محدودکرنے کا باعث بن سکتے ہیں اور ان کو محض تاریخی واقعات تک محدود کر دیتے ہیں۔ اس طرح قرآن ان تفصیلات کو بھی حذف کر دیتا ہے جو ان واقعات کے بارے میں ہمارے محسوسات کو کسی اور سمت لے جا سکتی ہیں۔ بعض روایات اور واقعات کے ساتھ ایسا کرنا کوئی غیر معمولی اور انوکھا عمل نہیں بلکہ یہ غیر مذہبی ادب میں بھی ایک عام سی بات ہے۔ اس کی مثال فاوسٹ کا قصہ ہے۴۶؎ جس میں گوئٹے کی غیر معمولی ذہانت نے بالکل ہی نئے معانی پیدا کر دیئے ہیں۔

ہبوط کے واقعے کی طرف لوٹتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم دنیا کے ادب میں اس قصے کی مختلف شکلیں ہیں۔ یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس واقعے کے ارتقا کی مختلف سطحوں کا تعین کر سکیں۔ اور نہ ہی ہم مختلف انسانی محرکات کی نشاندہی واضح طور پر کر سکتے ہیں جو لازمی طور پر اس قصے کی مختلف صورتوں کو پیش کرنے میں کارفرما رہے ۔ لیکن ہم خود کو سامی صنمیات تک محدود کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاملہ انسان کی اس ابتدائی آرزو سے نمو پذیر ہوا ہوگا جس کا تعلق ایک ایسے معاوندانہ انسانی ماحول سے رہا ہے جس میں موت اور بیماری عام تھی اورجس میں اپناآپ باقی رکھنے کے لئے ہر طرف سے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں تھیں۔ فطرت پر کوئی اختیار نہ ہونے کی بنا پر وہ قدرتی طو پر زندگی کے بارے میں قنوطی اور مایوسانہ انداز نظر رکھتا تھا۔چنانچہ بابل سے ملنے والے کتبے میں ہم سانپ (لنگ) درخت اور عورت کو ایک سیب (علامت بکر) ایک مرد کو دیتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اس دیومالا کے مطالب واضح ہیں کہ مفروضہ خوشی اور انبساط کے مقام سے انسان کے نکلنے کا سبب اس انسانی جوڑے کا جنسی عمل تھا۔ جس طریقے سے قرآن اس قصے کو بیان کرتا ہے اس کا تقابل اگر ہم عہد نامہ قدیم کے باب پیدائش سے کریں ۴۷؎ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کا بائبل میں بیان کردہ قصے سے کس قدر اختلاف ہے اور یہ کہ اس قصے کے بیان سے قرآن کے مقاصد بائبل کے مقاصد سے کس قدر مختلف ہیں۔

۱ - قرآن نے سانپ اور پسلی کی کہانی کو یکسر حذف کر دیا ہے۔ سانپ کے ذکر کو نظر اندازکرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس قصے کو جنسی ماحول سے پاک کر دیا جائے اور زندگی کے بارے میں یا سیت کے نقطہ نظر کو ختم کیاجائے۔ پسلی کے ذکر کوحذف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کا اس قصے سے مقصود کسی تاریخی واقعہ کا بیان نہیں جیساکہ بائبل کے عہد نامہ قدیم میں اس قصے کے بیان کا مقصد اسرائیلی قوم کی تاریخ کے ابتدائیے کے طور پر پہلے انسانی جوڑے کے آغاز کے بارے میں بتانا ہے۔ قرآ ن میں بالعموم نوع انسانی کے آغاز سے متعلقہ آیات میں آدم کی بجائے بشر اور انسان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آدم کا مفہوم اس روئے ارض پر خدا کے خلیفہ یا نائب کے تصور سے مخصوص ہے۔۴۸؎ آدم اور حوا جیسے اسمائے معرفہ کو، جو بائبل میں آئے ہیں، ۴۹؎ حذف کرنے سے قرآن کا مزید مقصد اصل موضوع پر توجہ کو محفوظ کرنا تھا۔ آدم کا لفظ باقی رکھا گیا اور مستعمل بھی رہا مگر یہ محض کسی خاص مرد کے نام کے طور پر نہیں بلکہ نسل انسانی کے تصور کے طور پرباقی رہا۔ قرآن پاک سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور ذیل کی آیت اس کا ایک واضح ثبوت ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓا إلَّا إِبْلِیْسَ (۱۰:۷)
ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں صورت دی پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا

۲- قرآن نے اس واقعے کو دو الگ الگ قصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جس میں محض درخت کا ذکر ہے اور دوسرا جس میں شجر ابدیت کا بیان ہے۵۰؎ اور اس سلطنت کا جسے زوال نہیں۔ ۵۱؎ پہلے کا ذکر قرآن کی ساتویں اور دوسرے کا تذکرہ قرآن کی بیسویں سورہ میں ہوا ہے۔ قرآن کے مطابق آدم اور اس کی بیوی شیطان کے بہکاوے میں آگئے۔ شیطان کا تو کام ہی انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالناہے۔ انہوں نے دونوں درختوں کا پھل چکھا۔ جبکہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے مطابق آدم کو اس کی پہلی نافرمانی کے نتیجے میں فوری طور پر باغ عدن سے نکال باہر کیا گیا اور خدا نے باغ کے مشرقی حصے میں فرشتوں کو تعینات کر دیا۔ ایک آتشیں تلوار اس باغ کے گرد گردش کرتی رہتی تاکہ زندگی کے درخت تک رسائی ممکن نہ رہے۔۵۲؎

۳- عہد نامہ قدیم میں آدم کی نافرمانی کے عمل کے سلسلے میں زمین پر پھٹکار کی گئی ہے۔۵۳؎ قرآن نے زمین کو انسان کا ٹھکانا ظاہر کیا ہے جو اس کے لئے فائدہ رسانی کاذریعہ ہے۵۴؎ جس کی ملکیت کے لئے اسے چاہئے کہ خدا کا شکر گزار ہو:

وَلَقَدْ مَکَنّٰکُمْ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْنَالَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّاتَشْکُرُوْنَ
(۱۰:۷)
اور ہم نے تمہیں زمین پر اختیار کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں زندگی گزارنے کا سامان رکھا مگر تم شکر گزاری کم ہی کرتے ہو۔۵۵؎

اس بات کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ یہ تصور کر لیا جائے کہ جنت کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے،اس سے مراد بالائے حواس کوئی مقام ہے جہاں سے انسان کو زمین پر پھینکا گیا تھا۔ قرآن حکیم کے مطابق انسان زمین پر اجنبی نہیں تھا:

وَاﷲُ أَنبَتَکُمْ مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا (۱۷:۱۷)
اور اللہ نے زمین سے تمہیں افزائش دی ۵۶؎

اس قصے میں جس جنت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ نیکو کاروں کا ابدی مسکن نہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ نیکوکاروں کے ابدی مسکن کے طور پر جس جنت کا قرآن میں ذکر ہے اس کے لئے قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:
یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأَسًا لَّالَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَأْثِیْمٌ (۴۳:۴۸)
اور
لَایَمَسُّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ وَمَاہُم مِّنْھَا بِمُخْرِجِیْنَo (۴۸:۲۲)
وہ لپک لپک کر ایک دوسرے سے پیالے پکڑ رہے ہوں گے۔ جس میں نہ یا وہ گوئی ہوگی نہ غلط کاری کے لئے کوئی محرک ہوگا۔۵۷؎
اور
وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں نہ کوئی مشقت ہوگی اور نہ کسی کو وہاں سے خارج کیاجائے گا۔۵۸؎

قصہ ہبوط آدم میں جس جنت کا تذکرہ ہے وہاں تو پہلا واقعہ ہی انسان کی طرف سے نافرمانی کا گناہ ہے جس کے نتیجے کے طور پر وہ وہاں سے نکال باہرکیا گیا۔ درحقیقت قرآن اس لفظ کا مطلب خو د بیان کرتا ہے۔ قصے کے دوسرے حصے میں جنت کا لفظ محض ایک ایسی جگہ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس جہاں نہ گرمی ہے اور نہ ہی عریانی۔۵۹؎ چنانچہ میں سمجھتا ہوںکہ قرآنی بیان میں جنت ایک ایسی ابتدائی حالت ہے جہاں انسان اپنے ماحول سے بیگانہ تھا اور انسانی خواہشات کا دبائو نہ تھا جن کی افزائش ہی انسانی ثقافت کے آغاز کا واحد نشان ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے قصہ میں ہبوط آدم کا واقعہ ہماری زمین کے اس کرہ پر انسان کے ظہور اول سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ انسان کی اپنی ابتدائی جبلی خواہش کی سطح سے آزادی خودی کی شعوری سطح تک ارتقا کو ظاہر کرتا ہے جس سے وہ شک کرنے اور نافرمانی یاانکار کرنے کے قابل ہوا۔ ہبوط کا مطلب اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ یہ انسان کی سادہ شعوری کیفیت سے خود آگہی تک ارتقا کے سفر کی آئینہ دار ہے۔ یہ ایک قسم کی خواب فطرت سے بیداری ہے جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہستی کے اندر بھی اسباب و علل کا سلسلہ موجود ہے ۔نہ ہی قرآن کی نظر میں یہ زمین ایک اذیت گاہ ہے جہاں انسان جس کا خمیر ہی بدی سے اٹھایاگیا ہے اپنی پہلی نافرمانی کے عذاب کے لئے قید کیاگیا ہے۔ انسان کی نافرمانی کا پہلا عمل دراصل اس کی آزادئ ارادہ کا پہلا اظہار تھا چنانچہ اسی وجہ سے قرآن کے بیان کے مطابق انسان کی پہلی خطا سے درگزر کی گئی۔ ۶۰؎ نیکی کوئی جبری معاملہ نہیں بلکہ یہ آزاد نفس کا اخلاقی کمال کے سامنے سرتسلیم خم کردینے سے عبارت ہے اور آزاد خودیوں کے آزاد تعاون سے معرض وجود میں آتی ہے۔ ایک ایسا وجود، جس کی تمام حرکات و سکنات ایک مشین کی طرح پہلے سے متعین ہوتی ہیں نیکی پیدا کرنے کے قابل نہیںہوتا۔ نیکی کی اولین شرط آزادی یا اختیار ہے۔ مگر متناہی خودی کے وجود کی اجازت دینا جو اختیار رکھتی ہو اس پس منظر میں کہ اس پر مختلف راستوں کے اچھا یا برا ہونے کے پیش نظر عمل کے امکانات کھلے ہیں ایک بہت بڑا خطرہ مول لینا ہے کیونکہ اس میں نیکی کے انتخاب کی آزادی کے ساتھ ساتھ برائی کے انتخاب کی آزادی بھی موجود ہے۔ یہ کہ خدا نے انسان کے بارے میں یہ خطرہ مول لیا انسان پر اس کے بھر پور اعتماد کی علامت ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اس اعتماد پر پورا اترے۔ شاید یہ خطرہ ہی اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی مخفی قوتوں کو ترقی دے، ان کو آزمائے جواسے "احسن التقویم" کی حیثیت سے عطا کی گئی ہیں اور جن کے غلط استعمال سے وہ اسفل السافلین کی منزل کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔۶۱؎ جیسا کہ قران کہتا ہے :

وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِفِتْنَۃً (۳۵:۲۱)
نیکی اور بدی دونوں کے ذریعے تمہارا امتحان لیں گے۔۶۲؎

نیکی اور بدی گرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر یہ دونوں اسی اختیار کلی کی ذیل میں آتی ہیں۔ الگ تھلگ حقیقت کا کوئی بھی وجود نہیں ہوتا۔ حقائق منظم کل کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں باہمی حوالوں سے ہی جانا اور سمجھاجا سکتا ہے۔ منطقی حکم سے حقائق کے حصے بخرے محض یہ دکھانے کے لئے کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔

یہ خودی کی فطرت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور خودی قائم رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ علم کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے، اپنی نسل کو بڑھاتی ہے اور قوت حاصل کرتی ہے جس کے لئے قرآن نے "ملک لا یبلی " (سلطنت جو کبھی ختم نہیں ہوتی) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ پہلی سطح پر ہبوط آدم کے قصے کو قرآن پاک نے انسان کے علم حاصل کرنے کی خواہش سے اور دوسری سطح پر قوت حاصل کرنے کی اور نسل بڑھانے کی خواہش سے منسلک کیا ہے۔ اس پہلی سطح کے حوالے سے دو چیزوں کا بیان ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ اس بات کا ذکر اس کے فوراً بعد آتا ہے جہاں آدم کی فرشتوں پر فضلیت جتائی جا رہی ہے کہ انساں یاد رکھتا ہے اور چیزوں کے نام دوبارہ بیان کر سکتا ہے۔۶۳؎ ان آیات کے بیان کا مقصد، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، انسانی علم کے تصوری کردار کا اظہار ہے۔ ۶۴؎ دوسرے، مادام بلواتسکائی جو قدیم علامات کا بے نظیر علم رکھتی ہیں۶۵؎ اپنی کتاب "پر اسرار عقائد" میں بتاتی ہیں کہ قدماء کے نزدیک درخت سرّی اور رمزی علم کی مخفی علامت تھا۔ آدم کو اس درخت کے پھل کا ذائقہ چکھنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ یقینی طور پر اس کی متناہی خودی اس کے آلات حس اور اس کی عقلی صلاحیتیں مجموعی طور پر ایک مختلف قسم کے علم کے لئے موزوں تھیں۔ یعنی ایسا علم جس کے لئے صبر آزما مشاہدے کی مشقت ضروری ہے اور جس میں بڑی سست رفتاری سے اضافہ ہوتا ہے۔ مگر شیطان نے اکسایا کہ وہ ممنوع پھل کھائے جو سری علم سے عبارت تھا اور آدم نے ایسا ہی کیا۔ اس لئے نہیں کہ بدی اس کی فطرت میں داخل تھی بلکہ اپنی فطری عجلت پسندی کی بنا پر اسے علم کے حصول کے لئے مختصر راستے کی خواہش تھی۔ اس کی اس عجلت پسندی کی اصلاح کے لئے محض ایک ہی راستہ تھا ۶۶؎ کہ اسے ایک ایسے ماحول میں رکھا جائے جہاں تکلیف تو ہو مگر جو اس کی عقلی استعدادوں کو پروان چڑھانے میں بہتر طور پر معاون ہو سکے۔ چنانچہ آدم کو تکلیف دہ طبیعیاتی ماحول میں رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ایسا کرکے کوئی سزا دی گئی۔ ۶۷؎ یہ تو شیطان کے مقاصد کی شکست تھی جو انساں کے عیار دشمن کی حیثیت سے اسے وسعت افزائش نسل کے لازوال لطف سے محروم رکھنا چاہتا تھا۔ مگر ایک محدود و متناہی خودی کی اس متزاحم ماحول میںزندگی ایسے وسعت پذیر علم پر منحصر ہے جس کی اساس حقیقی تجربے پر ہو۔ اور متناہی خودی کا تجربہ جس کے سامنے لاتعداد امکانات کھلے ہیں سعی و خطا کے طریقے سے آگے بڑھتا ہے۔ اس لئے غلطی یا خطا، جس کو عقلی شر کی ایک قسم کہا جا سکتا ہے، انسانی تجربے کی تعمیر میں ایک ناگزیر عنصر ہے۔ قرآن کے اس قصے کا دوسرا حصہ یوں ہے:

فَوَسْوَسَ إِلَیْہِ الشَّیْطَانُ قَالَ یَاَ آدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَیٰ شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلَیٰ oفَأَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْئٰ تُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَعَصَیٰٓ ئِ ادَمَ رَبَّہُ فَغَوَیٰ oثُمَّ اجْتَبَٰہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَیٰ
(۱۲۲-۱۲۰:۲۰)

مگر شیطان نے اسے بہکایا۔ کہنے لگا: اے آدم! میں تم کو بتائوں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال حکومت ملتی ہے۔ چنانچہ دونوں نے اس درخت کے پھل کو کھایا جس کی بنا پر فوراً ہی ان کے پردے ایک دوسرے کے سامنے عیاں ہوگئے اور دونوں میاں بیوی اپنے آپ کو جنت کے درختوں کے پتوں سے چھپانے لگے۔ آدم نے اپنے رب کا کہنا نہ مانا وہ ٹھیک راہ سے ہٹ گیا پھر اس کے رب نے اسے فضلیت دی، اس کی توبہ منظور فرمائی اور اسے ہدایت سے نوازا۔

یہاں جو بنیادی خیال ظاہر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کی لازوال خواہش ہے کہ اس کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والی حکومت کا اختیار ہو اور ٹھوس فرد کے بطور اس کا لامتناہی کردار ہو۔ ایک عارضی وجود کے لئے جسے موت کے ہاتھوں اپنے ملیامیٹ ہو جانے کا خوف ہے نجات کی ایک واحد راہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسل کو بڑھا کر ایک اجتماعی لافانیت حاصل کرتا رہے۔ ابدیت کے درخت کے ممنوعہ پھل کو کھانے سے جنسی تمیز پیدا ہوئی جس کے ذریعے مکمل فنا سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وہ اپنی نسل کو بڑھاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح زندگی موت سے کہتی ہے۔ "اگر تم زندہ اشیاء کی ایک نسل کا صفایا کروگی تو میں دوسری پیدا کردوں گی"۔ قرآن نے قدیم فن کی علامت لنگ (تناسل کی علامت) کے نظریے کو مکمل طورپر ردّ کر دیا۔ مگر شرم و حیا کے احساس کی پیدائش واضح کر کے کہ آدم کو اپنے جسم کی برہنگی چھپانے میں کس قدر تشویش ہوئی اس نے اوّلین جنسی عمل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اب زندگی کرنا ایک مخصوص صورت' ایک ٹھوس انفرادیت اختیار کرنا ہے۔ یہ ٹھوس انفرادیت ہی ہے جو زندگی کی لاتعداد جہتوں میں اپنا اظہار کرتی ہے اور جس میں خودی مطلق اپنی ذات کی لامتناہی ثروت کی نشانیاں مہیا کرتی ہے۔ تاہم انفرادتیوں کا ظہور اور ان میں وسعت و کثرت جن میں سے ہر فرد کی نظر اپنے امکانات کے اظہار پر ہے اور ہر فرد اپنی سلطنت کا خواہاں ہے اس سے ہر دور میں خطرناک جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ قرآن بھی یہ کہتا ہے: "تم ایک دوسرے کے دشمن بن کراترو"۔ ان متخالف انفرادتیوں کا باہمی تصادم وہ دنیائے الم ہے جو زندگی کے روشن اور تاریک دونوں پہلوئوں سے عبارت ہے۔ انسان کے معاملے میں جس کی انفرادیت اس کی شخصیت کی گہرائی میں جاگزیں ہوتی ہے اور یوں اس کے لئے غلط کاری کے راستے کھل جاتے ہیں' زندگی کے المیے کا احساس بہت شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مگر خودی کی شکل میں زندگی کی قبولیت کا مطلب خودی کی متناہیت سے جنم لینے والے ہر طرح کے نقص کو قبول کر لینا ہے۔ قرآن انسان کو ایک ایسی ہستی کے بطور پیش کرتا ہے جس نے شخصیت کی امانت کا بوجھ اٹھایا جبکہ آسمانوں' زمین اور پہاڑوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَھَا وَأَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْإِ نْسَانُ إنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (۷۲:۳۳)

ہم نے یہ امانت آسمانوں' زمین اور پہاڑوں کو پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذوری ظاہر کی اور اس سے خوف زدہ ہو گئے مگر انساں نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

کیا ہم اس شخصیت کی امانت کو اس کے تمام تر خطرات کے ساتھ 'ہاں کہیں یا نہ'۔ قرآن کے نزدیک سچی جوانمردی صبر کے ساتھ مصائب اور سختیاں برداشت کرنے میں ہے۔۶۸؎ ارتقائے خودی کی موجودہ منزل میں ہم اس نظام کی اہمیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے جو قوتِ کرب سے وجود پاتا ہے۔شاید وہ ممکنہ انتشار کے خلاف خودی کو سخت جان کر دیتی ہے۔ مگر یہی وہ نکتہ ہے جہاں نیکی کی بالآخر فتح پر ایمان ایک مذہبی روایت بن کر نمودار ہوتا ہے۔خدا اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے مگر بہت سے انسان اس کو نہیں جانتے:

وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَیٰٓ أَمْرِہِ وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (۲۱:۱۲)
اور اﷲ ہر امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے

میں نے اب آپ پر واضح کر دیا کہ خدا کے اسلامی تصور کا فلسفیانہ جواز کیونکر ممکن ہوا۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہاہے' مذہبی عزائم فلسفیانہ عزائم سے کہیں بلند ہیں۔۶۹؎ مذہب محض تصورات پر قناعت نہیں کرتا۔ یہ اپنے مقصود کے زیادہ گہرے علم اور اس کی قربت کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ ذریعہ جس سے یہ قربت حاصل ہوتی ہے عبادت یا نماز ہے جو روحانی تجلی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم عبادت کا عمل شعور کی مختلف اقسام کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ نبی کے شعور کے معاملے میں یہ زیادہ تر تخلیقی ہوتا ہے یعنی وہ ایک نئی اخلاقی دنیا کی تخلیق کرتا ہے جہاں پیغمبر گویا اپنی وحی پر نتائجی معیار کا اطلاق کرتا ہے۔ میں اس نکتہ پر مزید روشنی اگلے خطبے "مسلم ثقافت کی روح " میں ڈالوں گا۔ ۷۰؎ صوفی کے شعور کی صورت میں یہ زیادہ تر وقوفی ہوتا ہے۔ وقوف کے نقطہ نظر سے میں دُعا کے معنی کی دریافت کی کوشش کروں گا۔ دعا کے حتمی مقصد کے پیش نظر یہ نقطہ نظر اپنا مکمل جواز رکھتا ہے۔ میں آپ کی توجہ اس اقتباس کی طرف دلانا چاہوں گا جو ایک عظیم امریکی ماہر نفسیات پروفیسر ولیم جیمزسے لیا گیا ہے:

"یوں نظر آتا ہے کہ شاید تمام سائنس کے علی الرغم انساںآخری وقت تک دُعا کو جاری رکھے گا بشرطیکہ اس کی ذہنی حالت میں کسی طور تبدیلی نہیں ہوتی' تاہم ابھی اس تبدیلی کے امکان کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں۔ دُعا کی تحریک کے پیچھے ہماری تجربی ذاتوں میں سے ہماری عمرانی ذات کی حقیقت کارفرما ہے جسے صحیح رفاقت عالم ارفع کی مثالی دنیا میں ہی میسر ہے۔ بہت سے انسان ہمیشہ یا بعض مواقع پر اس کی گرمی اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں۔ اس برتر وقوف کے ذریعے سب سے گھٹیا ذات کا انساں بھی جو اس زمین پر موجود ہو سکتا ہے خود کو موزوں اور حقیقی تصور کرتا ہے۔ دوسری طرف ہم میں سے زیادہ تر کے لئے اگر یہ باطنی سہارا نہ ہو تو، جب ہمارا نفس اجتماعی ناکام ہو جائے اور ہمارا ساتھ چھوڑ دے، یہ دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے۔ میرا کہنا ہے 'زیادہ تر کے لئے' کیونکہ ایک برتر بینا ہستی کا احساس بعض لوگوں میں مضبوط لیکن بعض میں خفیف ہوتا ہے۔ یہ بعض لوگوں میں بعض کی نسبت شعور کا زیادہ لازمی حصہ ہوتا ہے۔ جس شخص میں یہ جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی وہ زیادہ مذہبی ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ خود کو مکمل دھوکے اور فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ وہ کسی نہ کسی درجے پر اس کے حامل نہ ہوں۔" ۷۱؎

اب آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نفسیاتی حوالے سے بات کی جائے تو دعا اپنی اصل میں جبلی ہے۔ علم حاصل کرنے کی حیثیت سے دُعا کا عمل تفکر سے مشابہت رکھتا ہے لیکن اپنی اعلیٰ ترین صورت میں یہ مجرد فکر سے کہیں زیادہ ہے۔ دعا اپنی انتہا میں مجرد تفکر کی طرح ہے۔ یہ اپنے عمل میں انجذاب و اکتساب ہے۔ تاہم دعا کا اکتسابی عمل بعض اوقات بڑھ کر ایسا نقطہ ارتکاز بن جاتا ہے کہ فکر خالص کے لیے اس کی حیثیت اجنبی رہتی ہے۔ فکر میں ذہن مشاہدہ کرتا ہے اور حقیقت کی کارگزاری کو دیکھتا ہے۔ دُعا کے عمل میں یہ سست خرام کلیت کے متلاشی کے بطور اپنا کردار ترک کر دیتا ہے اور حقیقت کی زندگی میں ایک شعوری کردار ادا کرنے کے نقطہ نظر سے اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فکر سے بلند تر اٹھتا ہے۔ اس امر میں کچھ بھی پراسرار نہیں۔ دعا روحانی تابندگی کے لیے ایک معمول کا عمل ہے جس کے ذریعے ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ زندگی کے بڑے کل میں اچانک اپنا مقام پا لیتا ہے۔ یہ خیال نہ فرمائیے گا کہ میں خود ایمائی کی بات کر رہا ہوں کیونکہ خود ایمائی انسانی خودی کی گہرائی میں زندگی کے ذرائع کو وا کرنے میں کچھ بھی کارگر نہیں ہوتی۔ روحانی تابندگی جو انسانی شخصیت کی صورت گری کے ذریعے نئی قوت لاتی ہے کے علی الرغم یہ اپنے بعد کوئی حیات افروز اثرات نہیں چھوڑتی۔ نہ ہی میں کسی مخفی' خصوصی ذریعہ علم کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ بلکہ میری ساری تگ وتاز یہ ہے کہ آپ کی توجہ ایک ایسے حقیقی انسانی تجربے کی طرف مبذول کرائوں جو اپنے پیچھے پوری تاریخ رکھتا ہے اور جس کے سامنے ایک پورا مستقبل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف نے اس تجربے کے خصوصی مطالعے کے ذریعے خودی کی نئی سطحوں کو منکشف کیا ہے۔ اس کا ادب تابندہ ہے' تاہم اس کی ایسی شکل بن گئی ہے جو ایک فرسودہ مابعد الطبیعیات کے نظام فکر سے متشکل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں جدید ذہن اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرتا ہے۔ اب ذہن جدید، جسے ٹھوس اور فطرتیت پسندانہ غور کی عادت ہے' خدا کے بارے میں بھی ایک ٹھوس اور زندہ تجربے کا طلب گار ہے۔ اس کو مسلم یا مسیحی تصوف مطمئن نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں مردہ اور ازکار رفتہ نو افلاطونی تصوف سے اپنا رشتہ رکھتے ہیں جو ایک بے نام ہستی کا متلاشی ہے۔ نسل انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عبادت کے لیے ایک مخصوص ذہنی رویہ ایک شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت دعا فطرت کے عقلی مشاہدے کا حتمی تتمہ تصور کی جانی چاہیے۔ فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت کے کردار سے قرب عطا کرتا ہے اور یوں ہمارے اندرونی ادراک کو اس کے گہرے وقوف کے لیے تیز کرتا ہے۔ میں یہاں صوفی شاعر مولانا روم کے خوبصورت اشعار کا حوالہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتا جن میں وہ حقیقت کی متصوفانہ جستجو کو بیان کرتا ہے:

دفتر صوفی سواد و حرف نیست
جز دل اسپید مثل برف نیست
زاد دانشمند ! آثار قلم
زاد صوفی چیست؟ آثار قدم
ہمچو صیادے سوئے اشکار شد
گامِ آہو دید و بر آثار شد
چند گامش گام آہو در خور است
بعد ازاں خود ناف آہو رہبر است
راہ رفتن یک نفس بر بوئے ناف
خوشتر از صد منزل گام و طواف ۷۲؎

(صوفی کی کتاب سیاہی اور حروف سے عبارت نہیں' یہ صرف ایک دل کی طرح ہے جو برف کی مانند سفید ہے۔ عالم یا عقلمند کا سرمایہ قلم ہے جب کہ صوفی کی ساری دولت اس کا قدم یعنی عمل ہے۔ صوفی شکاری کی طرح اپنے شکار کے پیچھے رہتا ہے' جو ہرن کے قدموں کو دیکھتا ہوا اس کا پیچھا کرتا ہے۔ کچھ دیر تک اس کو ہرن کے پیروں کے نشان درکار ہیں اور اس کے بعد ہرن کے نافے کی خوشبو منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ ہرن کے پائوں کے نشانات سے قدم قدم طواف کرنے کی نسبت اس کی ناف کی خوشبو سے منزل کا حصول بہتر ہے)۔۷۳؎

سچائی تو یہ ہے کہ علم کی تلاش کی تمام صورتیں دعا ہی کی مختلف اشکال ہیں۔ فطرت کا سائنسی مشاہدہ کرنے والا بھی ایک طرح کا صوفی ہے جو دعا میں مشغول ہے گرچہ موجودہ صورت میں وہ مشکیں ہرن کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اپنی تلاش میں وہ بہت کوتاہ اندیش ہے۔ علم کے لیے اس کی پیاس بالآخر اسے اس مقام پر لے جائے گی جہاں ہرن کے قدموں کی بجائے اس کے نافے کی خوشبو اس کی رہبری کرے گی۔ صرف اسی سے فطرت پر اسے قوت حاصل ہو گی اور اسے اُس مکمل لامتناہیت کی ویژن حاصل ہو گی جس کی فلسفے کو تلاش تو بہت ہے مگر وہ اسے پا نہیں سکتا۔ قوت کے بغیر ویژن اخلاقی بلندی تک پہنچا سکتی ہے مگر کسی پائیدار ثقافت کو وجود میں نہیں لا سکتی۔ طاقت ویژن کے بغیر تباہی اور انسان کُشی کے سوا کچھ نہیں۔ انسانیت کے روحانی استخلاص کے لیے دونوں میں امتزاج اور ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔

تاہم دعا یا عبادت کاحقیقی مقصد اس وقت بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے جب دعا میںاجتماعیت کی شان پیدا ہو۔ ہر سچی دعا کی روح عمرانی ہے۔ حتیٰ کہ وہ تارک الدنیا راہب جو انسانی معاشرے سے قطع تعلق کر لیتا ہے وہ بھی امید رکھتا ہے کہ اسے عبادت کے ذریعے خدا کی قربت نصیب ہو۔ جماعت انسانوں کا وہ اجتماع ہے جو ایک ہی آرزو کے زیر اثر اپنے آپ کو کسی ایک مقصد پر مرتکز کر لے اور کسی ایک تحریک کے لیے کام کی خاطر اپنے باطن کو کھول لے۔ یہ ایک نفسیاتی سچائی ہے کہ اشتراک عمل ایک عام آدمی کی قوت ادراک کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اس کے جذبات میں عمق پیدا کرتا ہے اور اس کے ارادے کو اس درجے تک متحرک کرتا ہے جس کا اسے تنہا ہونے کی صورت میں احساس بھی نہیں ہو سکتا۔ یقیناً ایک نفسیاتی مظہر کی حیثیت سے دعا ابھی تک ایک راز ہے کیونکہ ابھی تک اجتماعی حالت میں انسانی احساس میں شدت کے بارے میں نفسیات کوئی قوانین دریافت نہیں کر سکی۔ اسلام میں روحانی تجلی کا یہ اشتراک جو اجتماعی دعا میں ہوتا ہے خصوصی دلچسپی کا نکتہ ہے۔ جب ہم روزانہ کی اجتماعی نماز سے مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام کے طواف کی سالانہ عبادت (حج) تک کا سفر کرتے ہیں تو آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کا یہ اسلامی ادارہ انسانی اجتماعیت کے دائرے کو کس طرح وسعت عطا کرتا ہے۔

کائنات کے دہشت ناک سکوت میں انسان کی انفرادی یا اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جواز کی یافت کرتی ہے۔ عبادت میں ذہنی رویے کی نفسیات ہی کے عین مطابق اسلام کی عبادات میں نفی اور اثبات کے رموز موجود ہیں۔ تاہم نوع انسانی کی عبادت کے تجربے سے جو حقیقت کھلی ہے اس کے پیش نظر باطنی عمل مختلف صورتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:

لِّکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا ھُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِوَادْعُ إِلَیٰ رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَیٰ ھُدًی مُسْتَقِیْمٍ oوَإِنْ جٰدَ لُوکَ فَقُلِ اﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o اﷲُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقَِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ
(۶۹- ۶۷:۲۲)

ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت رکھا وہ جس کی پیروی کرتی تھی لہٰذا اے محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑیں نہیں۔ اپنے رب کی طرف سے تم انہیں دعوت دو۔ یقیناً تم راہ راست پر ہو۔ اور اگر وہ تم سے لڑیں تو کہہ دو کہ تم جو کچھ کرتے ہو خدا خوب جانتا ہے۔ اﷲ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔

عبادت کے انداز کو نزاع کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔۷۴؎ آپ کس طرف اپنی چہرہ رکھیں یہ عبادت کی روح کے لیے لازم نہیں ہے۔ قرآن نے اس نقطے کو مکمل طور پر واضح کر دیا ہے:

وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ(۱۵: ۲)
مشرق اور مغرب سب اﷲ کے لیے ہیں' جس طرف بھی تم اپنا رخ کرو اسی طرف خدا کا چہرہ ہے۔
لَّیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ وَالْمَلَٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِّیِنَ وَء َاتَی الْمَالَ عَلَیٰ حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتٰمَیٰ وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَئَ اتَی الزَّکَوٰۃَ وَالْمُوفُوْنَ بِعَہْدِ ھِمْ إِذَا عَا ھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَأَسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحَیْنَ الْبَأْسِ أُوْلَئِٰٓکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَأَوْلَئِٰٓکَ ہُمْ الْمُتَّقُوْنَ
(۱۷۷:۲)

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا چہرہ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کر لو' بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اﷲ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اﷲ کی نازل کی ہوئی کتابوں کو اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اﷲ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں یتیموں' مسکینوں' مسافروں کی مدد کے لیے' ہاتھ پھیلانے والوں اور غلاموں پر خرچ کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں اسے پورا کریں اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں

تاہم اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ عبادت میں جسم کی حالت ہمارے ذہنی رویے کا تعین کرنے میں بڑی اہم ہے۔ اسلامی عبادت میں ایک خاص سمت کا چنائو اجتماع کے احساسات میں یک جہتی یا وحدت کے تحفظ کے لئے ہے۔ اور اس کی شکل لوگوں میں سماجی مساوات کے احساس کی پرورش کرتی ہے اور عبادت کرنے والوں میں مرتبے اور نسل کے امتیاز کو مٹاتی ہے۔ کس قدر بڑا روحانی انقلاب دفعتاً برپا ہو جائے اگر جنوبی ہندوستان کا مغرور برہمن اچھوتوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر روزانہ عبادت کرے! وہ ایک محیط کل خودی جو تمام خودیوں کی تخلیق کرتی اور انہیں برقرار رکھتی ہے اس سے تمام بنی نوع انسان کی وحدت مترشح ہوتی ہے۔ ۷۵؎ انسانوں کی رنگ و نسل، قبائل اور اقوام میں تقسیم قرآن حکیم کے مطابق محض ان کی پہچان کے لیے ہے۔ ۷۵؎ اسلام میں عبادت کی اجتماعیت اپنی وقوفی اہمیت کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کی اسی وحدت کو نمایاں کرنے کی کوشش ہے اور اس کا مقصد وہ تمام دیواریں اور امتیازات ختم کر دیتا ہے جو انساں اورانسان کے درمیان حائل ہیں۔

<<پچھلا  اگلا>>

خدا کا تصور اور دُعا کا...

خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان