قطر میں 'اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ' کا افتتاح اور 'اقبال سیمینار'

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے

جوانوں کو شاعرِمشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی آہِ سحر دینے، بادۂ شوق سے ہشیاری کا سبق اور عمل گیری کی ترغیب دینے، نغمہ ٴدرد و دل افروز سنانے اور اس عظیم مفکر، غمِ دوراں کے نوحہ خواں اور عظمتِ انسان کے قصیدہ خواں کا نور ِبصیرت عام کرنے کی خاطر، قطر میں مقیم ادیب، محقق اور تنقید نگار ڈاکٹرفیصل حنیف خیال  نے دسمبر ٢٠١٣ء میں اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کی بنیاد رکھی تھی، جس کا پہلا 'اقبال سیمینار' گزشتہ جمعرات علامہ ابن حجر لائبریری (دوحہ) قطر میں معروف علمی و ادبی شخصیت پروفیسر عبد السلیم اسماعیل کی صدارت میں منعقد ہوا۔ محب اقبال اور دردِ مند اردو جناب نصیر احمد کاتب نے مہمانِ خصوصی اور علامہ ابن حجر لائبریری کے منتظم اعلی اور عاشقِ اقبال جناب عبد الغفار نے مہمانِ اعزازی کی مسند پر جلوہ افروز ہو کر محفل کو رونق بخشی۔

بخود نازم گدائے بے نیازم
تپم، سوزم، گدازم، نے نوازم
ترا از نغمہ در آتش نشاندم
سکندر فطرتم، آئنیہ سازم

دانائے راز  علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں جن کے کلام کی آفاقیت، گہرائی اور گیرائی، اور رنگا رنگی انہیں ایک ہمہ جہت شاعر ثابت کرتی ہے۔ ان کا ہر شعر ان کے فنی خلوص سے معمور نظر آتا ہے۔ اقبال بطورِ مفکر ایک خاص مقام کے مالک ہیں۔ اقبال کو خدا نے خیالات کو آسان اور دلربا انداز میں کہنے اور الفاظ برتنے کا خاص ہنر اور سلیقہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی شاعری سوز و گداز اورخاص کیفیات کی حامل ہے جس میں جلال و جمال کی ایسی آمیزش ملتی ہے جو سننے والوں پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو روشن اور معطر کر دیتی ہے۔ کلامِ اقبال میں افکار اور فلسفیانہ خیالات کی بہتات ہے۔ نظریۂ خودی، فلسفہٴ حیات، عرفانِ ذات، تسخیرِ کائنات، وحدت الوجود، کشمکشِ خیر و شر، نظریۂ ریاست، تصورِ فقر، تصور ِعشق، علاماتِ اقبال (شاہین، مردِ مومن، خونِ جگر) شاعری سے زیادہ افکار کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان اور ان سے ملتے جلتے موضوعات پر اقبال نے بھرپور خامہ فرسائی کی ہے جو ان کی شاعری میں فلسفے اور اسلامی سوچ کے عمل دخل کا ثبوت ہے۔
بقول احمد شاہ پطرس بخاری "اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔"
اقبال پر اس خاص اجلاس کی نظامت جناب شاد اکولوی جو قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزم اردو قطر کے صدر اور گزرگاہِ خیال فورم کے سنئیر نائب صدر ہیں، کے حصے میں آئی۔ لحن شیریں کے مالک، گفتگو میں آسمان کے تارے توڑ لانے والے، شاد اکولوی شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ عالم بھی ہیں، بطور ناظم ان کے ہر فقرے میں سموئی علمیت اور اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کے برجستہ استعمال نے، محبانِ اقبال کو سحر زدہ اور روحِ اقبال کو یقینا شاد کر دیا ہو گا۔
لیجیے پروگرام کا آغاز ہوا جاتا ہے۔ ناظم جناب شاد اکولوی نے صدرِ محفل ، مہمان خصوصی، مہمان اعزازی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی، جن کا استقبال اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین ڈاکٹرفیصل حنیف خیال نے کیا۔ مہمان تشریف فرما ہوئے تو ڈاکٹر عطا الرحمٰن صدیقی کو تلاوت کلام پاک کی دعوت دی گئی، اقبال سیمینار کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوا۔

جناب شاد اکولوی نے علامہ صاحب کے شعر
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

کے ساتھ بلبلِ قطر، آبروئے ترنم، خوش آواز جناب قاضی عبد الملک کو اقبال کا منظوم کلام ترنم سے پڑھنے کی دعوت دی۔

يہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہيں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پيدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پيدا

اقبال کے الفاظ کی اثر آفرینی، قاضی عبد الملک کی آواز اور ساحرانہ ترنم نے حاضرین پر ایک کیفیت طاری کر دی۔ ابھی ان اشعار کے حصار سے باہر نہ نکلے تھے کہ جناب قاضی صاحب نے اقبال کی شہرہ آفاق نظم

خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہٰ الا اللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سودوزیاں لا الہٰ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وَہم و گماں لا الہٰ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہٰ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہٰ الا اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہٰ الا اللہ

با اہتمام، کلام ِاقبال کے شایان شان ترنم میں پیش کرتے ہوئے سحر امروز اور سحر فردا کا ماخذ بتلا کر محفل میں نور بھر دیا اور حاضرین کے دلوں کو جذبۂ ایمانی سے گرما کرجگر لالہ میں ٹھنڈک کا سامان مہیا کر دیا۔
ناظم نے اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین ڈاکٹرفیصل حنیف خیال کو ان اشعارسے استقبالیہ اور اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے اغراض و مقاصد پیش کرنے کی دعوت دی۔

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے

ڈاکٹرخیال نے اکیڈیمی کے قیام کی وجہ اقبال فہمی کو رواج دینا بتلایا۔ اقبال فہمی سے مراد اقبال کی شاعری اور اقبال کا پیغام دونوں ہیں۔ انہوں نے اقبال کے نظریہٴ خودی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کا کلام اور پیغام، نظریہٴ خودی کا پرچار کرتے ہیں۔ خودی کو نطشے کے 'فوق البشر' سے ماخوذ سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت کیا ہے اقبال کی زبان سے سنیے "میں نے تصوف کے مسئلہٴ انسانِ کامل پر کچھ اوپر بیس سال ہوئے لکھا تھا، جب نطشے کی بھنک بھی میرے کان میں نہ پڑی تھی. یہ مضمون اس زمانے میں رسالہ، انڈین انٹی کوئری میں شائع ہوا تھا، اور اس کے بعد ١٩٠٨ء میں میرے انگریزی رسالہ فلسفہ عجم، میں منظم ہو کر نکلا تھا"۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کو ایک خاص معنی عطا کیے ہیں، جو نطشے کو مغربی ماحول میں میسر نہیں ہو سکتے تھے۔ اقبال کی خودی ذوقِ طلب ہے، ایمان ہے، یقین کی گہرائی ہے، اور سوز ِحیات کا سر چشمہ ہے۔ اقبال کا نظریہ ٴخودی اس مرد مومن کی تصویر پیش کرتا ہے جس کے کارگہہ فکر میں انجم سازی ہوتی ہے۔ اقبال کی خودی کی نسبت دین اسلام اور حبِ رسول ﷺ سے ہے۔ اقبال کی اپنی ذات کے بارے میں مولانا چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں کہ "عشقِ رسول نے ان کے دل کو گداز کر رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ کا نام لیتے وقت ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ قران پاک پڑھتے پڑھتے بے اختیار رو پڑتے تھے۔" یہی اسی حبِ نبی ﷺ  کا ثمر ہے کہ اقبال کی شاعری میں سوز و گداز پیدا ہو گیا اور ایسے اشعار کی تخلیق ہوئی جو رہتی دنیا تک اردو شاعری کا سرمایہٴ حاصل رہیں گے۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد  ﷺ سے اجالا کر دے
کی محمد  ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

چیئرمین ڈاکٹرخیال نے مزید کہا کہ اقبال کی اہمیت مسلم ہے، اقبال کی  ضرورت کل بھی تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اقبال کی اہمیت، ان کے استاد پروفیسر رینالڈ نکلسن، جنہوں نے علامہ کی کتاب "اسرار ِخودی" کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے اقبال کی فکر اور فلسفے کو اہل مغرب سے متعارف کروایا تھا، کے  الفاظ  "منظر عام پر آتے ہی "اسرارِ خودی" نے ہندوستانی مسلمانوں کی نوجوان نسل کو مسحور اور مسخر کر کے رکھ دیا۔ اقبال عصری شاعر ہے اور شاعر فردا بھی ..." کے ساتھ کیا۔
آج کے دور میں اردو داں طبقے میں فارسی بولنے اور سمجھنے والے عنقا ہو رہے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایسے چند احباب سے تعلق خاطر ہے جو فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور اپنے علم و دانش سے دوسروں کو بہرہ ور کرتے ہیں۔ ایسا ہی  ایک نام جناب شیخ عبد الغفار کا ہے، جو عربی اور فارسی کے عالم ہیں۔ عموماً اقبال پر منعقد کی جانے والی محفلوں میں اقبال کے فارسی کلام کی تفہیم نہیں ہوتی۔ اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کا یہ خاص طرہٴ امتیاز ہے کہ اس میں اقبال کے فارسی کلام پر بھی گفتگو ہوا کرے گی۔ ناظم جناب شاد اکولوی نے شیخ عبد الغفار کو علامہ صاحب کے فارسی کلام کو بمع اردو ترجمہ پیش کرنے کو آواز دی۔ جناب عبد الغفار نے 'زبورِ عجم' سےفارسی غزل خالص فارسی لب و لہجے میں پیش کی۔ دو شعر سنیے۔

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ
نگاہش عقلِ دُوراندیش را ذوقِ جنوں دادہ
ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ

علامہ صاحب کے فارسی کلام سے حاضرین کے کان آشنا ہوتے ہی محفل کا رنگ بدل گیا اور اہلِ محفل کی تشنگی بڑھ گئی۔ فارسی زبان اور جناب عبد الغفار کے لہجے نے لطف دو آتشہ کر دیا۔ ہر ایک شعر کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔

اسی غزل کا خودی پر ایک شعر سنیے۔
بخود کے می رسد ایں راہ پیمائے تن آسانے
ہزاراں سال منزل در مقامِ آزری کردہ

لیجیے، اب باری آتی ہے ادبی محفلوں کی رونق، نوجوان بزرگ جناب سلیمان دہلوی کی۔ انڈو قطر اردو مرکز کے بانی و صدر، اور معروف ادیب، حضرت اقبال پر ایک خاص انداز کا مضمون لکھ کر لائے ہیں۔ موضوع ہے "اقبال ، نہ ابلہہ ِمسجد، نہ تہذیب کا فرزند"۔ چند ٹکڑے ملاحظه کیجیے اور اندازہ لگائیے کہ ایسے رواں مضمون  کا لکھنا کس قدر عرق ریزی چاہتا ہے۔
"اگر اقبال کے ذہنی سفر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ ایک طلا طم خیز ٹھاٹھیں مارتا ، سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتا ، کسی کو خاطر میں نہ لاتا ایسا سمندر محسوس ہوتا ہے ، جو لا محدود بھی ہے اور بے مثال بھی ،کیونکہ اقبال کا ذہن آفاق میں گم نہیں ہے بلکہ آفاق اسمیں گم نظر آتے ہیں ، یہ کہنا کہ اقبال عظیم شاعر تھا دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے ، یا یہ کہنا کہ اقبال فلاسفرتھا اسکے ذہن و فکر کو مقید کرنا ہے ، لہذا اقبال میں وہ ایسی کیا بات ہے کہ وہ شاملِ بزم بھی ہے لیکن سب سے جدا ا ور سب کا رفیق بھی، وہ نہ آئینہ گر ہے نہ آئینہ ساز ، بلکہ وہ تو اپنی موضوعاتی شاعری کے ذریعہ بنیادی طور پر ایسی کردار سازی کا محرک نظر آتا ہے ، جو قرآن کا خلا صہ اور سیرتِ پاک ﷺ کا ممطعِ نظر ہے اور یہ وہی کردار تھا جس کو چھوڑ کر امتِ مسلمہ اسے زوال کی آخیری حدود میں محدود نظر آتی ہے ،اقبال نے جس دور میں آنکھ کھولی اس دور کے آتے تک ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں منظرِ عام پر آچکیں تھیں اور دوسری عالمی جنگ کی بنیادیں استوار ہوچکی تھیں، عا لمِ انسانیت جس موجودہ شکست و ریخت کا سامنا کرر ہا ہے اسکی بساط بچھا ئی جا چکی تھی، لینن اور کارل مارکس اپنے ڈھنگ سے دنیا کے نقشے بنانے اور ان  میں اپنے مفادات کے مطابق تبدیلیاں کرنے کا اہتمام کر چکے تھے ، لہذا اقبال اگر ایک عام سا ذہن اور سطحی فکر رکھنے والا انسان ہو تا تو صرف بدرم سلطان بود ،کا درس دیتا، ماتم سرائی کرتا ، یاخانقا ہیت اور صوفیت کے پردوں میں منہ چھپا لیتا، لیکن ا یسا نہیں ہوا، اقبال نے قرآن کو سمجھا ، سیرت پاک ﷺ کو کھنگا لہ ، تاریخِ اقوامِ عالم کو بغور مطالعہ کیا، مومن کی میراث پر نظر ڈالی، شاہین کی بلند پروازی اسکے جھپٹنے ، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا جائیزہ لیا ، شاہ ولی اللہ، مہدی سوڈانی ، جمال الدین افغانی ، کی تحریکات کو پرکھا ، قاسم نانوتوی ، سرسیّد احمد خان اور الطا ف حسین حالی کی دور بینی کو جانچا ، پھرزبان و بیان پر اپنی خداد صلا حیتوں اور مکمل دسترس کے ساتھ فلسفہ خودی کو بنیاد بنا کر اس کار گہہِ شیشہ گری میں اس یقین اور حوصلہ کے ساتھ قدم رکھا کہ زما نہ کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بد لے گئے"۔
اقبال کے خوبصورت شعروں سے مزین اس مقالے نے حاضرین سے خوب داد و تحسین حاصل کی۔
ناظمِ سیمینار جناب شاد اکولوی نے محفل کے نباض بن کر ایک بھرپور نثری تحریر کے بعد، ایک مترنم شاعر جناب وزیر احمد وزیر کو علامہ صاحب کی نظم ترنم میں پڑھنے کی دعوت دی۔ بھرپور تیاری کے ساتھ جناب وزیر نے پڑھنا شروع کیا ۔

پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نو افردوس میں حُوریں
مرا سوزِ دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالمِ بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانہ و نبالہ محمل نہ بن جائے

کلام اقبال کی تاثیر، جناب وزیر کے ترنم خاص سے بڑھتی جا رہی تھی کہ انہوں نے آخری شعر پڑھا

عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

غزل ختم ہوئی پر اس ساز کے نغمے سے دلوں کی حرارت کم ہوتی دکھائی نہ دیتی تھی۔
اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین ڈاکٹرفیصل حنیف خیال ایک اہم اور ہر دلعزیز موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرنے کو لائے ہیں۔ عنوان ہے 'اقبال شاعر یا مفکر'۔  چند اقتباسات آپ اہل نظر کی نذر
"یہ کہنا درست نہیں کہ اقبال کے پیش کردہ افکار معاصر اور پرانے شعراء، ادباء اور فلسفیوں کے افکار کی بازگشت ہیں۔ اقبال کی بنیادی حیثیت شاعر کی ہے اور ان کا فلسفہ اور پیغام شاعری کا ہی مرہونِ منت ہے۔ اقبال نے اگرچہ خود کسرِ نفسی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ "میں شاعر نہیں"۔ سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں، اقبال لکھتے ہیں "میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں۔ فنِ شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں، بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔"
اقبال کے اس بیان کو سطحیت سے بلند ہو کر دیکھنے کے لیے اقبال کے نظریہٴ  فن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال سے پہلے برِصغیر اور باہر ادب و فن کے بارے میں متعدد نظریات ملتے ہیں۔ سب سے پہلے یونان والوں نے اس امر کی طرف دھیان دیا۔ افلاطون نے ادب، خاص طور پر شاعری اور ڈرامے پر کڑی تنقید کی اور اپنی خیالی مثالی ریاست سے شاعروں کو  جلا وطن کر دیا۔ اس کے خیال میں یہ دنیا، عالم خیال کی نقل ہے اور فن اصل میں نقل کی نقل ہے۔ نیز شاعری نوجوانوں کے ذہن پر گمراہ کن اثر ڈالتی ہے۔ ارسطو، جو انیس برس تک افلاطون کا شاگرد رہا، اپنے استاد کے نظریے سے متفق نہیں تھا اور فن کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ فن کی مدد سے ہمارے جذبات کی نکاسی کی راہ نکل آتی ہے جس سے تزکیہٴ نفس ہو جاتا ہے۔ جدید دور میں، خاص طور پر گزشتہ چند صدیوں میں فن کے بارے میں نئے نئے خیالات نے راہ پائی اور ادب برائے ادب یا فن برائے فن کے بعد فن برائے زندگی مقبول ہوتے گئے۔ اقبال کے دور میں ادب میں نئی نئی تحریکیں جنم لے رہیں تھیں۔ ایک طرف یورپ میں ایجادات اور ترقی نے زندگی کو بہت گہرے انداز سے متاثر کیا تھا اور دوسرے اس کا ادب و فن پر بھی اثر بڑھتا جا رہا تھا ۔ یوں تو شاعری میں عہدِ نو کی بنیاد کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں مولانا محمد حسین آزاد نے کئی دہایاں قبل رکھ دی تھی، لیکن اقبال کا دور آتے آتے یہ عمل زیادہ سرعت اختیار کر گیا ۔ ہئیت پسندی اور رومانویت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہیں تھیں اور شاعری  پر حقیقت نگاری کا رنگ چڑھتا جا رہا تھا۔ اقبال نے مردہ ہئیت پرستی کو کسی بھی انداز سے پسند نہیں کیا۔ وہ داغ کے شاگرد ضرور تھے، مگر سوچ حالی کی سی رکھتے تھے۔ اقبال فن کی مقصدیت کے قائل تھے اور اس امر کے اعتراف میں وہ خود کو شاعر کہنے سے ہچکچاتے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال ان روایتی شاعروں میں سے نہیں تھے جنہوں نے اپنی ساری توانائی اور عقل و ہنر اس شاعرانہ وحشت کی نمایش میں صرف کر دیے جس سے بخیہ گروں تک  کے دلِ حیراں الٹے ہوگئے اور وہ چاکِ گریبان الٹا سینے لگے۔
اس باب میں اقبال اور ان کے پیشروؤں میں فرق کو نابغۂ روزگار ادیب اور نقاد  احمد شاہ پطرس بخاری نے خوب بیان کیا ہے کہتے ہیں کہ اقبال "وہ انسان ہے جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا"۔
اقبال کے خط اور ان اشعار سے بظاہر یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اپنے شاعر ہونے کی نفی کر رہے ہیں اور اپنی شاعری کو بعض مقاصد کے حصول کا ذریعہ بتا رہے ہیں۔ اقبالیات کے باب میں اکثر لوگ اقبال کے شعری نظام کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اقبال اس امر کے قائل تھے کہ شاعر کی نوا زندگی آموز ہو۔ ان کے نزدیک علم و فن دونوں زندگی ہی کا ایک روپ ہے اور انہیں زندگی کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔ ایسے بلند خیال کا مالک افلاطون کی طرح فن کو صرف نقل نہیں مان سکتا تھا۔ ۔ اقبال کے خیال میں خدا کی بنائی اس کائنات میں فن کا مقصد بہت ا علیٰ اور ارفع ہے۔   اقبال کے ہاں زندگی آموز نظریہ پایا جاتا ہے، وہ انسان کو ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کرنے کے بجائے آفتابِ تازہ کی نمود کی نوید دیتے ہیں اور اپنی فطرت کی تجلی زار میں آباد ہونے کا مشوره بھی۔ علامہ صاحب کی شاعری میں عصری شعور بھی پایا جاتا ہے اور آنے والے زمانے کا ساتھ دینے کے لیے بار ِسفر بھی۔ وہ ماضی مرحوم کو یاد کرتے ہیں، خوب یاد کرتے ہیں، لیکن رونے کے لیے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ ماضی سے روشنی حاصل کر کے مستقبل کو چمکا سکیں۔ روشن ماضی کے سامنے اپنے حال کو تاریک دیکھ کر اس کا افسوس کرتے ہیں لیکن اپنی فنی مہارت سے ایسے اشعار کو مرثیہ بننے نہیں دیتے بلکہ  نوحہ خوانی کے بجائے مستقبل کی تیاری اور منصوبہ بندی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اقبال کے ہاں اصلاحی پہلو وافر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود شعریت میں کہیں بھی رتی بھر کمی نہیں آتی۔ اقبال کو خدا نے خیالات کو آسان اور دلربا انداز میں کہنے اور الفاظ برتنے کا خاص ہنر اور سلیقہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی شاعری سوز و گداز اورخاص کیفیات کی حامل ہے جس میں جلال و جمال کی ایسی آمیزش ملتی ہے جو سننے والوں پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو روشن اور معطر کر دیتی ہے۔
کلامِ اقبال میں افکار اور فلسفیانہ خیالات کی بہتات ہے۔ نظریۂ خودی، فلسفہٴ حیات، عرفانِ ذات، تسخیرِ کائنات، وحدت الوجود، کشمکشِ خیر و شر، نظریۂ ریاست، تصورِ فقر، تصور ِعشق، علاماتِ اقبال (شاہین، مردِ مومن، خونِ جگر) شاعری سے زیادہ افکار کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان اور ان سے ملتے جلتے موضوعات پر اقبال نے بھرپور خامہ فرسائی کی ہے جو ان کی شاعری میں فلسفے کے عمل دخل کا ثبوت ہے۔"
اس پُر مغز مقالے پر محبانِ اقبال نے خوب داد پیش کی۔
حاضرینِ محفل میں سے علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے جناب علی عمران اور جناب مرزا اطہر بیگ صاحبان ، اور معروف ادیب و صحافی جناب اشرف صدیقی نے اقبال کے بارے مختصراً اپنے خیالات کا اظہار کیا، جناب علی عمران نے بچوں کی اقبال کی نظموں سے ذہن سازی کے حوالے سے اپنے تجربات کا ذکر کیا۔ جناب مرزا اطہر بیگ نے علامہ صاحب کے چند اشعار اپنی زوردار آواز میں سنا کر خوب داد وصول کی۔

یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

اس کے بعد جناب شاد اکولوی نے اپنا مقالہ 'اقبال کی شاعری میں تصور وطنیت' پیش کیا۔ وطنیت، اقبال کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔   اقبال کی شاعری وطنیت کے عام تصور کی نفی کرتی ہے۔ وہ 'قوم' بننے کے تمام لوازمات کو ختم کرنے کا مشوره دیتے ہیں اور رنگ و بو کے بت توڑ کر 'ملت' میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں ملت سے مراد امت مسلمہ ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

اس مقالے میں علامہ کے کلام سے متعدد حوالے، اور پھر ان حوالوں کو علامہ کے مجموعی کلام اور پیغام سے جوڑنا، جناب شاد ایسا اقبال شناس ہی کر سکتا تھا۔
ناظم سیمینار نے علامہ شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے، تحت اللفظ میں، پاٹ دار آواز اور اصلاحی شاعری کے ترجمان، کہنہ مشق شاعر جناب مظفر نایاب کو اقبال کی نظم 'حضور ِرسالت مآب ﷺ ميں' پیش کرنے کی دعوت دی۔ چند شعر

فرشتے بزمِ رسالت ميں لے گئے مجھ کو
حضورِ آيہٴ رحمت ميں لے گئے مجھ کو
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آيا
ہمارے واسطے کيا تحفہ لے کے تو آيا؟
''حضور! دہر ميں آسودگی نہيں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہيں ملتی
مگر ميں نذر کو اِک آبگينہ لايا ہوں
جو چيز اِس ميں ہے، جنت ميں بھی نہيں ملتی
جھلکتی ہے تر ی اُمت کی آبرو اِس ميں
طرابلس کے شہيدوں کا ہے لہو اِس ميں''
جناب نایاب کے شعر پڑھنے کے انداز کو خوب سراہا گیا۔

اقبال سیمینار کے آخری مقالے کے لیے حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے سابق صدرڈاکٹر عطا الرحمٰن صدیقی، کو جنابِ ناظم نے دعوت دی۔ ڈاکٹر عطا الرحمٰن صدیقی نے اقبال کے بہت سے موضوعات اور خاص طور پر اقبال کی علامات میں سے 'شاہین' پر گفتگو کی۔ اور آج کے دور میں اقبال اور اقبال کے پیغام کی اہمیت کا بیان کیا۔

پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

جناب ڈاکٹر صدیقی نے مزید کہا کہ اقبال کے اول دور کے اشعار بھی کچھ معمولی نہ تھے اور ان کا یہ شعر نقل کیا

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

"اس شعر کی بابت منشی فوق نے کشمیری میگزین لاہور اپریل١٩٠٩ میں اس غزل کے بارے میں لکھا ہے "چند سال ہوئے لاہور میں ایک بزمِ مشاعرہ نہایت کامیابی اور کمال سے منعقد ہوا کرتی تھی۔ایک مشاعرے میں ہمارے نوجوان اقبال نے بھی،جب کہ بیس بائیس برس کا سِن تھا، طُرح پر ایک غزل پڑھی اور جب اس شعر پر پہنچے تو مرزا ارشد گورکانی مرحوم بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے”میاں اقبال، اس عمر میں اور یہ شعر“ یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے باذوق لوگوں کو اس نوجوان اور ہونہار شاعر سے شناسائی ہوئی۔"
ڈاکٹر صدیقی نے اکیڈیمی کے قیام کو سراہا اور حاضرین کو بتلایا کہ اس طرح کے ایک ادارے کی ضرورت یہاں شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جس کو ڈاکٹر فیصل حنیف خیال نے پورا کر دیا۔ ان کی پر اثر اور پر جوش تقریر کے ساتھ سیمینار کا پہلا حصہ اختتام کو پہنچا۔ جناب شاد اکولوی نے مہمانِ اعزازی جناب عبد الغفار اور مہمانِ خصوصی جناب نصیر احمد کاتب کو سیمینار کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔ مہمانان نے اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے کی بنیاد رکھنے پر اکیڈیمی کے بانی و چئیرمین ڈاکٹرفیصل حنیف خیال کو مبارکباد پیش کی۔ مہمانان نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اکیڈیمی کی کامیابی کے لیے دعا کی۔
صاحبِ صدارت جناب پروفیسر عبد السلیم اسماعیل، جو اقبالیات کے حوالے سے قطر میں جانی مانی شخصیت ہیں،  کو محترم ناظم نے 'ماہرِ اقبالیات' کہہ کر اسٹیج پر صدارتی خطبے کے لیے اس شعر

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اُس میں ہیں آفاق

کے ساتھ دعوت دی۔ پروفیسر عبد السلیم اسماعیل اسٹیج پر تشریف لائے۔ کسر نفسی ملاحظہ ہو، فرمانے لگے کہ "میں خود کو 'غلامِ اقبال' اور 'خادمِ اقبال' کہلانا پسند کرتا ہوں۔ اقبال کی شاعری اور اقبال کے پیغام کی آفاقیت اور عالمگیریت کو نظر میں رکھتے ہوئے میں خود کو ماہرِ اقبالیات کہلوانا مناسب نہیں جانتا۔ " انہوں نے اکیڈمی کے قیام کو اہم قدم قرار دیا اور بانی و چیئرمین ڈاکٹر خیال اور تمام اہل ِمحفل کو مبارکباد پیش کی۔ سیمینار میں پڑھے گئے تمام مقالوں پر بھرپور تبصرہ کیا اور حاضرین کو اقبال کے حوالے سے اپنے زریں خیالات سے آگاہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رنگا رنگ موضوعات پر اقبال کے اشعار  اپنے مخصوص انداز میں سنائے اور خوب داد وصول کی۔
حاضرین میں سے اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں اکیڈیمی کے بانی و چئیرمین ڈاکٹرفیصل حنیف خیال نے اس بات کی وضاحت کی کہ اقبال کا پیغام آفاقیت کا حامل ہے جس کا تعلق بالخصوص امت مسلمہ سے ہےاور اقبال کو اسی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
سیمینار کے اختتام کا اعلان کرنے اور اظہارِتشکر کے لیے گزرگاہِ خیال فورم کے نائب صدر، اور قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزم اردو قطر کے جنرل سکریٹری، باکمال شاعر جناب افتخار راغب کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے اقبال کے شعر

پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

سے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے قیام کو سراہا اور مہمانان، اور تمام شرکا کا اکیڈیمی کی جانب سے بھرپور شکریہ ادا کیا۔ لذتِ کام و دہن کا سامان موجود تھا، یہ سلسلہ شروع ہوا تو جناب شاد اکولوی نے، صاحبِ صدارت کی اجازت سے قاضی عبد الملک سے اقبال کا کلام ترنم میں پڑھنے کی درخواست کی۔ جناب قاضی صاحب کی اس غزل سے

کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو تو نوائے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھُپا ہوا ہو سکوتِ پردۂ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثَرِ کہن
نہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں
نہ کہیں‌ جہاں ‌میں‌ اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں‌ ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو، ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہِیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہِیں‌ شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خَم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں ‌سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

سے پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔  سخن رس عاشقانِ اقبال کا قافلہ سبقِ سوزِ نفس، تسخیر ِمقامِ رنگ و بو، اور خودی کی جستجو لے کر اپنے اپنے گھروں کو چل پڑا۔
اقبال شناس اور محبانِ اقبال جناب ظفر صدیقی،  جناب سید عبد الحئی، ڈاکٹر فیصل حنیف خیال، جناب عبد الغفار، پروفیسر عبد السلیم اسماعیل، جناب نصیر احمد کاتب، ڈاکٹر توصیف ہاشمی،جناب سلیمان دہلوی، جناب خلیل احمد، جناب امجد علی سرور،جناب قاضی عبد الملک،جناب افتخار راغب، جناب عبد العزیز،جناب شاد اکولوی،جناب علی عمران، جناب مرزا اطہر بیگ، جناب اشرف صدیقی، جناب فیضان ہاشمی، جناب وزیر احمد وزیر،جناب قطب الدین بختیار، جناب مظفر نایاب، جناب طاہر جمیل، ڈاکٹر عطا الرحمٰن صدیقی، جناب رویس ممتاز، جناب عبد الناصر،جناب سلمان عبد الغفار، اور جناب عبد المجید نے اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کی اس افتتاحی تقریب کو رونق بخشی اور کامیاب بنا کر روحِ اقبال کو مسرور کیا۔

روداد نگار:
ڈاکٹر فیصل حنیف خیال
بانی و چئیرمین
اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ