جوانانِ مصر۔۔۔ تشنہ لب، خالی ایاغ

ڈاکٹر زاہد منیر عامر

عرب دنیا کے پاس تیل کے بعد دوسرا بڑا خزانہ اس کی نوجوان نسل ہے۔ مصر کے پاس یوں تو سیاحت، سویز، تیل اور قدرتی گیس ایسے بڑے ذرائع آمدن موجود ہیں لیکن اگر بنیادی حقوق، احترام اور روزگار کے ذرائع میسر ہوں تو اس کی نوجوان نسل ان سب پر فائق ہوسکتی ہے ۔بعض ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں،جن کی بیشتر آبادی کہن سال ہوچکی ہے ،مصر کوبہ کثرت نوجوان افرادی قوت میسر ہے۔

مصری عوام پہلے ایک طویل عرصے تک ملوکیت کا شکار رہے پھر انھیں سوشلزم کاسبز باغ دکھایا گیالیکن یہ خواب تعبیر پانے سے پہلے ہی بکھر کر رہ گیا۔پھر مصری ،سوشلزم کے آسمان سے سرمایہ دارانہ نظام کی کھجور میں جا کر گرے۔ اس نظام سے تو انھیں کوئی خیر نہ مل سکی البتہ مسلسل فوجی آمریتوں کے ہاتھوں وہ ایک طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے بھی محروم چلے آرہے ہیں ۔مصر کی آبادی آٹھ کروڑ کے قریب ہے جو ۲۰۵۰ء تک ساڑھے بارہ کروڑ ہوجائے گی۔ اس میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے یہ اندازہ لگانے کے لیے کسی بقراط کی ضرورت نہیں کہ اس وقت تک نوجوانوں کی تعدادکیا ہو گی ؟ان نوجوانوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں تو یہ مصر کے لیے غیر مختتم توانائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔سرِدست تو یہ نوجوان اپنی محرومیوں کے ہاتھوںزندگی سے مایوس اور بغاوت پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔عرب دنیا میں تبدیلی کی حالیہ لہر کا آغاز بھی ایک ایسے ہی مایوس نوجوان سے ہو ا۔ تیونس کا چھبیس(۲۶) سالہ سبزی فرو ش بو عزیزی بارش کا پہلا قطرہ تھاجس نے حصولِ انصاف میں ناکامی پر خود کو آگ لگا کر اپنی شمعِ حیات کو خاکستر کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد اس آگ کے شعلے مصر تک پہنچ گئے اور مصر کے تن بہ تقدیراورمایوس نوجوان قاہرہ کے میدان ِتحریر میں جبر و قہر کے خلاف نئی داستان تحریر کرنے لگے۔                      

مصر میں سہ سالہ قیام کے دوران مجھے وہاں کے نوجوانوںکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملایونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان ،ٹیکسی ڈرائیور،شام ہوتے ہی قہوہ خانوں کی رونق بن جانے والے، رقص و موسیقی کے دلدادہ نوجوان اور رمضان المبارک میں مساجد میں معتکف ہوجانے والے نوجوان۔یہ مختلف طبقات ،نوجوانوں ہی کی نہیں بلکہ مصری معاشرے کی تقسیم کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بالعموم مایوسی کا شکار تھے۔ رقص وموسیقی کی محفلوں کے دلدادہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے رویے پر عامل تھے۔ رمضان المبارک میں مساجد کی رونق بڑھانے والے قدرے ڈرے ہوئے اور اظہار خیال میں محتاط لیکن اپنی ملکی صورت حال سے ناخوش تھے

یونی ورسٹیوں کے نوجوان اپنے ملک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کی زندگیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور کسی نہ کسی طرح مصر سے نکل جانے کی تمنا رکھنے والے تھے۔ خود میرے ازہری شاگردوںمیں بھی ایسے تھے جو مختلف سفارت خانوں کے چکر لگاتے، ان کی تقریبات میں شرکت کرتے اور کسی نہ کسی طرح سفارت خانوں کے ملازمین کے توسط سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کرتے تھے ۔ان کے نزدیک مصر سے باہرکی دنیا کی زندگی پُر آسائش اور قابلِ رشک ہے ۔اس احساس میں صرف تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہی نہیں بلکہ ان کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ جامعہ الازہر کے جن نوجوان اساتذہ یا طلبہ سے میرا مکالمہ رہتا تھا اور میں جنھیں ملازمتوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر زندگی میں کچھ کرنے اور روزوشب کو تسخیر کرنے کی ترغیب دیتا ان کا ردعمل مایوسی پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ اپنی معاشی صورت حال کو اپنی تمام بے عملی ،ناکامیوں، محرومیوں اور مایوسیوں کا سبب قرار دیتے تھے۔

یونی ورسٹیوں سے باہر نوجوانوں کی ایک دنیا وہ تھی جو مصر میں ہر گلی کوچے میں قائم قہوہ خانوں میں دھویں کے مرغولوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ یہ شام ہوتے ہی گھروں سے نکل آتے ہیں۔ دریاے نیل کی مختلف شاخوں پر یہاں وہاں جھولتے پلوں پر اپنی دوستوں کی بانہوں میں جھولتے ہیں جس میں پولیس یا معاشرے کا کوئی دوسرا فرد مخل نہیں ہوتا۔ایک طبقہ نائٹ کلبوں یا دریائے نیل کے سینے پر ڈولتے کشتی گھروں میں چلا جاتا ہے جہاں انھیںحسب ِطلب واستطاعت سب کچھ میسر ہوتا ہے ،جنھیں شب باشی کے لیے مناسب جگہ نہیں ملتی وہ قہوہ خانوں میں آجاتے ہیںاور بعض اوقات تمام تمام رات شیشہ پیتے اور گپیں لگاتے گزار دیتے ہیں قہوہ خانوں میں ذکورو اناث اکٹھے آتے اوربیٹھتے ہیں ان کے لیے وقت کی رفتار تھم جاتی ہے اور وہ گویارخِ روشن کے آگے’’ شیشہ ‘‘رکھ کر کہتے ہیں   ؎

ع      ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ

’’شیشہ ‘‘جو اب پاکستان کے ماڈرن شہروں میں بھی اجنبی نہیں رہا، حقے کو کہا جاتا ہے یہ ماڈرن وضع کے مختلف اور زیبا حقے ہوتے ہیں جنھیں قہو ہ خانوں کے ملازم، گرم رکھتے ہیںاور لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں جن کا شوق کرتی ہیں۔ شیشے سے لگائو صرف نوجوانوں ہی میں نہیں پایا جاتا خواتین و حضرات سبھی شیشہ پسند واقع ہوئے ہیں۔قاہرہ کے جس علاقے میں میری رہائش تھی وہ ایک ماڈرن اور مہنگا علاقہ یعنی زمالک تھا۔ یہاں قدم قدم پر شیشہ گھر تھے، نائٹ کلب اور پب بھی تھے، اونچے ہوٹل بھی تمام صفات سے متصف تھے۔ نیل کنارے قطار اندر قطار نادی تھے۔ ’’نادی‘‘ بھی کلب کو کہاجاتا ہے۔ ان نوادی (کلبوں) کے ماحول کا اندازہ ایک نادی کے دروازے پر لگے اس اعلان سے کیا جاسکتا ہے جس میں لکھا ہوا تھا ممنوع الدخول للنقاب والجلباب و ذوی اللحیۃ یعنی نقاب پوش خواتین، قدیم مصر ی طرز کا لباس جلباب جو ایک لمبی عبا ہوتی ہے ، پہننے والے اور داڑھیوں والے حضرات نادی میں داخل نہیں ہوسکتے۔بعض نوادی کی رکنیت لینے کے لیے باقاعدہ انٹرویو ہوتا ہے جس کاوقت رات گیارہ بارہ بجے کے بعد ہوتا ہے اور انٹرویو کی تاریخ لینے کے لیے رجسٹریشن کروائی جاتی ہے ۔امیدوار کے پیشے اور حلیے کو دیکھ کر اس کی رجسٹریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔  

 قیامِ مصر کے تین سالوں میں راقم نے قاہرہ کی سڑکوں پر پانی کی طرح دوڑتی ٹیکسیوں کو ذریعہ سفر بنائے رکھا۔ان ٹیکسیوں کے ڈرائیور بیشتر نوجوان تھے۔ ٹیکسیاں چلانے والے اکثر نوجوان گریجویٹ ہیں۔ کوئی جامعہ قاہرہ کا پڑھا ہوا ہے، کو ئی الازہرکا، کوئی جامعہ عین شمس کا بلکہ الازہر کے تو بعض اساتذہ بھی ٹیکسیاں چلاتے ہوئے ملے۔ نوجوانوں کی بے روزگاری ،مصر میں بے روزگاری کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔ملک کے نوے فی صد بے روزگار وں کی عمر تیس سال سے کم ہے ۔اور ایک بڑی تعداد کم تر روزگار کے مسائل کا سامنا کررہی ہے۔مصر کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچیس فیصد مصریوں کی عمراٹھارہ سے انتیس سال کے درمیان ہے اور چالیس فیصد کی عمر دس سے انتیس برس کے درمیان ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مصر کی قریباً بیس فیصد آبادی کو غریب کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ راقم کو مصر کے بعض دیہات میں جانے کا موقع بھی ملا۔ ان کا منظر نامہ پاکستانی دیہات سے مختلف نہیں۔ پاکستان میں تو پھر بھی بڑے شہروں سے جڑے دیہات میں شہری زندگی کے ثمرات پہنچے ہوئے ہیں لیکن مصری دیہات شہری زندگی کے ثمرات سے محروم ہی دکھائی دیے ۔مصری معاشرے کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو نائٹ کلبوں میں شب بسری کی استطاعت رکھتا ہے دوسری طرف اسی معاشرے کی دیہی آبادی جو کل آبادی کا اسّی فیصد ہے، کی بیاسی فیصد لڑکیاں غربت کے باعث سکول نہیں جاسکتیں۔ٹیکسیاں چلانے والے گریجویٹ ڈرائیوروں سے جب میں کہتا کہ آپ نے بی اے کرنے کے بعد کوئی ملازمت کیوں نہیں کی تو وہ بتاتے کہ سرکاری ملازمت کرنے والوں کو جوتنخواہ ملتی ہے اس سے مہنگائی کے آسیب کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔پرائیویٹ سیکٹر کی ملازمتیں سرکاری ملازمتوں کے مقابلے میں بہتر ہیں لیکن ان کا حصول آسان نہیں۔بعض مصری یونی ورسٹیوں میں فنادق و سیاحت کی فیکلٹی (Faculty of hoteling and tourism) بھی موجود ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوںکا میلان اس کی طرف ہے کیونکہ اس طرح وہ مصر کے بڑے ذریعہ آمدن سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہو سکیں گے اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہوجاناگویا سونے کی چڑیا ہاتھ آجانا ہے۔ سیاح چونکہ عام طور سے اجنبی اور مقامی نرخوں سے ناواقف ہوتا ہے اس لیے اس سے وابستگی جائز و ناجائزجلب زر کا موقع فراہم کردیتی ہے۔ اس چیز نے عام مصری اخلاق و کردار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

 مصر کا مذہبی خیالات رکھنے والا نوجوان سماج کو اپنے ہی زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایک ایسے ہی نوجوان سے جب نجیب محفوظ کے افسانوں اور ناولوں میں پائے جانے والے سماجی منظر نامے پر گفتگو ہوئی تو اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجیب محفوظ کا قلم ،مساجد سے بلند ہوتی تکبیر کی صدائوں اور یہاں کی رونق بننے والے نوجوانوں سے ناآشنا ہے۔ اسے صرف کلبوں میں شب بسری کرنے والے ،آوارہ گردیا غربت کے مارے نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیںراقم نے اپنے تین سالہ قیام مصر میں اس طبقے کو بھی قریب سے دیکھا۔مساجد کی رونق عام طور سے اسی قدر ہے جس قدر کہ ہمارے ہاں دکھائی دیتی ہے ۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مساجد کی رونق زیادہ ترنوجوان بنتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتانا چاہیے کہ مصر میں ہر مسجد میں اعتکاف کی اجازت نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے ایک منطقے میں ایک مسجد نامزد کی جاتی ہے۔ اس ایک مسجد میں پورے منطقے سے لوگ معتکف ہوتے ہیں۔ان نوجوانوں میں یونی ورسٹیوں کے طالب علم ،مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے اور تجارت پیشہ ہر طرح کے نوجوان شامل ہوتے ہیں یہاں بعض بہت باخبر اور ہوشمند نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی بلکہ وائل غنیم نامی وہ نوجوان جس نے فیس بک (Face Book) میں اکائونٹ بناکر مصر کی تاریخ بدل دی گزشتہ رمضان میںاسی مسجد میں معتکف تھا جہاں راقم ۔میں دس روز تک اس خاموش طبع اور گہرے نوجوان کو دیکھتا رہا۔دوسرے مصری نوجوانوں کی طرح سیاسی موضوعات پر گفتگو سے وہ بھی گریز کرتا تھا۔یہ ان نوجوانوں میں شامل تھا جنھوں نے فیس بک اور ٹوئٹرکے ذریعے ۲۵ جنوری۲۰۱۱ء کے یوم الغضب کی راہ ہموار کی جس میں تیس ہزار لوگ جمع ہوئے اور پھر یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ حسنی مبارک کا تیس سالہ اقتدار اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ ملکی نظام سے مصری نوجوان کی ناراضی اتنی واضح تھی کہ وہ چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ان کی مایوسی ان کی گفتگو سے جھلکتی بلکہ چھلکتی تھی۔ تعلیم مکمل کر کے قاہرہ کی عدالت میں تعینات ہوجانے والے ایک جج صاحب سے بھی میرا رابطہ رہا،اپنی شادی کے حوالے سے ان کی پریشانی بھی ختم ہونے میں نہ آئی، جب ان سے کہا گیا کہ عالم اسلام ایک روشن مستقبل کے لیے مصر کے کردار کا منتظر ہے تو ان کا فوری جواب تھا کہ آپ خاطر جمع رکھیںمصر اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔ایک ایسے نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی جو پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھتا تھا اور جسے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں سے بھی خاصی واقفیت تھی لیکن یہ غالباً ایک استثنا تھا کیونکہ مصر میں پاکستان سے واقفیت اور دل چسپی عام نہیں ہے بلکہ مساجد میں ائمہ کرام جب عالم اسلام کے لیے دعائیں کرواتے ہیں تو ان میں بھی پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ۔راقم نے بعض ائمہ سے مل کر انھیں پاکستان اور عالم اسلام میں اس کی اہمیت اور یہاں کے عوام کو درپیش عالمی چیلنجز سے آگاہ کیا اور کشمیر کے انسانی مسئلے کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ پاکستانی عوام کے دل کس طرح عالم اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں اور ہماری مساجد میں فلسطین اور عربوں کے لیے کس طرح التزام سے دعائیں مانگی جاتی ہیں تو انھوںنے اپنی دعا میں پاکستان کا اضافہ کیا

 پرانی نسل کے لوگ اقبال سے واقف ہیں لیکن نوجوان نہیں۔ یونی ورسٹیوں میں اردو یا جنوبی ایشیا کے تعلق سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اقبال کو جانتے ہیں لیکن اقبال سے ان کی واقفیت ایک زندہ پیغام کی حیثیت سے نہیں ایک اکیڈیمک موضوع کی حیثیت سے ہے جس کے امکانات پورے ہوچکے ہیں۔ راقم نے الازہر میں اردو کی تدریس کے لیے اقبال کے متن کو بنیاد بناناچاہا تو ایم اے کی طالبات نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اقبال اقبال بہت ہوچکی اب کسی نئے موضوع پر بات ہونی چاہیے اس پر راقم نے پیغام ِاقبال کے، ان کی موجودہ زندگی سے، تعلق کو واضح کیا تو وہ اس پر آمادہ ہوگئیں اور یوں یہ سلسلہ شروع ہوسکا ۔راقم نے اس مقصد کے لیے امِ کلثوم کے حدیث الروح سے بھی مدد لی ۔کلاس روم میں اس کا ریکارڈ سنانے پر کچھ طالبات نے ڈرکر دروازے بند کرلینے کا مشورہ دیااور راقم کو یاددلایا کہ ’’یہ جامعہ الازہر ہے‘‘۔ اس رویے کا سبب اقبال سے آگاہی کے مدعی وہ اساتذہ ہیں جواقبال کو ایک زندہ اور توانا فن کا ر کی حیثیت سے نہیں محض ڈگریوں کے حصول کا سبب بننے والے ایک موضوع کی حیثیت سے جانتے ہیں اور اقبال کے پیغام میں پنہاں حرکت و حریت کے جوہر سے محض ناواقف ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے اساتذہ کی پاکستان میں بھی کمی نہیں۔ بعض جامعات کے اساتذہ سے بھی اسی قسم کے خیالات سننے کو ملے جیسے جامعہ الازہر کی ایم اے اردو کی طالبات کے تھے۔ مصر کے ایک نام ور’ اقبال شناس ‘نے بھی ، تحقیق کے لیے اقبال کے موضوع کو’ ختم شدہ ‘قرار دیا ۔اس صورت حال کے علی الرغم راقم تین برس تک مختلف فورمز پر اور مصری اخبارات کے ذریعے بنی نوع انسان کے نام بالعموم اور عالم عرب کے نام بالخصوص اقبال کے فراموش شدہ پیغام کو یاددلاتا رہاجس کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے میں آئے۔

گزشتہ برس مصر کی ہیومن ڈیویلپمنٹ کونسل نے مصر کی نوجوان نسل کے مسائل کے حوالے سے  YOUTH IN EGYPT BUILDING THE FUTUREکے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں بے روزگاری ،تاخیر سے شادی اورغربت کومصری نوجوان کے تین بڑے مسائل قرار دیاگیا۔ وزیراعظم کی سطح پر جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرمصر ی نوجوانوں کو اچھااحساس، اچھی تعلیم، معاشرے میںشائستہ اور تعمیری کردار ادا کرنے اور ایسی شادیوں کے جو وہ افورڈ کرسکتے ہوں، مواقع دیے جائیں تو وہ ترقی کی دوڑ میں ایک مؤثر قوت کا کردا رادا کرسکتے ہیں ۔

مصر میںمستقل ملازمتوں کے فقدان کا مسئلہ مستقلاًغربت کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔غریب نوجوانوں کو جو بھی ملازمت ملتی ہے وہ اسے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں چاہے وہ موسمی ہو یاعارضی کیونکہ ان کے لیے طویل عرصے تک مسلسل بے روزگار رہنا ممکن نہیں ہوتا۔حکومتی دعویٰ یہ تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیںجن سے معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاری کا گراف کم ہورہا ہے اور ۲۰۰۹ء میں اس کے گراف میں ۲۴ فیصد کمی ہوئی ہے لیکن جنوری ۲۰۱۱ء میںعوامی قوت کے سیلاب نے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

راقم نے اکثرمصری نوجوانوں کو شادی کے لیے مضطرب اور پریشان دیکھا الازہر کے طالب علم پاکستان میں شادی کے طریق کار سے آگاہ ہونے پر پاکستان میں شادی کی تمنا کرتے تھے بعض ادارے تیسیر للزواج یعنی شادی میں سہولت کے پروگرام جاری کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی شادی کے لیے کہنا بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔ ایک لڑکی نے میر ی موجودگی میں ایک کاغذ پر اپنا اور اپنے والد کانام لکھ کریہ درخواست مسجد میں بھیجی کہ اس کے لیے زوج صالح اور ذریّت صالحہ کی دعا کی جائے۔حقیقت میںمصری نوجوانوں کے لیے شادی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ معاشرہ شادی سے پہلے لڑکی کے لیے آزادانہ رہائش کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ لڑکے کے لیے ،بے روزگاری کے باعث، جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوتا ہے کجا کہ وہ لڑکی کو دان کرنے کے لیے کوئی فلیٹ خرید سکے۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مصر میں ۹ملین سے زیادہ نوجوان ایسے ہیںجو پینتیس سال کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود شادی نہیں کرسکے اور نوجوان جوڑوں میں طلاق کی شرح باون(۵۲) فی صد ہے۔ بیالیس(۴۲) فی صد جوڑے شادی کے پہلے چار سال میں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں۔

خراب معاشی اور سماجی صورت حال نے بعض اخلاقی خرابیوں کو بھی جنم دیا ہے جن میں ’’زواج عرفی‘‘ بھی شامل ہے ۔ اس طریق ِازدواج میں لڑکا اور لڑکی کسی گواہ کے بغیر، ایک کاغذ پر معاہدہ کرکے، میاں بیوی بن جاتے ہیں اوران کے والدین یا معاشرے کو اس کی خبر نہیں ہوتی ۔دونوں اپنے اپنے والدین کے ہاں مقیم رہتے ہوئے کسی تیسرے مقام پرتعلقات زناشوئی قائم کرلیتے ہیں۔ معاشرے کو اس وقت پتا چلتا ہے جب اس تعلق میں کوئی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچتا ہے۔ مصر میں زواج عرفی کا تجربہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ۲۴ فی صد ہوچکی ہے۔ اگرچہ ازہری علماء اس طریق ازدواج کے خلاف ہیں لیکن عدالتیں عام طور سے ایسے مقدمات میںنرمی کا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ 

گزشتہ سطور میں جس رپورٹ کا ذکر ہوا اس میں مصری نوجوان کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے نو ایریاز کی نشان دہی کی گئی جن میں تعلیم کی ناکامی پر قابو پانا،غربت کے چکر کو توڑنا،نئی ملازمتوں کی تخلیق، حسنِ انتظام اور نقل ِمکانی۔ تعلیمی اداروں کی آئوٹ پٹ اور مارکیٹ کے مطالبوں میں توازن پیدا کرنا۔ فنی تعلیم کا معیار بڑھانا اور نصابات کو بہتر بنانا۔نوجوانوں کو رضاکارانہ بنیاد پر کام کے لیے تیار کرناشامل ہیں۔ مصر کی نئی حکومت ان نو ایریازپر قابو پاسکتی ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ سوال ہے ایریاز کی نشاندہی بجائے خودبہت اہم ہے جس سے مصرکے تشنہ لب، خالی ایاغ نوجوان کے المیے کو سمجھا جاسکتا ہے۔