www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

فلسفہ عجم

فلسفہ عجم

مندرجات

دیباچۂ
حصہ اوّل قبل اسلامی فلسفۂ ایران
باب اوّل ایرانی ثنویت
حصہ دوم یونانی ثنویت
باب دوم ایران کے نوفلاطونی...
باب سوم اسلام میں عقلیت کا عروج...
باب چہارم - تصوریت اور عقلیت کے...
باب پنجم - تصوف کا مآخذ اور قرآن...
باب ششم - مابعد کا ایرانی تفکر
خاتمہ


دیگر زبانیں

باب پنجم

(۱)

تصوف کا مآخذ اور قرآن سے اُس کا جواز

اثرات کے سلسلے کا سراغ لگانا جدید مستشرقین کا ایک عام شیوہ ہوگیا ہے۔ ایسی طرزِ تحقیق یقینا ایک بڑی تاریخی قیمت رکھتی ہے بشرطیکہ ہم اس کی رہنمائی میں اس اساسی واقعہ کو نظر انداز نہ کردیں کہ ذہنِ انسانی اپنی ایک مستقل انفرادیت بھی رکھتا ہے اور خودبخود اپنے اندر سے ایسی صداقتوں کو نمو دے سکتا ہے جن کی صدیوں پہلے دوسرے اذہان نے بھی پیش بینی کی ہو۔ کوئی تصور کسی قوم کی روح میں جاگزیں نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ وہ ایک لحاظ سے خود اس قوم کا تصور نہ ہو۔ خارجی موثرات ان تصورات کو ایک گہری غیر شعوری نیند سے بیدار کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی طرح عدم محض سے اس کو وجود میں نہیں لاسکتے۔
ایرانی تصورات کے ماخذ کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس دلچسپ میدانِ تحقیق کے منکشفیں نے اُن مختلف راستوں کے انکشاف میں اپنی قابلیت صرف کردی جن سے گذر کر تصور کے اساسی تصورات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اس اصول کو بالکل نظر انداز کردیا ہے کہ کسی قوم کے عقلی ارتقا کے کسی مظہر کی اہمیت صرف اس وقت ذہن نشین ہوسکتی ہے کہ جب ہم اس قوم کے گذشتہ عقلی، سیاسی، و اجتماعی حالات کی روشنی میں اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ فان کریمر اور ڈوزی نے ایرانی تصوف کا ماخذ ہندی ویدانت کو ٹھہرایا ہے اور نکلسن اس کو نوفلاطونیت سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔ لیکن پروفیسر برائون نے یہ خیال کیا تھا کہ یہ غیر جذبی سامی مذہب کے خلاف ایک آریائی ردِعمل ہے۔ بہرحال میرے خیال میں یہ تمام نظریات ایک ایسے تصور تعلیل کے تحت وضع کیے گئے ہیں جو قطعاً غلط ہے۔ یہ کہ ایک معینہ مقدار ا ایک دوسری معینہ مقدار ب کی علت ہے یا اُس کو پیدا کرتی ہے ایک ایسا قضیہ ہے جو حکمیاتی (سائنٹی فک) اغراض کے لیے تو موزوں ہوسکتا ہے لیکن جب اس کی رہنمائی میں ہم اُن کثیر التعداد حالات و شرائط کو نطر انداز کردیتے ہیں جو واقعہ یا حادثہ کے عقب میں وہتے ہیں، تو اس سے ہماری کل تحقیقات کو صدمہ پہنچتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا ایک تاریخی غلطی ہوگی کہ بربریوں کے حملے سلطنت روما کے انتشار کا سبب تھے۔ اس بیان میں اُن قوتوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے جن کی نوعیت بالکل مختلف تھی اور جو اس سلطنت کی سیاسی وحدت کے انتشار کے دراصل باعث ہوئے تھے۔ بربریوں کے حملوں کو سلطنت روما کے زوال کی علت قرار دینا اور درآں حالیکہ یہ سلطنت اس نام نہادر علت کو اپنے اندر جذب کرسکتی تھی اور ایک حد تک اس نے ایسا کیا بھی تھا، ایک ایسا طرزِ استدلال ہے جس کو کوئی منطق جائز نہ رکھے گی۔ لہٰذا ہم ایک صحیح نظریہ تعلیل کی روشنی میں اسلامی زندگی کے اُن خاص خاص سیاسی، اجتماعی اور عقلی حالات کو پیش کریں گے جو آٹھویں صدی کے اختتام اور نویں صدی کے نصف اوّل پائے جاتے تھے۔ صحیح معنوں میں اسی زمانہ میں زندگی کا صوفیانہ نصب العین وجود میں آیا، اور اس کے بعد ہی نصب العین کا فلسفیانہ جواز بھی پیش کیا گیا۔
(۱) جب ہم اس زمانہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو یہ کم و بیش ایک سیاسی بے چینی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ آٹھویں صدی کے نصف آخر میں اُس سیاسی انقلاب کے باوجود جس نے سلطنت اُمیہ (۷۴۹ئ) کو اُلٹ دیا تھا اور بھی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں، جیسے زنادقہ پر ظلم و تعدی، ایرانی ملحدین کی بغاوت وغیرہ (سندیہ ۷۵۵تا۷۵۶ اُستہ دس ۷۶۶تا۷۶۸۔ خراسان کا نقاب پوش پیغمبر (۷۷۷تا۷۷۸) ان لوگوں نے عوام کی زود اعتقادی سے فائدہ اُٹھا کر اپنے سیاسی منصوبوں کو مذہبی تصورات کے بھیس میں پیش کیا۔ اس کے بعد نویں صدی کے آغا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہارون کے بیٹے (مامون اور امین) سیاسی اقتدار کے لیے ایک زبردست جنگ میں مصروف ہیں۔ اس کے کچھ زمانہ بعد ہی اسلامی ادبیات کے عہد زرین کو بابک کی مسلسل بغاوت سے ایک سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ (۸۱۶تا۸۳۸) مامون کی حکومت کے ابتدائی زمانہ زمانہ میں ایک دوسرا واقعہ ظہور آتا ہے جس کی سیاسی اہمیت بہت بڑی ہے، یعنی بعض آزاد ایرانی خاندانوں کے آغازو استحکام کے ساتھ (طاہریہ، صفاریہ، امانیہ) شعوبیہ کا مناقشہ شروع ہوجاتا ہے۔ غرض کہ یہ اور اسی قبیل کے دیگر حالات کی متحدہ قوت نے ایسے لوگوں کو جن کی سیرت زاہدانہ واقع ہوئی تھی اس مسلسل بے چینی کے منظر سے ہٹا کر ایک پُرسکون مراقبہ کی زندگی کی طرف رجوع کردیا۔ ان ابتدائی مسلمان مرتاضئین کی حیات و فکر کی سامی نوعیت کے ساتھ ساتھ وحدت الوجود کا ایک وسیع نظریہ بتدریج وجود میں آگیا جس پر کم و بیش آریائیرنگ چڑھا ہوا تھا۔ اس نظریہ کا ارتقا ایران کی سیاسی آزادی کے نشوونما کے متوازی تھا۔
(۲) اسلامی عقلیت کے ارتیابی میلانات ابتداً بشار ابن برد کی نظموں میں رونما ہوئے۔ یہ ایک نابینا ایرانی مشکک تھا جس نے آتش کو الوہیت کا درجہ دیا تھا، اس کو فکر کے تمام غیر ایرانی طریقوں سے نفرت تھی عقلیت میں ارتیابیت کے جو جراثیم پوشیدہ تھے انھوں نے بالآخر ایک ایسے مبدا علم کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیا، جو فوق العقل ہے۔ سب سے پہلے اس کا اثبات رسالہ تشیری میں کیا گیا (۹۸۶)۔ خود ہمارے زمانہ میں کانٹ کی “تنقید عقل خالص” کے سلبی نتائج نے جاکوبی اور شلائرماخر کو مجبور کردیا کہ مذہب کو حقیقتِ مثالی کے احساس پر مبنی کردیں۔ اُنیسویں صدی کے مشکک کے لیے ورڈز ورتھ نے ذہن کی اُس پُراسرار حالت کو منکشف کردیا جس میں ہم بالکل روحانی ہستی بن کر اشیا کی حیات کا راز معلوم کرلیتے ہیں۔
(۳) اسلام کے مختلف فرقوں جیسے حنفی (ابو حنیفہ المتوفی ۷۶۷ئ)، شافعی (الشافعی المتوفی ۸۲۰ئ)، مالکی (المالک المتوفی ۷۹۵ئ)، اور مذہب تشبیہ کے پیرو حنبلی (ابن حنبل المتوفی ۷۹۵ع) کا خشک تقدس جو آزاد خیالی کا سخت ترین دشمن تھا۔ المامون کے بعد عوام پر اسی کی حکومت رہی۔
(۴) مختلف فرقوں کے نمایندوں کے مابین مذہبی مناظرے جو المامون کی سرپرستی میں ہوا کرتے تھے، اور خاص کر وہ تلخ دینیاتی مناقشہ جو اشاعرہ اور علم برادران عقلیت کے مابین واقع ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ نہ صرف یہ ہوا کہ مذہب کو انھی فرقوں کی حد تک محصور کردیا گیا بلکہ اُن معمولی مناقشات سے بالاتر ہونے کی روح بیدار ہوگئی۔
(۵) دورِ عباسیہ کے ابتدائی زمانہ میں عقلیت کے میلان کے اثر سے مذہبی جوش بتدریج ٹھنڈا ہونے لگا اور دولت کی روز افزون فراوانی سے اخلاقی احساس دبتا گیا اور اسلام کے اعلیٰ طبقوں میں مذہبی زندگی سے بے اعتنائی برتی جانے لگی۔
(۶) مسیحیت زندگی کے ایک قابل عمل نصب العین کی حیثیت سے موجود تھی خاص کر عیسائی راہبوں کی واقعی زندگی نہ کہ اُن کی مذہبی تصوریت نے ابتدائی اسلامی اولیا کے اذہان پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ دنیا سے ان کی بے تعلقی گو وہ بذات خود بہت ہی دل کش ہے لیکن میرے خیال میں یہ اسلامی روح کے بالکل منافی ہے۔
تصوف کا خاص طور پر یہی ماحول تھا۔ جن حالات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اُن کے متحدہ عمل ہی میں ہم کو صوفیانہ تصورات کے ماخذ و نمو کا سراغ لگانا چاہیے۔ ان حالات کی واقفیت سے اور یہ معلوم کرلینے کے بعد کہ ایرانی ذہن میں توحید کی طرف باطنی میلان تھا، تصوف کی پیدایش اور نشوونما کے واقعہ کی پوری توجیہ ہوسکتی ہے۔ اگر ہم اُن حالات کا مطالعہ کریں جو نوفلاطونیت کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھے تو ہم کو معلوم ہوجائے گا ایک قسم کے حالات ایک ہی قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ بربریوں کے حملوں نے، جو محلات کے شہنشاہوں کو خیموں کے شہنشاہ بنا رہے تھے، تیسرے صدی کے اوائل میں ایک بالکل سنجیدہ حیثیت اختیار کرلی۔ خود فلاطینوس اپنے زمانہ کی سیاسی بے چینی کا ذکر ایک خط میں کرتا ہے جو فلیکس کا موسومہ1 ہے۔ جب وہ اپنے وطن اسکندریہ پر نظر ڈالتا ہے تو اُس کو رواداری اور مذہبی زندگی سے بے اعتنائی کی علامات ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے بعد روما کی، جو مختلف اقوام کا اکھاڑہ بن گیا تھا، زندگی میں اسی طرح سنجیدگی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اور سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں کی سیرت میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں فلسفہ کا مطالعہ فلسفہ کی خاطر نہیں بلکہ ادبیات کے ایک شعبہ کی حیثیت سے کیا جاتا تھا۔ Antichus کے اس میلان سے ارتیابیت اور رواقیت کو مخلوط کردیا جائے سکس ٹس امپریکس متاثر ہوکر پرہو کی قدیم غیر مخلوط ارتیابیت کی تعلیم دے رہا تھا۔ اسی عقلی مایوسی نے فلاطینوس کو مجبور کردیا کہ صداقت کو الہام میں تلاش کرے، جو فکر سے بالاتر ہے۔ اس کے سوا رواقی اخلاق جن کی نوعیت خشک اور غیر جذبی تھی اور عیسیٰ کے پیروئن کا تقدیر جو طویل اور خونخوار ظلم و تعدی سے بے خوف ہوکر دنیائے رونما کو امن و محبت کا پیغام دے رہے تھے، ایسی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے یہ لازمی تھی کہ بت پرستوں کے تفکر کی اس طرح تفسیر کی جائے کہ اس سے زندگی کے قدیم نصب العین کا احیا ہوسکے، اور لوگوں کی جدید روحانی ضروریات کی تشفی ہوجائے۔ لیکن مسیحیت کی اخلاقی قوت بہت ہی زبردست تھی۔ نوفلاطونیت کی نوعیت زیادہ تر مابعدالطبعی2 تھی۔ عوام کے لیے اس کا کوئی خاص پیغام بھی نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ غیر مہذب بربریوں کی اس تک رسائی نہ ہوسکی۔ ان بربریوں نے مظلوم عیسائیوں کی واقعی زندگی سے متاثر ہوکر مسیحیت کو قبول کرلیا اور قدیم سلطنت کے کھنڈروں میں سے ایک جدید سلطنت کی تعمیر کرنی شروع کی۔ ایران میں بھی مختلف تہذیبوں اور مختلف تصورات کے نشوونما کے اثر نے بعض اذہان میں یہ مبہم سی خواہش پیدا کردی کہ اسلام کی بھی اسی طرح تفسیر کی جائے اس میلان نے مسیحی نصب العین اور مسیحی اوری تفکر کو بتدریج اپنے اندر جذب کرلیا تھا اور قرآن میں اُس کو ایک مستحکم بنیاد بھی مل گئی تھی۔ مسیحیت کی پھونکوں کے آگے یونانی تفکر کا پھول مرجھا گیا۔ لیکن ابن تیمیہ کی ہجو آمیز آتش نفسی ایرانی پھول کی تازگی کی چھو تک نہ سکی اوّل الذکر کو بربریوں کے حملوں کا سیلاب بہا لے گیا، اور آخر الذکر نے تاتاری انقلاب سے غیر ممتاز رہ کر اپنے آپ کو برقرار رکھا۔
صوفیا نے اسلام کی جو تفسیر کی ہے اس کی غیر معمولی قوت کی توجیہ اُسی وقت ممکن ہے، جب کہ تصوف کی جامع اور محیط تشکیل پر غور کیا جائے۔ سامی قوم کے ہاں نجات کا جو اُصول تھا اُس کو مختصراً ان الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں۔ “اپنے ارادہ کو متبدل کر دو” جس کے یہ معنی ہیں کہ اسمی قوم ارادہ کو روحِ انسانی کا جوہر خیال کرتی تھی۔ اس کے برخلاف ہندی ویدانتی یہ تعلیم دیتا ہے کہ آلام کی وجہ یہ ہے کہ ہم کائنات کے متعلق غلط نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں لہٰذا وہ ہماری عقل کو متبدل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ انسان کی اصلی ماہیت فکر پر مشتمل ہے نہ کہ فعلیت یا ارادہ پر۔ لیکن صوفی کا دعویٰ ہے کہ محض ارادہ یا عقل کو متبدل کردینے سے طمانیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم کو چاہیے کو احساس کی مکمل تبدیلی کے ذریعہ عقل و ارادہ دونوں کو متبدل کردیں کیونکہ عقل و ارادہ محض دو صورتیں ہیں احساس کی۔ فرد کے لیے اس کا یہ پیغام ہے کہ “سب سے محبت کر، دوسروں کی بہبودی میں اپنی شخصیت کو بھول جا”۔ مولانا روم فرماتے ہیں:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاداں کعبہ یک دل بہتر است
لیکن اس اُصول کے متعلق “کیوں” اور “کس طرح” جیسے سوالات اُٹھانے پڑتے ہیں۔ یعنی اس نصب العین کو مابعد الطبعی جواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ اس سے عقل کو تشفی ہوسکے، اور ایسے قواعد فعل دریافت ہوجائیں جن سے ارادہ کی رہنمائی ہوسکے۔ تصوف میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ سامی مذہب کردار کے قواعد کا ایک ضابطہ ہے لیکن اس کے برخلاف ہندی ویدانت ایک خشک نظامِ فکر ہے۔ تصوف ان کی ناقص نفسیات سے گریز کرتا ہے، اور محبت کے اعلیٰ کلیہ کے تحت سامی اور آریائی اصولوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ بدھ مت کے تصور نروان (فنا) کو اپنے اندر جذب کرکے اس تصور کی روشنی میں ایک مابعدالطبعی نظام تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور دوسری طرف وہ اسلام سے بے تعلق ہونا نہیں چاہتا اور کائنات سے متعلق اپنے نقطۂ نظر کا جواز قرآن سے پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے مقام پیدایش کے جغرافی موقع و محل کی طرح خود بھی آریائی و سامی مذاہب کے اثرات کے وسط میں واقع ہے، اور دونوں طرف سے وہ تصورات کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے لیکن خود ان پر بھی اپنی شخصیت کا رنگ چڑھا دیتا ہے۔ اس کی لوعبیت زیادہ تر آریائی ہے نہ کہ سامی۔ لہٰذا یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ تصوف کی قوت کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ فطرتِ انسانی کے متعلق اس کا نقطۂ نظر بہت ہی جامع و مکمل ہے۔ اور اسی نقطۂ نظر پر وہ مبنی بھی ہے۔ یہ راسخ العقیدہ لوگوں کے ظلم و تعدی اور سیاسی انقلابات میں سے صحیح و سلامت نکل آیا، کیوں کہ یہ فطرت انسانی کے تمام پہلوئوں کو متاثر کرتا ہے۔ وہ اپنی دل چسپی کو ایسی زندگی پر مرتکز کردیتا ہے جو انکاری خودی پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ آزادی خیالی کے میلان میں مزاحمت بھی نہیں کرتا۔
میں اجمالی طور پر یہ بتلائوں گا کہ صوفی مصنّفین اپنے خیالات کو قرآن کے نقطۂ نظر سے کس طرح جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے کہ پیغمبر عرب نے فی الواقع حضرت علیؓ یا حضرت ابوبکرؓ کو کوئی باطنی علم سکھلایا تھا۔ بہرصورت صوفیا کا یہ دعویٰ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی تعلیم کے ماسوا ایک باطنی تعلیم (حکمت) بھی دی تھی۔ اس دعویٰ کی تائید میں وہ قرآن کی حسب ذیل آیت پیش کرتے ہیں۔ کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاٍ مِنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَّکِیْکُمْ وَیُعَلِّمُ کُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُ کُمْ مَا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعَّلَمُوْنَ۵ط ان کا یہ خیال ہے کہ “حکمت” کا جو ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ ایسی چیز ہے جس کو قرآن کی تعلیم میں نہیں بیان یا گیا۔ خود پیغمبر علیہ السلام نے بارہا فرمایا ہے کہ قراان کی تعلیم آپ سے پہلے کے پیغمبروں نے بھی دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس “حکمت” کو قرآن میں بیان کردیا گیا ہے تو اس آیت میں “حکمت” کا جو لفظ آیا ہے وہ حشو و زائد ہوگا۔ میرے خیال میں یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ قرآن و احادیث صحیح میں صوفیانہ نظریہ کی طرف اشارات موجود تھے لیکن وہ عربوں کی خالص عملی ذہانت کی وجہ سے نشوونما پاکر بارآور نہ ہوسکے۔ جب ان کو ممالک غیر میں موزوں حالات میسر آگئے تو وہ ایک جداگانہ نظریہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ قرآن نے ایک مسلم کی حسب ذیل تعریف کی ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الْصَّلوٰۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ3 لیکن اس “غیب” کے متعلق “کیا” اور “کیوں” جیسے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا قرآن نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ “غیب” تمھاری ہی روح کے اندر ہے۔ وَفِیْ الْاَرْضِ آیَاتٌ لِلْمُوْمِّنِیْنَ وَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلا تَبْصِرُوْنَ4 اور پھر کہا ہے وَنَحْنُ اَء قْرَبُ ئِ اللّٰہِ مِنْ حَبَلُ الْوَرِیْدُ۔5 اسی طرح قرآن کی تعلیم ہے کہ اس “غیب” کی اصلی ماہیت خالص نور ہے۔ اللّٰہ نُوْرُ السّٰمَوٰتِ وَالْارْضِ۔6 اس سوال کے متعلق کہ آیا نورِ اولیٰ شخصی ہے، قرآن نے شخصیت کے تصور کو مختلف عبارتوں میں پیش کرنے کے باوجود مختصر الفاظ میں یہ جواب دیا ہے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیِئٌ۔7
یہ چند خاص آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کاعنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے۔ یہ لوگ روحانی تربیت کے حسب ذیل چار منازل پیش کرتے ہیں۔ اگر روح جس کو اَمْرِ رَبِّی کہا جاتا ہے (قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِیّ)8 ادنیٰ درجہ سے ترقی کرکے اشیا عالم کے مبدا سے اتحاد و وصل کی خواہش کرے تو اس کو ان منازل میں سے ہوکر گذرنا پڑتا ہے۔
(۱) ایمان بالغیب۔
(۲) غیب کی جستجو۔ اگر ان عجیب و غریب مظاہر قدرت کا مشاہدہ کیا جائے تو تحقیق و جستجو کی روح اپنی نیند سے بیدار ہوجاتی ہے۔ اَفَلا یَنْظَرُوْنَ اء لٰی اَلائِ بْلِ کَیْفَ خُلِقَتَ وَائِْ لیَ السَّمَائِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ وَ اذا الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔9
(۳) علم الغیب- جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں، یہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہما س کو اپنی روح کی گہرائیوں میں تلاش کرتے ہیں۔
(۴) تحقیق- اعلیٰ درجہ کے تصوف میں یہ عدل و احسان کی مسلسل مشق سے حاصل ہوتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاَحْسَانْ وَائِ یتَائِ زِیْ القُرْبٰی وَینہَی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنکِرَ وَالْبغْیِ یُعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَّکُرّون۔10
تاہم یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مابعد صوفیانہ فرقوں نے (جیسے نقشبندیہ) اس تحقیق کو حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع بھی ایجاد کیے، یا یوں کہو کہ ہندی ویدانیتوں سے ان کو مستعار لیا۔11 کندالینی کے ہندی نظریہ کی تقلید میں انھوں نے یہ تعلیم دی کہ جسم انسانی میں مختلف رنگوں کی روشنی کے چھے مراکز ہیں۔ صوفی کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ مراقبہ کے چند طریقوں کے استعمال سے ان کو متحرک رکے اور اس کے ذریعہ رنگوں کی ظاہری کثرت و تعدد میں سے بالآخر اُس اساسی نور کو متحقق کرلے جو بے رنگ ہے، اور جس کی وجہ سے ہر شے دکھائی دیتی ہے لیکن وہ خود غیر مرئی ہے۔ جسم کے توسط سے ان مراکز نور کی مستمر حرکت، اور بالآخر ان کی مماثلت کا تحقیق مختلف اسما الٰہی اور دیگر پُراسرار کلمات کے ورد سے جسم کے سالمات حرکت کے ایک متعین راستہ پر پڑجاتے ہیں اور اسی سے مراکز نور کی مماثلت کا تحقق ہوتا ہے، صوفی کے پورے جسم کو منور کردیتا ہے۔ اس واقعہ سے کہ یہ تمام طریقے ایرانی صوفیا کو معلوم تھے فان کریمر کو ایک غلط فہمی ہوگئی جس کی بنا پر وہ تصوف ہی کے پورے واقعہ کو ویدانتی تصورات کے اثر سے منسوب کرتا ہے۔ مراقبوں کے ان طریقوں کی نوعیت بالکل غیر اسلامی ہے، اور اعلیٰ درجہ کے صوفیا اُن کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔
(۲) صوفانہ مابعد الطبیعیات کے پہلو
اب ہم کو صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے مختلف مکاتب یا یوں کہو کہ مختلف پہلوئوں پر توجہ کرنی چاہیے۔ صوفیانہ ادبیات کی اگر دقیق النظری سے تحقیق کی جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ تصوف نے حقیقت انتہائی پر تین نقاط نظر سے غور کیا ہے، جو ایک دوسرے کا اخراج تو نہیں بلکہ اتمام کرتے ہیں۔ بعض صوفیا نے شاعر الذات ارادہ کو حقیقت کی اصلی ماہیت قرار دیا ہے، اور بعض جمال کو لیکن کا یہ دعویٰ ہے کہ حقیقت دراصل فکر، نور یا علم ہے لہٰذا صوفیانہ تفکر کے تین پہلو ہیں۔
(ا) حقیقت بطور شاعر الذات ارادہ کے
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ان میں سے پہلا نقطۂ نظر وہ ہے جس کے نمایندے شقیق بلخی، ابراہیم ادہم اور رابعہ وغیرہ گذرے ہیں۔ یہ مکتب حقیقتِ انتہائی کو “ارادہ” اور کائنات کو اس “ارادہ” کی محدود فعلیت خیال کرتا ہے۔ یہ درحقیقت توحیدی نقطۂ نظر ہے، اور اس لیے اس کی نوعیت زیادہ تر سامی ہے۔ اس مکتب کے صوفیا کے نصب العین میں طلب علم غالب نہیں ہے بلکہ تقدس، دنیا سے بے تعلقی اور خدا سے گہری محبت، جو گناہ کے شعور سے پیدا ہوتی ہے، ان کی زندگی کے مخصوص خط و خال میں سے ہے۔ ان کا مقصد فلسفیانہ غور و فکر نہیں بلکہ زندگی کا ایک نصب العین قائم کرنا ہے۔ لہٰذا ہمارے نقطۂ نظر سے ان کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
(ب) حقیقت بطور جمال کے
نویں صدی کے آغاز میں حضرت معروف کرخی نے تصوف کی یہ تعریف کی ہے کہ “یہ حقائق ربانی کا تعقل ہے”12 اس تعریف سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ایمان سے علم کی طرف بڑھنے کی تحریک شروع ہوگئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے دسویں صدی کے اختتام القشیری نے حقیقت انتہائی کے تعقل کا طریقہ بیان کیا تھا۔ اس مکتب کے معلّمین نے اس نوفلاطونی تصور کو اختیار کرلیا کہ تخلیق درمیانی عوامل کے توسط سے ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ تصور صوفی مصنّفین کے ذہنوں میں ایک زمانہ تک باقی رہا لیکن انھوں نے وحدت الوجود کے نظریہ کی رہنمائی میں صدور کے نظریہ کو بالکل ترک کردیا۔ ابن سینا کی طرح وہ انتہائی حقیقت کو “حُسنِ ازلی” سمجھتے ہیں، جس کے خمیر میں یہ بات داخل ہے کہ “چہرے” کو کائنات کے آئینہ میں منعکس کرے۔ لہٰذا کائنات ان کے نزدیک “حُسنِ ازلی” کی ایک منعکسہ شبیہ یا پرتو ہے نہ کہ کوئی صدور، جیسا کہ نوفلاطونئین نے تعلیم دی تھی۔ سید شریف حسین کہتے ہیں کہ تخلیق کی علت اظہارِ حسن ہے اور محبت پہلی مخلوق ہے۔ اس حُسن کا تحقق عالمگیر محبت کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔ جس کی تعریف صوفیائے ایران اپنی خلقی زرتشتی جبلت کی بنا پریہ کرتے ہیں کہ “یہ ایک آتش مقدس ہے جو خدا کے سوا ہر ایک شے کو جلا دیتی ہے۔” مولانا روم فرماتے ہیں:
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس13 ما
کائنات کے متعلق جب یہ نقطۂ نظر قاعم ہوا تو اس کا براہِ راست نتیجہ غیر شخصی جذب کے تصور کی صورت میں برآمد ہوا۔ سب سے پہلے یہ تصور بایزید بسطامی میں رونما ہوا، اور یہ اس مکتب کے مابعد مخصوص خط و خال میں سے ہے۔ اس تصور کے نشوونما پر اُن ہندو زائرین کا اثر پڑا ہوگا جو ایران میں سے ہوتے ہوئے اُن بدھی مندروں کو جاتا کرتے تھے۔ جس اُس وقت باکو14 میں موجود تھے۔ اس مکتب کو حسین منصور نے بالکل وحدت الوجودی بنا دیا اور ایک سچے ہندو ویدانی کی طرح اناالحق (اہم برہما اسمی) چلا اُٹھا۔
صوفیا کے اس مکتب کے نزدیک انتہائی حقیقت یا “حُسنِ ازلی” ان معنوں میں لامحدود ہے کہ یہ “آغاز و انتہا، چپ و راست، تحت و فوق وغیرہ جیسے قیود سے کلیتہً پاک15 ہے”۔ جوہر و عرض کا امتیاز لامحدود میں قائم نہیں رہتا۔ “جوہر اورحقیقت دراصل ایک دوسرے کی عین16 ہیں۔”
ہم اوپر بتلا چکے ہیں کہ فطرت ہستی، مطلق کا آئینہ ہے، لیکن نسفی کے خیال میں آئینہ کی دو قسمیں ہیں۔17
(۱) وہ آئینہ جو شبیہ منعکسہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ فطرت خارجی ہے۔
(۲) وہ آئینہ جو اصل جوہر کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ انسان ہے جو ہستیِ مطلق کی ایک تحدید ہے اور جو غلطی سے اپنے آپ کو ایک مستقل و آزاد ہستی خیال کرتا ہے۔
نسفی کہتا ہے کہ “اے درویش کیا تو اپنے کو خدا سے بے نیاز سمجھتا ہے، یہ بہت بڑی غلطی18 ہے”۔ نسفی اپنے مفہوم کو ایک خوبصورت تمثیل سے واضح کرتا ہے۔ ایک دریا کی مچھلیوں نے یہ معلوم کرلیا کہ وہ پانی میں رہتی ہیں، بستی، چلتی پھرتی ہیں اور اسی پر ان کی ہستی قائم ہے، اور انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ اس شے کی حقیقی ماہیت سے لاعلم ہیں جو ان کی زندگی کا مبدا ہے۔ پس انھوں نے اس سے بھی بڑے دریا کی ایک عقل مند مچھلی سے رجوع کیا اور اُس فلسفی مچھلی نے اُن سے یوں خطاب کیا۔ “اے تم جو ہستی کی گرہ کھولنا چاہتی ہو۔ تم اتحاد سے پیدا ہوئی لیکن ایک غیر حقیقی فراق کے خوف سے مرتی ہو۔ تم لب دریا بھی تشنہ ہی ہو۔ ایک خزانہ کی مالک ہو لیکن مفلس مر رہی ہو۔”
لہٰذا فراق و جدائی کا احساس ایک لاعلمی اور “غیریت” محض ایک التباس اور خواب و سایہ ہے۔ یہ تفریق اُس نسبت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو ہستیِ مطلق کو اپنی ذات کا تعقل کرنے کے لیے لازمی تھی۔ اس مکتب کے امامِ اعظم “رومی کامل” ہیں جیسا کہ ہیگل آپ کو ملقب کرتا ہے۔ آپ نے عالم کے قدیم نوفلاطونی تصور کو لے لیا جو ہستی کے مختلف دائروں میں عمل پیرا ہے، اور اس کو جدید رنگ میں اس طرح پیش کیا کہ کلاڈ نے اپنی کتاب افسانہ تخلیق19الف میں آپ کے اشعار کو جگہ دی ہے۔ میں آپ کے اُن مشہور اشعار کو یہاں درج کرتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اس شاعر نے ارتقا کے جدید تصور کی کس قدر کامیابی سے پیشین گوئی کی تھی۔ اس کو وہ اپنی تصوریت کا ایسا پہلو سمجھتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہے:
آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد
و ز جمادی در نباتی او فتاد
سالہا اندر نباتے عمر کرد
و ز جمادی یاد ناورد از نبرد
و ز نباتی چوں بہ حیواں او فتاد
نامدش حالِ نباتی ہیچ یاد
جز ہماں میلے کہ دارد سوی آں
خاصہ در وقتِ بہار ضمیراں
باز از حیواں سوئے انسانیش
می کشد آں خالقے کہ دانیش
ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت
تاشد اکنوں عاقل و دانا و زفت
عقلہائے اولینش یاد نیست
ہم ازیں عقلش تحول کرد نیست
تا دبد زریں عقل پر حرص و طلب
صد ہزاراں عقل بیند ابوالعجب
(مثنوی۔ کتاب چہارم)
صوفیانہ تفکر کے اس پہلو کا نوفلاطونیت کے اساسی تصورات سے موازنہ کیا جائے تو یہ زیادہ اُجاگر ہوجائے گا۔ نوفلاطونیت کے حذا موجود فی العالم بھی ہے اور ماورائی بھی۔ چونکہ یہ تمام اشیا کی علت ہے اس لیے یہ ہر جگہ موجود ہے۔ اور چونکہ یہ تمام اشیا سے الگ ہے اس لیے یہ کہیں بھی نہیں ہے۔ اگر وہ صرف “ہر جگہ” ہوتا اور یہ نہ کہنا جاتا کہ وہ “کہیں نہیں” ہے تو وہ سب کچھ ہوتا (ہمہ اوست)۔ بہرحال صوفی سنجیدگی کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا سب کچھ ہے۔ نوفلاطونئین مادے کے استمرار یا استقلال کو کسی قدر جائز رکھتے ہیں۔ لیکن زیربحث مکتب کے صوفیانہ تمام تجربات کو ایک قسم کا خواب سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی زندگی جو مقید ہو ایک نیند ہے، اور موت ہی اس نیند سے بیدار کرتی ہے۔ بہرحال غیر شخصی بقا کا یہی نظریہ ہے جو اس مکتب کو نوفلاطونیت سے متمائز کرتا ہے۔ (اس کی نوعیت درحقیقت مشرقی ہے) دٹکر کہتا ہے کہ “عربی فلسفہ کے اس نظریہ کا کہ عام عقل انسانی کو غیر شخصی بقا ہے اگر ارسطاطالیسیت اور نوفلاطونیت سے مقالہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نظریہ بالکل جدید اور عربی فلسفہ ہی کی ذاتی پیداوار ہے۔”
اوپر جو اجمالی تشریح گذر چکی ہے اس سے ظاہر ہوگا کہ یہ طرز تفکرین اساسی تصورات پر مشتمل ہے۔
(ا) یہ کہ انتہائی حقیقت کا علم فوق الحسّی حالت شعور کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔
(ب) یہ کہ انتہائی حقیقت غیر شخصی ہے۔
(ج) یہ کہ انتہائی حقیقت واحد ہے۔
ان تصورات کے مقابلہ میں حسب ذیل اُمور کو رکھا جاسکتا ہے۔
(۱) لاادریت کاردِعمل جس کا ظہور ایران کے ایک مشہور شاعر عمر خیام (بارہویں صدی) میں ہوا، جو عقلی مایوسی کی حالت میں چیخ اُٹھتا ہے:
آنہا کہ محیط فضل و آداب شدند
در کشف علوم شمع اصحاب شدند
رہ زین شبِ تاریک نہ بردند برون
گفتند فسانۂ و در خواب شدند
(۲) تیرہویں صدی میں ابن تیمیہ اور اس کے پیروئین کا توحیدی ردِعمل۔
(۳) تیرہویں صدی میں واحد محمدؐ کا تکثیری20 ردِعمل۔
اگر خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو آخری تحریک بہت ہی دلچسپ ہے۔ تاریخ فکر چند عام قوانین ارتقا کے عمل کو ہم پر واضح کردیتی ہے، یہ قوانین مختلف اقوام کی عقلی تاریخ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جرمنی کے توحیدی نظامات فکر سے ہربارٹ کی کثریت پیدا ہوتی ہے۔ اسپئنوزا کے وحدت الوجود سے لائبنز کی “فردیت” وجود میں آتی ہے۔ اسی قانون کے اثر کے تحت واحد محمدؐ نے بھی اپنے زمانہ کی وحدیت سے انکار کردیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ حقیقت ایک نہیں بلکہ ایک سے زیادہ ہے۔ لائبنز سے بہت پہلے اس نے یہ تعلیم دی کہ کائنات “افراد” کا مجموعہ ہے، یہ ایسی اکائنات یا سالمات ہیں، جو ازلی اور جن میں حیات بھی ودیعت ہے۔ ابتداعی مادہ کا تدریجی کمال ہی قانونِ عالم ہے، مادہ ہمیشہ ادنیٰ صورتوں سے گذر کر اعلیٰ کی طرف جاتا ہے، اور ان صورتوں کا تعین، اُس غذا سے ہوتا ہے، جو اساسی اکائیاں اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔ اس کے عمل تخلیق عالم ہر دور آٹھ ہزار سال پر مشتمل ہے، اور اس قسم کے ہر آٹھ ادوار کے بعد کائنات میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے اور یہ اکائیاں پھر متحد ہوکر کر ایک نئے عالم کو تشکیل دیتی ہیں۔ واحد محمدؐ کو ایک جدید فرقہ پیدا کرنے میں کامیابی ہوئی۔ اس فرقہ پر بہت سے مظالم ڈھائے گئے اور بالآخر شاہ عباس نے اُس کو صفحۂ ہستی ہی سے مٹا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ شیراز کے مشہور شاعر حافظ بھی اسی فرقے کے عقائد کو مانتے تھے۔
(ج) حقیقت بطور نور یا فکر کے
تصوف کا تیسرا مکتب حقیقت کو نور یا فکر سمجھتا ہے۔ جس کی ماہیت ہی اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی ایسی شے ہونی چاہیے جس کے متعلق فکر کی جائے یا جس کو منور کیا جائے۔ تصوف کے ماقبل مکتب نے نوفلاطونیت کو ترک کردیا تھا۔ لیکن اس مکتب نے اس کو نئے نظاماتِ فکر میں متبدل کردیا۔ اس مکتب کی مابعد الطبیعیات کے دو پہلو ہیں۔ ایک کی نوعیت تو بالکل ایرانی ہے۔ اور دوسرے پر مسیحی اندازِ تفکر کا خاص طور پر اثر پڑا ہے۔ دونوں متفقہ طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تجربی کثرت و تعدد کے واقعہ سے یہ بات لازم آتی ہے کہ خود انتہائی حقیقت کی ماہیت ہی میں ایک قوت تفریق موجود ہے۔ میں اب ان پر تاریخی ترتیب کے ساتھ بحث کروں گا۔
۱- حقیقت بحیثیت نور کے۔ الاشراق
ایرانی ثنویت کی طرف رجعت
اسلامی علم الکلام میں یونانی جدلیات کے استعمال سے تنقید کی روح بیدار ہوگئی۔ اس کا آغاز الاشراقی کے ساتھ ہوا، اور یہ الغزالی کی تشکیک میں مکمل طور پر نمودار ہوگئی۔ عقلئین میں بھی نظام جیسے نقاد موجود تھے جنھوں نے یونانی فلسفہ کو من و عن تسلیم نہیں کیا بلکہ اس پر آزادی سے تنقید کی۔ تحکم و عقائد کے حامی الغزالی، الرازی، ابوالبرکات اور آمدی وغیرہ نے یونانی فلسفہ کی پوری تعمیر پر حملے کیے اور ابو سعید سیرانی، قاضی عبدالجبار ابوالمعالی، ابوالقاسم اور سب سے بڑھ کر دقیق النظر ابن تیمیہ اس قسم کے کلامی محرکات سے متاثر ہوکر یونانی منطق کی خلقی کمزوری کو منظر عام پر لانے لگے۔ یونانی فلسفہ کی تنقید میں ان مفکرین کو بعض قابل صوفیا جیسے شہاب الدین سہرووردی سے بھی مدد ملی، انھوں نے اپنی ایک تصنیف جو کشف الفضائج الیونانیہ کے نام سے موسوم ہے، یونانی فلسفہ کا ابطال کرکے عقل خالص کی بیچارگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عقلیت کے خلاف اشاعرہ کا ردِعمل کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس سے ایک نظام مابعدالطبیعیات نمو پایا جس کے بعض حصوں پر بالکل جدید رنگ چڑھا وہا ہے، اس نے جدید غلامی کی زنجیروں کو کلیتہً توڑ دیا ارڈمین21 کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں میں فارابی اور ابن سینا کے بعد تفکر کی روح مضمحل ہوگئی، ان کے بعد فلسفہ ارتیابیت اور سیریت میں جاکر دیوالیہ ہوگیا ارڈمین نے اس بات کو بالکل نظر انداز کردیا ہے کہ فلسفۂ یونان پر مسلمانوں کی تنقید سے ایک طرف تو اشاعرہ کی تصوریت وجود میں آئی اور دوسری طرف ایرانی تفکر کی ازسر نو تعمیر ہوئی۔ ایک ایسے نظامِ فلسفہ کی تعمیر ممکن تھی جس کی نوعیت بالکل ایرانی ہو اور لازمی تھا کہ غیر ملکی تفکر منہدم ہوجاتا، یا ذہن پر اُس کا جو تسلط تھا کم ہوجاتا۔ اشاعرہ اور اسلامی عقائد کے دیگر حامیتوں نے اس انہدام کو تکمیل تک پہنچایا۔ الاشراقی جو آزادی کی پیداوار تھے فکر کی ایک جدید عمارت تعمیر کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن انھوں نے اس جدید تعمیر میں پرانے مواد و مسالہ کو بالکل ترک نہیں کیا۔ ان کا دماغ خالص ایرانی تھا اور یہ تنگ نظر سند کی دھمکیوں کی پروا نہ کرکے اپنی آزاد خیالی کا ادعا کرتا ہے۔ ان کے فلسفہ میں قدیم ایرانی روایات، جن کا جزوی اظہار طبیب رازی، الغزالی اور اسماعیلیہ فرقہ کی تصانیف میں ہوا تھا، اپنے پیشرئوں کے فلسفہ سے اور اسلامی علم الکلام سے آخری مصالحت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
شیخ شہاب الدین سہروردی جو شیخ الاشراق مقتول کے نام سے مشہور ہیں بارہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ماجد جیلی سے جو شارح الرازی کے اُستاد ہیں، فلسفہ سیکھا اور جب کہ یہ ابھی نوجوان ہی تھے اسلامی دنیا میں ایک مفکر کی حیثیت سے ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ سلطان صلاح الدین کے بیٹے الملک الظاہر نے جو ان کا زبردست مداح تھا ان کو حلب میں مدعو کیا۔ یہاں اس نوجوان فلسفی نے اپنی آزاد آرا و افکار اس طرح پیش کیا کہ اس زمانہ کے متکلمین میں اس سے زبردست رشک پیدا ہوگیا۔ خونخوار ادعایت کے ان غلاموں نے جو اپنی خلقی کمزوری سے واقف ہوتے ہیں اور جو اپنی حمایت کے لیے زبردست قوت مہیا رکھتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین کو لکھا ہے کہ شیخ کی تعلیم اسلام کے لیے ایک خطرہ ہے اور مذہبی مفاد کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس فتنہ کو ابتدا ہی میں ہٹا دیا جائے، سلطان اس پر راضی ہوگئے۔ ۳۶سال کی عمر میں اس نوجوان ایرانی مفکر نے اس مہلک ضرب کے آگے سر جھکا دیا، جس نے اس کو شہید حق بنا کر اس کے نام کو بقائے دوام عطا کیا۔ قاتلین تو مرچکے لیکن وہ فلسفہ جس کی قیمت خونِ سے ادا کی گئی تھی ابھی تک زندہ ہے اور مخلص محبانِ صداقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
فلسفۂ اشراق کے بانی کی خصوصیات میں سے اُس کی عقلی آزادیا ور وہ دقیق النظری زیادہ نمایاں ہے جس کی وجہ سے وہ معمولی مواد و مسالہ سے ایک مکمل نظام تشکیل دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے ملک کی فلسفیانہ روایات کے ساتھ وفاشعاری برتتا ہے۔ بہت سے اساسی اُمور میں وہ افلاطون سے مختلف الرائے ہے اور ارسطو پر بھی، جس کے فلسفہ کو وہ اپنے نظامِ فکر کی ایک تیاری سمجھتا ہے، آزادی کے ساتھ تنقید کرتا ہے۔ کوئی چیز اُس کی زد سے نہیں بچتی، حتیٰ کے ارسطو کی منطق کو بھی وہ دقیق النظری سے جانچتا ہے اور اُس کے بعض نظریات کے کھوکھلے پن کو ظاہر کردیتا ہے۔ مثلاً ارسطو کے نزدیک منطقی تعریف جنس و فصل کا اجتماع ہے، لیکن الاشراقی کا دعویٰ ہے کہ جس شے کی تعریف کی جاتی ہے ہم اُس کی متمائز صفت سے، جس کو، کسی دوسری شے پر محمول نہیں کیا جاسکتا، اس شے کے علم تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم گھوڑے کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ یہ ایک ہنہنانے والا جانور ہے۔ ہم حیوانیت کو اس لیے سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کو بہت سے جانوروں کا علم ہے جن میں یہ صفت موجود ہے۔ لیکن ہنہنانے کی صفت کو سمجھنا ناممکن ہے یوں کہ یہ صفت اس شے کے سوا جس کی تعریف کی جارہی ہے کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا ایک ایسے شخص کے لیے جس نے گھوڑے کو کبھی نہیں دیکھا ہے، گھوڑے کی یہ معمولی تعریف بے معنی ہوگی۔ ایک حکمیاتی اُصول کی حیثیت سے ارسطاطالیسی تعریف بالکل بے کار ہے۔ا س تنقید سے شیخ کی رہنمائی اُس نقطۂ نظر کی طرف ہوتی ہے جو بوزنکے کے نقطۂ نظر سے بہت مشابہ ہے، جس نے تعریف کی، یہ تعریف کی ہے کہ یہ صفات کو اکٹھا کرنے کا نام ہے۔ شیخ کا عویٰ ہے کہ صحیح تعریف میں تمام صفاتِ لازمہ شامل ہوں گی جو مجموعی حیثیت سے اُس شے کے سوا جس کی تعریف کی جاتی ہے کہیں اور پائی نہ جائیں، انفرادی حیثیت سے ممکن ہے کہ وہ دوسری اشیا میں بھی موجود ہوں۔
اب ہم کو اُن کے نظامِ مابعدالطبیعیات کی طرف رجوع ہونا چاہیے اور اس کا اندازہ لگانا چاہیے کہ اُنھوں نے اپنے ملک کے فلسفہ میں جو اضافہ کیا ہے اُس کی کیا قیمت ہے۔ شیخ کا قول ہے کہ ماورائی فلسفہ کے خالص عقلی پہلو کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک متعلّم کو چاہیے کو ارسطو کے فلسفۂ منطق، ریاضیات اور تصوف سے پوری واقفیت حاصل کرلے۔ گناہ اور تعصب کے داغ سے اُس کے ذہن کو بالکل پاک رہنا چاہیے تاکہ وہ بتدریج اس حاسۂ باطنی کو نمو دے سکے جس کا وظیفہ یہ ہے کہ جس چیز کو عقل محض نظری حیثیت سے سمجھ لیتی ہے اس کی تصحیح و تصدیق کرے۔ تنہا عقل ادراک کرنے کے قابل نہیں، اُس کو ہمیشہ “ذوق” سے (جو اشیا کے جوہر کا پُراسرار ادراک ہے) مدد لینی چاہیے جو بے چین روح کو علم و سکون بخشتا ہے اور تشکیک کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتا ہے۔ ہم کو اس روحانی تجربہ کے خالص تفکری پہلو یعنی باطنی ادراک کے نتائج سے تعلق ہے جن کو فکر انسانی منضبط و منظم کرتی ہے۔ لہٰذا ہم اشراقی فلسفہ کے مختلف پہلوئوں مثلاً وجودیات، کونیات اور نفسیات پر غور کریں گے۔
وجودیات
تمام موجودات کی انتہائی حقیقت نور قاہر ہے یعنی وہ ابتدائی نور مطلق جس کی ماہیت میں مستمر تجلی داخل ہے۔ نور سے زیادہ کوئی شے مرئی نہیں اور مرئیت کی تعریف تحصیل حاصل22 ہے۔ لہٰذا نور کی ماہیت ظہور ہے۔ اگر ظہور ایک ایسی صفت ہے جو نور پر اضافہ کی گئی ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ نور بذاتِ خود مرئی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی شے کے توسط سے مرئی ہوجاتا ہے جو بذاتِ خود مرئی ہے۔ اس سے یہ مہل نتیجہ نکلتا ہے کہ نور کے سوا ایک اور شے بھی ہے جو نور سے زیادہ مرئی ہے۔ لہٰذا اولیٰ وجود کی علت خود اس نور اولیٰ سے باہر نہیں۔ اس ابتدائی قوت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ قائم بالغیر اور ممکن الوجود ہے۔ ظلمت کوئی ایسی متمائز شے نہیں ہے جو کسی آزاد و قائم بالذات ماخذ سے ظہور پذیر ہوتی ہو۔ مجوسی مذہب کے نمایندوں کا یہ خیال کہ نور و ظلمت دو متمائز حقائق ہیں اور ان کو دو متمائز عوامل تخلیقی خلق کرتے ہیں، ایک غلطی پر مبنی ہے۔ ایران کے قدیم فلاسفہ اُن زرتشی پیشوایانِ مذہب کی طرح ثنوئین نہ تھے جنھوں نے اس خیال کی بنا پر کہ “ایک” اپنے اندر سے ایک سے زیادہ کو وجود میں نہیں لاسکتا،یہ قرار دیا تھا کہ نور و ظلمت کے دو مستقل ماخذ ہیں۔ ان دونوں کی باہمی نسبت تناقص پر مبنی نہیں، بلکہ ان وجود و عدم کا تعلق ہے۔ نور کے اثبات ہی میں اُس کی نفی پوشیدہ ہے، یعنی اپنے کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ظلمت کو منور کردیتا ہے۔ نورِ اولیٰ تمام حرکات کا مبدا و منفذ ہے، لیکن اُس کی حرکت تبدیل مقام نہیں بلکہ منور کرنے کی خواہش حرکت کا باعث ہوتی ہے اور اس کا جوہر بھی یہی ہے، یہی خواہش نور کو بے چین کردیتی ہے کہ اپنی شاعوں کو تمام اشیا پر منعکس کرکے ان میں زندگی کی ایک لہر دوڑا دے۔ اس سے جو تجلیات ظہور پذیر ہوتی ہیں، اُن کی تعداد محدود ہے۔ ایسی تجلیات جن کی روشنی میں شدت ہوتی ہے۔وہ دوسری تجلیات کا ماخذ بن جاتی ہیں۔ اور بتدریج اُن کی روشنی میں انحطاط شروع ہوتا ہے، اس کے بعد یہ تجلیات دوسری تجلیات کو پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ یہ تمام تجلیات ایسے وسائل یا علم الکلام کی زبان میں ایسے ملائکہ ہیں جن کے ذریعہ نورِ اولیٰ وجود کی لامحدود اقسام کو حیات و قیام عطا کرتا ہے۔ ارسطو کے پیروئوں نے غلطی سے عقول کی تعداد کو دس تک محدود کردیا تھا۔ مقولاتِ فکر کے شمار کرنے میں بھی ان سے اسی طرح کی غلطی صادر ہوئی۔ نورِ اولیٰ کے امکانات لامحدود ہیں، اور کائنات معہ اپنی کثرت و تعدد کے اُس لامحدودیت کا ایک جزوی ظہور ہے جو اس کے عقب میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ارسطو کے مقولات محض اضافی حیثیت سے صحیح ہیں۔ فکر انسانی کے لیے یہ ناممکن ہے کہ تصورات کی ان لامحدود قسموں کو اپنی فہم کی گرفت میں لاسکے جن کے مطابق نورِ اولیٰ اُن چیزوں کو منور کرتا ہے جو غیر نور ہیں۔ نورِ اولیٰ کی حسب ذیل تجلیات میں ہم امتیاز کرسکتے ہییں۔
(۱) نورِ مجرد (یعنی انفرادی و کلّی عقل)۔ اس کی کوئی صورت نہیں، یہ اپنے سوا کسی اور شے کی صفت نہیں بنتی (جوہر)۔ اس سے نور کی مختلف نیم شعوری، شعوری سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان کو اپنے ماخذ سے جس قدر قرب یا بُعد ہوتا ہے اُسی قدر اُن کی تنویر کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ انفرادی عقل یا رُوح نورِ اولیٰ کی ایک دھندلی سی شبیہ یا عکس بعیدہ ہے۔ نورِ مجرد خود کو خود اپنے ذریعہ سے جانتا ہے، اور کسی “غیر انا” کا یہ محتاج نہیں ہوتا جو اس کے وجود کو منکشف کرسکے۔ شعور یا علم ذات نورِ مجرد کا جوہر ہے، یہی نورِ مجرد کو نفیِ نور سے متمائز کرتا ہے۔
(۲) نورِ عارضی (صفت) یہ ایسا نور ہے جس کی کوئی ایک صورت ہوتی ہے اور جو اپنے سوا کسی اور سے کی صفت بننے کی قابلیت رکھتا ہے۔ (یعنی ستاروں کا نور یا دوسرے اجسام کی مرئیت)۔ نور عارضی یا صحیح معنوں میں نور محسوس، نورِ مجرد وہی کا عکس بعیدہ ہے جو بُعد کی وجہ سے اپنی شدت کو کھو دیتا ہے۔ مسلسل انعکاس کا عمل درحقیقت مدھم کرنے والا ہے۔ متواتر تجلیات بتدریج اپنی شدت کو کھو دیتی ہیں، اس انعکاس کے سلسلہ میں اہم ایسی تجلیات پر پہنچتے ہیں، جو بہت ہی مدھم ہوکر اپنی مستقل حیثیت کو بالکل گم کردیتی ہیں اور بغیر کسی دوسری شے کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں۔ انھی تجلیات پر نورِ عارضی مشتمل ہے، یعنی یہ ایسی صفت ہے جس کا کوئی مستقل آزاد وجود نہیں۔ لہٰذا نورِ عارضی و نور مرد کے مابین علت و معلول کا تعلق ہے۔ تاہم معلول ایسی شے نہیں ہے جو اپنی علت سے بالکل متمائز و جداگانہ ہو، یہ ایسی مفروضہ علت کا ایک تغیر یا ضعیف صورت ہوتی ہے۔ نورِ مجرد سے علیحدہ جو شے بھی ہو وہ نورِ عارضی کی علت نہیں ہوسکتی کیونکہ آخر الذکر (یعنی نورِ عارضی) محض ممکن الوجود ہے۔ اور اسی لیے اس کی نفی بھی کی جاسکتی ہے۔ اور اس کو اجسام سے، اُن کی ماہیت میں کوئی تبدیلی کیے بغیر، علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ جسم منور کا جوہر یا ماہیت، اگر نورِ عارضی کی علت ہوتی تو اُس کو نور سے ظلمت میں لانے کا عمل ناممکن ہوجاتا۔ ایک غیر فاعل23 علت کو ہم خیال میں نہیں لاسکتے۔
اب یہ واضح ہوگیا کہ شیخ الاشراق اشاعرہ سے اس بات میں مستحد الخیال ہیں کہ ارسطو کے مادہ، اولیٰ جیسی کوئی شے موجود نہیں ہے، گو وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نفیِ نور یعنی ظلمت کا وجود بھی لازمی ہے، ظلمت معروض نور ہے۔ جوہر و عروض کے سوا باقی مقولات کی اضافیت کی تعلیم میں بھی وہ اشاعرہ سے متفق ہیں۔ لیکن وہ اشاعرہ کے نظریۂ علم میں اس حد تک تصحیح کرتے ہیں جس حد تک کہ وہ علم انسانی میں ایک فاعلی عنصر کو مانتے ہیں۔ ہمارے معروضاتِ علم سے ہمارا تعلق بالکل انفعالی نہیں۔ انفرادی روح، خود بھی ایک تجلی ہونے کے لحاظ سے معروضِ علم کو عمل علم کے دوران میں منور کردیتی ہے۔ اس کے نزدیک کائنات فاعلی تنویر کا ایک زبردست عمل ہے، لیکن خالص عقلی نقطۂ نظر سے یہ تنویر و تجلی ایک جزوی اظہار ہے نورِ اولیٰ کی لامحدودیت کا جو ایسے قوانین کے مطابق منور کرسکتی ہے جن سے ہم لاعلم ہیں۔ مقولاتِ فکر لامحدود ہیں۔ ہماری فکر صرف چند مقولات کو لے کر عمل کرتی ہے۔ لہٰذا شیخ الاشراق مناظری نقطۂ نظر سے جدید اناسیت (Humanism) سے دور نہیں ہیں۔
کونیات
وہ تمام چیزیں جو “غیر نور” ہیں اُن کو اشراقی مفکرین “کمیتِ مطلق” یا “مادہ مطلق” کہتے ہیں۔ یہ صرف اثبات نور کا ایک دوسرا پہلو، یہ کوئی مستقل وجود نہیں جیسا کہ ارسطو کے پیروئن نے غلطی سے خیال کیا تھا۔ یہ واقعہ کہ ابتدائی عناصر ایک دوسرے سے متبدل و متغیر ہوجاتے ہیں اُس اساسی مادۂ مطلق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو معہ اپنے مختلف مدارج کثافت کے مادی وجود کے مختلف دوائر کو تشکیل دیتا ہے۔ تمام اشیا کی بنیاد کو دو اصناف تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) جو ماورائے مکان ہے، یعنی نامعلوم جوہر،یا سالمات (اشاعرہ کے جواہر)
(۲) جو لازماً موجود فی المکان ہے، یعنی ظلمت کی صورتیں جیسے وزن، بو، ذائقہ وغیرہ۔
ان دونوں کے اجتماع پر مادۂ مطلق مشتمل ہے۔ ایک مادی جسم ظلمت اور نامعلوم جوہر کے اجتماع کی صورت ہے، جس کو نورِ مجرد مرئی یا منور کردیتا ہے۔ لیکن ظلمت کی مختلف صورتیں کی علت کیا ہے؟ یہ بھی نور کی صورتوں کی طرح اپنے وجود کے لیے نورِ مجرد کے محتاج ہیں جس کی مختلف تجلیات سے موجودات میں کثرت و تعدد پیدا ہوتا ہے، وہ صورتیں جن کی بنا پر اجسام ایک دوسرے سے متمائز و مختلف ہوتے ہیں مادہ مطلق کی ذات میں موجود نہیں ہیں۔ کمیت مطلق اور مادۂ مطلق ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ اگر یہ صورتیں مادۂ مطلق کی ماہیت میں موجود ہوں تو ظلمت کی صورتوں کی حد تک تمام اجسام مماثل ہوں گے۔ بہرصورت ہمارا روزمرہ کا تجربہ اس کی تردید کردیتا ہے۔ لہٰذا ظلمت کی صورتوں کی علت مادہ مطلق نہیں ہے۔ اور چونکہ اختلاف صورت کی علت کسی اور شے کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا اس لیے یہ لازم آتا ہے کہ یہ نور مجرد کی مختلف تجلیات ہی کا نتیجہ ہیں۔ نور و ظلمت کی صورتوں کا وجود نورِ مجرد سے ماخوذ ہے۔ مادی جسم کا تیسرا عنصر یعنی نامعلوم جوہر یا سالمہ اثبات نور ہی کے ایک لازمی پہلو کے سوا اور کچھ نہیں۔ لہٰذا جسم حیثیت مجموعی بالکل نورِ اولیٰ پر قائم ہے۔ کل کائنات درحقیقت دوائر وجود کا ایک مستمر سلسلہ ہے، اور یہ سب ابتدائی نور ہی پر قائم ہیں۔ جو مبدا نور سے قریب ہیں، وہ زیادہ تجلی حاصل کرتے ہیں۔ ہر دائرہ کے موجودات کو اور خود ان دوائر کو غیر محدود درمیانی تجلیات کے ذریعہ سے روشنی، حاصل ہوتی ہے جو “ذی شعور نور” کی مدد سے وجود کی چند صورتوں کو محفوظ کرلیتے ہیں (جیسا کہ، انسان، حیوان اور نباتات میں ہوتا ہے، اور بعض بغیر اُس کی مدد کے (جیسا کہ فلزات اور ابتدائی عناصر میں ہوتا ہے) کثرت و تعدد کا یہ وسیع منظر جس کو ہم کائنات کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ ایک ظل و سایہ ہے۔ لامحدود تجلیات اور نورِ اولیٰ کی شعاعوں کا۔ اشیا میں ان تجلیات کی وجہ سے جن کی طرف یہ مسلسل حرکت کرتی ہیں، ایک عشق کا جذبہ اُبھر جاتا ہے۔ تاکہ وہ اصلی مبدا نور سے مستفیض ہوتی رہیں۔ کائنات محبت کا ایک ابدی ڈرامہ ہے۔ ہستی کے مختلف عوالم حسب ذیل ہیں۔
نورِ اولیٰ کا عالم
۱- عالم عقول۔ مبدا افلاک
۲- عالم روح۔
۳- عالم صورت۔
۱- عالم صورتِ مثالی
۱- عالم افلاک
۲- عالم عناصر
(ا) عناصر بسیط
(ب) عناصر مرکب
۲- عالم صورتِ مادی
(ا) افلاک
(ب) عناصر
(۱) عناصر بسیط (۱) اقلیم فلزاتی
(۲) عناصر مرکب (۲) اقلیم نباتی
(۱) اقلیم فلزاتی (۳) اقلیم حیوانی
(۲) اقلیم نباتی
(۳) اقلیم حیوانی
ہستی کی عام ماہیت کو اجمالی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ اب ہم عمل کائنات کو زیادہ تفصیلی طور پر جانچیں گے۔ جو کچھ “غیر نور” ہے اس کی تقسیم حسب ذیل ہے۔
(۱) ازلی یعنی عقول، ارواحِ اجرامِ فلکی، فلک، عناصر، زبان و حرکت۔
(۲) ممکن الوجود یعنی مختلف عناصر کے مرکبات۔ افلاک کی حرکت ازلی ہے اور اسی سے کائنات کے مختلف دوائر تشکیل پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روحِ فلکی میں مبدا نور سے تجلی حاصل کرنے کی ایک شدید اور زبردست خواہش پائی جاتی ہے۔ وہ مادہ جس سے افلاک کی تعمیر ہوئی ہے، کیمیائی اعمال کے اثر سے بالکل آزاد ہے۔ ہر فلک اپنا ایک خاص مادہ رکھتا ہے، جو اسی کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ افلاک اپنی حرکت کی سمت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور اس اختلاف کی توجیہ اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ محبوب یا قائم رہنے والی تجلی ہر ایک فلک میں مختلف ہوتی ہے۔ حرکت زمان کا محض ایک پہلو ہے۔ یہ گویا زمان کے عناصر کو اکٹھا کرتا ہے اور جب ان عناصر کو خارجیت حاصل ہوجاتی ہے تو اُس کو حرکت کہتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل میں صرف سہولت کی خاطر فرق کیا جاتا ہے، لیکن یہ فرق زمان کی ماہیت میں موجود نہیں24 ہوتا۔ ہم زمان کے آغاز کا تعقل نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہ مفروضہ آغاز خود زمان ہی کا ایک نقطہ ہوگا۔ لہٰذا زمان و حرکت، دونوں ازلی ہیں۔
آب، باد اور خاک تین ابتدائی عناصر ہیں۔ الاشراقی کے نزدیک آتش محض ایک باد سوزان ہے۔ ان عناصر کے مجموعے مختلف افلاک کے اثرات کے تحت مختلف صورتیں مثلاً سیال، غاز، جامد وغیرہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ان ابتدائی عناصر کے تغیر و تبدل سے “تعمیر و انہدام” کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو غیر نور کے کل دائرے میں جاری و ساری ہے اور وجود کی مختلف صورتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر لے جاتا اور اُن کی تنویر کی قوتوں سے قریب تر کردیتا ہے۔ فطرت کے تمام مظاہر جیسے بارش، بادل، برق شہاب، ثاقب وغیرہ حرکت کی اسی باطنی قوت کے مختلف اعمال ہیں۔ اس کی توجیہ اس طرح کی جاتی ہے کہ اشیا پر نورِ اولیٰ بالواسطہ یا بالاواسطہ عمل و اثر کرتا ہے، تجلی حاصل کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے، اشیا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختصر الفاظ میں کائنات ایک خواہش بلوریں ہے۔
لیکن کیا یہ ازلی ہے؟ کائنات قوتِ تنویر کا ایک مظہر ہے، اور قوتِ نورِ اولیٰ کی اصل ماہیت میں داخل ہے۔ لہٰذا جس حد تک کہ کائنات ایک مظہر ہے یہ ایک قائل بالغیر ہستی ہے اور اس لیے یہ ازلی نہیں۔ لیکن ایک دوسرے مفہوم میں یہ ازلی بھی ہے۔ ہستی کے تمام مختلف دوائر نورِ ازلی کی تجلیات و شعاعوں کی وجہ سے موجود ہیں۔ بعض تجلیات ایسی ہیں جو براہِ راست ازلی ہیں۔ اور بعض ایسی مدھم بھی ہیں کہ ان کا ظہور دوسری تجلیات و شعاعوں کے اجتماع پر مبنی ہے۔ ان کا وجود اُن معنوں میں ازلی نہیں جن معنوں میں کہ مابل تجلیات کا ہے۔ مثلاً رنگ اُس شعار کے مقابلہ میں ممکن الوجود ہے جو کسی تاریک جسم کو، جب کہ وہ اُس کے سامنے لایا جاتا ہے، منور کرکے رنگ کو ظہور میں لاتی۔ لہٰذا کائنات بحیثیت ایک مظہر کے ممکن الوجود ہے، لیکن چونکہ اس کے مبدا کی نوعیت ازلی ہے اس لیے یہ بھی ازلی ہے۔ جو لوگ کائنات کی ازلیت کو نہیں مانتے۔ وہ اس بات کو فرض کرکے بحث کرتے ہیں کہ استقرا تام ممکن ہے۔ یہ استدلال حسب ذیل طریقہ سے کیا جاتا ہے۔
(۱) حبشیوں میں ہر ایک سیاہ ہے۔
٭تمام حبشی سیاہ ہیں۔
(۲) ہر ایک حرکت ایک معینہ لمحہ میں شروع ہوئی۔
٭ تمام حرکت کواسی طرح شروع ہونا چاہیے۔
لیکن یہ طرزِ استدلال بالکل ناقص ہے۔ اس میں مقدمہ کبریٰ کو پیش کرنا بالکل ناممکن ہے۔ کوئی شخص ماضی، حال اور مستقبل کے تمام حبشیوں کو کسی خاص لمحہ وقت میں اکٹھا نہیں کرسکتا لہٰذا ایسا کلیہ ناممکن ہے۔ حبشیوں میں افراد کے مشاہدہ سے، یا حرکت کی اُن خاص خاص مثالوں سے جو ہمارے تجربہ کے دائرہ میں آجاتی ہیں یہ نتیجہ نکالنا ایک لغویت ہے کہ تمام حبشی سیاہ ہیں یا تمام حرکت کا آغاز زمان میں ہوا ہے۔
نفسیات
ادنیٰ درجہ کے اجسام میں حرکت اور نور متلازم نہیں ہیں۔ مثلاً پتھر کا ایک ٹکڑا اگرچہ منور ہوکر مرئی ہوگیا ہے لیکن اس میں خود بخود حرکت کرنے کی قوت ودیعت نہیں ہے۔ سلسلہ موجودات پراوپر کی طرف نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے اعلیٰ درجہ کے اجسام بھی ملتے ہیں جن میں حرکت اور نور کے ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ تجلی مجرد کی سکونت کا بہترین مقام انسان ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انفرادی تجلی مجرد جس کو ہم روح کہتے ہیں اپنی طبعی لوازمہ (یعنی جسم) سے پہلے موجود تھی یا نہیں اس سوال کے متعلق فلسفۂ اشراق کے بانی نے ابن سینا کی تقلید کی ہے اور اس استدلال کو پیش کرکے یہ بتلایا ہے کہ انفرادی تجلیاتِ مجردہ نورکی اکائیوں کی حیثیت سے ظہور میں آنے سے پہلے موجود نہیں رہ سکتیں۔ وحدت و کثرت کے مادی مقولات کا اطلاق تجلی مجرد پر نہیں کیا جاسکتا، جس کی اصل ماہیت میں نہ وحدت ہے نہ کثرت۔ اور اس میں جو کثرت نظر آتی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مادی لوازمات میں تجلی حاصل کرنے کے مدارج مختلف ہیں۔ تجلی مجرد یا روح اور جسم میں جو علاقہ ہے وہ علت و معلول کا علاقہ نہیں بلکہ ان دونوں کے مابین محبت ایک رابطہ اتحاد ہے۔ جو جسم تجلی کا خواہش مند ہوتا ہے وہ روح کے ذریعہ سے اس کو حاصل کرتا ہے کیوں کہ اس کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ جسم میں اور مبدا نور میں براہِ راست تعلق قائم کرنے میں حائل ہوتی ہے۔ لیکن اُس نور کو جو براہِ راست حاصل کرتی ہے تاریک اور ٹھوس جسم میں منتقل نہیں کرسکتی، کیوںکہ جسم بلحاظ اپنی صفات کے ہستی کی ایک مخالف سمت میں واقع ہے۔ ان دونوں میں تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک واسطہ کی ضرورت ہے۔ یہ واسطہ ایک چیز ہے جو نور اور ظلمت کے درمیان واقع ہے۔ یہ واسطہ روحِ حیوانی ہے۔ یہ ایک گرم، لطیف اور شفاف بخار ہے جس کا خاص مقام دل کی بائیں جانب ہے، لیکن یہ سارے جسم میں گردش بھی کرتا ہے۔ چونکہ روح حیوانی میں اور نور میں ایک جزوی مماثلت ہے اسی لیے تاریک راتوں میں بری جانور آتش سوزاں کی طرف لپکتے ہیں اور بحری جانور اپنے آبی مسکن کو چھوڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ تاکہ چاندنی کے دل کش نظارہ سے لطف اُٹھا سکیں۔ اس لیے ہستی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج طے کرنا اور زیادہ سے زیادہ تجلی حاصل کرنا انسان کا نصب العین ہے، اس طریقہ سے بتدریج عالم صور سے مکمل آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ نصب العین کس طرح متحقق ہوسکتا ہے؟ علم اور عمل سے۔ عقل اور ارادہ دونوں کو متبدل کرنے سے، فکر و عمل کے اتحاد سے انسان کا اعلیٰ ترین نصب العین متحقق ہوتا ہے۔ کائنات سے متعلق تم اپنے نقطۂ نظر کو بدل دو اور کردار کے اس طریقہ کو اختیار کرو جو اس تغیر سے پیدا ہوتا ہے۔ اب ہم تحقق نصب العین کے ذرائع پر اجمالی طور پر غور کریں گے۔
(ا) علم جب تجلی مرد اپنے آپ کو کسی اعلیٰ جسم سے وابستہ کردیتی ہے تو وہ چند ملکات یعنی نور و ظلمت کی قوتوں کے عمل سے اپنے آپ کو نمو دیتی ہے۔ اوّل الذکر حواس خمسۂ ظاہری و باطنی پر مستمل ہے۔ مثلاً مرکز حسی، تصور، تخیل، فہم اور حافظہ وغیرہ اور آخر الذکر نشوونما اور انہضام کی قوتوں پر (مشتمل) ہے۔ صرف سہولت کی خاطر ملکات کی اس طرح تقسیم کی گئی ہے۔ “ایک ملک تمام اعمال کا ماخذ ہوسکتا25 ہے۔” دماغ کے درمیانی حصہ میں صرف ایک ہی قوت ہے۔ لیکن مختلف نقاط نظر سے اس کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ذہن ایک وحدت ہے جو سہولت کی خاطر ایک کثرت سمجھا جاتا ہے۔ اس قوت کو جو دماغ کے درمیانی حصہ میں ہے اُس تجلی مجرد سے متمائز کرنا چاہیے جو انسان کا حقیقی جوہر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفۂ اشراق ذہن فاعل اور روحِ منفعل کے مابین ایک امتیاز پیدا کرتے ہیں، پھر بھی وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ مختلف ملکات ایک پُراسرار طریقے سے روح سے علاقہ رکھتے ہیں۔
ان کی نفسیات تعقل میں ان کا نظریۂ روئیت ایک ایسی چیز ہے جس میں بہت بڑی جدت اور اُپج26 پائی جاتی ہے۔ وہ شعاع نور جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آنکھ سے نکلتی ہے یا جوہر ہے یا صفت۔ اگر وہ صفت ہے تو ایک جوہر (آنکھ) سے دوسرے جوہر (جسم مرئی) میں منتقل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برخلاف اگر وہ جوہر ہے تو شعوری طور پر یا اپنی خلقی ماہیت سے مجبور ہوکر حرکت کرے گی شعوری حرکت حیوان سے سرزد ہوتی ہے جو اشیا کا ادراک کرتا ہے، ایسی صورت میں ادراک کرنے والی ہستی انسان نہیں بلکہ شعاع ہے۔ اگر شعاع کی حرکت اس کی ماہیت ہی کی ایک صفت ہے تو اس کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایک خاص سمت میں حرکت کرے اور دوسری سمتوں میں نہیں۔ لہٰذا شعاع نور کے متعلق یہ نہیں خیال کیا جاسکتا کہ وہ آنکھ سے نکلتی ہے۔ ارسطو کے پیرو کہتے ہیں کہ عمل روئیت میں اشیا کی تمثال و شبیہ آنکھ پر مرتسم ہوجاتی ہے۔ یہ خیال بھی غلط ہے، کیں کہ ایسی اشیا کی تمثال جو بہت بڑی ہوتی ہیں ایک چھوٹی سی جگہ پر مرتسم نہیں ہوسکتی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شے آنکھوں کے آگے آتی ہے تو ایک تجلی وقوع پذیر ہوتی ہے، اور اس تجلی کے ذریعہ سے ذہن اس شے کو دیکھتا ہے۔ جب کسی شے اور اوسط درجہ کی بصارت کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا اور ذہن ادراک کرنے کے لیے تیار رہتا ہے تو عمل رویت کو وقوع پذیر ہوجانا چاہیے۔ کیوںکہ اشیا کا قانون ہی یہی ہے۔ “تمام رویت ایک تجلی ہے اور ہم اشیا کو خدا میں دیکھتے ہیں۔” بارگلے نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تمام تصورات کی آخری بنیاد خدا ہے، ہمارے بصری ادراکات کی اضافیت کی تشریح کی ہے۔ ایک اشراقی فلسفی کے پیش نظر بھی یہی مقصد ہوتا ہے گو اس کا نظریۂ رویت عملی بصارت کی کوئی ایسی توجیہ نہیں کرتا جس کی بنا پر واقعہ رویت پر ایک نئے طریقہ سے غور کیا جائے۔
حواس و عقل کے علاوہ علم کا ایک اور ماخذ ہے۔ جس کو ذوق سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی یہ ایک باطنی ادرا ہے جو ہستی کے غیر زمانی و غیر مکانی عوالم کو منکشف کردیتا ہے۔ فلسفہ کا مطالعہ یا تصورات خالص پر غور و فکر کی عادت جب نیکوکاری سے متحد ہوجاتی ہے تو اس سے اس پر اسرار حاسیہ کی پرورش ہوتی ہے یہ حاسہ عقل کے اخذ کردہ نتائج کی تصحیح و تصدیق کرتا ہے۔
(ب) انسان میں بحیثیت ایک ہستیِ فاعل کے حسب ذیل قوائے محرکہ ہیں:
(۱) عقل یا روح ملکوتی۔ یہ فہم، امتیاز اور حب علم کا ماخذ ہے۔
(۲) روحِ حیوانی۔ جو غضب، شجاعت، اقتدار اور بلند ہمتی کا ماخذ ہے۔
(۳) روحِ بہیمی۔ جو نفس پرستی، اشتہا اور شہوانی جذبہ کا ماخذ ہے۔ پہلی صورت حکمت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور دوسری و تیسری صورتیں اگر ان کو عقل کے قابو میں رکھا جائے تو شجاعت و عفت کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس سب کو ہم آہنگی توافق کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ عدل جیسی فضیلت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے نیکی کے ذریعہ سے روحانی ترقی کا امکان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ عالم ایک بہترین ممکنہ عالم ہے۔ اشیا جس طرح کہ وہ موجود ہیں، نہ بری ہیں نہ بھلی۔ ان کا غلط استعمال یا اُن کے متعلق غلط نقطۂ نظر ان کو برا یا بھلا بنا دیتا ہے۔ پھر بھی شر کے واقعہ سے انکا رنہیں کیا جاسکتا۔ شر موجود ہے لیکن خیر کے مقابلہ میں اس مقدار بہت ہی کم ہے۔ یہ عالم ظلمت کے صرف ایک حصہ سے مخصوص ہے، لیکن کائنات کے اور بھی حصے ہیں جو شر کے داغ سے بالکل پاک ہیں۔ ایک ارتیابیہ جب شر کے وجود کو خدا کی تخلیقی قوت سے منسوب کرتا ہے تو گویا وہ یہ فرض کرلیتا ہے کہ انسان اور ربانی فعل میں مماثلت ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ جو شے موجود ہے وہ خود اسی کے مفہوم میں آزاد نہیں۔ ربانی فعلیت اُن معنوں میں خالق شر نہیں سمجھی جاسکتی جن معنوں میں کہ انسانی فعلیت کی بعض صورتوں کو ہم شر کی علت سمجھتے ہیں۔27
پس علم اور نیکی کے اتحاد سے روح اپنے آپ کو عالم ظلمت سے آزاد کرلیتی ہے۔ جوں جوں ہم اشیا کی ماہیت کو جاننے لگتے ہیں جو عالم نور سے قریب ہوتے جاتے ہیں، اور اس عالم کا عشق ہم میں شدت اختیار اختیار کرتا جاتا ہے۔ روحانی ترقی کے مدارج لامحدود ہیں، کیوں کہ محبت کے مدارج بھی لامحدود ہیں۔ اس کے خاص خاص مدارج ہیں:
(۱) “انا” کا درجہ۔ اس منزل میں شخصیت کا احساس زیادہ غالب رہتا ہے۔ اور انسانی افعال کا مبدا و مصدر خود غرض ہوتی ہے۔
(۲) یہ درجہ “تو نہیں ہے” کا ہے۔ یہاں انسان خود اپنے “انا” کی گہرائیوں میں بالکل جذب ہوکر تمام خارجی اشیا کو بھول جاتا ہے۔
(۳) یہ درجہ “میں نہیں ہوں” کا ہے۔ یہ دوسرے درجہ کا لازمی نتیجہ ہے۔
(۴) یہ درجہ “توہے” کا ہے۔ اس میں “انا” کی کلیتہً نفی کی جاتی ہے اور “تو” کا اثبات، جس کے معنی اپنے آپ کو مرضی الٰہی کے بالکل تابع کردینے کے ہیں۔
(۵) یہ درجہ “میں نہیں ہوں اور تو نہیں ہے” کا ہے۔ اس میں فکر کے دونوں اطراف کی مکمل نفی کی جاتی ہے۔ یعنی یہ کونی شعور کی حالت ہے۔
ہر منزل میں تجلیات کی شدت سے کم یا زیادہ ہوتی ہے،ا ور اُن کی معیت میں بعض ناقابل تشریح آوازیں بھی ہوتی ہیں۔ موت روح کی روحانی ترقی کو مسدود نہیں کردیتی۔ مرنے کے بعد انفرادی ارواح کسی ایک روح میں متحد نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک دوسرے سے اُسی تناسب سے علیحدہ رہتی ہیں جس تناسب سے کہ اُن کو اُس زمانہ میں تجلی حاصل ہوئی ہے جب کہ وہ اپنے مادی جسموں سے متحد تھیں۔ اشراقی فلسفی نے لائبنز کے نظریۂ مماثلت غیر ممیزات کی پیش بینی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ کوئی دو ارواح ایک دوسرے سے مماثل28 نہیں ہیں۔ جب یہ مادی مشین جس کو روح بتدریج تجلی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے، زائل ہوجاتی ہے تو غالباً روح کسی دوسرے جسم کو اختیار کرلیتی ہے اور وجود کے مختلف دوائر میں اعلیٰ سے اعلیٰ منزل طے کرتی جاتی ہے اور ایسی صورتیں اختیار کرتی جاتی ہے جو ان دوائر کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی منزل مقصود کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ نفیِ مطلق کی حالت ہے۔ غالباً بعض ارواح اس دنیا میں واپس آجاتی ہیں، تاکہ اپنے نقائص اور کمزوریوں کو رفع کرلیں۔29 تناسخ کے نظریہ کو، اگرچہ یہ روح کے مستقبل کی توجیہ کے لیے ایک امکانی نظریہ ہے خالص منطقی نقطۂ نظر سے ثابت یا باطل نہیں کیا جاسکتا۔ تمام ارواح اپنے مشترکہ ماخذ کی طرف سفر کررہی ہیں۔ یہ ماخذ اس سفر کے اختتام کے بعد کل کائنات کو اپنی طرف واپس بلا لیتا ہے، اور ہستی کے دوسرے دائرہ کا آغاز کرتا ہے۔ تاکہ گذشتہ دوائر کی تاریخ کو یہ تمام و کمال پھر پیدا کرے۔
اس ایرانی شہید کے فلسفہ کا یہ ماحصل ہے۔ صحیح معنوں میں یہی پہلا ایرانی ہے جس نے یہ تسلیم کیا کہ ایرانی تفکر کے تمام شعبوں میں صداقت کے عناصر موجود ہیں اور خود اپنے نظامِ فلسفہ میں ان عناصر صداقت کو دقیق النظری سے مرتب ومنضبط کرتا ہے۔ جب وہ خدا کی یہ تعریف کرتا ہے کہ وہ تمام محسوس تصوری وجود کا مجموعہ ہے تو اس لحاظ سے وہ ہمہ اوست30 کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک برخلاف متقدمین صوفیا کے کائنات ایک حقیقی شے ہے۔ اور روحِ انسانی ایک متمائز انفرادیت رکھتی ہے۔ ایک راسخ العقیدہ متکلم سے وہ اس دعویٰ میں متحد الخیال ہے کہ ہر ایک مظہر کی انتہائی علت نورِ مطلق ہے۔ جس کی تجلی کائنات کا اصلی جوہر ہے۔ نفسیات میں وہ ابن سینا کی تقلید کرتا ہے۔ لیکن علم کے اس شعبہ پر وہ زیادہ منضبط اور زیادہ تجربی حیثیت ڈالتا ہے۔ اخلاقی فلسفی کی حیثیت سے وہ ارسطو کی تقلید کرتا ہے۔ جس کے نظریۂ وسیلہ کی اُس نے نہایت ہی جامعیت کے ساتھ توضیح و تشریح کی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ روایتی فلاطونیت کو بالکل ایرانی نظامِ فکر میں متبدل کردیتا ہے۔ جو نہ صرف فلاطون سے قریب ہوجاتی ہے بلکہ اس طریقہ سے قدیم ایرانی ثنویت پر بھی روحانی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ اس ایرانی شہید سے زیادہ کسی اور ایرانی مفکر کو اس ضرورت کا احساس نہیں ہوا کہ وجود خارجی کے تمام پہلوئوں کی توجیہ اُس کے اساسی اصول کے حوالہ سے کی جائے۔ وہ ہمیشہ تجربہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور طبعی مظاہر کی توجیہ بھی اپنے نظریۂ تجلی کی روشنی میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خارجیت جو ہمہ اوست کی انتہائی باطنیت میں بالکل دب ئی تھی اس کے نظام فلسفہ کو اُبھر آتی ہے، جس میں اُس کی تفصیلی تحقیق و تفتیش کے بعد ایک جامع توجیہ کی گئی ہے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ دقیق النظر فلسفی ایک ایسا نظامِ فکر تعمیر کرنے میں کامیاب ہوا جو نفوسِ انسانی کو ہمیشہ متحیر کرتا رہا اور جس نے فکر و جذبہ میں ایک مکمل اتحاد و توافق پیدا کردیا۔ اس کے معاصری کو تہ نظری نے اُس کو مقتول کا خطاب دیا، جس کے یہ معنی بھی نکل سکتے ہیں کہ اس کو شہید نہ سمجھنا چاہیے۔ لیکن مابعد کے صوفیا و فلاسفہ نے ہمیشہ اس کا بہت احترام کیا ہے۔
میں یہاں اشراقی طریقۂ فکر کی ایک ایسی صورت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جس میں روحانیت31 کم ہے۔ نسفی نے صوفیانہ تخیل کے ایک ایسے پہلو کو پیش کیا ہے جو مانی کی قدیم مادی ثنویت کی طرف لوٹتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ نور و ظلمت ایک دوسرے کے متلازم ہیں۔ یہ درحقیقت دو نہریں ہیں جو تیل اور دودھ32 کی طرح ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ انھیں میں سے اشیا کی کثرت و تعدد ظہور پذیر ہوتا ہے افعالِ انسانی کا نصب العین ظلمت کی آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے۔ نور کے ظلمت سے آزاد ہونے کے یہ معنی ہیں کہ نور کو بحیثیت نور کے شعور ذات حاصل ہوجائے۔
۲- حقیقت بحیثیت فکر کے… الجیلی
الجیلی، جیسا کہ خود اس نے اپنے کسی شعر میں کہا ہے، ۷۶۷ء میں پیدا ہوا۔ ۸۱۱ء میں وفات پائی۔ الجیلی ایسا مصنف نہیں تھا جس نے شیخ محی الدین ابن عربی کی طرح کوئی جدید تخیل پیش کیا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ الجیلی کی تعلیمات پر شیخ محی الدین ابن عربی کے طریقۂ تفکر کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ اس میں شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ دقیق النظری گھل مل گئی تھی۔ لیکن اس کی شاعری اس کے صوفیانہ اور مابعد الطبعی نظریات کا اظہار کا محض ایک آلہ تھی۔ اس نے منجملہ اور تصانیف کے شیخ محی الدین ابن عربی کی شرح “بسم اللہ” جو فتوح المکیہ کے نام سے موسوم ہے ایک شرح لکھی اور انسان کامل بھی اس کی مشہور تصنیف ہے (مطبوعہ قاہرہ)
اس کا خیال ہے کہ خالص اور بسیط جوہر ایک ایسی شے ہے جس پر اسما اور اعراض کا اطلاق نہیں کیا جاتا ہے۔ خواہ اس کا وجود واقعی ہو یا تصوری، وجود کی دو قسمیں ہیں:
(۱) وجود مطلق یا وجود خالص…… …خدا
(۲) وجود جو عدم سے مرکب ہے……فطرت
خدا کا جوہر یا فکر خالص ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ اور کوئی لفظ اس کو ظاہر نہیں کرسکتا کویں کہ یہ ماورا ئے علائق ہے۔ اور علم تو ایک علاقہ یا نسبت کا نام ہے۔ عقل لامتناہی فضائے بسیط میں سے پرواز کرکے اسما و اعراض کو پردہ کو چاک کرتے ہوئے اور زمان کے ایک وسیع دائرہ کو طے کرتے ہوئے اقلیم عدم میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں اس کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فکر خالص ایک وجود ہے۔ جو عدم ہے یہ متناقضات کا ایک مجموعہ33 ہے۔ اس کے دو خواص ہیں۔ حیات ازلی بزمانِ ماضی، اور حیات ازلی بزمان مستقل۔ اس کی دو صفات ہیں، خدا اور تخلیق اس کی دو تعریفیں ہیں ناقابل تخلیق ہونا اور قابل تخلیق ہونا۔ اس کے دو نام ہیں، خدا اور انسان۔ اس کی دو صورتیں ہیں، ظاہر (یہ دنیا) اور پوشیدہ (عقبیٰ)۔ اس کے دو معلولات ہیں، جبر اور مکان۔ اس کے دو نقاط نظر ہیں، پہلے نقطۂ نظر سے یہ اپنے لیے معدوم اور اپنے سے ماسوا کے لیے موجود اور دوسرے نقطۂ نظر سے یہ اپنے لیے موجود اور اپنے سے ماسوا کے لیے معدوم۔
وہ کہتا ہے کہ اسم مسمٰی کو ہماری فہم میں جما دیتا ہے، ذہن میں اس کی تصویر کھینچ دیتا ہے، تخیل میں اُس کو مستحضر کرتا ہے اور حافظہ میں محفوظ کردیتا ہے۔ اسم مسمٰی باطن کا خارج یاپوست ہے۔ لیکن مسمٰی باطن یا مغز ہے۔ بعض اسما درحقیقت موجود نہیں ہوتے۔ ان کا وجود برائے نام ہوتا ہے۔ جیسے عنقا۔ یہ ایک اسم ہے جس کا مسمٰی درحقیقت نہیں ہے۔ پس خدا بھی مطلقاً موجود ہے گو ہم اس کو چھو یا دیکھ نہیں سکتے۔ “عنقا” صرف تصور میں موجود ہے، لیکن “اللہ” کے اسم کا مسمٰی فی الواقعی موجود ہے۔ اور اس کا علم بھی “عنقا” کی طرح اسما و اعراض ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اسم ایک آئینہ ہے جو ہستیِ مطلق کے تمام اسرار کو منکشف کردیتا ہے۔ یہ ایک روشنی ہے جس کے ذریعہ سے خدا اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ یہاں الجیلی فرقہ اسماعیلیہ کے اس نقطۂ نظر کے قریب پہنچ گیا ہے کہ مسمٰی کو اسم کے ذریعہ سے تلاش کرنا چاہیے۔
اس عبارت کو سمجھنے کے لیے ہم کو ہستیِ خالص کے ارتقا کے اُن تین منازل کو ذہن نشین رکھنا چاہیے جو اس نے یہاں گنوائے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ہستیِ مطلق باوجود خالص ہونے کے اپنی مطلقیت کو چھوڑنے کے بعد تین منازل سے گذرتی ہے۔ (۱) احدیت (۲) غیریت (۳) ذاتیت۔ پہلی منزل میں تمام اعراض و علائق کا فقدان ہوتا ہے۔ پھر بھی اس کو واحد ہی کہتے ہیں۔ اس لیے احدیت مطلقیت سے ایک قدم ہٹ جاتی ہے۔ دوسری منزل میں ہستیِ خالص تمام مظاہر سے آزاد رہتی ہے۔ اور تیسری منزل یعنی ذاتیت خود غیریت ہی کا ایک خارجی مظہر ہے، یا جیسا کہ ہیگل اس کی تعبیر کرے گا یہ انفصال ذاتِ باری ہے۔ یہ تیسری منزل اسم اللہ کا دائرہ ہے۔ یہاں ہستیِ خالص کی ظلمت کو منور کیا جاتا ہے۔ فطرت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ ہستیِ مطلق باوجود خالص ہونے کے اپنی مطلقیت کو چھوڑنے کے بعد تین منازل سے گذرتی ہے۔ (۱) احدیت (۲) غیریت (۳) ذاتیت۔ پہلی منزل میں تمام اعراض و علائق کا فقدان ہوتا ے۔ پھر بھی اس کو واحد ہی کہتے ہیں۔ اس لیے احدیت مطلقیت سے ایک قدم ہٹ جاتی ہے۔ دوسری منزل میں ہستیِ خالص تمام مظاہر سے آزاد رہتی ہے۔ اور تیسری منزل یعنی ذاتیت خود غیریت ہی کا ایک خارجی مظہر ہے، یا جیسا کہ ہیگل اس کی تعبیر کرے گا یہ انفصال ذاتِ باری ہے۔ یہ تیسری منزل اسم اللہ کا دائرہ ہے۔ یہاں ہستیِ خالص کی ظلمت کو منور کیا جاتا ہے۔ فطرت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ ہستیِ مطلق ذی شعور ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ اسم اللہ ایک چیز ہے جس سے الوہیت کے مختلف پہلو کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ ہستیِ خالص کی ترقی کی دوسری منزل میں انفصالِ ذات ربانی کا جو کچھ نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ اسی اسم کی گرفت میں بالقوا موجود تھا جس نے ارتقا کی تیسری منزل میں آخر خارجیت اختیار کرلی اور ایک ایسا آئینہ بن گیا، جس میں خدا نے اپنے آپ کو منعکس کیا۔ پس اس طرح اسم اللہ نے اپنے آپ کو شفاف کرکے ہستیِ مطلق کی تاریکی کو دور کردیا۔
ارتقا مطلق کی ان تین منازل میں انسانِ کامل کی روحانی تادیب کی بھی تین منازل ہیں۔ لیکن انسانِ کامل کے عمل ارتقا کو معکوس ہونا چاہیے کیوں کہ اس کا عمل ارتقا ترقی کی طرف ہے۔ اور ہستیِ مطلق تو دراصل منزل کی طرف آتی ہے۔ اپنی روحانی ترقی کی پہلی منزل میں وہ اس اسم پر استغراق کرتا ہے اور اُس فطرت کا مطالعہ کرتا ہے جس پر یہ اسم مرتسم ہے۔ دوسری منزل میں وہ عرض کے دائرہ میں قدم رکھتا ہے۔ تیسری منزل میں جوہر کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ انسانِ کامل بنتا ہے۔ اُس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کا کلام خدا کا کلام، اور اُس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔ یعنی وہ فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوجاتا ہے۔ اور “اشیا کا رازِ حیات معلوم کرلیتا ہے۔”
اب عرض کی ماہیت پر غور کرنا چاہیے۔ اس دلچسپ سوال کے متعلق اس کے خیالات بہت ہی اہم ہیں کیوں کہ یہی وہ نقطہ ہے جہاں اس کا نظریہ ہندی تصوریت سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔ اس نے عرض کی یہ تعریف کی ہے کہ یہ ایسا وسیلہ ہے جس34 سے اشیا کی حالت کا علم ہاصل ہوتا ہے۔ کسی اور جگہ وہ کہتا ہے کہ عرض میں اور حقیقت پنہاں میں جو امتیاز ہے وہ صرف مطاہر کے دائرہ میں قائم رہ سکتا ہے، کیوں کہ یہاں ہر ایک عرض کو اُس حقیقت کے ماسوا سمجھا جاتا ہے جس میں یہ قائم ہے۔ اس غیریت کی وجہ یہ ہے کہ مظاہر کے دائرہ میں اتصال و انفصال کا وجود ہے۔ لیکن یہ امتیاز حقیقت پنہاں کے قلمرو میں قاعم نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ یہاں اتصال و انفصال ہی نہیں ہے۔ یہ ذہن نشیں رکھنا چاہیے کہ نظریۂ”مایا” کے حامیوں سے یہ کس قدر زبردست اختلاف رکھتا ہے۔ اس کا یقین ہے کہ عالم مادی کا وجود حقیقی ہے، بلاشبہ یہ ہستیِ حقیقی کا خارجی پوست ہے لیکن یہ خارجی پوست بھی کچھ کم حقیقی نہیں۔ اس کے نزدیک عالم حادث کی علت کوئی ایسی حقیقی ہستی نہیں جو اعراض کے مجموعہ کے عقب میں پوشیدہ ہے، بلکہ یہ ایک تصور ہے، جو ذہن کا آفریدہ ہے۔ لہٰذا مادی عالم کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ بارکلے اور فشٹے اس حد تک ہمارے مصنف کے اتفاق کریں گے لیکن کا نقطۂ نظر ہیگل کے فکر و ہستی کی عینیت کے مخصوص نظریہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانِ کامل جلد باب باب۳۷ میں اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ تصور ہی وہ مواد ہے جس سے کائنات نے تشکیل پائی ہے۔ فکر، تصور اور ادراک ہی وہ مواد و مسالہ ہیں جس سے فطرت کی ساخت ہوئی ہے۔ اس نظریہ پر زور دیتے ہوئے وہ کہتا ہے، کیا تم اپنے اعتقاد پر غور نہیں کرتے؟ وہ حقیقت کہاں ہے جس میں یہ نام نہاد اعراض ربانی قائم ہیں؟ وہ تصور کے سوا کچھ اور نہیں۔” پس فطرت ایک متشکل تصور کے سوا اور کوئی شے نہیں۔ وہ کانٹ کی “تنقید عقل خالص” کے نتائج کو دل سے تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف وہ اسی تصور کو کائنات کا جوہر بنا دیتا ہے۔ اس کے نزدیک “شے بذات خود” عدم محض ہے، اعراض کے مجموعہ کے عقب میں کوئی شے نہیں۔ اعراضِ حقیقی اشیا میں، عالم مادی ہستیِ مطلق کی خارجی صورت ہے۔ یہ ہستیِ مطلق ہی کی ایک دوسری ذات ہے یہ دوسری ذات اُس قوتِ تفریق سے وجود میں آئی ہے جو ہستیِ مطلق ہی کے مایۂ خمیر میں داخل ہے۔ فطرت خدا کے ذہن کا ایک تصور ہے۔ یہ ایسی شے ہے جس کے بغیر خدا اپنی ذات کا علم حاصل نہیں کرسکتا۔ ہیگل اپنے نظریہ کو فکر و ہستی کی عینیت سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن الجیلی اس کو عرض وحقیقت کی نوعیت کہتا ہے۔ یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس مصنف کا “عالم اعراض” کا فقرہ جس کو وہ عالم مادی کے لیے استعمال کرتا ہے کسی قدر گمراہ کن ہے درحقیقت وہ جس بات کا مدعی ہے یہ ہے کہ عرض و حقیقت کا امتیاز محض ظاہری ہے اور اشیا کے متعلق یہ امتیاز قطعاً موجود نہیں۔ یہ اس لیے مفید ہے کہ ہم کو اپنے گرد و پیش کے عالم کو سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے۔ لیکن یہ قطعاً حقیقی نہیں۔ یہ سمجھا جائے گا کہ الجیلی تجربی تصوریت کی صداقت کو آزمایشی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ لیکن وہ اس امتیاز کی قطعیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان اُمور سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ الجیلی “شے بذات خود” کی خارجی حقیقت میں یقین نہیں رکھتا ہے وہ اس میں یقین تو رکھتا ہے لیکن وہ اس کی وجدت کا علمبردار ہے۔ اور کہتا ہے کہ عالم مادی “شے بذاتِ خود” ہے، عالم مادی “شے بذات خود” کا خارجی مظہر ہے۔ “شے بذاتِ خود” اور اُس کا خارجی مظہر یا انفصال ذات کا نتیجہ درحقیقت ایک دوسرے کے مماثل ہیں، اگرچہ ہم ان میں امتیاز کرلیتے ہیں تاکہ کائنات کے سمجھنے میں سہولت ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اگر یہ مماثل نہیں ہیں تو ایک دوسرے کا مظہر کس طرح ہوسکتے ہیں؟ مختصر یہ کہ “شے بذاتِ خود” سے اس کی مراد خالص اور مطلق ہستی کے ہیں اور وہ اس ہستیِ کو اس کے ظواہر یا خارجی مظاہر کے توسط سے تلاش کرتا ہے۔ اس کا قول ہے کہ جب تک ہم عرض و حقیقت کی عینیت کو متحقق نہ کرلیں عالم مادی یا عالم اعراض ایک پردہ نظر آتا ہے اور جب یہ نظریہ سمجھ میں آجاتا ہے تو یہ پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ ہم جوہر کو ہرجگہ دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرتے ہیں کہ تمام اعراض خود ہم ہی ہیں۔ فطرت اس وقت اپنی اصلی روشنی میں آتی ہے، غیریت دور ہوجاتی ہے، اور ہم اس سے متحد ہوجاتے ہیں۔ بے تاب کرنے والا تجسس ختم ہوجاتا ہے۔ ذہن کی تجسسی کیفیت کی جگہ فلسفیانہ سکوت کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ جو شخص اس عینیت کو متحقق کرلیتا ہے اس کے لیے سائنس کے انکشافات کوئی نئی اطلاق نہیں پہنچاتے۔ مذہب جس کو فوق الفطرت اقتدار حاصل ہے اس کو کوئی نئی بات نہیں بتلاتا۔ یہ روحانی آزادی ہے۔
اب ہم اس پر غور کریں گے کہ اس نے مختلف اسما و اعراضِ ربانی کو کس طرح منقسم کیا ہے جو فطرت میں ظہور پاچکے ہیں۔ اس کی تقسیم حسب ذیل ہے۔
(۱) خدا کے اسما و اعراض جیسا کہ وہ بذات خود ہے (اللہ، واحد، فرد، نور، صداقت، ظاہر، حی)
(۲) خدا کے اسما و اعراض عظمت و جلال کے مبدا کی حیثیت سے (اکبر و اعظم، قادر مطلق)
(۳) خدا کے اسما و اعراض بحیثیت کمال کے (خالق، کریم، اوّل، آخر)
(۴) خدا کے اسما و اعراض بحیثیت جمال کے (ناقابل خلق، مصور، رحیم، مبدا کل)
ان میں سے ہر ایک اسم و عرض اپنا ایک خاص اثر رکھتا ہے جس کے ذریعہ سے وہ انسانِ کامل کی روح کو اور فطرت کو منور کردیتا ہے۔ یہ تجلیات کس طرح ظہور میں آتی ہیں اور وہ روح تک کس طرح پہنچتی ہیں اس کی توجیہ الجیلی نے نہیں کی۔ ان اُمور پر اس کا سکوت اختیار کرنا اس کے صوفیانہ خیالات کو اور تقویت دیتا اور روحانی رہبری کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
خاص خاص ربانی اسما و اعراض کے متعلق الجیلی کے خیالات پر غور کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ خدا کا تصور جو اُس نے اوپر کی تقسیم میں پیش کیا ہے وہ شلائر ماخر کے تصورِ خدا سے بہت ہی ملتا جلتا ہے۔ جرمن متکلم صفات ربانی کو قوت کی صفت واحد میں تحویل کردیتا ہے لیکن ہمارا مصنف یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کو صفات و اعراض سے معراکرنے میں کیا خطرہ ہے، پھر بھی وہ شلائر ماخر کا ہم آہنگ ہوکر یہ تسلیم کرتا ہے کہ “خدا ایک ناقابلِ تغیر وحدت ہے” اور اُس کے اعراض محض وہ خیالات ہیں جو انسان مختلف نقاط نظر سے اس کے متعلق قائم کرتا ہے، یہ اعراض مختلف ظواہر ہیں، جن کو یہ لاتغیر علت ہماری محدود عقل کے سامنے اُسی طرح پیش کرتی ہے جس طرح کہ ہم اس پر روحانی منظر کے مختلف جوانب سے نظر ڈالتے36 ہیں”۔ وجود مطلق کی حالت میں وہ اسما و اعراض کی قید سے بالاتر ہے لیکن جب وہ خارجیت اختیار کرلیتا ہے جب وہ اپنی مطلقیت کو چھوڑ دیتا ہے، جب فطرت پیدا ہوتی ہے تو اس پر اسما و اعراض کی مہر لگ جاتی ہے۔
اب ہم اس پر غور کریں گے کہ خاص خاص اسما واعراض ربانی کے متعلق اس کی کیا تعلیم ہے۔ پہلی اصلی نام “اللہ” ہے۔ جس کے معنی تمام حقائق وجود کے مجموعہ کے ہیں۔ ہر حقیقت اس مجموعہ میں ایک ترتیب کے ساتھ آتی ہے۔ یہ نام جب خدا کو دیا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ صرف خدا ہی وجود لازمی ہے۔ الوہیت ہستی خالص کا اعلیٰ ترین مظہر ہے، ان کے مابین فرق یہ ہے کہ آخر الذکر آنکھوں کے لیے مرئی ہے۔ لیکن اس کا مقام غیر مرئی ہے۔ اور اوّل الذکر کی علامات مرئی ہیں، لیکن یہ خود غیر مرئی ہے۔ اس واقعہ سے کہ ہستیِ خالص ہی اُلوہیت ہے، فطرت حقیقی اُلوہیت نہیں ہوسکتی۔ پس الوہیت غیر مرئی ہے لیکن اس کی علامات فطرت کی صورت میں آنکھوں کے لیے مرئی ہیں، لیکن یہ خود غیر مرئی ہے۔ اس واقعہ سے کہ ہستیِ خالص ہی اُلوہیت ہے، فطرت حقیقی اُلوہیت نہیں ہوسکتی۔ پس اُلوہیت غیر مرئی ہے لیکن اس کی علاماتِ فطرت کی صورت میں آنکھوں کے لیے مرئی ہیں۔ اُلوہیت جیسا کہ ہمارے مصنف نے تشریح کی ہے پانی ہے اور فطرت آب منجمد یا برف ہے، لیکن برف پانی نہیں جوہر آنکھوں کے لیے مرئی ہے۔ گو اس کے تمام اعراض کا ہم کو علم نہیں۔ (یہ ہمارے مصنف کی فطری حقیقت یا تصوریت مطلق کا مزید ثبوت ہے)۔ہم کو اس کے اعراض کا بھی فی نفسہٖ نامعلوم ہے۔ ہم صرف اس کے اثر کو یا اس واقعہ کو جانتے اور دیکھتے ہیں۔ کہ غربا کو کچھ دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اعراض خود جوہر کی ماہیت میں داخل ہیں۔ اگر اعراض کی حقیقی ماہیت کا اظہار ممکن ہوتا تو جوہر سے اس کو علیحدہ کرنا بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے سوا خدا کے اور بھی اصلی نام ہیں۔ احدیت مطلق اور احدیت بسیط۔ احدیت مطلق میں فکر خالص ظلمت سے ظہور کی روشنی کی طرف ایک قدم بڑھائی ہے۔ (یہ ویدانت کا باطنی یا ابتدائی مایا ہے)۔ اگرچہ اس حرکت کی معیت میں خارجی مظہر نہیں ہوتے پھر بھی یہ تمام مظاہر کو اپنی کلیت میں سمیٹ لیتی ہے۔ ہمارا مصنف کہتا ہے کہ ایک دیوار کو بغور دیکھو تو کم پوری دیوار نظر آئے گی لیکن تم اُس مواد و مسالہ کے مختلف اجزا کو نہ دیکھ سکو گے جن سے یہ دیوار بنی ہے۔ یہ دیوار ایک وحدت ہے، لیکن یہ ایسی وحدت ہے جس میں کثرت و تعدد بھی شامل ہے۔ اسی طرح ہستیِ خالص بھی ایک وحدت ہے۔ لیکن یہ ایسی وحدت ہے جو کثرت و تعدد کی روح رواں ہے۔
ہستیِ مطلق کی تیسری حرکت احدیت بسیط کی طرف ہے، یعنی جب ہستیِ مطلق اس طرف قدم اُٹھاتی ہے تو اُس کی معیت میں مظاہر خارجی بھی ہوتے ہیں۔ احدیتِ بسیط اسما و اعراض سے مملو ہوتی ے لیکن ان اعراض میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک دوسرے کا جوہر ہوتے ہیں۔ اُلوہیت، احدیت بسیط کے مماثل ہے۔ لیکن اس کے اسما و اعراض ایک دوسرے سے متمائز بلکہ متناقص ہوتے ہیں جیسے عفو متناقص ہے انتقام37 کا۔ تیسرے قدم کا جس کو ہیگل سفر ہستی کہتا ہے ایک اور نام بھی ہے (رحم)۔ ہمارا مصنف کہتا ہے کہ پہلا رحم کائنات کا وہ ارتقا ہے جو خود اُس کی ذات میں سے ہوتا ہے، اور اُن سالمات میں خود اُس کی ذات کا ظہور ہوتا ہے جو انفصال ذات کا نتیجہ ہیں۔ الجیلی اس خیال کو ایک تمثیل کے ذریعہ سے واضح کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فطرت آبِ منجمد ہے اور خدا آب ہے۔ فطرت کا حقیقی نام اللہ ہے۔ برف یا آبِ منجمد ایک نام ہے جو مستعار لیا گیا ہے۔ ایک اور جگہ وہ پانی کو علم، عقل ، فہم، فکر اور تصور کا مبدا کہتا ہے۔ اس مثال سے وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ وہ خدا کو فطرت کے اندر موجود خیال کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ خدا مادی وجود کے دائرہ میں جاری و ساری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خداکا فطرت کے اندر موجود ہونا ہستی کے اختلال کو مستلزم ہے۔ خدا فطرت کے اندر نہیں ہے کیوں کہ وہ خود موجود ہے۔ خارجی وجود خدا کی ذات کا دوسرا رُخ ہے، یہ ایک روشنی ہے جس کے ذریعہ سے خدا اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ جس طرح ایک تصور کو پیدا کرنے والا خود اس تصر کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا فطرت کے اندر موجود ہے۔ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا اور انسان میں فرق یہ ہے کہ خدا کے تصورات مادی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ہمارے تصورات نہیں کرتے۔ یہاں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ہیگل بھی اپنے آپ کو ہمہ اوست کے الزام سے بری رکھنے کے لیے اس قسم کا استدلال کرے گا۔
رحم اور رزاقی کی صفت میں قریبی تعلق ہے۔ وہ اس کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ یہ اُن چیزوں کا مجموعہ ہے جن کے محتاج تمام موجودات ہوتے ہیں۔ اسی اسم کی قوت سے نباتات کو پانی بہم پہنچتا ہے۔ ایک طبعی فلسفی اسی خیال کو ایک دوسرے طریقہ سے ظاہر کرے گا۔ وہ ان مظاہر کو فطرت کی کسی ایک قوت کی فعلیت کا نتیجہ کہے گا۔ الجیلی اس کو رزاقی کا مظہر کہے گا۔ لیکن ایک طبعی فلسفی کی طرح وہ اس بات کی حمایت نہیں کرے گا کہ یہ قوت ناقابل علم ہے وہ یہ کہے گا کہ اس کے عقب میں بجز ہستیِ مطلق کے اور کوئی شے نہیں ہے۔
خدا کے اسما و اعراض کی بحث ہم ختم کرچکے ہیں۔ اب یہ دریافت کریں گے کہ تمام اشیا سے پہلے جو کچھ موجود تھا اُس کی ماہیت کیا ہے۔ الجیلی کہتا ہے کہ پیغمبر عرب صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے ایک بار یہ دریافت کیا تھا کہ تخلیق عالم سے پہلے خدا کا مقام کہاں تھا۔ آپ ا نے فرمایا کہ تخلیق عالم سے قبل خدا “اعما” میں موجود تھا۔ اب ہم اس “اعما” یا ظلمت اولیٰ کی ماہیت کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تحقیق خاص طور پر اس لیے دلچسپ ہے کہ اگر اس لفظ کا جدید اصطلاحات میں ترجمہ کیا جائے تو یہ “لاشعوریت” کے مترادف ہوگا۔ صرف یہی ایک لفظ ہمارے دل میں یہ نقش بٹھا دیتا ہے کہ الجیلی نے کس قدر دور بینی کے ساتھ جدید جرمنی کے مابعد الطبعی نظریات کی پیش بینی کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “لاشعوریت” تمام حقائق کی حقیقت ہے۔ یہ ایسی ہستیِ خالص ہے جس میں پستی و تنزل کی طرف کوئی حرکت نہیں ہوتی، یہ خدا اور تخلیق جیسے اعراض سے بالکل معرا ہے، یہ کسی نام یا صفت کی محتاج نہیں کیوں کہ یہ دائرہ علائق سے ماورا ہے۔ یہ احدیتِ مطلق سے متمائز ہے کیوں کہ اس نام کا اطلاق ہستیِ خالص پر اُس وقت ہوتا ہے کہ جب کہ یہ ظہور پذیر ہونے کی حالت میں رہتی ہے۔ بہرحال یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جب ہم خدا اور تخلیق کے تقدم و تاخر کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ میں زمان کا مفہوم نہ ہونا چاہیے کیوں کہ کسی مرور زمانی یا خدا اور اور اس کی تخلیق میں انفصال نہیں ہوسکتا۔ زمانیا استمرار زمانی یا مکانی ہی جب مخلوقات میں سے ہیں تو پھر ایک مخلوق شے کس طرح خدا اور اُس کی تخلیق میں حائل ہوسکتی ہے۔ پس قبل اور بعد، کہاں اور کب جیسے الفاظ جب فکر کے دائرہ میں استعمال کیے جائیں تو اُن سے زمان یا مکان کا مفہوم نہ لینا چاہیے۔ حقیقی شے انسانی تصورات کی گرفت سے ماورا ہے مادی وجود کا کوئی مقولہ اس پر منطبق نہیں ہوسکتا، کیوں کہ بقول کانٹ کے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مظاہر کے قوانین ذات و اعیان کے دائرہ میں پائے جاتے ہیں۔
ہم نے پہلے ہی یہ معلوم کرلیا ہے کہ انسان کو کمال کی طرف ترقی کرنے میں تین منالز میں سے ہوکر گذرنا پڑتا ہے۔ پہلی منزل میں اُس اسم پر استغراق و مراقبہ کرنا پڑتا ہے جس کو ہمارا مصنف تمام اسما کی تجلی سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “جب خدا کسی خاص شخص کو اپنے اسما کے نور سے منور کردیتا ہے، تو یہ شخص اس اسم کی چکاچوند کردینے والی روشنی میں فنا ہوجاتا ہے اور جب تم خدا کو پکارتے ہو تو یہی شخص اس آواز کا جواب دیتا ہے۔” اس تنویر کا نتیجہ، شوپن ہور کی زبان میں یہ ہوگا کہ انفرادی ارادہ فنا ہوجائے گا، تاہم اس کو جسمانی موت سے خل ملط نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ بقول کپیلا کے فرد پراکرتی سے متحد ہوجانے کے بعد بھی زندہ اور چرخہ کی طرح متحرک رہتا ہے۔ اس موقع پر کوئی فرد ہمہ اوست کے نشہ میں پکار اُٹھتا ہے۔ “میں اُس میں تھا اور وہ مجھ میں اور ہم کو کوئی جدا کرنے والا نہ تھا۔”
روحانی تادیب کی دوسری منزل وہ ہے جس کو وہ تجلی صفات سے تعبیر کرتا ہے۔ اس تجلی کے ذریعہ سے انسانِ کامل خدا کی صفات کو اُن کے اصلی ماہیت میں اُسی تناسب سے حاصل کرتا ہے جس قدر، کہ اس میں حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو انسانوں کو، اُس روشنی کی وسعت کے لحاظ سے جو اس تجلی سے پیدا ہوتی ہے، مختلف طبقوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ بعض لوگ حیات کی صفت ربانی سے تجلی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ کائنات کی روح میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس روشنی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ہوا میں پرواز کرتا ہے، پانی پر چلتا ہے اور اشیا کے حجم کو بدل دیتا ہے۔ (جیسا کہ مسیح نے اکثر کیا تھا) اس طرح انسانِ کامل تمام صفات ربانی سے تجلی حاصل کرکے اسم و عراض کے دائرہ سے گذر جاتا ہے، اور جوہر یا وجود مطلق کے قلمرو میں قدم رکھتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ہی معلوم کرلیا ہے ہستیِ مطلق جب اپنی مطلقیت کو چھوڑ دیتی ہے تو اُس کو تین منالز سفر طے کرنے پڑتے ہیں، اور ہر ایک سفر جوہر مطلق کی کلیت کے عمل تفرید پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان تینوں حرکات میں سے ہر ایک حرکت ایک نئے اسم کے تحت ظاہر ہوتی ہے اور روحِ انسانی پر اس کی تجلی کا ایک خاص اثر پڑتا ہے ہمارے مصنف کی روحانی اخلاقیات یہاں ختم ہوجاتی ہے، انسان یہاں کامل ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو ہستیِ مطلق سے متحد کرلیتا ہے، یا بقول ہیگل کے یہاں انسان فلسفۂ مطلق سیکھ لیتا ہے۔ “وہ کمال کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ، پرستش کی چیز اورکائنات کا محافظ بن جاتا38 ہے۔” یہی نقطہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہوجاتی ہیں اور اس کا نتیجہ انسان ربانی کی پیدایش ہے۔
روحانی ارتقا کی اس بلندی پر انسان کامل کس طرح پہنچتا ہے کہ ہر منزل میں اس کو ایک خاص قسم کا تجربہ ہوتا ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس تجربہ کے آلہ کو وہ “قلب” سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ ایسا دقیق لفظ ہے جس کی تحدید ذرا دشوار ہے۔ وہ “قلب” کا ایک صوفیانہ نقشہ پیش کرتا ہے اور اس کی اس طرح توجیہ کرتا ہے کہ یہ ایک آنکھ ہے، جو اسما، اعراض اور ہستیِ مطلق کا علیٰ الترتیب مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ نفس اور روح کے ایک پُراسرار اتحاد سے پیدا ہوتا ہے، اور وجود کے انتہائی حقائق کو معلوم کرنے کا فطرۃً ایک آلہ بن جاتا ہے۔ “قلب یا وہ شے، جس کو ویدانت میں اعلیٰ مبدا علم کہا گیا ہے، جو کچھ منکشف کرتی ہے اس کو کوئی فرد اس طرح نہیں دیکھتا کہ یہ اُس کی ذات سے علیحدہ اور متبائن ہے بلکہ اس کو جو کچھ اس ذریعہ سے دکھایا جاتا ہے۔ وہ خود اسی کی حقیقت اور اسی کی پوشیدہ ہستی ہے۔ اس ذریعہ یا واسطہ کی خصوصیت ہی ایسی ہے کہ وہ اس کو عقل سے متمائز کردیتی ہے، اس کا مقصد اُس فرد سے ہمیشہ مختلف اور جداگانہ ہوتا ہے جو عقل کی قوت کو استعمال کرتا ہے۔ اس مذہب کے صوفیہ کے خیال کے مطابق روحانی تجربہ مستقل اور مستمر نہیں ہوتا۔ مے تھیو آرنلڈ39 کہتا ہے کہ روحانی مکاشفہ کے لمحات ہمارے حکم اور قابو میں نہیں ہوتے۔ انسان ربانی خود اپنی ہستی کے راز سے واقف ہوتا ہے لیکن جب یہ خاص روحانی تحقق ختم ہوجاتا ہے۔ انسان انسان ہی رہ جاتا ہے۔ اور خدا خدا ہی۔ اگر یہ تجربہ مستقل و مستمر ہوتا تو ایک بڑی اخلاقی قوت زائل ہوجاتی اور معاشرہ (سوسائٹی) میں انتشار پیدا ہوجاتا۔
اب ہم الجیلی کے نظریہ تثلیت کو سمیٹ کر بیان کریں گے۔ ہم ہستی مطلق کی تین حرکات یا ہستیِ خالص کے تین ملکات معلوم کرچکے ہیں، او ر ہم نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ تیسری حرکت کی معیت میں خارجی مظاہر بھی ہوتے ہیں اور جس میں جوہر اپنے آپ کو خدا اور انسان میں منفصل کردیتا ہے۔ اس انفصال سے جو جگہ خالی ہوتی ہے اس کو انسان کامل پُر کرتا ہے۔ یہ ربانی اور انسانی دونوں صفات میں شریک رہتا ہے۔ الجیلی کا خیال ہے کہ انسانِ کامل کائنات کا محافظ ہے، لہٰذا تسلسلِ فطرت کے لیے انسانِ کامل کا ظہور ایک لازمی شرط ہے۔ یہ ذہن نشین کرلینا آسان ہے کہ ہستیِ مطلق جو اپنی مطلقیت کو چھوڑ چکی تھی پھرانسان کامل میں واپس آجاتی ہے اور بغیر انسانِ کامل کے اس کے لیے ایسا کرنا ناممکن تھا کیوں کہ اس کے بغیر نہ تو فطرت ہی کا وجود ہوتا اور نہ روشنی ہی ہوتی جس کے ذریعہ سے خدا اپنے آپ کو دیکھ سکتا۔ وہ روشنی جس کے ذریعہ سے خدا اپنے آپ کو دیکھتا ہے اُس وقت تفریق کی وجہ سے وجود میں آتی ہے خود ہستی مطلق کی ذات میں موجود ہے۔ اس قوت کو اس نے مندرجہ ذیل شعر میں بیان کیا ہے۔
اگر تم یہ کہو گے کہ خدا ایک ہے تو تم صحیح کہتے ہو، لیکن
اگر تم یہ کہو گے کہ وہ دو ہے تو یہ صحیح ہوگا۔
اگر تم یہ کہو گے کہ نہیں وہ تین ہے تو تم صحیح کہتے ہو، کیوں کہ انسان کی صحیح ماہیت یہی40ہے۔
پس انسانِ کامل ایک درمیانی کڑی ہے۔ ایک طرف تو وہ اساسی اسم سے تجلی حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ربانی صفات اس میں ظہور کرتی ہیں۔ یہ صفات حسب ذیل ہیں۔
(۱) حیات کا وجود مستقل۔
(۲) علم جو حیات ہی کی ایک صورت ہے۔ اس کو اس نے قرآن کی ایک آیت سے ثابت کیا ہے۔
(۳) ارادہ۔ یہ قوتِ تفرید یا ہستی کا ظہور ہے۔ اس نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ خدا کے علم کی ایک تجلی ہے، لہٰذا یہ علم ہی کی ایک خاص صورت ہے۔ اس کے نو (۹) مظاہر ہیں اور یہ سب محبت ہی کے مختلف نام ہیں، اور آخری نام ایسی محبت ہے جس میں محب و محبوب، عالم و معلوم، ایک دوسرے میں جذب ہوکر ایک ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ محبت کی یہ صورت جوہر مطلق ہے، یا جیسا کہ مسیحیت کی تعلیم ہے خدا ہی محبت ہے۔ یہاں وہ اس بات سے متنبہ کردیتا ہے کہ فرد کے فعل ارادی کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ بلاعلت کے وقوع میں آتا ہے ایک غلطی ہے۔ صرف عالم گیر ارادہ کا فعل بلا علت کے ہوتا ہے۔ پس وہ ہیگل کے نظریۂ آزادی کو متضمن ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ انسان اپنے افعال میں آزاد بھی ہے اور مجبور بھی۔
(۴) قوت، جو اپنے آپ کو انفصالِ ذات یعنی تخلیق میں ظاہر کرتی ہے۔ وہ شیخ محی الدین ابن عربی کے اس خیال پر جرح کرتا ہے کہ کائنات تخلیق سے پہلے خدا کے علم میں موجود تھی۔ وہ کہتا ہے کہ اس سے یہ نتیجہ لازم آئے گا کہ خدا نے کائنات کو عدم محض سے خلق نہیں کیا اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ کائنات اپنے وجود سے پہلے بحیثیت ایک تصور کے خدا کی ذات میں موجود تھی۔
(۵) کلام یا ہستیِ منعکسہ۔ ہر ایک امکان خدا کا کلام ہے، پس فطرت خدا کے کلام کی مادی صورت ہے۔ اس کے مختلف نام ہیں، مثلاً کلام محسوس، انسانی حقائق کا مجموہ، ربانیت کی ترتیب، احدیت کا امتداد، نامعلوم کا مظہر، جمال کا پہلو، اسما و اعراض کا سراغ، خدا کے علم کا معروض۔
(۶) غیر مسموع کو سننے کی قوت۔
(۷) غیر مرئی کو دیکھنے کی قوت۔
(۸) جمال۔ فطرت میں جو شے بہت ہی کم حسین و جمیل نظر آتی ہے (جمال۔ منعکسہ) وہ اپنی اصلی ماہیت میں جمال ہی ہے۔ شر محض اضافی ہے، اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ گناہ محض ایک اضافی قبح ہے۔
(۹) عظمت و جلال۔
(۱۰) کمال۔ یہ خدا کا ناقبل علم جوہر ہے اور اسی لیے لامتناہی و لامحدود ہے۔

حواشی

1“ہم کو یہ خبر ملی ہے کہ ولیرین کو شکست ہوگئی اور وہ سیپر کے ہاتھ قید ہوگیا ہے۔ فرنگ، المانی، گاتھ، اور ایرانیوں کی دھمکیاں روما کے لیے خطرناک ہیں”۔ فلاطینوس کا خط فلیکس کے نام۔ اس کا حوالہ Voughan نے اپنی کتاب نصف گھنٹہ صوفیا کے ساتھ میں دیا ہے۔
2وجد کا عنصر جو بعض اذہان کو متاثر کرسکتا تھا اس کو نوفلاطونیت کے متاخر معلّمین نے پس پشت ڈال دیا۔ اسی وجہ سے وہ محض ایک نظام فکر بن کر رہ گیا اور اس میں کوئی انسانی دلچسپی نہیں رہی وٹاکر کہتا ہے کہ “صوفیانہ وجد اس مکتب کے متاخر معلّمین کے لیے نہ صرف ناقابل حصول بلکہ نہایت دشوار تھا اور یہ میلان ترقی کرتا گیا کہ یہ اس دنیا میں ناقابل حصول ہے”۔ نوفلاطونیت، ص۱۰۱۔
3سورۃ البقرۃ: آیت۱۴۶۔
4سورۃ البقرۃ: آیت۲۔
5سورۃ الذاریات: آیت۲و۲۱۔
6سورۃ ق: آیت۱۵۔
7سورۃ النور: آیت۳۵۔
8سورۃ الشوریٰ: آیت۹۔
9سورۃ الامری: آیت۸۷۔
10سورۃ الغاشیہ: آیت ۱۷، ۱۸، ۱۹۔
11سورۃ النحل: آیت۹۲۔
ویبر نے حسب ذیل خیال لاسن کی سند پر پیش کیا ہے۔ البیرونی نے پتن جلی کی تصنیف کا گیارھویں صدی کے آغاز میں عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سانکہیا سوترا کا بھی ترجمہ کیا تھا لیکن جو باتیں ان تصانیف میں مذکور ہیں وہ اصل سنسکرت نسخوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ (تاریخ ادبیاتِ ہند، ص۲۳۹)
13نکلسن نے تصوف کی مختلف تعریفات کو جمع کیا ہے۔ دیکھو رائل ایشیاٹک سوسائٹی جرنل، اپریل ۱۹۰۶ء
14مثنوی جلال الدین رومی مع شرح بحر العلوم، لکھنؤ، ۱۸۷۷ئ، ص۹۔
15بدھ مت کی ترقی کے متعلق گیگر کہتا ہے کہ “ہم کو معلوم ہے کہ سکندر کے بعد زمانہ میں بدھ مت کو ایران میں بڑی قوت حاصل ہوگئی تھی اور اس کے پیرو طبرستان تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ بات تو خاص طور پر یقین کرنے کے قابل ہے کہ بدھ مت کے اکثر پیشوا باختر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال جو غالباً پہلی صدی ق م میں ظہور پذیر ہوئی تھی ساتویں صدی عیسویں تک باقی رہی۔ ظہور اسلام نے کابل اور باختر میں بدھ مت کی ترقی کو مسدود کردیا۔ زرتشت کے افسانہ کے آغاز کو، جیسا کہ دقیقی نے پیش کیا ہے، اس دور میں جگہ دینی چاہیے۔ (مشرقی ایرانیوں کی تہذیب، جلد دوم، ص۱۷۰)
16مقصد اقصا از نسفی، ورق۸ (ب)۔
17مقصد اقصا از نسفی، ورق۱ (ب)۔
18مقصد اقصا از نسفی، ورق۲۳ (ب)۔
19مقصد اقصا از نسفی، ورق۳ (ب)۔
۱۹الف Story of Greation۔
20نوفلاطونیت از وٹکر، ص۵۸۔
۲۰الف Pluralistic ۔
21تاریخ فلسفہ، جلد دوم، ص۳۶۷۔
22شرح انواریہ۔ الاشراقی کی حکمت الاشراق پر الہروی کی شرح۔ ورق ۱۰ (الف)۔
23شرح انواریہ۔ ورق ۱۱(ب)۔
24شرح انواریہ۔ ورق ۳۴(الف)۔
25شرح انواریہ۔ ورق ۴۵(ب)۔
26شرح انواریہ۔ ورق۶۰ (ب)۔
27
28شرح انواریہ۔ ورق۸۲۔
29شرح انواریہ۔
30شرح انواریہ۔ ورق ۸۱(الف)۔
31مقصدِ اقصا،ورق ۲۱(الف)۔
32مقصدِ اقصا،ورق ۲۱(الف)۔
33انسانِ کامل، جلد اوّل، ص۱۰۔
34انسانِ کامل، جلد اوّل، ص۲۲۔
35انسانِ کامل، جلد دوم، ص۲۶۔
36Matheson's Aids to German Theology, P-3
37یہ خیال ویدانت کے مظہری برہما کے تصور سے بہت کچھ مشابہ ہے۔ شخصی خالق یا ویدانت کا پراج پتی، ہستیِ مطلق یا اعیانی برہما کا تیسرا قدم ہے۔ معلوم ہوتا ہے الجیلی دو قسم کے برہما کو کرتا ہے، ایک جس میں صفات ہوتی ہیں، دوسرے جس میں صفات نہیں ہوتیں، جیسے سمکارا اور بدرایانا۔ اس کے نزدیک عمل تخلیق درحقیقت فکر مطلق کا انحطاط ہے اور جس حد تک یہ مطلق ہے اس کو است کہتے ہیں۔ اس جس حد تک یہ ظہور پذیر ہوکر محدود ہوگیا ہے اس کو سست کہتے ہیں۔ یہ وحدیت مطلق کے اس خیال کی طرف مائل ہوتا ہے جو رامانجا کے خیال سے مشابہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انفرادی روح کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور سمکارا کے خلاف اس کا یہ خیال کہ اشورا اور اس کی پرستش اعلیٰ ترین علم کے حصول کے بعد بھی ضروری ہے۔
38انسانِ کامل، جلد اوّل، ص۴۸۔
39ہم جب چاہیں اُس آگ کو سلگا نہیں سکتے جو ہمارے دل میں پوشیدہ ہے۔
40 انسانِ کامل، جلد اوّل، ص۸۔

<<پچھلا  اگلا>>

باب پنجم - تصوف کا مآخذ اور...

باب پنجم
تصوف کا مآخذ اور قرآن سے اُس کا جواز


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان