اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں

نفَسِ سوختہ شام و سحر تازہ کریں

  

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

 

تمہید و تعارف

 

بالِ جبریل علامہ اقبال کا بہترین مجموعہ کلام ہے۔ اُردو، فارسی دونوں زبانوں میں ان کے خزینہ شعروحکمت کاسب سے گراں بہا موتی!اقبال کی شاعری جن بنیادی مضامین، موضوعات اور خیالات سے عبارت ہے، وہ جملہ فلسفیانہ افکار اور شعری مضامین جن سے مل کر ان کی شاعری بنی ہے، یہ تمام اجزائے معنوی اس ایک کتاب میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کی فکری اور شعری شخصیت کی تشکیل کرنے والے تمام بنیادی عناصر اس کتاب میں اعلیٰ درجے کے شعری بیان میں ڈھل جاتے ہیں۔ اقبال کی جملہ فکری استعداد اس کتاب میں صرف ہوگئی، ان کی تمام جمالیاتی قوت اِس مجموعے میں استعمال ہوگئی اور زبان و بیان اور قدرتِ کلام کی ساری صلاحیتیں اس دیوانِ شعر کی تعمیر میں کھپا دی گئیں۔

اس کتاب کا بنیادی وصف یہ ہے کہ اس میں تمام بڑے شاعروں کی طرح، اقبال بھی معانی اور حقائق کی جمالیاتی تشکیل میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بڑی شاعری ہمیشہ بڑے معانی کی، مضامین عالی کی شاعری ہوتی ہے۔ بڑے معانی وہ ہوتے ہیں جو شعری پیمانے کے علاوہ فکری اور فلسفیانہ معیار پر بھی بڑے ہوتے ہیں کیونکہ انسانی ذہن معانی کا شعور اس مجموعی صلاحیت اور طاقت سے پیدا کرتا ہے جس کا ایک حصہ فلسفیانہ ہے اور دوسرا جمالیاتی۔ بڑا شاعر وہ ہے جس کے ہاں معانی کی بناوٹ کا عمل صرف عقل کی تحویل میں نہ رہے، فقط ایک تجزیاتی اور تحلیلی عمل تک محدود نہ ہو، بلکہ وہ معانی و مفاہیم کو ایک ایسی ساخت دینے میں کامیاب ہوجائے جو عقل کے لیے بھی باعثِ تسکین ہو اور دیگر انواعِ شعور یعنی جمالیاتی اور اخلاقی شعور کے لیے بھی باعث سرشاری (fulfilling) ہو۔

شعور کا سب سے بڑا ملکہ اُن اہداف ومقاصد کے لیے یکسوئی کا ملکہ ہے، جن کو یا تو کبھی بدلنا نہیں ہے یا شعور انھیں کبھی بدلنے نہیں دیتا۔ یعنی تبدیلی کی تمام قسموں کو شعور قبول کرلیتا ہے، اچھے یا برے دونوں معنی میں، لیکن تبدیلی کی رو کو اس حد تک غالب نہیں آنے دیتا کہ وہ اسے اس کے مرکز سے ہٹا دے اور اس کے مستقل مقاصد کو ڈھانپ لے۔ بڑا شاعر، تقدیری معنی کا شاعر ہوتا ہے۔ تقدیری معانی وہ معانی ہیں جن کی طرف انسانی شعور ہمیشہ یکسو رہتا ہے۔ شعور کے زاویوں میں، اندازِ نظر میں تو تبدیلی آتی ہے، شعور کی استعداد میں یاشعور کی ساخت کے کچھ حصوں میں تو تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن اپنی تمام تر تبدیلیوں کے باوجود شعور کے کچھ داخلی موقف ہوتے ہیں جو بدلتے نہیں۔ اسی طرح شعور کے کچھ معروضی سانچے ہوتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔ سو تقدیری معانی کا مطلب یہ ہوگا کہ شعور اپنے مستقل موقف پر کھڑا ہوکر اپنی تمام تر تبدیلیوں اور تغیرات کی قوت کو مثبت طور پر صَرف کرتے ہوئے، اپنے مستقل آدرش اور مقاصد کے ساتھ تعلق پیدا کیے ہوئے ہے۔ اس طرح شعور اس استقلال اور تغیر کو جمع کرکے اپنی فعلیت کو ایک تواتر میں رکھتا ہے۔ استقلال اور تبدیلی کے اس ہم آن عمل کا مطلب یہ ہے کہ شعور اپنے مادہ علم اور مستقل مقاصدِ علم کے درمیان نئی نئی نسبتیں پیدا یا دریافت کرتا رہتا ہے۔ یوں تبدیلی بھی ایک دھارے میں آجاتی ہے، تغیر بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کا کوئی مجموعہ کلام اگر ان سب معیارات پر پورا اُترتا ہے، ان سب باتوں کا جامع ہے تو وہ ہے بالِ جبریل! اس میں مستقل حقائق کو جیسے جیسے نئے زاویے (angling) دیے گئے ہیں، جہاتِ نو دریافت کی گئی ہیں اور شعور کے مستقل مادّے کو جس طرح شعور کے تمام شعبوں میں، ان شعبوں کے لیے fulfilling بنایا گیا ہے، وہ ایک کمیاب چیز ہے۔۱؎ یہ اُردو شاعری ہی میں نہیں بلکہ بڑی شاعری کی پوری روایت میں بھی ایک نادر چیز ہے۔

اقبال نے اس کتاب میں بڑے معانی کی جمالیاتی تشکیل اعلیٰ ترین سطح ہنر پر کرکے دکھا دی ہے۔ یہ اس کے کمال کا ایک پہلو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم کسی معنی کو اپنے ذہن و شعور کے لیے اس طور حاضر کردیں کہ اس کا حضورِ ذہنی ہمارے احساسات کو بھی متاثر کرنے لگے تو معانی کی جمالیاتی تشکیل بھی عمل میں آجاتی ہے۔ لیکن اقبال نے اس میں ایک اور کارنامہ بھی کرکے دکھایا ہے۔ عقل کے نظریات یا تو تصوراتی ہوتے ہیں یا منطقی۔ عقل اپنے نظریات سے جو تعلق رکھتی ہے اس میں ایسی شدت اور ہمہ گیری نہیں ہوتی کہ وہ شعور کے علاوہ عقلی و منطقی مطالبات اور تقاضوں کی تسکین کے لیے بھی کافی ہوجائیں۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے شعور کے جملہ مطالبات کو اس خوبی سے پورا کیا کہ ورائے طورِ عقل مطالبات کی تکمیل عقل کے لیے بھی قابلِ قبول بن گئی۔ عقلی مطالبات پورے کرتے ہوئے اُنھوں نے شعور کی بالاتر سطحوں، ورائے عقل درجاتِ شعور کی تسکین کا سامان بھی کردیا۔ یہ بالِ جبریل کا دوسرا نقطہ کمال ہے۔ اقبال جن محسوسات کو بیان کرتے ہیں وہ حسّیت کے ساتھ ساتھ یعنی محسوس ہونے کے علاوہ ایک گہری معنویت بھی رکھتے ہیں اور اقبال جن خیالات کو بیان کرتے ہیں وہ خیالات معنویت کے ساتھ گہری حسّیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کمال جسے حاصل ہوگیا وہی بڑا شاعر ہوتا ہے۔

بڑی شاعری کے لیے ایک اور وصف درکار ہوتا ہے، اعلیٰ درجے کی فنکاری اور ہنرمندی۔ لفظوں کے درمیان فنی مناسبتیں اتنی گہرائی کے ساتھ پیدا کردینا کہ الفاظ کا فنی اور تکنیکی نظامِ تعلق بھی معانی کی تعمیر میں ایک بہت بنیادی کردار ادا کرنے لگے۔ بالِ جبریل میں آواز اور آہنگ کا بھی ایک نظام ہے جو معانی میں رُوح پھونک دیتا ہے، لفظوں کے درمیان تکنیکی رعایتیں اور مناسبتیں ہیں جو معانی کو زیادہ خوشگوار اور زیادہ غیرمحدود بنا دیتی ہیں۔ فنِ شعر کیا ہے؟ یہی کہ معنی کی ایک لازمی خصوصیت کو ختم کردیا جائے، معانی کا ایک جبر توڑ دیا جائے۔ وہ جبر یہ ہے کہ معانی محدود ہوئے بغیر معانی نہیں بنتے۔ لفظ معانی کے اظہار کا فعّال وسیلہ ہیں۔ لفظ، معنی کا ظرف تو ہے ہی، اس سے کچھ زیادہ بھی ہوتا ہے۔ الفاظ کے درمیان تکنیکی مناسبتیں، مشابہتیں، رعایتیں تحدیدِ معانی کا تاثر ختم کردیتی ہیں اور شاعر کو معانی پر ایک خلّاقانہ تصرف اور غلبہ دے دیتی ہیں۔ بالِ جبریل ان سب عناصر سے مملو ہے۔

بالِ جبریل کا عنوان بھی ایک ’’آمد‘‘ کے تحت رکھا گیا ہے، سوچ کر متعین نہیں کیا گیا۔ پیامِ مشرق کو چھوڑ کر، اقبال کے اکثر مجموعوں کے نام گویا پکار کر کہتے ہیں کہ ہمیں سوچا نہیں گیا، ’’وصول‘‘ کیا گیا ہے۔۲؎

 

 

اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں

نفَسِ سوختہ شام و سحر تازہ کریں

اس شعر میں پوری بالِ جبریل بند ہے۔ بالِ جبریل ایک تخلیقی منصوبہ ہے یعنی یہ کہ ’’اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں‘‘ ----- جب تک اسے نہ سمجھا جائے، اس شعر کی تحسین وتعریف اور اس کی معنویت کی تشریح نہیں ہوسکے گی۔ یہ وہ بیج ہے جس سے بالِ جبریل کا جنگل اُگا ہے،۳؎ اسی طرح جیسے ضربِ کلیم میں ’’خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر‘‘ پوری ضربِ کلیم کا بیج ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونا چاہیے کہ اس کی شرح لازماً ایک بلند درجے پہ کی جائے۔

اس مصرعے کی نثری ساخت سادہ سی ہے۔ سادہ نثری ساخت کا مطلب یہ ہے کہ ’’خورشید‘‘ منزل ہے، ’’خورشید‘‘ تک جانے کا سامان پیدا کرو، ’’خورشید‘‘ کے سفر کے لیے جو سامان درکار ہے وہ تازہ کرو۔ ’’تازہ کرنے‘‘ میں بڑی معنویت ہے۔ سامان تازہ کرنے کا مطلب، سامان مہیا کرنا نہیں ہے، کہیں باہر سے لے کر نہیں آنا ہے۔ سامان تازہ کرنے کا مطلب ہے کہ وہ تیرے اندر ہے، اس کو تازہ کر۔ خورشید کے سفر کا سامان، اے انسان! تیرے اندر ہی ہے، اس کو پیدا کر۔ اب دیکھیے یہاں ایک منظر بنتا ہے۔۴؎ اس کو تصویر بنالیں۔ تصویر یہ ہے کہ خورشید سب کچھ ہے۔ خورشید تقدیر بھی ہے، مبدئِ تاریخ بھی ہے۔ گویا خورشید واحد حقیقت ہے، اس کے علاوہ جو بھی چیز ہے وہ اس بات کی محتاج ہے کہ اس کی طرف رجوع کیے رکھے، اس کی طرف منہ کیے رکھے، جتنی چیزیں اس کی طرف منہ کیے رکھیں گی، وہی اپنی اصل سے جڑ کر سند کے ساتھ موجود ہیں اور جو چیزیں اس کی طرف سے منہ پھیر لیں گی وہ فی الاصل موجود نہیں ہیں۔

اس شعر میں کلیدی الفاظ اور تراکیب دو ہیں: ’’خورشید‘‘ اور ’’نَفَسِ سوختہ شام و سحر‘‘ کی ترکیب۔ ان دونوں میں ’’خورشید‘‘ کی حیثیت علامتی ہے۔ ’’نفَسِ سوختہ شام و سحر‘‘ ایسی بلیغ و بامعنی ترکیب ہے جسے رمزیت اور علامتی معنویت دی جاسکتی ہے، علامت بنایا جاسکتا ہے۔ ’’نفسِ سوختہ شام و سحر‘‘ علامت (symbol) نہیں ہے تاہم یہ ترکیب اتنی تَہ دار، معنی آفریں اور زوردار ہے اور اتنی جامعیت (inclusivity) رکھتی ہے کہ اس کی معنویت کا تجزیہ اسی طرح کیا جائے گا جیسے علامت کا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بڑے معانی کبھی علامت بنے بغیر اظہار و بیان میں نہیں آتے۔ یہ پہلا اُصول ہے۔ جتنا بڑا معنی ہوگا اس کا اظہار بذریعہ علامت ہی ممکن ہوگا۔۵؎ یہ نسبت اتنی زیادہ ناگزیر ہے کہ اس نسبت کو اللہ تعالیٰ نے بھی ملحوظ رکھا ہے۔۶؎   تو قدرتِ کلام کا ایک مظہر یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑے معانی کو علامت کی بجائے ایک اعلیٰ، بالاتر اُسلوبِ اظہار (higher expression) کے ذریعے سے ظاہر کرے اور اُسلوبِ بیان، اظہار کا وہ سانچا، (higher expression) سننے یا پڑھنے والے کو مجبور کردے کہ وہ اس استعاراتی ترکیب کا تجزیہ اُسی انداز سے کرے جس انداز سے علامت کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا شاعرانہ کمال ہے۔

اس شعر کا ابتدائی مفہوم جاننے کے لیے پہلے اس کی زمین بنالیں۔ سورج ایک ایسی چیز ہے جو مبدئِ وجود ہے، مبدئِ حیات ہے، مبدئِ کمال ہے۔ یہ سورج نہ صرف میرا وجودی کفیل ہے بلکہ زمان ومکاں کا بھی وجودی مصدر و منبع ہے۔ ایک ایسا منبعِ حیات جس سے یہ دُنیا اور میں، دونوں یکساں شدت اور صحت کے ساتھ ماخوذ ہیں۔ تو جب تک ہم اس مصدرِ واحد سے جڑے رہیں گے تو اس دُنیا اور آدمی کے درمیان ایک مطابقت جاری رہے گی، لیکن جیسے ہی اس اصل اور منبع سے تعلق کمزور پڑے گا، اس دُنیا اور کائنات کے درمیان ایک متصادم دوئی پیدا ہوجائے گی۔ دوئی بُری چیز نہیں ہے، متصادم دوئی بُری چیز ہے۔ دوئی علم کی ضرورت ہے، دوئی کے بغیر علم کا قیام نہیں اور دوئی کو رفع کیے بغیر وجود کا قیام نہیں۔ دوئی علم کی ضرورت ہے، اور اس کو رفع کرنا وجود کی ضرورت ہے۔ اس دوئی میں جو علم کی ضرورت کے طور پر مجھ میں اور کائنات میں ہے، یہ دوئی کسی وجہ سے وجود کی سطح پر ایک متصادم دوئی بن گئی ہے مجھ میں اور کائنات میں۔ تو اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو اپنی اصلِ واحد پر دوبارہ استوار کریں۔

اس کے بعد اس کا ایک متوسط مفہوم ہے۔ متوسط مفہوم میں سورج کے وہی معنی برقرار ہیں کہ یہ منبع و مصدرِ حیات ہے، مبدء و سرچشمہ حیات ہے۔ اس مبدء سے جو نظامِ وجود یا نظامِ ہستی پیدا ہوا ہے اس کے دو جزو ہیں، دو کردار ہیں، دو اطراف یا قطبین ہیں: ایک فعال قطب (active pole)  ہے یعنی انسان، دوسرا انفعالی قطب (passive pole)  ہے یعنی دُنیا اور زمانہ۔ تو انسان فاعلی کردار ہونے کی حیثیت سے زمانے اور سورج کے بیچ میں نسبت کو ایک تخلیقی قوت کے ساتھ برقرار رکھتا ہے۔ انسان اگر بیچ میں سے ہٹ جائے تو کائنات اپنے موجود ہونے کا جواز گنوا بیٹھے گی۔ تو یہ ہے انسان کا فاعلی حیثیت میں ہونا کہ کائنات کو معلوم ہونے اور موجود ہونے کے تمام معانی انسان دیتا ہے۔ ان دواجزا اور کرداروں کو ذرا ایک منظر کی طرح دیکھیے۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ یہ دونوں کردار، یہ قطبین اب سست پڑتے جارہے ہیں، اپنی اصل کے ساتھ ان کی اپنے اپنے دائرے میں وابستگی کمزور پڑتی جارہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے اپنا فاعلی کردار معطل کررکھا ہے، یا فراموش کر رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کو کائنات پر غلبہ دے کر پیدا کیا گیا، اس غلبے کو یہ اپنے عمل سے برسرِکار نہیں لاسکا، محفوظ نہیں رکھ سکا۔ اس صورتِ حال میں ایک آدمی اُٹھ کے کَہ رہا ہے، یا ایک آواز آرہی ہے کہ اے انسان اُٹھ! اور اپنی اصل کی طرف پوری دستیاب طاقت کے ساتھ بلند ہوجا، اپنی اصل کی طرف پلٹ! یعنی تیرا اپنی اصل کی طرف پلٹنا اپنی پوری وجودی یکسوئی کے ساتھ اس کائنات کی وجودی تھکن کو، اس کی فرسودگی کو، اس کے تعطل کو، اس کی کمزوری کو دور کردے گا۔ یہ ہے اس کا درمیانی درجے کا مطلب۔

یہ ایک ایسا مرکز ہے کہ میرا کچھ ہونا اس پر موقوف ہے اور جتنا میں ا س سے دور ہوں اتنا ہونے کے عمل میں نالائق اور نااہل ہوں۔ تو یہ مرکز جو کَونی بھی ہے اور انفسی بھی، جو کائناتی بھی ہے اور انسانی بھی ہے، جو انفس کا بھی مرکز ہے، آفاق کی بھی منزل ہے۔ یہ جو انفس وآفاق ہیں، یعنی مَیں اور کائنات، وہ اس کے ساتھ نسبت میں کمزور پڑ گئے ہیں کہ آفاق میں پژمردگی چھاگئی ہے اور کائنات پر تھکن طاری ہوگئی ہے۔ کیونکہ انفس کا قانون ہے سکون، آفاق کا قانون ہے حرکت۔ تو یہ سکون جو آفاق کی خِلقت میں داخل ہے، یہ سکون اپنی اصل سے لاتعلق ہوکر ایک تعطل اور پژمردگی، غفلت اور بے مایگی میں بدل گیا ہے، اور کائنات کیونکہ بنی ہی حرکت کے جوہر سے ہے، تو کائنات اپنی حقیقت سے لاتعلق ہوکر ایک لاطائل اور بے معنی حرکت کرکر کے اب تھک گئی ہے۔ کائنات کی یہ تھکن کس وجہ سے ہے، ہم کس لفظ سے کَہ رہے ہیں کہ کائنات تھک گئی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ بات ہے۔ انفس کا سکون اگر کائنات کی حرکت میں منعکس نہ ہو تو کائنات کی حرکت مہمل ہے، اور کائنات کی حرکت اگر انفس کے سکون کے ساتھ آمیز نہ ہوتو یہ سکون نہیں ہے، یہ جمود ہے، مردنی ہے۔ اس ایک منبع کے ان دو طفیلیوں کا یہ فرض ہے کہ ایک دوسرے کی تکمیلی حیثیت میں رہیں۔ کائنات اپنی حرکت کو انفس کے سکون کے ساتھ مناسبت دے، انفس اپنے سکون کو کائنات کی حرکت میں داخل رکھے۔ تو ان دونوں کی لاتعلقی کی وجہ سے یہ عمل رُک چکا ہے۔ اب کائنات کی حرکت بندر جیسی حرکت ہے کہ وہ یہ کَہ رہا ہے کہ تو میری اُچھل کود دیکھ، اور انفس کا سکون مرے ہوئے آدمی کا ساکت ہوجانا ہے، مردنی میں بدل چکا ہے۔ یہ ہوا پورا منظر۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ کیونکہ فاعلی قطب انسان ہے یعنی دارائے انفس، صاحبِ انفس، تو انفس میں تبدیلی لائے بغیر یہ بیگانگی اور نحوست ختم نہیں ہوگی۔ انفس کو متوجہ کرو گے تو اپنی اصل کے ساتھ نسبت پیدا کرنے کا زندہ امکان پیدا ہوگا، واضح کشادگی اور دمیدگی حاصل ہوگی۔ علامہ انسان سے مخاطب ہیں کہ اے صاحبِ انفس! اپنے اس یکطرفہ سکون کو چھوڑ کر اُٹھ، اپنی اس نیند کوتوڑ کر اُٹھ اور ’’خورشید‘‘ کی طرف سفر کا وہ سامان تازہ کر جس میں تجھے کائنات سے بھی کمک لینی ہے۔ اور اگر تم نے ’’خورشید‘‘ تک پہنچ جانے کا یقینی سامان کرلیا تو اس کے ضمن میں دن اور رات جن کی سانس حرکت کرکے اکھڑ چکی ہے، ان کی سانس بحال ہوجائے گی، ان کی سمتِ حرکت متعین ہوجائے گی۔ حقیقت موجود ہے یہاں سویا ہوا آدمی پڑا ہے وہاں غبار اُڑاتا ہوا زمانہ چلا جارہا ہے، نہ اس کے دن سے کچھ فائدہ ہورہا ہے نہ اس کی رات سے کچھ ظاہر ہورہا ہے۔ اس کی رات بھی خلا ہے، اس کا دن بھی اُجاڑ ہے اور ہانپ ہانپ کے زمانہ چلا جارہا ہے۔ تھکن کس وجہ سے ہوئی ہے، تھکن چلنے سے تھوڑی ہوتی ہے، تھکن بے سمتی سے ہوتی ہے۔ تو اس کائنات کی کوئی سمت ہی نہیں رہی کیونکہ انفس غافل پڑا ہوا ہے۔ اس حرکت کو بھی ہم موثر اور نتیجہ خیز بنا دیں، یعنی ہم زمانے کی حرکت کو سمت دے دیں تاکہ اس میں رُوح پیدا ہوجائے، تازگی پیدا ہوجائے۔

’’نَفسِ سوختہ‘‘ کہتے ہیں تھکن کو۔ نَفس سوختن کا مطلب ہے تھک جانا۔ نَفسِ سوختہ کی ترکیب کا حسنِ معنوی ہم بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ ’’نفسِ سوختہ شام و سحر‘‘ ایسا ہے جیسے ایک آدمی کہیں نہ پہنچنے کے لیے چلنے پر مجبور ہو، سعیِ لاحاصل۔ اب اس کا جو حال ہے وہ نفسِ سوختہ ہے۔ آپ اس تھکن کا اندازہ کیجیے کہ مجھ پر جبر ہے کہ مَیں کہیں نہ پہنچنے کے لیے چلتا رہوں۔ ہمارے پاس نظامِ احساس موجود نہیں کہ ہم اس تھکن کو محسوس کرسکیں۔۷؎ یہ شعر کَہ کیا رہا ہے؟ یہ کتاب جو تم پڑھنے والے ہو، یہ کتاب یہ کہے گی اور یہ کروائے گی۔ نیز یہ کہ سمت دینے کا مطلب بھی اخلاقی ہدایات نہیں ہے، وہ اصلاحی سمت نہیں ہے، وہ افادی، عملی، معاشی لائحہ عمل نہیں ہے، وقتی رہنمائی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی سمت ہے جو میرے اور کائنات کے شجرِوجود کی آبیاری کرے گی جو سوکھ چلا ہے۔ وہ سمتِ سفر یہ ہے۔مراد یہ کہ نہ وہ سیاسی ہے، نہ اخلاقی ہے، نہ معاشی ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے، وہ وجودی سمتِ سفر ہے۔

علامہ اقبال پر ایک بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ پیغام اور مقصد اور کئی طرح کی چیپیاں ان پہ چپکا چپکا کے ان کو اپنے اپنے مصرف میں صَرف کیا گیا۔ ان کے پیغام اور مقصد کا مطلب یہ سب نہیں ہے کہ مَیں اس میں سے کوئی پیغام نکال لوں، ان کا ہر پیغام جو ہے وہ آپ کو وصول کنندہ نہیں بناتا، وہ وصول نہیں ہوتا وہ آپ کو گرفت میں لے لیتا ہے، گھیر لیتا ہے۔ وہ تلقین کی طرح آپ تک نہیں پہنچتا بلکہ آپ کو دوبارہ بنانے، پھر سے تشکیل دینے والی ایک لہر کی طرح آپ میں سے گزرتا ہے اور جب تک آپ اپنے آپ کو اس رُخ پہ نہیں رکھیں گے آپ اقبال کو سمجھ نہیں سکتے۔۸؎

اس شعر کے سلسلے میں غلط فہمیاں بھی بہت سی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، یا سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ’’سامانِ سفر‘‘ خورشید کا ہے، یعنی خورشید کو سفر کے لیے تیار کرنا۔ اس معنی کی نحوی قباحت کم ہے، کیونکہ نحوی طور پر تو اس کی گنجائش ہے کہ سامانِ سفر خورشید کا ہے۔ مَیں خورشید کے سامانِ سفر کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اس کو کسی گاڑی پہ سوار کروائوں تو نحوی طور پر اس کی گنجائش ہے اس میں، لیکن یہ معنی لینے سے خورشید کی علامتی معنویت جو بہت سی روایتوں میں معروف ہے، مثلاً مرکزِ نظامِ ہستی، یا اس طرح کے اور مفاہیم، وہ پورا نظام غارت ہوجائے گا، اور یہ شعر اس انتہائی بڑی روایت سے نیچے آگرے گا۔ خورشید اجرامِ فلکی میں سے ایک بن کر رَہ جائے گا، علامت نہیں بن پائے گا۔ یہی بات ہے جو ہمیں روکتی ہے کہ ہم یہ نہ سمجھیں کہ خورشید کو سفر کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔

یہاں تک ہم نے اس کا ایک معنوی دروبست عرض کرنے کی کوشش کی۔ اب اس کی لفظی خوبیاں دیکھیے۔

علامہ نے ’اُٹھ‘ سے آغاز کیا ہے، یہ نہیں کہا کہ ’’چل کہ خورشید کا سامانِ سفر پیدا کریں‘‘، ’’سن کہ خورشید کا سامانِ سفر پیدا کریں‘‘، ’’آکہ خورشید کا سامانِ سفر پیدا کریں‘‘۔ سب ٹھیک ہے کہنے میں، لیکن ’اُٹھ‘ کہنے میں ایک خوبصورتی ہے کہ لیٹا ہوا آدمی اُٹھ کر سورج سے کچھ نزدیک ہوجاتا ہے، مطلب اس سفر کا ابتدائی فعل بھی سورج سے نزدیک کردے گا تو سامانِ سفر کا گویا آغاز ’’اُٹھنے‘‘ سے ہوگیا۔ یہ شعری محاسن ہیں۔

اب اس میں رعایتیں دیکھیں۔ شاعری میں رعایت کا مطلب ہوتا ہے ایک لفظ دوسرے لفظ سے کئی طرح کے رشتے رکھتا ہوا نظر آئے۔ وہ نسبتیں تضاد کی بھی ہوسکتی ہیں اور مشابہت اور مطابقت کی بھی ہوسکتی ہیں۔ ان نسبتوں کو قائم کرنے میں لفظ میں موجود کئی معانی بیک برسرِعمل رہتے ہیں۔ یعنی لفظ اپنے ایک معنی کو شعر کے بنیادی مضمون میں صَرف کررہا ہے اور دوسرے معنی کو شعر کی تکنیکی بناوٹ میں استعمال کررہا ہے۔ یہ کمال ہوتا ہے۔ اس کو خوب اچھی طرح چکھنا چاہیے، یہی شاعری ہے۔ سو اَب اس میں آپ دیکھیے کہ رعایتیں کیا ہیں۔ ’’خورشید‘‘ اور ’’تازہ کریں‘‘۔ تازہ کا مطلب ہے کہ شاداب کریں۔ خورشید اور تازگی میں نسبت تضاد کی ہے، کیونکہ خورشید آگ ہے اور تازگی، پانی اور ٹھنڈک کے خاندان کی چیز ہے۔ پھر نَفسِ سوختہ اور خورشید میں ایک نسبت ہے وہ مطابقت کی ہے کہ جس نَفس کو جل جانا چاہیے خورشیدِ حقیقت کی کرن سے، اس کی تپش سے، وہ نَفس جل گیا ایک جھوٹی آگ سے۔ نَفسِ سوختہ اور آتشِ خورشید میں ایک مناسبت ہے۔ خورشید سب کو جلاتا ہے، اس کو ذہن میں رکھیں، خورشید سب جلائے گا، تو اَب یہ کہا جارہا ہے کہ شام وسحر کی کل پونجی نَفسِ سوختہ ہے، اکھڑی ہوئی سانس ہے، تھکا ہوا تنفس ہے۔ یہ شام وسحر کی کل پونجی ہے۔ تو سوختہ کے لفظ پر آپ اصرار کرکے خورشید کے ساتھ اس کی نسبت دیکھیں تو ایک تو مطابقت کی رعایت پیدا ہوجائے گی۔ اب اس رعایت سے ایک گہرے معنی پیدا ہوجائیں گے جو شعر کے بنیادی مضمون کی تشکیل میں شاید بہت ضروری نہ ہوں لیکن شعر کی معنویت کے دروبست میں بہت تزئین وآرائش کا کام دیں گے۔ وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ شام وسحر کے اندر جو کچھ جلتا ہے اس کو سورج کی آگ سے جلنا چاہیے تھا، لیکن ان کے یہاں جو کچھ جلا ہے وہ ایک جھوٹی آگ سے جلا ہے۔ یہ کتنی المیہ بات پیدا ہوگئی۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ مجھے جلنا ہے، میری ہستی کو جلنا ہے لیکن اصل آگ سے جلنا ہے، نقلی آگ سے نہیں جلنا۔ اور پھر مجھے ایک دن پتا چلے کہ مَیں جلنے کے لیے بنا ہوں مگر نقلی آگ سے جل گیا، تو اس سے بڑا المیہ کوئی ہوسکتا ہے؟

زمانہ اور دُنیا، شام وسحر میں، یہاں دونوں معنی ایک ساتھ جڑے ہیں، وقت اور دُنیا۔ شام وسحر کا یہ مطلب ہے۔(   ؎   زمانہ کہ زنجیر ایام ہے؍ دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے)  ۹؎

یہی اس کا مطلب ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں۔ مطلب یہ کہ اس کا سانس اُکھڑ گیا ہے، اس کا سانس بحال کریں، یا یہ کہ یہ بے معنویت کے دھویں میں سانس لے رہا ہے، اس دھویں کو صاف کرکے نسیمِ بہار چلادیں۔ یہ سادہ سا شعر ہے لیکن یہ جیسے آپ ایک چیز کی تعریف اور تعارف کرواتے ہیں تو پہلے بتاتے ہیں کہ اس چیز کی غایت، مقصد یہ ہے، یعنی یہ چیز ہے اس کا مقصد یہ ہے، دوسرا ایک اور ضمنی تعارف کروا دیتے ہیں کہ اس چیز کا جواز یہ ہے۔ مَیں نے مقصد بتا دیا کہ مجھے کراچی جانا ہے، مَیں کراچی جارہا ہوں ریل گاڑی پہ، تو اَب مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ مَیں ریل گاڑی پہ ہی اس لیے جارہا ہوں، بس یا جہاز پہ اس لیے نہیں جارہا۔ غایت ’’اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں‘‘ میں بتا دی، جواز یہاں دے رہے ہیں کہ یہ جو شاعری کا مَیں نے یہ رنگ اختیار کیا ہے، یہ لہجہ جو بنایاہے وہ اس لیے بنایا ہے کہ مَیں نے شاعری رُومانوی انداز میں نہیں کی، ایک خطابی انداز میں کی ہے۔ یہ خطابی انداز کیوں اختیار کیا، اس کا جواز کیا تھا؟ جواز یہ ہے کہ مَیں جس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہوں اس مقصد کا بیان خطابی آہنگ کے بغیر ہوہی نہیں سکتا۔

 پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

اس شعر میں ایک اختلاف ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ استفہامیہ ہے، کہیں یہ ہے کہ یہ فیصلہ یا دعویٰ ہے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے۔۱۰؎ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ نہیں یہ استفہام ہے، یعنی ناممکن ہے کہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر! جو پہلا مصرع دعوے کے معنی میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہیرے کا جگر تو پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے، لیکن مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک اثر نہیں کرسکتا، مطلب اور معنی دونوں طرح نکل آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مردِ ناداں کے ساتھ کلامِ نرم ونازک کرنا بے اثر ہے کیونکہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا۔ جو چاہے معنی لے لیں، کوئی حرج نہیں۔ ایک اشارہ اور بھی ہے کہ مخاطب مردِ ناداں ہے۔ یہ اشارہ زیادہ ہے کیونکہ کلامِ نرم ونازک تو مل جائے گا اس میں لیکن چاہے نرم ہو، چاہے سخت ہو، احساس یہ دلاتا رہے گا کہ تم نادان ہو۔ عہد حاضر کی مجموعی فکر، اس کے پورے فکری تناظر میں ایک نادانی نے گھر کر لیا ہے۔ یہ اس سارے عہد کی نادانی ہے۔۱۱؎

ایک اور بات بھی ملحوظ رہے کہ اقبال استفہامیہ لہجہ استعمال نہیں کرتے۔ اقبال مصرعوں کی بناوٹ ایسی کرتے ہیں کہ جس میں روز مرہ کی سطح پر پیدا ہونے والا استفہام نہیں پایا جاتا، ایسا استفہام جس کو ظاہر ہونے کے لیے ایک لہجے اور ایک خاص پڑھت کی ضرورت ہو۔ ایسا استفہام اقبال کے ہاں نہیں، کیونکہ وہ زبان کے بہت روز مرہ معاشرتی دائرے کو اپنی شاعری کے اندر نہیں آنے دیتے۔ اس وجہ سے کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ استفہام نہیں ہے تو وہ اقبال کے نظامِ اظہاروبیان سے زیادہ قریب ہے۔ آپ اس طرح کے مصرعے اقبال کے نہیں دکھا سکتے جس میں لہجے سے پیدا ہونے والا استفہام ہو۔ وہ اس طرح لفظوں کو دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ وہ زبان کا وہ مصرف اپنے یہاں نہیں رکھتے جو معاشرتی استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ زبان کا معاشرتی دروبست اقبال کے ہاں نہیں ہے۔ ان کے مشمولات اور مافیہ کی حیثیت ہی ایسی ہے، ان کا تقاضا یہی ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ اقبال کا لہجہ کہاں آئے گا، کوئی صداکار ہوتا اس سے پڑھواتے تو سمجھ میں آجاتا کہ اس کو دوطرح پڑھیں کہ’’ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘، ’’مردِ ناداں پر کلامِ نرم ونازک بے اثر‘‘ اب اگر کوئی اس طرح پڑھے کہ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر؟‘‘ تو اب یہ اقبال کی آواز نہیں رہی۔

اس کے بعد پہلی غزل آتی ہے ۔یہ پہلی غزل ایسی ہے جیسے اقبال نے اپنا پروگرام بتایا ہو،اس کتاب کو وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ آدمی جو خورشید کا سامانِ سفر رکھتا ہے وہ کیسا ہوتا ہے۔ تو یہ کتاب اقبال کے تصورِ انسان کی تمام تفصیلات کا مکمل اظہار ہے۔ بالِ جبریل، جیسے کہ اس لفظ سے ظاہر ہے اس آدمی کا استعارہ ہے جس کا کامل ہونا اللہ کے عطاو القا سے ہے، بالِ جبریل کسے کہتے ہیں؟۔ میرا کمال اللہ سے ہے اور اللہ کی طرف جاتے ہوئے بھی برقرار رہے گا۔ اللہ نے مجھے منفرد کرکے کامل رکھا ہے اور یہ انفرادیت اللہ کے حضور میں بھی اسی طرح برقرار رہے گی جیسی غیاب میں ۔ اقبال کا پورا تصورِ انسان اس کتاب میں آگیا ہے۔ اس تصور کا کوئی بھی بامعنی جز اس کتاب سے باہر نہیں رہ گیا۔

 

غزل : ۱

 میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں

 حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں

میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

 گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند

میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

 گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود

گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہّمات میں

 تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں!

  میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں

یہ ایک بہت مشکل اور انتہائی بڑے معانی والی غزل ہے۔ انسانوں نے پورے تاریخِ شعور میں معانی اور حقائق کی جو درجہ بندیاں کی ہیں اور جس پر منکر اور قائل دونوں کا اتفاق ہے ان تمام مدارج کو اس غزل میں سمیٹا گیا ہے، اسی کو ہم تقدیری معانی کہتے ہیں۔ اس پانچ شعر کی غزل میں وہ تمام تقدیری معانی آگئے ہیں تو ذرا محتاط ہوکر غور سے اور مشکلات کے لیے تیار ہوکے اس کو شروع کرنا چاہیے۔پہلے اس کے لفظوں کا تجزیہ کردیا جائے۔

نوائے شوق: نوائے شوق کا مطلب ہے شوق کا اظہار۔

پہلے اس اصطلاح کو ہم متفرق انداز میں بیان کرتے ہیں پھر ان اجزا کو ملا کر دیکھیں گے۔

شوق: یہاں شوق کا مطلب ہے کہ طلب لازم ہے اور حصول ناممکن۔ ان دونوں کے یکجا حصول، ان کے تحقق، ان کے مجموعے کا نام شوق ہے۔جلنا ضروری ہے، آگ کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ذرا اس پر پہنچا کے تو دیکھیں خود کو۔ جلے بغیر چارہ نہیں ہے پر آگ کبھی نہیں ملے گی۔ یہ جو کیفیت ہے میرے اندر وہ شوق ہے۔ یہ اس کا ابتدائی مفہوم ہے۔ شوق ، عشق کا وہ جذبہ ہے جس میں ہجر اٹل ہے اور وصل کی طلب پورا اندوختہ وجود ہے۔ ہجر کا اٹل ہونا اندوختہ شعور ہے اور وصل کی طلب اندوختہ وجود ہے۔ یہ شوق ہے۔ ان دو متناقض اجزا کو جمع کرکے دیکھیے۔ میرے شعور کی کل پونجی یہ ہے کہ وصل ناممکن ہے، محبوب کا وصل ناممکن ہے۔ میرے وجود کی کل متاع، سارا نظام یہ ہے کہ وصل ہونا چاہیے۔ مَیں وصل کی طلب سے بنا ہوں اور میرا شعور ہجر کے اٹل ہونے کے یقین پر کھڑا ہے۔ یہ ہجڑ ٹل نہیں سکتا، یہ مَیں جانتا ہوں، لیکن مَیں بنا اس طرح سے ہوں کہ وصل کی طلب ہی مجھے بٹھاتی ہے اور چلاتی ہے اور لٹاتی ہے، اس کو کہیں گے شوق۔

ایک اور بات یہاں عرض کردیں۔ کمال کی تعریف یہ ہے کہ اس کو زوال کا سامنا نہ ہو۔ کمال وہ ہو ہی نہیں سکتا جس کے لیے زوال کا اندیشہ بھی کیا جاسکے۔ شوق، عشق کا کمال ہے اور اس کے ازالے کی کوئی صورت فرض بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ اسی طرح باقی رہے گا، اسی طرح موثر اور فعال رہے گا۔ اگر وصل مل جائے گا تو شوق ختم ہوجائے گا۔ شوق کو اس زوال کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، شوق اپنے آپ کو برقرار رکھے گا۔ تناقض کی اس صورتِ حال میں ہجر اٹل، وصل مطلوب۔

حریمِ ذات: حریم اس حدِ وجود کو کہتے ہیں جہاں غیر کا گذر نہ ہو، حریم وہ چار دیواری ہے جہاں صرف مالکِ مکان رہ سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حریم وہ چاردیواری ہے جہاں مالکِ مکان کے غیر کا گزر نہیں ہوسکتا۔ حریم وہ حدِ وجود ہے جہاں ذات کے علاوہ کسی کی سمائی نہیں ہے۔ حریم وہ مرتبہ ہستی ہے جہاں ذات ہی رہ سکتی ہے، ذات سے غیریت یا اپنائیت کا تعلق رکھنے والی کوئی بھی چیز وہاں نہیں ہوسکتی۔ ذرا اوپر اُٹھ کے کہیں تو حریم وہ منتہائے ذات ہے جہاں گنتی بے معنی ہے، جہاں تعداد باطل ہے، اس بات کو ذرا غور سے دیکھیں کہ حریم واحدِ محض کا گھر ہے۔ اس ذات کا گھر ہے جو واحدِ محض ہے جہاں آپ یہ نہ کَہ سکیں کہ یہ صفت اور وہ صفت ، جہاں کسی بھی طرح کی گنتی نہ کی جاسکے، جہاں کسی بھی گنتی کا مصداق نہ ہو، موجود نہ ہو۔ جیسے مَیں ایک ہوں اپنی حد میں، میرے اندر گنتی کے پچاس مصداق موجود ہیں، آنکھیں دو ہیں، پائوں دو ہیں، ہاتھ دو ہیں، دو دو کہنا میرے اندر ممکن ہوگیا لیکن حریم وہ سطح ہے جہاں ذات کا تجزیہ نہ کیا جاسکے۔ جہاں ذات اپنی وحدت میں خالص اور صاف، منزہ ہو، جہاں ذات یکتا، بے ہمتا اور واحد ہو اور اس کا تجزیہ نہ کیا جاسکے، حریم وہ ہے جس میں جانا بھی منع، جس سے نکلنا بھی منع۔ تنزیہ ِ محض، جسے نہ کوئی جاکر متاثر کرسکتا ہے نہ اس کو اپنے کسی ظہور سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ چار درجے ہیں حریم کے یا حریم ذات کے۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حریم گویا ذات کا وہ مکان ہے جہاں اس کی صفات اور صفات کے ساتھ اس کی نسبتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ کسی بھی ذات کا تجزیہ کرتے چلے جائیں کہ یہ چلنے والا ہے، یہ بولنے والا ہے، یہ پڑھنے والا ہے، یہ دیکھنے والا ہے، یہ سننے والا ہے، یہ جسم والا ہے، یہ سر والاہے، یہ کرتے چلے جائیں اور ان سب کو منہا کرتے چلے جائیں، دیکھنا، سننا، جاننا سب میرے اندر سے آپ منہا کرتے چلے جائیں تو ان سب اوصاف کے خارج ہوجانے سے مَیں غائب نہیں ہوجائوں گا۔ یہ سب اوصاف خارج ہوجائیں گے تو بھی مَیں باقی رہوں گا۔ تو ذات کا یہ معاملہ ہے کہ ذات سے تمام اوصاف اگر دور ہوجائیں تو اس کا ذات ہونا اتنے ہی یقین کے ساتھ ثابت ہے جتنے یقین کے ساتھ صفات کی موجودگی میں ثابت ہے۔ حریم کہتے ہیں ذات کا وہ مرتبہ جہاں وہ اپنی صفات سے بھی ماورا ہے۔

غلغلہ ہائے الاماں: یعنی بچائو بچائو کا شور بتکدہ صفات میں۔ ذات کے لیے حریم کا لفظ استعمال کرکے یہ بتا دیا کہ یہاں گنتی محال ہے اور صفات کے لیے بتکدہ کَہ کے یہ بتا دیا کہ یہاں کا قانون کثرت ہے۔ حریم کا قانون وحدت ہے، بتکدے کا قانون کثرت ہے۔ بتکدے کا ایک اور مطلب بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ علامتیں، نشانیاں اور اشارے ہیں۔ یہ اپنے سے اوپر اشارہ کریں تو یہ صحیح ہیں لیکن اگر یہ خود اشارے کا ہدف بن جائیں تو باطل ہیں۔ علامت خود معلوم بن جائے تو باطل ہے، علامت علم فراہم کرنے والا اشارہ اور نشانی بنی رہے تو ٹھیک ہے۔ تو بتکدے میں یہ دونوں رعایتیں ہیں کہ بت اگر اشارات کی طرح ہیں تو ٹھیک ہیں اور بت اگر اہداف کی طرح ہیں تو باطل ہیں۔ یہ بت راستے میں لگے ہوئے نشانات اور اشاروں کی طرح ہیں تو ٹھیک ہیں لیکن بت اگر منزل کے نشان کی طرح ہیں تو غلط ہیں۔ جیسے غالب نے کہا۔۱۲؎

ہے پرے حدِ ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

اور محمودشبستری کا شعر ہے :۳ ۱؎

مسلماں گر بدانستے کہ بت چیست

بدانستے کہ دیں در بت پرستی است

تو اَب صفات دونوں معنوں میں بت کدہ ہیں۔ مثبت معنی میں اس طرح سے ہیں کہ یہ کثیر ہونے کی حالت میں ذاتِ واحد کی طرف اشارہ کرتی ہیںاور منفی معنی میں یہ کہ یہ ذات کا بدل بن جاتی ہیں یعنی کسی آدمی کے لیے یہ ذات کا بدل بن جائیں تو منفی ہیں، دوسرے آدمی کے لیے ذات کی طرف اشارات بن جائیں تو مثبت ہیں۔ دونوں طرح سے بت کدے کو استعمال کیا گیا ہے اور یہاں یہ یاد رکھا جائے کہ بت کدہ یہاں منفی معنوں میں نہیں استعمال ہوا ہے، منفی اور مثبت دونوں جہتوں سے استعمال ہوا ہے۔ مطلب آپ یہاں بتکدہ صفات اگر تحقیر کے ساتھ پڑھیں گے تو وہ تحقیر منشائے شعر نہیں ہے۔ اس کو آپ بلاترجیح سادہ طریقے سے پڑھیں تو وہ مثبت بھی ہوسکتا ہے منفی بھی ہوسکتا ہے۔ تو بتکدہ منفی معنوں میں کیا ہے؟ اسے یوں سمجھیے کہ سمع و بصر اللہ کی صفات ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ میرا مبعود ہے لیکن ہم یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ سمع و بصر میرے معبود ہیں ۔ صفات کی یہ حیثیت ہے۔ سمع وبصر نہ مانا تو اللہ کو نہ مانا اور سمع وبصر کو غلط طریقے سے مانا تو بھی اللہ کو نہ مانا۔۱۴؎

یہاں یہ نکات ہم حریمِ ذات کی نسبت سے عرض کررہے ہیں کہ میرا عشق اتنا کامل اور اتنی رسائی والا اور اتنا سچا ہے کہ محبوب اپنی تنزیہ میں خلل پڑتے ہوئے محسوس کررہا ہے، یعنی میرا عشق اتنا سچا ہے کہ محبوب نے وصل کے ناممکن ہونے کا جو قانون بنایا ہے، اُس پر نظرثانی کا کچھ ارادہ سا اُسے ہونے لگتا ہے، ’’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘‘۔ تو علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ میری نوائے شوق نے حریمِ ذات میں ایک شور برپا کردیا ہے یعنی میری نوائے شوق کی رسائی وہاں تک ہے جہاں تک صفات کی رسائی نہیں ہے کیونکہ میرے شوق کی ساری یکسوئی ذات کی طرف ہے اور اس یکسوئی میں ایسی شدت ہے کہ بتکدہ صفات یعنی صفات کے دائرے میں ایک ایسا شور ہے کہ یہ کہیں ذات کا دائرہ نہ توڑ دے جس کی وجہ سے ہمارا جداگانہ تشخص برقرار نہ رہ سکے۔۱۵؎ یعنی صفات کا مفادیہ ہے کہ ذات سے ممتاز ہو کر اُن کا تشخص برقرار ہے۔ اب اس میں ایک زیریں رو چلتے ہوئے دیکھیے کہ یہ اسی ذہن سے نکلی ہوئی باتیں ہیں جس کے اندر وجودی کمال کا مطلب انفرادیت اور امتیاز ہے۔ آپ نے دیکھا کہ صفات میں بھی وہ جذبہ داخل کر دیا کہ صفات کو یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ ہمارا امتیاز اس کی وجہ سے فنا نہ ہوجائے، کیونکہ ذات کا دائرہ ٹوٹے گا تو ہمارا امتیاز باقی نہیں رہے گا۔

شور، نوا، غلغلہ، یہ ایک ہی خاندان کے الفاظ ہیں اور مختلف المعنی ہیں۔ نوا کو شوق سے نسبت دے دی۔ آواز کے خاندان میں بننے والے جتنے الفاظ ہیں ان میں شور کا لفظ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں جسمانیت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ شور خاموشی کا تموج بھی ہوسکتا ہے، یہ شور بہت باطنی اور بہت داخلی بھی ہوسکتا ہے۔ ’’نوا‘‘ کے لیے بھی ایک آدمی کافی ہے، شور کے لیے ایک ظرف مکانی بہت ہے، غلغلے کے لیے کئی لوگ چاہییں۔ یہ تعددِ صفات کا کنایہ ہے۔ شاعر کی کاریگری دیکھیں۔ میری نوا مجھ سے نکل کے ذات میں شور بن گئی ہے، یہ بہت بامعنی ہے، اس میں بہت باتیں ہیں۔ فی الحال اتنا جان لینا شاید مفید ہو کہ شور کا غل ہونا ضروری نہیں ہے، شور کا سنائی دینا ضروری نہیں۔ شور میں ایک سرّیت پائی جاتی ہے جو غلغلے اور نوا اور صدا اور ندا جتنے بھی الفاظ ہیں ان میں نہیں پائی جاتی۔ ذات کی حرکت حبّی ہے۱۶؎ ہماری حرکت عشقی ہے تو وہ حرکتِ حبی جس کی وجہ سے عشق اور کائنات اور انسان سب پیدا ہوئے ہیں وہ حرکتِ حبی کو پھر جیسے ارتعاش پیدا ہوا ہو میری نوائے عشق سے۔ اس میں ایک عجیب نکتہ ہے۔ وہ حرکت واحد حرکت ہے جو ذات میں ہوئی۔ تو ذات میں جس حرکت نے اس کائنات اور عشق وغیرہ کو پیدا کیا ہے، وہ حرکت خود کو، ذات کو ظاہر کرنے پہ مائل ہوگئی۔ یہ شور پیدا ہوگیا حریمِ ذات میں۔ ذات نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مَیں صرف صفات کے آثار سے ظاہر ہوں، لیکن میری نوائے شوق سے ذات کے اندر یہ بھی تقاضا پیدا ہوگیا کہ چلو اس پہ تو خود کو ظاہر کرہی دوں۔ مطلب شور کے لفظ میں یہ رعایتیں ہیں، ہم اس سے معنی نہیں بنا رہے، رعایتیں نکال رہے ہیں۔

آئیے اب اس غزل کے مطلع پر اس کے بنیادی مضمون اور مرکزی خیال کے اعتبار سے غور کریں۔ اس شعر میں اقبال نے ’’وجود‘‘ کو انسان اور خدا کے حوالے سے اور اس کی انتہا اور کلیت میں بیان کیا ہے، اس کی تعریف معین کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی شعور کی تمام سرگرمیاں، اس کے تمام حاصلات، اس کا اپنے اہداف اور موضوعات سے تعلق، سب کا کلّی مزاج دراصل ایک سوال کے جواب کو حاصل کرنے کی کاوش ہے۔ اور وہ ہے ’’وجود کیا ہے؟‘‘ ہم جس چیز کو بھی جانتے ہیں یا جس چیز کو بھی جاننا چاہتے ہیں وہ دراصل اس سوال کے جواب کے دبائو سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے علم کی کوئی ایک حالت، کوئی ایک صورت ایسی نہیں ہے جو اس سوال سے غیر متعلق تو کجا، اس سوال سے بننے والے دائرے سے باہر بھی ہو۔ ہماری تمام معلومات چاہے وہ تعقل، تخیل، تفکر اور تصور کی ذہنی قبیل سے ہوں، یا احساسات، جذبات وغیرہ کی حسی نوع سے ہوں، ایک ایک چیز، ’وجود کیا ہے‘ کے سوال سے عہدہ برآ ہونے کا ایک نیا زاویہ ہے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ جس سوال سے پیدا ہونے والے مزاج پر شعور کی تشکیل اور تخلیق ہوئی ہے اس سوال کو اقبال نے اپنی کتاب کے آغاز ہی میں اپنا اصل فکری تناظر بنا دیا ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ اس سوال کے کسی مطابقِ حال جز پر کام کیا ہو بلکہ اس سوال میں جو کلیت اور جو منتہائیت چھپی ہوئی ہے اُس کلیت اور اس منتہائیت کو اس کے پورے زور کے ساتھ اپنے قول کے آغاز ہی میں بیان کردیا۔ تو یہ مطلع اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس مطلع میں اقبال نے اس خلقی اور تقدیری سوال کی وسعت اور اس سوال میں پوشیدہ تمام ذہنی، حسی، رُوحانی، اخلاقیبلکہ وجودی امکانات کو جمع کردیا ہے۔ آپ اس سے برتر سطحِ کلام کا ،اس سے بڑے بیان کا ، اس سے بڑے ادراک کا تصور نہیں کرسکتے جس میں یہ سوال اپنے تمام اجزا، اپنے تمام گوشوں، اپنے تمام زاویوں سمیت سما جائے۔ اس سے بڑھ کر ہم کوئی علمی دائرہ نہیں بنا سکتے۔ تو یہ غزل بالخصوص اس سوال کا احاطہ کر لینے والا ایک جہان معنی تشکیل دیتی ہے۔ وہ پورا جہان اس غزل میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے پہلے شعر میں وجود اپنی اعلیٰ، ارفع اور اُصولی جہت رکھتا ہے، پہلے شعر میں اُس سطح کو چھو کر دکھایا گیا ہے۔ وجود کی اعلیٰ اور ارفع اور کلی اور اصلی جہت ہم کسے کَہ رہے ہیں ؟ جس سے خدا اور انسان دونوں کی تعریف متعین ہوجائے۔ اساس و ماہیت کی تعیین و تعریف میں تبدیلی کے بغیر۔ جس طرح سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کا مادہ تعریف ایک ہے اور ایک ہونا چاہیے، اُن میں امتیاز سورج اور شمع ہونے کی جہت سے پیدا ہوگا، روشن ہونے کے اعتبار سے امتیاز نہیں پیدا ہوگا۔ اگر آپ کا مقصود ہے روشنی کا بیان، اس کی تعریف معین کرنا تو وہ روشنی کہیں سے بھی برآمد ہورہی ہو، اس کی تعریف ایک ہوگی۔ مراد یہ کہ وجود اپنی ارفع اور اپنی اُصولی جہت سے موجودات کے فرق سے متاثر نہیں ہوتا۔ ’’موجود‘‘ کو define کرنا، اس کی تعریف متعین کرنا الگ بات ہے، ’’وجود‘‘ کی تعریف معین کرنا ایک علیحدہ چیز ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ اس مطلع کا مضمون یہ ہے کہ اس میں وجود کو اپنی منتہائی حالت میں بیان کیا جارہا ہے، خدا اور بندے کے تناظر میں۔ یہ وجود کی اعلیٰ اور ارفع جہت ہے۔ اسی وجود کی ایک ادنیٰ جہت ہے، وہ ہے کائنات۔ اگلے کسی مقام پر کائنات بھی وجود کی نسبت سے احاطہ تعریف میں آجائے گی۔ یہ غزل ایک ایسے بیانیے کی تخلیق سے عبارت ہے جس میں وجود اپنی تمام نسبتوں، اپنی تمام اصالتوں کے ساتھ شناخت ہوسکے، ادراک میں آجائے۔ اس کی تعریف مقرر ہوجائے۔ وجود کے احاطہ تعریف میں آجانے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ موجودات کی ماہیت، ان کے نظم باہم، تاثیر و تاثر اور اُن کے درمیان تعلق کی اعلیٰ سطحوں کی فہم کی بیداری کا عمل شروع ہوگا۔ یہ ایک بہت سرسری اور سطحی فائدہ ہے، اور بھی بہت سے ہیں۔ اب اس شعر پہ آئیے۔

یہ شعر آپ کو بتا رہا ہے کہ یہ کائناتِ وجود ہے اور اس میں خدا ہے، انسان ہے، بیچ میں کائنات ہے۔ تو یہ کائنات موجود کی حیثیت سے ان میں تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ تو ہے، لیکن اُن کے درمیان جو ایک وجودی نسبت ہے اس میں کائنات کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا اور انسان موجود ہوتے ہوئے، کائنات کے سلکِ تعلق سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی انسان اور کائنات موجود ہونے کی جہت سے، ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کا جو اُسلوب رکھتے ہیں، وہ اُسلوب، کائنات ہے۔ اس کی مزید وضاحت ہوگی۔ ابھی تو ہم اس شعر میں داخل ہونے کے لیے جیسے دستک دے رہے ہیں۔ جہتِ وجود سے خدا اور انسان کو کائنات کی ضرورت نہیں ہے۔ جہتِ وجود سے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وجود اپنی ہر تعریف میں واحد ہے۔ وجود کی کوئی ایسی تعریف لائقِ غور، لائقِ توجہ نہیں سمجھی جائے گی، جو الوجود واحدٌ کے علاوہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے، یہ غیرعقلی ہوگی، غیرحقیقی ہوگی۔ جس تعریف میں وجود میں تعدد یا کثرت ثابت کی جائے، لائقِ توجہ بھی نہیں ہے۔

اب آئیے علامہ اقبال کے بیانیے کی جانب۔ حسبِ روایت اقبال نے اپنے بیان کا آغاز بیانِ کل سے کیا ہے۔ اقبال کے یہاں آپ نے عام طور پر دیکھا ہوگا، اور اگر آپ نے اقبال کو شاعرانہ تحسین کی نظر سے پڑھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ یہ چیز گویا اقبال کا مزاج تخلیق اور اُسلوبِ صنعت ہے کہ اُن کے ہاں نظم یا مسلسل بیان کے آگے بڑھنے کا انداز ایسا ہے جیسے آدمی پہاڑ کی چوٹی سے اُترتا ہے۔ نظم لکھنے کے یا مسلسل غزل وغیرہ لکھنے کے دو ہی اسالیب ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لیے نظم لکھنا پہاڑ پر چڑھنے کا عمل ہے۔ یہ لوگ اجزا سے، ضمنی اُمور سے، تشبیہ، استعارہ اور دیگر محاسنِ کلام سے آغاز کرتے ہیں اور منتہائے معنی پر اختتام کرتے ہیں۔ یہ عام طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص پہلے اُصول بتا دیتا ہے، یعنی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوکر کلام شروع کرتا ہے اور پھر اس کلام کو شعور کے لیے زیادہ مانوس بنانے کے لیے، انسانی حِس کے لیے زیادہ دُوررس اور اثر انگیز بنانے کے لیے، وہاں سے اُترنا شروع کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں کلامِ منظوم کا عمومی عمل یہی ہے کہ وہ پہلا شعر یا پہلا بند ہی ایسا کَہ دیتے ہیں جس میں بات مکمل ہوجاتی ہے، یعنی جہاں انھیں پہنچنا ہوتا ہے یا پہنچانا ہوتا ہے، وہ بات وہ پہلے کردیتے ہیں اور اس کے بعد اس بات میں شگفتگی اور دمیدگی کا سا عمل شروع کردیتے ہیں۔ یہ اقبال کے امتیازات میں سے ایک ہے۔ اس اعتبار سے ہماری شعری روایت میںکوئی شخص بھی اس طرح کی تکنیک نہیں رکھتا۔ یہ تکنیک کا بھی موضوع ہے اور اس سے خیال بندی اور معنی آفرینی کے اس انداز پر بھی روشنی پڑتی ہے جو اقبال سے خاص ہے۔ مثلاً پہلی بات تو سامنے کی ہے کہ یہ شاعر الل ٹپ بات نہیں کرے گا۔ جو آدمی پوری بات پہلے بیان کرے گا اور پھر اس کی تفصیل کرے گا، وہ الل ٹپ بات نہیں کرے گا، غیر ذمہ داری سے بات نہیں کرے گا۔ اس کا کوئی بھی بیان اس کے ارادہ کلام سے باہر نہیں ہوگا۔ اس کا ہر بیان اس کے اندر مکمل اور مربوط ہوکر اظہار پائے گا۔ یہ نظر میں رکھنے کی چیز ہے۔ انھیں یہ معلوم ہے کہ اُنھوں نے کیا کہنا ہے، کہاں تک کہنا ہے، کہاں جانا اور کس طرح سے جانا ہے۔ مطلب یہ وہ لوگ ہیں جو منزل پہلے بناتے ہیں، راستے بعد میں تراشتے ہیں۔ یہ تکنیک کا عمل ہے اور کم از کم اُردو کی حد تک اس تکنیک کا کوئی دوسرا نمونہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ فارسی میں اس کے بانی ہیں حکیم سنائی غزنوی۔ تاریخ میں لوٹ کر دیکھیے تو سنائی اقبال کی تکنیک رکھتے ہیں، رومی اقبال کی تکنیک رکھتے ہیں، اُتنا ہی بڑا ایک اور نام ہے فریدالدین عطار۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے تذکرہ ہورہا ہے، کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جارہی۔ ہم اس امتیازی خصوصیت کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ تمہید غیر متعلق نہیں ہے، اس شعر کی شرح کا حصہ ہے۔ آئیے اس تمہید کے بعد اب اس شعر کو دیکھتے ہیں۔

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں

اس شعر کے معنی کے واقعیتی دروبست کی طرف ہم گفتگو کے ابتدائی مراحل میں متعدد اشارات کر چکے ہیں۔ اب اس کو ایک اور زاویے سے دیکھیے، یا یوں کَہ لیں کہ اس شعر کے مخاطب کو جس سطح پر ہونا چاہیے، ہم وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں کچھ باتیں سمجھنی یا طے ہونی یا معلوم ہونی ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ وجود واحد ہے۔ چاہے خدا کا ہو، چاہے انسان کا ۔ اس کی تعریف یکساں معیارات اور پیمانوں سے ہوگی۔ اب خدا تو وجود کی تعریف کو اپنے آپ کو نمو دیے بغیر قبول کرلیتا ہے، لیکن انسان وجود کی اس تعریف کو، اس واحد تعریف کو قبول کرنے کے لیے اپنی حقیقت کے ساتھ رابطے کی نئی صورتیں دریافت کرنے کا مجاہدہ کرتا ہے۔ یعنی خدا وجود کی definition کا ماخذ ہے، سند ہے، انسان کو وجود کی تعریف پر پورا اُتر نے کی کاوش کرنی پڑتی ہے۔ یہ مقدمہ تو وحدت الوجودی ہے لیکن اقبال کے یہاں اس کے استعمال کی جو صورتیں اور اس کے جو اہداف ہیں، وہ نہیں ہیں جو وحدت الوجودیوں کے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی شعر یا اس غزل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔ دیکھیں حقیقت کو احاطہ تعریف میں لانے والی کوئی ایک منطق بھی ایسی نہیں ہوسکتی جو وحدت الوجود کے تناظر سے باہر کی ہو۔ مطلب آپ وحدت الوجود سے پورا اختلاف رکھنے کی حالت میں بھی اگر حقائق کو حقائق کہتے ہیں، اور صورتوں کی اصلی وحدت کو define کرنے چلیں گے، حقائق کو شعور کا موضوع بنانے چلیں گے تو آپ کو اس منطق سے مفر نہیں جو وحدت الوجودیوں نے بنائی ہے۔ اختلاف ہوتا ہے اس کے بعد کے مراحل میں یا حقائق کے مصرف اور استعمال میں، حقائق کے فہم یا معرفت کی بنیاد پر نکالے جانے والے نتائج پر۔ تو وہ ابھی اس شعر میں ان شاء اللہ دیکھیں گے۔

اس شعر میں اقبال کے خودی کے تصور نے اپنی معراج کو پالیا۔ اس شعر کی سب سے بڑی حیثیت یہ ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ اقبال کے نظریہ خودی کی تمام جہات کا اظہار خود اقبال کے یہاں اور کہیں نہیں ہے۔ یہ بہت اہم شعر ہے۔ وحدت الوجودی تصورِ وحدت اور اقبال کے تصورِ وحدت میں فرق کیا ہے۔ وحدت الوجودی تصورِ وحدت میں یا وحدتِ وجود کے تناظر سے انسان فعال حالت میں ایک سطحِ موجودیت سے اوپر اُٹھ کر سرگرمِ عمل نہیں ہوسکتا۔ یعنی وجود کے حقائق کی اقلیم میں انسان اپنا فاعل بالاختیار ہونا ثابت نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ انسان، انسان ہونے پر اصرار کرتے ہوئے، یعنی اللہ سے غیریت پر اصرار کرتے ہوئے وجود کے حقیقی مراتب میں داخل نہیں ہوسکتا۔ جن مراتبِ وجود میں انسان کا انسان کی حیثیت اور امتیاز کے ساتھ داخلہ ممنوع تھا، اقبال نے اس ممانعت کو توڑ دیا۔ اُنھوں نے وجود کی حقیقت کے ہر مرتبے پر انسان کو اپنے ذاتی امتیاز اور اللہ سے غیریت کے اُصول پر قائم رکھتے ہوئے ثابت کیا۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اس میں کوئی اُلجھن نہیں ہے۔ آسان کرکے یوں کہا جاسکتا ہے کہ وجود کی تعریف متعین کرنے کے دو درجات ہیں، وجود کی تعریف کرنے کے دو اُصول ہیں۔ ایک اُصول یہ ہے کہ اسے موجود سے اخذ کیا جائے یعنی موجود کو دیکھ کر وجود کی تعریف وضع کی جائے یا حاصل کی جائے۔ ایک تو وجود کی تعریف کا ڈھب یہ ہے کہ اس کو define کرکے موجود کو اس کا مصداق بنایا جائے، یعنی خود وجود کو موجود سے سمجھا جائے۔ یہ ایک طریقہ ہوگیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موجود کو وجود سے سمجھا جائے۔ ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود اور موجود میں ایک لطیف مغائرت (Subtle otherness) ہے، ایک باریک امتیاز ہے خود وجود او رموجود کا۔ چاہے آپ کسی زاویے سے دیکھیں، چاہے وجود کو موجود سے اخذ کریں، چاہے موجود کو وجود سے متعین کریں، دونوں صورتوں میں ایک بہت مخفی اور باریک سا نظری فرق پیدا ہوجاتا ہے وجود اور موجود میں۔ اس فرق کو کھولنے سے پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ یہ فرق خود اللہ کی ذات، اللہ کے وجود میں قائم ہے، یہی فرق خود انسان کی ذات اور اس کے وجود میں قائم ہے۔ یعنی وجود اور موجود آپس میں کوئی ایسی نسبت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ایک کا نام دوسرے کو دیا جاسکے۔ وجود کو موجود کبھی نہیں کہا جائے گا، موجود کو وجود کبھی نہیں کہا جائے گا۔ جو بھی کہے گا یہ مہمل بات ہوگی۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے۔

علامہ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر موجود کی تعریف ہم نے اس طرح کی کہ موجود کووجود سے مقدم مانا، یعنی موجود کو پہلے مانا اور وجود کو موجود کی روشنی میں متعین کیا، بالفاظ دگر، موجود سے وجود کی حقیقت کو سمجھا۔ کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں وجود، موجود کی حقیقت ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موجود، وجود کی حقیقت ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ اس حوالے سے جب اللہ اور وجود کا تعلق دیکھا جائے تو تعریف یہ ہوگی کہ موجود، وجود کی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ حقیقت ہونے کی بنا پر وجود سے ماورا ہے، وجود سے مقدم ہے۔ یعنی اللہ ایسا موجود ہے کہ وجود اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، وجود اُسے محصور نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف اگر انسان اور وجود کی نسبت پر تکیہ کرکے ہم حقیقتِ وجود کو دریافت کرنے نکلیں گے تو یہاں معاملہ برعکس ہوجائے گا۔ یہاں یہ ہوگا کہ وجود اس موجود پر مقدم ہے۔ وجود اس موجود پر جتنا منطبق ہوتا ہے، اتنا ہی یہ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ موجود وہ ہے جو وجود کی محضیت، وجودکے درجہ اصالت تک پہنچنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ وہاں تک پہنچ کر اس کی موجودیت کا موجود سانچا برقرار نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنی موجودیت کی معینہ حدود ، تغیرات، یعنی جن جن بنیادوں پر یہ موجود ہے، دوسرے موجود سے ممتاز ہوکر جن جن بنیادوں پر یہ موجود ہے، اُن میں سے کوئی ایک بنیاد بھی وجود کی محضیت کے مرحلے پر باقی نہیں رہ سکتی۔ وجود کی جو منتہائی بلندی ہے، اس بلندی پر صرف ذاتِ حق قیام رکھتی ہے؛ کیوں رکھتی ہے؟ اس لیے کہ وجود کا منتہائی وصف ہے: وحدت۔ اور وہ وحدت، ذاتِ حق سے ماخوذ ہے۔ آپ کو ایک بات سمجھ لینا چاہیے کہ وحدت الوجود کا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ موجود ہونا ذاتِ حق سے ماخوذ اور متبادر ہے۔ وہ کہتے ہیں وجود کا ایک وصف نہائی ہے، وجود کا وہ وصف جس کے بغیر وجود بے معنی ہے، یا وجود کی وہ حالت، وجود کا وہ جوہر، جو پید اہوجائے تو وجود، حقیقی کا ہونا اور کہلانا درست ہوگا، پایہ ثبوت کو پہنچے گا۔ وہ وصف یعنی وصفِ وحدت، خدا سے اخذ کیا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ وجود کے اظہار کی تمام سطحیں دراصل وحدت کے وفور سے پیدا ہوئی ہیں، ذاتِ حق کی ذاتیت سے پیدا نہیں ہوئیں۔ اللہ اور اللہ کے وجود کے درمیان ’’ہونا‘‘مشترک نہیں ہے، صرف ایک چیز مشترک ہے، اور وہ ہے وحدتِ محض اور وحدتِ ہمہ گیر۔ یعنی نقطہ وحدت، وحدتِ وجود اور اس کی حقیقت کو ذات اور اس کی حقیقت سے متصل رکھتا ہے اور ہونے کی سطح پر ہونا وجود بہ معنی ہونا وہ ذات کے ساتھ مغائرت پیدا کرنے کے لیے یہ معنی دیے جاتے ہیں، ذات کے ساتھ عینیت پیدا کرنے کے لیے نہیں دیے جاتے۔ یعنی ذات کا عین ہونا ہونے کی شرط ہونا نہیں ہے کیونکہ ذات ہونے کے حدود سے ماورا ہے۔ ذات کے ساتھ عینیت صرف اس وقت حاصل ہوگی جب ہم وحدت کے حامل ہوجائیں۔ اگر ذات والی وحدت، یعنی شریکِ متقابل کے ہر تصور سے ماورا وحدت، یعنی وحدتِ محض ( جہاں وحدت کے علاوہ کوئی چیز موجود کہلانے کی مستحق نہ ہو۔) اگر یہ وحدت ذات کے غیر میں پائی جائے گی تو وہ غیر، ذات کا غیر نہیں ہے، بلکہ ذات کا عین ہے۔ وحدت الوجود صرف یہ کہتا ہے کہ اگر وہ وحدت ذاتِ باری تعالیٰ کے علاوہ کہیں دریافت ہوجائے تو جہاں وہ دریافت ہوگی وہ ذات کا غیر نہیں ہے اور اس کا اگلا قدم کیا ہے کہ وہ وحدت کہیں بھی دریافت نہیں ہوسکتی۔ یعنی وہ وحدت ذات سے اس طرح جڑی ہوئی ہے، ذات پر اس طرح موقوف ہے، ذات کا ایسا ظہور عینی ہے کہ یہ وحدت کسی بھی مظہر سے ظاہر نہیں ہوسکتی، کسی بھی ظرف کا مظروف نہیں بن سکتی، کسی محل میں واقع نہیں ہوسکتی، کسی بھی موجود کا وصف نہیں بن سکتی  ---- تو وحدت الوجود کا ایک خام سا بیان یہ ہے۔ قدرے زیادہ فنی انداز کا ہوگیا لیکن بعض مرتبہ الفاظ اگر حافظے میں رہ جائیں تومعنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو فی الحال جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ اگر حافظے میں رہ جاتی ہے تو ان شاء اللہ حافظے میں ایک زندہ موجودگی رکھتے ہوئے اپنے آپ کو سمجھا دے گی۔۱۷؎

اقبال نے وجودِ ذاتی کے اس وصفِ وحدت کو، خلافِ روایت، ایک انفرادی اُپج کے ساتھ وجودِ انسانی میں بھی کارفرما دکھایا۔ اس وجہ سے وہ مراتبِ ذاتیہ میں بھی انسان کو موجود رکھتے ہیں جہاں وحدت الوجود کے مکتب فکر کے مطابق غیر اور کثرت کا گذر نہیں ہوسکتا، جہاں وجود کا گذر نہیں ہے، جہاں صرف وحدت ہی وحدت ہے۔ تو یہ اقبال کا ایک غیر روایتی تناظر ہے اور اس تناظر کی موجودگی میں ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ اقبال کا تصورِ وجود وہی ہے جو وحدت الوجود کا تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ جس وفورِ وجود نے اللہ کو ظاہر کیا ہے عین وہی وفورِ وجود مجھے وہاں تک پہنچائے گا۔ اللہ کے وفورِ وجود نے مجھے خود سے دور کیا ہے میرا وفورِ وجود مجھے اس کے آگے تک لے جائے گا۔ یہ نکتہ زیرغور شعر کے معانی سے براہِ راست متعلق ہے۔ انسان کی تمام وجودی استعداد، انسان کی تمام وجودی حقیقت، جذبہ فراق اور شعورِ فراق پر مبنی ہے۔ اس کی پوری شناخت، وجود کی اور شعور کی، فراق کے مادّے سے تیار ہوئی۔ فراق کا یہ مادّہ اللہ کے وفورِ وجود سے پیدا ہوا۔ اس نے چاہا کہ مَیں خود کو ظاہر کروں تو مجھے اپنے آپ سے جدا کردیا۔ یہ جدائی اللہ کے وفورِ وجود سے پیدا ہوئی ہے، اس جدائی کو مَیں ختم کروں گا اپنے وفورِ وجود سے یعنی یہ ایک re-bounce ہے۔۱۸؎   اللہ کا وفورِ وجود کیا ہے۔ اس کو ہم وجودی یا متصوفانہ اصطلاحات میں نہیں بیان کرتے ۔ اقبال کی اصطلاح میں دیکھتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ اللہ کی خودی میں وفور پیدا ہونے سے خود یوں کا ایک سلسلہ ظاہر ہوا یعنی انسانی خودی اللہ کی خودی سے نکلی ہے۔ انسانی خودی کا مادّہ اللہ کی خودی سے پیدا ہوا ہے، اللہ کے امرِ تخلیق سے نہیں پیدا ہوا۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ انسان ایک خودی ہے تو یہ عین اسی معنوں میں ہے جیسے اللہ ایک خودی ہے تو اس کی شدت، اس کی وسعت، اس کے کمال میں فرق اللہ اور انسان میں فرق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مختصراً یہ کہ وحدت الوجودی لوگ کہتے ہیں کہ وجود کا صدور اللہ سے ہوا ہے اور اس وجود کے تعینات سے موجودات پیدا ہوئے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ نہیں ذات سے ذات کا صدور ہوگا۔ اللہ ایک ذات ہے، ایک خودی ہے تو اگر صدور کی ہی اصطلاح میں بیان کرنی ہو تو ذات سے ذات کا صدور ہوگا یعنی خودی سے خودی صادر ہوگی۔۱۹؎   تو ہماری خودی اللہ کی خودی سے صادر ہوئی ہے اور یہ سلسلہ صدور جو ہے وہ ہماری خودی کے زور سے سلسلہ رجوع بن جائے گا یعنی ہم صادر ہوکر اللہ کی خودی سے اس سے جدا ہوئے ہیں اور اپنے زورِ خودی سے ہم واپس اس سے واصل ہوں گے۔ ۲۰؎

دو خودیاں ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتیں۔ ذات کی بنیاد ہے امتیاز کرنا۔ ذات کا دوسری ذات سے تعلق اپنی ہر قسم میں امتیاز اور انفرادیت پر کھڑا ہوگا۔ اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ صدور کا مطلب ہے کہ اللہ نے انفرادیت اور امتیاز سے مجھے خلق کیا اور عین اسی حقیقتِ انفرادیت و امتیاز کے ساتھ جس انفرادیت اور امتیاز کو وہ اپنی ذات کے لیے رکھتا ہے کیوں کہ جو انفرادیت اللہ کی ذات کا خاصہ ہے اس انفرادیت کو زوال نہیں ہے۔ اللہ نے عین اسی انفرادیت کو میری خودی کا مادہ تشکیل بنا دیا کہ اس امتیاز کو بھی کبھی زوال نہ ہو، کسی بھی مرحلے پر زوال نہ ہو۔ یہ ایک بالکل غیرروایتی بات ہے۔ مطلب اس کا وحدت الوجود یا وحدت الشہود کی روایتوں سے کوئی تعلق نہیں۔۲۱؎ یہ بہت ہی غیرروایتی بات ہے اور اس کو سمجھنے کے تمام دلائل ہمیں اقبال ہی سے اخذ کرنے پڑیں گے کیونکہ یہ تصور پہلے اپنے بیان میں کہیں بھی موجود نہیں رہا، یہ ایک ابداعی نکتہ ہے، نئی بات ہے۔

اب آئیے پہلے شعر پر۔ کہ جس وفورِ وجود سے مَیں دوبارہ پہنچوں گا اس وفورِ وجود کا نام ہے شوق، عشق۔ پرانی اصطلاح میں کہیں تو بہت آسان ہے کہ اللہ کے حب نے ہمیں اس سے دور کیا۔ ہمارا عشق ہمیں دوبارہ قریب کردے گا۔ اب دیکھیں بالکل سادہ سا ہے کہ اللہ کے زورِ حب نے جس کو ہم وفورِ وجود کَہ رہے ہیں اس نے ہمیں اس سے دور کردیا۔ اب ہماری طاقتِ عشق، ہمیں اس کے نزدیک لے جائے گی۔ اس کو کہتے ہیں شوق، اس کو کہتے ہیں عشق۔ عشق کو سرسری نہ لیجیے گا۔ اقبال نے عشق کی اصطلاح قائم کرنے میں اپنا پورا نظریاتی زور صرف کیا۔ مراد یہ کہ وہ محض جذبات کی قبیل میں سے ایک جذبہ نہیںہے، احساسات کی قبیل میں سے ایک احساس نہیں ہے، محض کوئی عمل کوئی واقعہ نہیں ہے۔ عشق کی حیثیت ذاتِ انسانی میں وہی ہے جو حب کی حیثیت ذاتِ الٰہ میں ہے۔ اقبالی اصطلاح میں حب نے ذاتِ الٰہ کے مخفی امکانات کو اظہار دیا۔ عین اسی طریقے (mechanism) پہ عشق مجھے ملا ہے خودی کے بنیادی وصف کے طور پر۔ یہ میرے امکانات کو کامل کرے گا۔ تو ذات کے امکانات کی تکمیل کا کوئی ایسا مرحلہ تصور نہیں کیا جاسکتا جہاں ذات کو اپنے امتیاز سے دستبردار ہونا پڑے، جہاں ذات کو ذات ہونے سے دستبردار ہونا پڑے۔ تو انسانی خودی کے تمام امکانات کی تکمیل اور اتمام کا بھی کوئی ایسا پڑائو فرض نہیں کیا جاسکتا جہاں اسے اپنی خودی سے دستبردار ہونا پڑے، جہاں اُسے اپنی انفرادیت تج دینی پڑے۔ یہ بہت آسان باتیں ہیں لیکن عشق کے لفظ میں یہ زور پوشیدہ ہے کہ اس کی مار بہت دور تک ہے۔ اس کی مار حضورِ محبوب تک ہے۔ جس طرح حب کا خاصہ تخلیق عاشق ہے، اظہار عاشق ہے اسی طرح عشق کا مادّہ حضور محبوب ہے۔ اس کی مار محبوب کے حریم تک ہے اور اپنی رسائی کے آخری مرحلے کو طے کرلینے پر بھی یعنی حریمِ محبوب تک اس کے منتہائے حضور تک پہنچ جانے کے بعد بھی یہ اپنی خودی کو اس کی خودی میں ضم نہیں ہونے دے گا۔ یہ اپنی خودی کو surrender نہیں کرے گا۔ یہ اپنی خودی سے دستبردار یا محروم نہیں ہوگا۔ میں ذمہ داری سے یہ بات کَہ رہا ہوں کہ یہ جو ابھی مَیں نے عرض کیا ہے اس کے حوالے سے اقبال کو کسی بھی پہلو سے اس کی ادنیٰ مخالف میں بھی نہیں دکھایا جاسکتا۔ اس سے بڑھ کر یہ عرض کروں کہ اقبال کے تصورِ خودی کو اس سیاق و سباق تک لائے بغیر پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ اقبال انسانی خودی کے سیاق و سباق کو مابعد الطبیعی ضرور بناتے ہیں۔ انسان کو اصلاً مابعد الطبیعی دکھانا ان کے تصورِ انسان کا منتہا ہے۔ انسان کا مابعد الطبیعی الاصل ہونا یہی ہے کہ عین خدا کے مقابل اپنی خودی کا اثبات کرنے کی لیاقت۔ یہ مذہبی طور پر بھی کوئی وحشت میں مبتلا کرنے والی بات نہیں ہے لیکن مذہبی اصطلاح میں بعد میں بات کریں گے۔ یہاں اقبال یہ کَہ رہے ہیں کہ ’’نوائے شوق‘‘ کیا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ شاعری لفظوں میں اتنی معنویت کی حامل ہو سکتی ہے جتنی ’’نوائے شوق‘‘ میں ہے۔ سرسری اور سطحی نظر سے دیکھیں گے تو یہ جو آواز ہے جو چلانے والے سے جدا ہوکر اپنے مقصود تک پہنچی یعنی یہ ایک ایسی آواز ہے جو خود تو مقصود تک پہنچ گئی لیکن جہاں سے یہ آواز برآمد ہوئی ہے وہ بے چارہ ابھی تک مقصود سے دور پڑا ہوا ہے۔ سطحی نظر سے دیکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے لیکن یہ اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے وجود کی سب سے بڑی طاقت ’’نوائے شوق‘‘ ہے۔ میرے وجود کی تمام تر حقیقت یہ ’’نوائے شوق‘‘ یعنی اظہارِ شوق ہے۔ اظہار کیوں وجود کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ تو مَیں اپنی حقیقت کے ساتھ اس ’’نوائے شوق‘‘ میں سمایا ہوا ہوں۔ یہ ’’نوائے شوق‘‘ اگر ’’حریمِ ذات‘‘ میں داخل ہوگئی ہے تو یوں نہ سمجھو کہ مَیں داخلے سے محروم رَہ گیا ہوں۔ مَیں اس ’’نوائے شوق‘‘ میں شامل ہوکر ’’حریمِ ذات‘‘ میں داخل ہوا ہوں۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں اور آسان کرکے اور ذہن کے لیے زیادہ مانوس بنا کر اگر کہا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ’’نوائے شوق‘‘ میری وہ حدِ رسائی ہے جہاں تک میرا پہنچنا یقینی ہے۔ مَیں شوق ہوں اور جہاں تک میرے اظہار کی رسائی ہے وہاں تک میری رسائی ہے۔ اب یہ کَہ رہے ہیں کہ میری خودی کی، میری ہستی کی رسائی ’’حریمِ ذات‘‘ تک ہے۔ اب دوسرے زوایے سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ اس شعر کو آپ  ان شاء اللہ چکھ لیں گے اگر آپ ان مدارج کو توجہ سے دیکھیں جیسے ہم نے عرض کیا کہ ذاتِ حق اور ذاتِ انسانی کا مزاجِ ہستی ایک جیسا ہے، اُن کا اُسلوب وجود ایک جیسا ہے، وہ ایسے کہ ذات میں self-transcendence خود تنزیہی کی ایک جہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی خودی میں بھی ایک self-transcendence پائی جاتی ہے۔ ذات کی تنزیہ صفات سے اُس کا بلند ہونا ہے یعنی ذات اپنی صفات سے بلند مرتبہ ہے۔ یعنی کہ ذات میں بھی self-transcendence پائی جاتی ہے۔ مَیں بھی اپنی صفات اور اوصاف سے بلند ہوں۔ میری خودی کی تشکیل میں میرے اوصاف کا کردار ایک خاص حد تک ہے لیکن میری خودی اپنے جوہر میں میرے اوصاف سے ماورا ہے ۔ میری خودی میرے اوصاف سے ماورا کیوں ہے، اس لیے کہ اوصاف مشروط بہ زمان ومکان ہیں، پابند ہیں زمان و مکاں کے۔ کسی ایسے وصف کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو زمانی و مکانی نہ ہو۔ لیکن انسانی خودی کا جوہر زمانی، مکانی نہیں۔ اپنی خودی کے جوہر میں انسان اپنے ضروری ترین اوصاف سے بھی ماورا ہے، ہمارے اوصاف ہماری خودی کی تشکیل کے مراحل تو ہیں لیکن خودی کی تکمیل ان سے بلند ہوکر ہوتی ہے۔ عین اسی طرح جس طرح ذاتِ حق اپنی صفات سے بلند ہو کر اپنی ذاتیت کو کامل حالت میں محفوظ رکھتی ہے۔ تو علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ ذات کے صفات سے تعلق کے لیے مجھے اوصاف ملے ہیں یعنی میرا اخلاقی وجود، میرا عقلی وجود یا میرے اوصاف کی دیگر قسمیں وہ صفاتِ باری تعالیٰ سے تعلق نبھانے کا کردار ادا کرتی ہیں یعنی میرا جوہرِ ذات خود ذاتِ حق کے متقابل رہنے کی طاقت بنا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ میرا جوہرِ ذات جس اصل پر کھڑا ہوا ہے وہ اصل عشق ہے یعنی عشق ہی میرا وہ جوہرِ ذات ہے جو مجھے ذاتِ مطلوب، ذاتِ حق کے مقابل رکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مَیں اپنے وجود کی حقیقت اپنے وجود کے جوہر کے ساتھ ذاتِ حق کے حریم میں رسائی رکھتا ہوں کیونکہ یہ جوہر مجھے ملا ہی اس لیے ہے کہ مَیں ذات کے حضور میں رہنے کا متحمل ہوسکوں۔ یہ ایک بات ہوگئی۔ ابھی ہم اس کو تھوڑا سامشکل دیکھ لیں، پھر اس کو ہم سہل کردیں گے ایک مربوط بیان میں۔ ابھی ہم ٹکڑوں میں دیکھ رہے ہیں، ان شاء اللہ سہل کردیں گے۔

اقبال کا ہر تصور اپنی بناوٹ میں dialectical (مثبت معنوں میں جدلیاتی)ہے ۔ اقبال کے وہ تصورات بھی جدلیاتی ہیں جو جسمانی یا مکانی ہیں مثلاً تصور اگر چار چیزوں سے مل کر بنا ہے تو وہ چاروں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں،جڑی ہوئی بھی ہیں، اور اپنے اپنے امتیاز کو قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما بھی ہیں۔ اس حد تک مربوط ہیں کہ انتشار نہ پیدا ہو اور اس حد تک مختلف رہنے پر اصرار بھی کررہی ہیں کہ اُن کی اپنی اپنی ذات فنا نہ ہوجائے۔ اس کو کہتے ہیں جدلیاتی dialectical۔ تو اقبال کے مابعد الطبیعیاتی metaphysical تصورات بھی جدلیاتی ہیں اور ان کا جو مابعد الطبیعی جدل ہے اس کا بیان اس شعر میں بدرجہ انتہا ہوگیا۔ وہ بیان کیا ہے کہ آخری درجہ حقیقت پر، آخری مرتبہ وجود پر یہ جدلیاتی اطوار، یہ نقشہ تمیز برقرار ہے، ذاتِ حق اور ذاتِ انسانی کی علیحدگی کی بنیاد پر۔ dialectical pattern جب بھی ہم کہیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کثرت حقیقی ہے۔ جدلیات کا صرف یہ ایک مطلب ہے۔ اگر آپ کہیں کہ dialecticism کا صرف ایک مطلب ہے تو آپ صادق ہیں، آپ نے پوری بات کَہ دی۔ وہ مطلب ہے کہ کثرت حقیقی ہے، وحدت محض ایک واہمہ ہے۔ اس کو قدرے فلسفیانہ نظر سے دیکھیں۔ علامہ کہتے ہیں وحدت کا فعلی اور کارفرما ہونا مشروط ہے اس بات سے کہ کثرت پائی جائے، وحدت تبھی بالفعل(operative) ہے، ورنہ وحدت محض ایک تصور ہے، محض ایک وہم، محض ایک معطل تصور ہے۔ وحدت کواپنے اظہار کے لیے، اپنے آپ کو لائقِ تسلیم بنانے کے لیے کثرت کا ایک ماحول چاہیے۔ کثرت اگر نہ ہوگی تو وحدت قابلِ ادراک اور حیطہ شعور میں آنے والی تو کیا قابلِ وجود نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مرتبہ ذاتیہ حق سے اوپر نہ شعور کا کوئی درجہ ہے نہ وجود کا کوئی درجہ ہے۔ یہ بالکل آخری سطح اور مرتبہ ہے۔ یہاں بھی وہ اگر انسانی خودی کو لائقِ اثبات بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کثرت اپنے انتہائی درجے پر حقیقی ہے اور کثرت کا انتہائی درجے پر حقیقی ہونا ہی وحدت کو ایک موجود امر ثابت کرتا ہے۔

ہم فلسفے کی بات کررہے تھے۔ فلسفے میں dialecticism کا مربوط ترین بیان ہیگل کے ہاں ہے۔ ہیگل کے یہاں پورا dialectical pattern of being یا dialectical mode of consciousness یہ دونوں ایک ہیں۔ تو یہ پورا dialectical pattern تین steps پر ہے: thesis، antithesis اور synthesis۔ تو synthesization جو ہے وہ وجود میں نہیں ہے شعور میں ہے۔ اس بات کو سمجھنا درکار ہے۔ واقعے میں thesis اور  anti-thesis ہیں، ان دونوں پہ شعور غالب آکر انھیں ایک form of consciousness دے دیتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں synthesis ۔ تو وحدت کی حیثیت اس synthesis کی ہے جس کا وجود خارج میں نہیں ہے، شعور میں ہے۔ وحدت ایک نظری ضرورت ہے وجودی ضرورت نہیں ہے اور ایسی کثرت جسے ہم حقیقی کَہ رہے ہیں اس سے مراد ہے کہ اس کے تمام اجزا ظاہر ہیں۔ کثرت کے حقیقی ہونے کا مطلب وحدت کا انکار نہیں ہے، بلکہ وحدت کا اثبات ہے۔ برنگِ دیگر کہ یہ کثرت جسے ہم آخری درجہ وجود و شعور سے ثابت کررہے ہیں اس کثرت کی ساری معنویت وحدت کی تشکیل پر صرف ہوتی ہے کہ ذاتِ حق اپنے مقابلات کے درمیان بھی اپنی وحدت پر قائم ہے عین اسی طرح ذاتِ حق سے صادر ہونے والی خودی کی طرح انسانی خودی بھی اپنے مقابلات کے درمیان رہتے ہوئے اپنی وحدت اور انفرادیت پر استوار ہے۔ یہ ہے اس شعر کے بیان کی کائنات۔ dialectical pattern کی جو بات ہوئی وہ یہ کہنے کے لیے نہیں تھی جو ابھی کہا۔ dialectical patternکا مطلب ہے ہر جز دوسرے جزو کو نہ چاہے۔منتہائے جدل یہ ہے کہ ایک جز دوسرے جز کو مٹانے کے درپے ہے۔

اب دیکھیے گا کہ حریمِ ذات وہ منتہائے وجود ہے جہاں ذات اپنی صفات کو داخلے کی اجازت نہیں دے رہی، وہاں مجھے کیسے کھڑا ہونے دے گی! ذات کو اپنی وحدت کی اطلاقی اساس اتنی عزیز اور محبوب ہے کہ وہ اپنے ذاتی مرتبے پر صفات کو بھی شریک ہونے کی اجازت نہیں دے رہی۔ وہاں جب وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو ایک شور مچ گیا کہ مَیں نے جس وحدت کی حفاظت اپنی صفات سے کی ہے۔ اس وحدت کی حفاظت اس سے کیسے کروں! ’’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘‘۔ ’’شور حریمِ ذات میں‘‘۔ شور کا ایک مطلب یہ ہے کہ ہلچل مچ گئی یعنی ترتیبِ وجود، مراتب حقائق (scheme of things) یہ ہے کہ اب وحدت secure ہے، محفوظ ہے، سالم و ثابت ہے۔ وہاں جب اپنی نوائے شوق میں ڈھل کر میں داخل ہوگیا تو پھر ذات کو بھی یہ فکر آپڑی لیکن وہ جدل (dialecticism) یہاں بھی جاری ہوگیا کہ اس وحدت کو کیسے بچایا جائے۔ یہ اس کا ان گھڑ سا مطلب ہے لیکن اس مطلب کو اس کے مجموعی مفہوم میں شامل کیے بغیر اس شعر کی کوئی شرح بھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ اب ہم دوسرے مطالب بیان کریں گے لیکن یہ مطلب ان تمام مطالب میں ایک بنیادی مفہوم کے طور پر داخل رہے گا۔

آپ سمجھیں کثرت حقیقی ہے۔ کثرت حقیقی کا مطلب یہ ہے کہ اس کثرت کے تمام افراد اپنی انفرادیت اور وحدت کی بہترین صلاحیتوں اور بہترین قوتوں کا مظاہرہ کررہے ہیں، ایک دوسرے سے مربوط رہنے کے لیے بھی ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لیے بھی کثرت کے حقیقی ہونے کے ماحول میں میری خودی کی جو بہترین صلاحیتیں عشق کے شور سے اظہار پا گئی ہیں وہ اس dialecticism کو آخری درجہ وجود پر بھی برقرار رکھتی ہیں۔ ’’غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں‘‘

صفات ذات کا وہ اندازِ وجود ہے، ذات کا وہ عالمِ ہستی ہے جس سے ذات نے خود کو ماورا کر رکھا ہے۔ اگر ہم وحدت الوجودیوں کی اصطلاح میں کہیں تو صفات وہ حقائقِ وجود ہیں جن سے ذات نے خود کو ماورا کر رکھا ہے یعنی ذات وجود سے ماورا ہے اور وجود اپنے اُصول و حقائق میں صفات سے۔ وحدت الوجودیوں کے نقطہ نظر سے وجود عینِ ذات نہیں ہے۔ ذات، وجود سے ماورا ہے، لیکن وجود غیرِ ذات بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی صفات وجود کے اُصول و مبادی ہیں، وجود کے اُصول و حقائق ہیں یعنی ہم کَہ سکتے ہیں کہ وجود اللہ کی صفات ہیں اور ذات اُن سے ماورا ہے۔ اقبال یہ کَہ رہے کہ جب صفات، یعنی وجود کے اُصولِ فاعلی (active principle) میں یہ منظر سامنے آیا کہ ’’میری نوائے شوق‘‘، میری قوتِ عشق، میری اصیل (genuine) خودی حدودِ ذات تک رسائی رکھتی ہے تو انھیں ڈر یہ ہوا کہ ہم غیریت کی جس کمزور بنیاد پہ کھڑے ہوئے ہیں یہ بنیاد ہی نہ ڈھے جائے۔ یہ بہت پیچیدہ اور مرکب صورتِ حال ہے، ذرا اس پر غور کر لیجیے۔ ’’بت کدہ صفات‘‘ کیوں کہا گیا۔ ’’بت کدہ صفات‘‘ اس لیے کہا گیا کہ صفات اللہ کی ذات کے غیر ہونے کے باوجود اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ تو ہر شعور اس بات کا محتاج ہے کہ وہ ذات سے تعلق پیدا کرنے کا ہر راستہ صفات سے اخذ کرے۔ یعنی ذات کا کوئی بھی ایسا تصور نہیں قائم کیا جاسکتا جو صفات سے گزرے بغیر ہو۔ تو اب جب اُنھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہمیں واسطہ بنائے بغیر حدودِ ذاتیہ میں داخل ہوگیا ہے تو گویا ہماری بنائے وجود، ہمارا جوازِ ہستی ختم ہوگیا ہے کہ ہمیں نظرانداز کرکے ہم سے کنّی کاٹ کے بھی ذات تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس شخص نے ایسا دروازہ کھول دیا ہے جہاں ہم واسطے کی حیثیت سے موجود ہونے کا جواز گنوا چکے ہیں۔۲۲؎  

’’میری نوائے شوق‘‘ کہتے ہیں ذات کو مطلوب بنانے والی قوت اور ’’نوائے شوق‘‘ کہتے ہیں اس مطلوب تک پہنچنے کی طاقت۔ تو علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ میری خود تنزیہی، خود سے اوپر اُٹھنے کا عالم بھی عین وہی ہے جو ذات کی تنزیہ ذاتی (self-transcendence) ہے کہ مَیں نے جس چیز سے ذات میں خود کو منزہ کررکھا ہے مَیں نے بھی انھی چیزوں سے خود کو ماوراکروا دیا۔بت کدہ اور اللہ میں صنعت تضاد ہے یعنی اللہ کو اس کی صفات تک محدود کرلینا بت پرستی ہے۔

یہاں ذرا رُک کر خود تنزیہی (self-transcendence) کوسمجھ لیجیے۔ تنزیہ ذاتی کہتے ہیں حدود سے بلند ہونے کو۔ صاحبِ تنزیہ اُسے کہتے ہیں جس پر کوئی حکم نہ لگایا جاسکے۔ حکم لگانے میں تحدید نظری ہے واقعی نہیں ہے۔ اس میں کمی اور بیشی کا اُصول نہیں ہے، نقص اور کمال کا کوئی اُصول نہیں ہے۔ جب ہم ذاتِ حق کے معنی میں ذات کہتے ہیں تو ذات کا مطلب ہے جس پر کوئی حکم نہ لگایا جائے، جس پر کوئی تحدید وارد نہ ہوسکے، وہ ذات ہے اور اُسی ذات کی صفات وہ اُمور ہیں جن پر حکم لگتا ہو۔ جن پر تحدید وارد ہوتی ہے۔ لیکن یہ حکم لگنا اور تحدید وارد ہونا کسی نقص کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ دائرہ معرفت میں آجائیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں چیز تحدید والی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاں چیز دائرہ شناخت میں ہے۔ ذات دائرہ معرفت سے بھی بلند ہے، جاننے سے ورا ہے، فہم سے، ادراک سے بالا ہے۔ ذات پر نامعلوم ہونے کا حکم لگ سکتا ہے نہ مجہول ہونے کا حکم لگ سکتا ہے ذات پر نہ تنزیہ کا حکم لگ سکتا ہے نہ تشبیہ کا حکم لگ سکتا ہے۔ ذات تشبیہ اور تنزیہ دونوں سے ماورا ہے۔ محضیت و صرفیت ہے۔ یہ ذات بحت (transcendent)ہے۔ self- transcendence جب ہم کہتے ہیں تو اس سے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ transcendence self-کا مطلب ہے یہ تنزیہ سے بھی ماورا ہے۔ تشبیہ سے تو ہے ہی تنزیہ سے بھی ماورا ہے کیونکہ تنزیہ زیادہ تنگی پیدا کرنے والا حکم ہے۔ تنزیہ کے لفظ سے تو یہ لگتا ہے کہ شاید اس کا دائرہ بڑا ہے مگر اس کا دائرہ تشبیہ سے بھی چھوٹا ہے۔ اس کا دائرہ معدومیت کے اُصول تک پہنچا دے گا اگر ہم اسے ذات پر لگنے والا حکم بنالیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذات موجود نہیں ہے۔ تنزیہ محض کا مطلب ہے کہ موجود نہیں۔ transcendence یعنی ہر چیز سے پاک ہونا۔ تنزیہ کا لفظی مطلب تو یہی ہے کہ ہر چیز سے پاک ہونا۔اللہ کی transcendence ہے اپنی معروف حدود سے بلند ہونا، اپنی معروف حدود کو منہدم کیے بغیر اس سے بلند بھی ہونا۔ اسی طرح انسان میں بھی ماورائیت self-transcendence کا جو عکس ہے وہ بھی اپنی عرفی حیثیت، عام تعریف definition سے بلند ہونا ہے۔ انسان کی self-transcendence ہے اپنے تصور سے بلند ہونا۔

جیسے اللہ کی transcendence کو دوسرے لفظوں میں ہم کہیں تو اپنی بالفعل صورت actualised form سے بلند ہونا۔ یہی انسان کے لیے ہے۔ انسان کی ایک صورت واقعی (actualised form) ہے، ایک صورت حقیقی (real form) ہے تو جس کا تحقق (realization) اس کی بالفعلیت  (actualization) سے بلند ہوکر ہوتا ہو وہ ماوراے خویشتن (self-transcendent) ہے، اللہ کی معرفت (realization) اس کے صفات و آثار سے بلند ہوئے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس طرح انسان کی تحقیق (realization) بھی اس کی  عملی حد یا واقعیت پذیری (actualization) سے بلند ہوئے بغیر نہیں ہوسکتی۔ تو انسان اپنی متحقق صورت (realised form) میں ناظر ہے حق کے ذاتی مرتبے کا۔ انسان اپنی ذات میں مقابل ہے حق کی ذات کا، انسان اپنی عملی شخصیت (actual-self) میں مخاطب یا متعلق ہے حق کے احکام و صفات سے۔ تو انسان اپنے real-self کی بیداری اور تکمیل اور قوت کے ساتھ حق کے real self کے( فلسفیانہ معنوں میں) مقابل ہے۔ مقابل کا لفظ ذرا عام زبان میں دوسرا ہے یعنی کہ انسان کاreal self حق کے real selfتک رسائی رکھتا ہے۔ یہ شعر یہ کَہ رہا ہے۔۲۳ ؎

تو اب یہ شعرکَہ کیا رہا ہے؟ جیسے مَیں نے عرض کیا تھا کہ وجود کیا ہے کا جو مسئلہ ہے اس مسئلے کا کلی بیان کرتے ہوئے یہ شعر یہ کَہ رہا ہے کہ وجود اپنی حقیقت کے آخری مرحلے میں، اپنی حقیقت کے منتہا پر یہ ہے کہ انسانی خودی اور ربّانی خودی ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور انسانی خودی، ربّانی خودی کی انتہائی جہت کے حضور میں پہنچ گئی۔۲۴؎

 توپھر عرض کررہا ہوں کہ وہ حُب جو اللہ کی صفتِ ذاتیہ (essential attribute) ہے وہی انسانی خودی کا وصف اساسی بنا ہے عشق کے نام سے۔ یہ ہے اس شعر کا کل مضمون۔ اس میں یہ بتا دیا کہ مَیں کیا ہوں، انسان کیا ہے۔ یہ شعر یہی بتانے کے لیے ہے۔ اقبال کو یہ بتانے سے بحیثیتِ مجموعی کہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ خدا کیا ہے۔ اقبال کا کوئی بھی کلام اس تصور کی تشکیل کے لیے نہیں ہے کہ خدا کیا ہے۔ اقبال کی ساری دلچسپیوں کا محور یہ ہے کہ انسان کیا ہے۔ اقبال آئے تھے انسان کا اس کی حقیقت کے مطابق ایک تصور بنانے کے لیے۔ یہ میدان اُنھوں نے خود اپنے لیے منتخب کیا کہ یہ شعر یہ نہیں بتا رہا کہ خدا کیا ہے۔ خدا کو دو مسلمات کے توسط سے سرسری بیان کردیا گیا ہے یعنی حریمِ ذات کَہ کر، ’’بتکدہ صفات‘‘ کَہ کر۔ شعر یہ بتا رہا ہے کہ انسان کیا ہے کیونکہ چیزیں مکمل ہوتی ہیں مابعد الطبیعی پن پیدا کرکے۔ لہٰذا اس شعر میں انسان کا ازروئے حقیقت جو مابعد الطبیعی پن ہے، ماوراء الطبیعی حقیقتِ انسانیہ ہے، اس کو آخری درجہ اظہار پر بیان کردیا۔

ظاہر ہے خدا کیا ہے یہ ان کا مسئلہ ان معنوں میں تھوڑی ہے کہ وہ خدا سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اس معنی میں نہیں۔ خدا کیا ہے کا جواب جیسا کہ موجود ہے وہ اسے مانتے ہیں۔۲۵ ؎  لیکن انسان کیا ہے اس کا جواب ان کا زمانہ فراموش کرچلا ہے۔ انھیں اپنی ادبیات اور فکر میں وہ نہیں ملا وہ اسے پیش کررہے ہیں۔ علامہ کا شعر ہے:۲۶؎  

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا

یہ ان کا ایک منصوبہ ہے۔ اس میں اُنھوں نے ’خدا کیا ہے‘ کے سوال کو ثانوی نہیں رکھا۔ وہ اس کا جواب مانتے ہیں، جو جواب موجود ہے، وہ اس کو مانتے ہیں کیونکہ خدا کا جواب عقیدے کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ تو ظاہر ہے وہ صاحبِ عقیدہ ہیں وہ اس کو عقیدے کی طرح مانتے ہیں۔۲۷؎  لیکن ’انسان کیا ہے؟‘ کے جواب کو عقیدے کی سطح پر محفوظ ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔ تو اب وہ اس میں عقیدہ بننے کی طاقت پیدا کررہے ہیں۔ اقبال کا تصورِ انسان، انسان کو عقیدہ بنانے کی کاوش ہے۔ ’’انسان کیا ہے؟‘ ‘اقبال سمجھتے ہیں کہ اب اگر میں خاموش رَہ گیا تو اس سوال کا جواب ملے گا نہیں۔ اس پر زورِ بیان صرف کرتے ہیں۔۲۸؎

دیکھیں اگر ہم اس شعر پر غور کریں تو اس شعر میں given کو مانا ہے، ذات کو اس کی اصلی تعریف میں مانا ہے۔ حریم کا لفظ یہ دلالت کرتا ہے کہ ذات کو اس کی اصل اور معروف تعریف میں مانا ہے۔ اب وہ یہ کَہ رہے ہیں کہ ذات کے حضور کا تقاضا ہے فروتنی۔ گو کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ شوق فروتنی سے زیادہ شدت رکھتا ہے۔ فروتنی سے جو مزاج اور جو سطحِ عمل مطلوب ہے شوق میں وہ انتہائی حالت میں موجود ہے یعنی اگر کوئی پوچھے کہ فروتنی عمل نہ رہے بلکہ وجودی حال بن جائے تو ہم کہیں گے کہ اس کا مطلب ہے کہ فروتنی صرف رُکوع اور سجود تک محدود نہ رہے بلکہ شوق بن جائے۔ شوق کہتے اسے ہیں کہ اے محبوب میں تیری نسبت کے علاوہ موجود ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہیں رکھتا۔ میرا آغاز و منتہا تو ہی ہے۔ شوق اس کو کہتے ہیں۔ تو میرا نہیں خیال کہ اس میں فروتنی کو ردّ کیا گیا ہے۔ اس کو دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی ٹھیک ہیں۔ وہ دوسری صورتیں ہیں کہ ذات میں تعدد کا امکان سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ ایک کلامی مبحث ہے جیسے مَیں اس بات کو نہیں مانتا کہ اقلیم ذات میں غیرِ ذات کا قیام متصور ہے لیکن یہ ایک کلامی مبحث ہے۔ اگر ہم عقیدہ ذات کی رو سے دیکھیں گے تو یہ چیز میرے موجود عقیدے کی سطح کو بڑھا دیتی ہے کہ میرا اللہ سے تعلق اتنا سچا، اتنا طاقتور اور میرے وجود کی کلّی بضاعت کی طرح ہے کہ مَیں اس کے حضور سے باہر خود کو نہ تصور کرسکتا ہوں نہ موجود رکھ سکتا ہوں۔ نوائے شوق کَہ کر وہ کیا کَہ رہے ہیں کہ یہ میرے وجود کی کل پونجی ہے کہ میں اپنے وجود کی سب سے بڑی طاقت عشق کے ساتھ اللہ کی طرف یکسو رہوں۔

شور کا مطلب یہ ہے کہ وحدتِ محض کے نتیجے میں بنی ہوئی ساکن فضا میں میرے آجانے سے ہلچل مچ گئی۔ شور کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا ہو۔ تو وہاں دوسرا موجود ہے اس وجہ سے شور مچ گیا۔ ’’حریم‘‘ کا مطلب ہے کہ جہاں ہر ایک کا داخلہ ممنوع ہو اور جو ’’حریم‘‘ میں ہے اس کا اس سے باہر نکلنا بھی ممکن نہ ہو۔ تو ایک ایسی سطح پر ایک دوسرا آگیا ہے تو وہاں چھائے ہوئے سکون میں ہلچل مچ گئی۔ یہ ایک شاعرانہ بیان ہے۔

میرے خیال میں یہ دینی مبحث نہیں ہے کیونکہ اس سے بعد کی جو self-transcendence ہے یہ بھی اعتباری ہے ناں، یہ کس نص سے لی گئی ہے کہ ذات ماورائے صفات ہے تو ذات کے بارے میں کچھ اعتبارات قائم ہیں ان اعتبارات کو ایک دوسرا آدمی ردّ کررہا ہے تو یہ گویا ذات کے بارے میں دو اعتبارات کی جنگ ہوئی، دو عقائد کی جنگ نہیں ہوئی۔ اگر آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ میرا عقیدہ ہے کہ ذات صفات سے ماورا ہے تو مَیں کہوں گا کہ اس کے لیے لفظ عقیدہ نہ استعمال کریں کیونکہ یہ عقیدہ بننے کی شرائط پوری نہیں کرتا۔ عقیدہ اعتبار پر نہیں بنتا، خبر پر بنتا ہے۔ وہ یہ کَہ رہے ہیں کہ ایک اعتبار ذات کی ماورائیت (transcendence) کا ہے، دوسرا اعتبار اس کے بر خلاف قائم ہوگیا۔ تو اب یہ دو اعتبارات میں جنگ ہوئی نہ کہ اعتبار بہ مقابل عقیدہ والی صورتِ حال پیدا ہوئی اور یہ دوسرا اعتبار بھی ہماری تاریخ فکر میں موجود ہے۔ جو لوگ صفات کو عینِ ذات کہتے ہیں غیرِ ذات کہنے والے انھیں دین سے باہر نہیں نکالتے یا عقیدے سے باہر نہیں نکالتے۔ اسی طرح کے اعتبار کا ایک تیسرا فرق یہاں پیدا ہوا۔

شوق کے لفظ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ شوق، عشق کی اس خاصیت کو کہتے ہیں جس میں فراق کا تجربہ اور وصال کا یقین گندھا ہوا ہے۔ آپ شوق کے علاوہ کوئی اور لفظ گھڑ نہیں سکتے جس کے معنی میں یہ جامعیت ہو۔ ہم نے امید نہیں کہا یقین کہا کیونکہ اُمید ہوتی ہے غیرحقیقی کے لیے۔ مقصود و مطلوب غیرحقیقی ہو تو اُمید ہوتی ہے۔ مقصود حقیقی ہو تو یقین ہوتا ہے۔ میرا مقصود ہی میرا مصدر ہے۔ مصدر کی حیثیت سے مَیں اس کے فراق میں ہوں۔ مطلوب و مقصود کی حیثیت سے اس کے وصال کے یقین میں ہوں۔ یہ بالکل تیسرا طریقہ ہے۔ کہ نہ یہ روایتی طریقِ عشقی ہے کیونکہ وہ کشش پہ ہوتا ہے نہ یہ طریقِ عقلی ہے، یہ اور چیز ہے۔ یہاں تو کچھ یوں ہے کہ گویا ایک حرکتِ وجودی اللہ سے ہوئی ہے۔ دوسری حرکتِ وجودی ہم سے ہوگئی ہے۔ یہ پورا نظام جو ہے وہ دو حرکاتِ وجودی سے بنا ہے۔ اس دائرے کی ایک قوس حرکتِ حُبیّہ سے ہے، دوسری قوس حرکتِ عشقیہ انسانیہ سے ہے۔ یہ اس کا متبادل بیان ہے اقبال کے ہاں،اقبال نے اس پورے سانچے کو نہیں جوڑا۔ اس کے اسلوب بیان کو بدل دیا۔

’’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘‘۔ یہاں یہ بھی دیکھیے کہ اس میں وصال کا پہلو تو نہیں نکلتا۔ وصال کا مطلب ضم ہوجانے والا، پہنچ جانا، رسائی، پہنچ۔ تو شوق کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اب اس کو ایک مربوط بیان میں ڈھالتے ہیں۔ ’’نوائے شوق‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ کسی موجود کی تکمیل کیا ہوتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کا مصداقِ فعلی بن جائے۔ ہم ناقص کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ہم اپنی حقیقت کا مصداق بننے میں ناکام ہیں۔ ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم سچے ہیں تو ہم عملاً سچے بن جائیں، مصداق بن جائیں۔ ہیگل کا ایک کرامت جیسا جملہ ہے۔ ایسے فقرے تاریخ میں کم ہوتے ہیں۔ ان کا سارا مسئلہ ہے۔ Realising the actual and actualising the real. یا Idealising the actual and actualising the ideal.۔ تاریخِ فلسفہ میں ہی نہیں تاریخِ انسانی میں بھی اتنے مکمل فقرے نہیں ملتے۔ یہ ہیگل کا ہے، جو ہم کَہ رہے ہیں ناں مصداق بننا تو اس کا مطلب ہے actualising the real۔ تو’’یہ نوائے شوق‘‘ actualising the real ہے۔ بس وہی چیز مکمل ہے جو اپنی reality کو actualise کرلے۔

اب وہ کَہ رہے ہیں میری reality میری انفرادیت ہے۔ اب اس کو نیچے کے کسی معنی میں نہ لیں۔ ہر موجود کی reality انفرادیت ہوتی ہے۔ تو میری reality انفرادیت ہے، میری یہ انفرادیت actualise ایک ایسے ماحول میں بھی ہوگی جو ماورائے تصور ہے۔یعنی آپ میرے لیے جو آخری درجہ ہستی بھی رکھ دیں تو وہاں بھی میری انفرادیت actualise ہوگی۔ حریمِ ذات میں بھی میری انفرادیت actual form میں ہے۔ یہ بہت بڑا مضمون ہے، بہت ہی بڑا مضمون ہے۔ اس میں مشکلات تو ہیں لیکن پہلے مضمون تو پکڑ میں آجائے۔ اب  real actualise کیسے ہوتا ہے، actualization کس چیز کا نام ہے، اظہار و بیان (expression) کا۔ اگر کوئی موجود اپنی حقیقت کو ظہور میں لے آئے تو وہ اپنی حقیقت کو واقعیت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور اگر اس کی حقیقت اظہار میں نہیں آئی تو اسے درجہ واقعیت نہیں ملا۔ واقعیت نام ہی ظہور ونمود کا ہے۔ تو نوائے شوق کیا ہے۔ اظہار ہے نا۔ تو مَیں نے اپنی حقیقت کو آخری درجے میں واقعی بنا دیا۔ ’’شوق‘‘ میری حقیقت ’’نوا‘‘ اس کا اظہارِ واقعی۔ مَیں شور کا مثبت معنی عرض کررہا ہوں۔ شور کا مثبت مطلب یہ بتانا نہیں ہے کہ مجھ میں اللہ کے بنائے ہوئے حدودِ ذاتیہ کو توڑنے کی طاقت ہے یعنی جس چیز کو اللہ نے محال بنا دیا ہے اُسے میں توڑ سکتا ہوں، یہ مطلب نہیں ہے۔ یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مَیں نے اللہ کو بھی حیران اور پریشان کردیا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے، یہ دونوں مطلب نہیں ہیں۔ شور کا مطلب یہاں یہ دکھانا ہے کہ حقیقتِ وجود کی آخری سطح بھی ان قطبین سے خالی نہیں ہے جہاں میں بھی اپنی انفرادیت کے ساتھ موجود ہوں اور ذات بھی اپنی مطلقیت اور محضیت(absoluteness)  کے ساتھ حاضر ہے اور اس میں مَیں احتیاط اور ادب کی بات عرض کررہا ہوں کہ ’’حریمِ ذات‘‘ کا مطلب نفسِ ذات نہیں ہے۔ یہ بے ادبی اس وقت ہوگی جب ہم کہتے کہ ’’حریمِ ذات‘‘ کا مطلب نفسِ ذات ہے یعنی ذاتِ بحت as such ہے۔ ’’حریمِ ذات‘‘ کا مطلب ہے وہ درجہ وجود جہاں ذاتیت کے علاوہ موجود ہونے کی کسی حالت کا قیام نہ ہونا۔ ذاتیت کسے کہتے ہیں، ماورائے صفات ہونے کا درجہ۔ تو ’’حریمِ ذات‘‘ کا مطلب ہوا کہ جہاں ذات self-transcendent ذات ہوئے بغیر کوئی امر قائم نہ ہوسکے، مَیں وہاں کے لیے بھی qualify کرتا ہوں۔

شور ایک اصطلاح ہے اس سے واقف ہونا چاہیے۔ شور منفی معنی شور شرابے کے معنی میں نہیں ہے۔وہ نیچے کی چیز ہے وہ تو روزِ حشر پر ہے۔علامہ کا شعر ہے:۲۹؎  

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی

خطا کس کی ہے یا ربّ لامکاں تیرا ہے یا میرا

اس شعر کو آپ کہیں کہ یہ اللہ ہی کے اقتضائے ذاتی جس نے عرفِ عام میں اظہار نہیں کیا اس کی تکمیل کی۔ اللہ کے اقتضا کو وہاں سمجھا کہ اگر ہنگامہ ہائے شوق سے لامکاں خالی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے یہاں یہ تقاضا ہے کہ لامکاں بھی ہنگامہ ہائے شوق سے خالی نہ ہو تو مَیں نے خود کو پہنچا کر حریمِ ذات میں شور مچا کر اللہ کے اُس ذاتی اقتضا کی تکمیل کردی ہے جو تمھارے علم میں اس لیے نہیں آیا کہ تم صاحبِ شوق ہو نہیں، اب یہ ’’شور‘‘ جو ہے اسے ہنگامہ ہائے شوق سے ملا لیجیے بالکل ہم معنی ہیں۔ مَیں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ، ذات حق، موجود ہونے سے ماورا ہے، محبوب، مطلوب اور معبود ہونے سے ماورا نہیں ہے۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ موجود ہونے کی تمام شرائط سے ماورا ہے لیکن محبوب ہونا، مطلوب ہونا، معبود ہونا یہ شرائطِ وجود نہیں ہیں بلکہ یہ لوازمِ ذات ہیں۔ اللہ کی ذات اللہ ہونے سے تو ماورا نہیں ہے۔ تو اللہ ہونے کا مطلب ہے مقصود ہونا، محبوب ہونا، مطلوب ہونا، معبود ہونا۔ ذات اپنی ان شانوں کے ساتھ جس عالم میں ہے وہاں ذاتِ محبوب کا عاشق میں ہوں، وہاں ذاتِ معبود کا عابد مَیں ہوں، وہاں ذاتِ مطلوب کا طالب مَیں ہوں۔ یہ غزل بہت زیادہ بامعنی ہے یوں جانیے کہ آپ نے اقبال کا پورا تصورِ انسان دیکھ لیا۔

آگے بڑھنے اور دوسرے شعر کی شرح پر غور کرنے سے پہلے زیرنظر پہلے شعر کا معنی و مفہوم ایک مختصر شرح کی صورت میں بیان کردیتے ہیں:

اکثر لوگوں کے نزدیک اقبال کا یہ شعر حمدیہ ہے ۔ یقینا ایسا ہی ہے مگر اس کے لیے ، یعنی اسے حمد قرار دینے کے لیے، پہلے اس نظامِ معنی کا تعین کر لینا چاہیے جس کی بنیاد پر یہ شعر وجود میں آیا ہے۔ شعور اپنے مقصود کی طرف بڑھنے کے کئی راستے رکھتا ہے جو مقصود کی وحدت یا حیثیت کو مجروح کیے بغیر اُس کے اور خود اپنے حوالے سے ایسے تصورات کے قیام کا ذریعہ بنتے ہیں جو آپس میں یکسانی نہیں رکھتے اور کہیں کہیں ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم بھی ہو جاتے ہیں ۔اگر ہم یہ جان لیں کہ خدا اور انسان کے تعلق پر اُستوار فلاں خیال یا بیان ان دونوں کرداروں کو کس نظر سے، کس رُخ سے اور کس غرض سے دیکھنے کا نتیجہ ہے، تو ایک تو ہم اُس کے معنی کی نوع اور اُس کی معنویت کے خمیر تک پہنچ جائیں گے اور دوسرے یہ کہ کسی مستند روایتِ حقائق میں اُس تصور یا قول کا مرتبہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس پوری مشق سے گذرنا بہت ضروری ہے ورنہ اس شعر کو حمدیہ مان لینے کے باوجود یہ سوال کسی بھی وقت سر اُٹھا سکتا ہے کہ اس حمد کا حقیقی محمود کون ہے؟ خدا یا آدمی؟ ایسے لاینحل سوالات سے جان چھڑانے کا بس یہی ڈھب ہے کہ ہم اُس تناظر تک پہنچنے کی کوشش کریں جس سے اس شعر کا بنیادی معنی پیدا ہوا ہے۔ اس طرح وہ مزاجِ معنویت اُبھر کر سامنے آ جائے گا جو اس شعر میں موجود یا اس سے اخذ کیے جا سکنے والے تمام مفاہیم میں ایک اٹل شرط بلکہ روح کی طرح کار فرما ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس شعر میں خدا اور انسان کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے؟ یہ شعر بتاتا ہے کہ اُس نظر سے جس کا مقصودِ دید خدا نہیں ہے بلکہ انسان ہے۔ یہ نظر حقیقتِ انسانی کا مشاہدہ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ دوسرا سوال ہم نے یہ تجویز کیا تھا کہ اقبال ان دو کرداروں کو کس رُخ سے دیکھ رہے ہیں؟ اس شعر میں کار فرما زاویہ دید یہ ہے کہ خدا بھی اپنی دونوں شانوں، یعنی تشبیہ و تنزیہ کے ساتھ گویا دکھائی دے رہا ہے، اور انسان بھی اپنی حقیقت کا فعال مجسمہ بن کر نظر کے سامنے ہے۔ دونوں کا اندازِ مشہودیت ، تاثرِ رویت اور درجہ منظوریت ایک ہے۔ فرق یہ ہے کہ خدا ایک رسمی خدا ہے، جسے سب جانتے اور مانتے ہیں، جبکہ انسان ایک ایسے روپ میں ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا، ایک ایسے مقام پر ہے جسے اس کی رسائی سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ انسان کا یہ روپ الوہی سالگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے چہرے کو کمالِ مشاطگی کے ساتھ خدائی چہرہ بنایا گیا ہے۔ یہ چہرہ ظاہر ہے کہ بہت متاثر کن ہے مگر اس کو دیکھ کر شدتِ تاثر کے ریلے میں بہ جانے والاقاری یا سامع اسے حقیقی نہیں سمجھتا۔ وہ انسان کے اس روپ پر یقین نہیں کرتا۔ کسی بیان کے معنی متکلم کے مقصد سے بھی عبارت ہوتے ہیں۔ اس لیے اس شعر کا محرک بننے والی غرض کی تحقیق کی جائے تو بالکل واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اقبال نے یہ شعر انسان کی حقیقت کا اظہار کرنے کے لیے ایک ڈرامائی اُسلوب کے ساتھ کہا ہے۔ اس شعر کا ادنیٰ درجے میں بھی یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ کی معرفت کا کوئی بند دروازہ کھولا جائے، اس کا کل مدعا بس اتنا ہے کہ عظمتِ انسانی کو بڑائی کے اُلوہی معیار پر ثابت کیا جائے، اور کمالِ انسانی کو اُسی ماورائے تعینات بلندیوں میں کارفرما دکھایا جائے جو ذاتِ الٰہیہ کا عالم ہے۔ انسان کو کمالِ حقیقی سے متصف دکھانے کے لیے اقبال نے ذاتِ حق کے اندازِ کمال کو انسان میں صرف کر دکھایا ہے۔ مثلاً اللہ تعینات حتی کہ اپنے اسماء و صفات سے ماورا ہے، عین اسی طرح انسان بھی تمام تعینات یعنی زمان و مکان سے اُسی کی طرح ماورا ہے بلکہ انسان کو خدا کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ لامکاں میں یعنی حریمِ ذات میں خدا جیسے حالتِ انفعال میں ہے اور انسان پوری طرح فعال ہے۔ خدا کو تو اپنے کمالِ حقیقی کے اقتضا پر اپنی صفات سے ماورائیت اختیار کرنا پڑی لیکن انسان کی شان یہ ہے کہ وہ اُس مرتبہ وراء الوراء پر بھی اپنی صفات کو برسرِکار رکھتے ہوئے موجود ہے یعنی صفاتِ خداوندی جس مرتبے تک نہیں پہنچتی انسانی اوصاف کی رسائی وہاں تک ہے۔ انسانی خودی کا یہ الوہی structure ہی دراصل اس شعر کا منتہائے معنی ہے اور اس کے تمام معنوی اجزا کو اس مرکز و منتہا کے تابع رکھے بغیر ہم اس شعر کی مراد کو نہیں پہنچ سکتے۔ ان تمہیدی کلمات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ نکات اور بھی ہیں جو اس شعر کی تفہیم میں ضروری معاونت کرسکتے ہیں۔

۱- یہ شعر حقائق کی اقلیم سے تعلق رکھتا ہے۔ حقائق کے بارے میں ہماری روایت کے اندر دو اُصولی perspectives تسلسل سے پائے جاتے ہیں، عشقی اور عرفانی۔ عشقی perspective حقیقت کا وجودی perspective ہے اور عرفانی حقیقت کا علمی تناظر ہے۔ یہ دونوں اسالیب اگر کسی وجہ سے اُدھورے رَہ جائیں تو پھر عاشقانہ تناظر شاعرانہ بن جاتا ہے اور عارفانہ تناظر فلسفیانہ ہوجاتا ہے۔ اس شعر کا قوام کس تناظر سے اُٹھا ہے، اسے دیکھنا آسان ہے۔ اگر یہ عاشقانہ روایت کا شعر ہے تو اس کا مضمون بھی ہماری روایت میں موجود ہونا چاہیے اور اُس مضمون کا سبب بننے والے احوال بھی ہمیں شروع سے دستیاب ہونے چاہییں اور اس کا محرک بننے والی اغراض بھی ہماری روایت میں صراحت کے ساتھ ظاہر دکھائی دینی چاہییں۔ اِسی طرح اگر یہ شعر عرفانی قبیل سے ہے تو یہاں بھی وہی سب کچھ ہونا چاہیے۔ میرے مطالعے کی حد تک یہ شعر بلحاظِ معنی بھی منفرد ہے اور باعتبارِ کیفیت بھی۔ اس سے برآمد ہونے والے مفاہیم، احوال وغیرہ سرے سے غیرروایتی ہیں اور ہماری عرفانی اور عشقیہ روایت کا کوئی ایک جز بھی ایسا نہیں ملتا جو اس شعر سے کسی بھی درجے میں مماثلت رکھتا ہو۔ صفاتِ الٰہیہ کو بت قرار دے کر انسان کو بت شکن بنانا ہر پہلو سے ایک بہت ہی نادر، منفرد اور غیر روایتی بات ہے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے اور جس کو ردّ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم شاعرانہ تخیل اور فلسفیانہ تصور کو تحقیق کی روایتی فضا سے نکال کر دیکھیں تو یہ شعر پُرشکوہ معنی آفرینی اور پُرتاثیر مضمون بندی کا ایک اچھا نمونہ ہے۔ خدا اور انسان کے تعلق میں پائی جانے والی اُن آرزوئوں اور تمنائوں کو (جو مسلمہ عرفانی اور عشقی حدود سے باہر کی ہیں) سَر کرنے اور انھیں محسوس کرنے کا یہ شعر ہم پر ایک دروازہ کھول دیتا ہے۔

عشق کو اس سطح پر پہنچا دینا کہ وہ خود محبوب پر عاشق کی رُونمائی کرے، بہرحال اقبال کا ایسا کارنامہ ہے جس پر بہت سے لوگ رشک کرتے ہیں اور کئی لوگ شک بھی کرتے ہیں۔ خیر اس سے کیا ہوتا ہے شاعری کا نظامِ معنی کسی بھی طرح کی موقف سازی کو قبول نہیں کرتا۔

۲- یہ شعر کسی صوفیانہ واردات کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ ایک نظریے کا جمالیاتی اظہار ہے کیونکہ جمالیاتی اظہار اثر انگیز اور کیفیت خیز ہوتا ہے لہٰذا کچھ لوگ اسے کسی حال کا انکشاف سمجھ لیتے ہیں۔ اس لیے اس شعر کی متصوفانہ تشریح کارِلاحاصل ہے تاہم ایک متصوفانہ شرح البتہ کی جاسکتی ہے۔ اور وہ یہ کہ شوق عشق کا وہ جوہر ہے جو مسلسل برسرِعمل رہتا ہے۔ کوئی حضور اُسے مطمئن نہیں کرسکتا اور کوئی غیاب اُسے معطل نہیں رکھ سکتا۔ یہ جوہر تسکین و اضطراب اور سیرابی و تشنگی کے اُصول پر فعال رہتا ہے۔ ہر تسکین ایک نئے اضطراب کی محرک ہے اور ہر سیرابی ایک نئی پیاس کا پیش خیمہ۔ دوسری طرف محبوبِ حقیقی بھی شہود و غیب اور حضور و خفا کی لامتناہی شان رکھتا ہے۔ سو شوق عشق کی لا متناہیت ہے جو غیب و حضور کے ہر مرحلے پر شانِ محبوبی سے ہم قدم رہتی ہے۔

۳-اس شعر کا خلاصہ یہ ہے کہ عشقِ الٰہی انسانی خودی کی اصل ہے اور جہاں تک عشق کی رسائی ہے وہاں تک خودی کی بھی پہنچ ہے۔ عشق لامکاں تک رسائی رکھتا ہے تو عاشق کی خودی بھی وہاں باریاب ہے۔

 حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں

میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

اس شعر کی اندر سے سیر کرنے سے پہلے ایک آدھ چیز کو دیکھ لینا شاید مفید ہو۔ ایک تو یہ کہ اس شعر میں اس غزل کے مجموعی مزاج کی طرح کوئی شاعرانہ پن پیدا کرکے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ نہ اس میں کوئی تمثیل و تصویر (imagery) ہے، نہ بلند آہنگی اور شکوہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نہ زور لگا کر تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اس شعر کو کامیابی سے بڑی شاعری کی اس عمارت کے عناصرِ تعمیر میںسے بنا دیا گیا ہے۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے۔ دوسرے درجے کی شعری روایت تزئین و آرائش کی روایت ہوتی ہے۔ لیکن انسان کا تخلیقی کمال اپنے منتہا پہ پہنچ کے زیادہ سے زیادہ سادگی اور خالص پن پیدا کر لیتا ہے۔ یعنی انسان کا جوہرِ تخلیق (creative self) اپنی منزل پر پہنچ کر جیسے ظاہر ہوتا ہے وہ اسلوبِ اظہار بہت زیادہ مزین نہیں ہوتا، اس میں صنائع بدائع کا غلبہ نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے بڑی شاعری کے بعض نمونے خطابت سے نزدیک اور مصوری سے دور ہوتے ہیں۔اقبال نے اگرچہ خطابت اور مصوری کو ان کے نقطہ کمال پر یکجا کر کے دکھایا ہے لیکن ہم یہاں یہ کَہ رہے ہیں کہ بڑی شاعری کی ایک قسم میں خالص اظہار و بیان (pure expression) اورادراکِ محض (pure perception) کو ان کے منتہا پہ پہنچا کر ایک کر دیا جاتا ہے۔ یہ پوری غزل اس کی ایک مثال ہے۔ مثال کے طور پر زیر نظر شعر میں کوئی سجاوٹ نہیں ہے، سادہ جملے ہیں :’’حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں؍میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں‘‘۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمالیاتی شعور بھی شعور کی دیگر قوتوں کی طرح ان حقائق کا متلاشی ہوتا ہے جن کے لیے عقل اور شعور کی دیگر قوتیں سرگرداںرہتی ہیں۔ شعور کی کوئی بھی نوع اپنے منتہا پر پہنچ کر شعور کی دیگر اقسام سے مغائرت کو، غیریت کو،فاصلے کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ شعر اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مضمون شعور کی تمام قوتوں کے لیے لائق تسلیم ہے اور شعور کی دیگر قوتیں مثلاً عقل اس شعر پر جب غور کرتی ہے تو وہ اس کے مافیہ کو گویا اپنے سفر کے حاصل کے طور پر قبول کرتی ہے، زادِ راہ کے طور پر نہیں۔ اقبال کا اس غزل میں خصوصاً اور اپنی بڑی شاعری کے دیگر نمونوں میں عموماً یہ ایک خاص وصف ہے کہ وہ جمالیاتی شعور کے حاصلات کو عقلی شعور وغیرہ کے لیے بھی مایہ ادراک (principal data) بنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔

یہاں ایک نکتہ اور دیکھ لیجیے جو اس شعر سے غیر متعلق نہیں ہے۔ اقبال اُردو کی حد تک اس اعتبار سے ایک بالکل منفرد شاعر ہیں کہ اُن کی شاعری سے ہم ایک بہت بڑا اصول دریافت کر سکتے ہیں، ایک ایسا اصول جو جمالیاتی اصول بھی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ حقائق کی طرف پیش رفت کے لیے جمالیاتی قوتوں کو خود تنزیہی (self-transcendence) کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جس نے نہیں سمجھا وہ اقبال کی شاعری کی اصل قدرو قیمت نہیں جان پائے گا۔ اقبال نے جمالیاتی شعور میں ایک self-transcendence پیدا کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی مثالیں اردو کی شعری روایت میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ self-transcendence کہنے سے میرا مطلب ہے کہ جمالیاتی شعور اپنے حاصلات کو اپنی ملکیت سمجھنے کی بجائے انھیں ایک ایسی عطا کے طور پر قبول کرے جو اسے اپنی کاوشوں سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ self-transcendence جمالیاتی شعور میں پیدا کر دینا تقریباً ناممکن کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ جمالیاتی شعور میں مالکانہ تصرف بہت ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کے بیان اور حقیقت کے ادراک میں بھی کچھ ایسی رنگین آمیزشیں کر لیتا ہے کہ اس حقیقت پر پھر عقل وغیرہ کا کوئی حقِ ملکیت کا دعویٰ نہیں رہ جاتا۔ یعنی جمالیاتی شعور کی اساس شعورِ انفرادیت (sense of individuality) ہے۔ اقبال نے اس جذبہ انفرادیت کو جمالیاتی شعور کے اندر جا کر اس کی بہترین شرائط کو پورا کرتے ہوئے مغلوب کرکے دکھا دیا۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنا بڑا کارنامہ ہے!جمالیاتی شعور،انفعال کو قبول بھی کرے گا تو انفعال میں بھی ایک احساسِ ملکیت رہتا ہے کہ یہ جلوہ صرف مجھے نظر آیا ہے، یہ جلوہ عقل کو نظر نہیں آ سکتا۔اقبال نے جمالیاتی شعور کو بلند ترین مناظر سے بھی روشناس کروایا اور پھر یہ بھی باور کروا دیا کہ یہ مناظر تم سے خاص نہیں ہیں یا یہ مناظر تم نے پیدا نہیں کیے۔ جمالیاتی شعور کے دو ہی کام ہیں کہ یا تو وہ منظر کو پیدا کرتا ہے یا ایک بالکل انفرادی زاویے سے منظر کا سامنا کرتا ہے۔ تو اقبال نے کوئی منظر جمالیاتی شعور کی سربراہی میں نہیںبننے دیا،ہر منظر کو جمالیاتی شعور کا منتہا بنا کر پہلے سے موجود دکھایا۔ یوں انھوں نے جمالیاتی شعور کے اس انفعال کے پیچھے کارفرما خوش فہمی کو بھی ختم کر دیا کہ یہ منظر صرف جمالیاتی تسکین کے لیے ہے، یہ منظر صرف جمالیاتی سر شاری اور تکمیل کے لیے ہے۔ اقبال نے بڑے بڑے جمالیاتی مراحل طے کیے اور اس طرح طے کیے کہ اس میں وہ اپنے پڑھنے والے کو اس احساس میں مبتلا ہونے کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ ان کی esthetically fulfilling کا وش ہے، اس سے مقصود محض جمالیاتی تسکین ہے۔ وہ جمالیاتی شعور کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے قاری کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کا صرف جمالیاتی مصرف نکالنے کی کوشش نہ کرنا۔

اس کا fulfilling ہونا محض جمالیاتی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک وجودی پھیلائو رکھتا ہے۔ اس کو سمجھے بغیر اقبال کے نظام معانی (meaning structure) کو آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔نظام معانی تو دور کی بات ہے آپ اقبال کی تکنیک کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ بھی دیکھیے کہ اس شعر میں شدت کتنی ہے۔ بڑی عمارت کسے کہتے ہیں؟ بڑی عمارت اُسے کہتے ہیں جس میںدو چار اینٹیں اگر غلط بھی لگی ہوں تو اُن کی طرف آپ کی توجہ نہ جائے۔ قلعے کی عمارت میں دو چار دس اینٹیں اگر الگ الگ بے ترتیب بھی لگی ہوں تو آپ کی نگاہ ادھر نہیں جاتی۔ آپ انہیں دیکھ کر بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے لیکن اگر میں آپ کے گھر جا کر دیکھوں کہ دروازہ غلط لگا ہوا ہے تو فوراً پکڑ میں آ جائے گا اور وہ گھر کی خوبصورتی کے بارے میں میرے تاثر کومجروح کر دے گا۔ اس شعر میں ایک فنی غلطی ہے کہ تخیلات اور تجلّیات ٹھیک قوافی نہیں ہیں۔ جمع کے صیغے کو قافیہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ الفاظ مفرد حالت میں بھی قافیہ بن سکیں۔ تخیل اور تجلی ایک دوسرے کے قوافی نہیںہیں۔ اس میں عیب موجود ہے لیکن اس شعر کو پڑھنے والا کوئی بھی شخص یہ عیب جاننے کے باوجود اس کی طرف اوّل تو متوجہ نہیں ہوتا اور اگر متوجہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تو یہ بڑی تعمیر کی پہچان ہے ورنہ کوئی چھوٹا شاعر یہ غلطی کرتا تو لوگ اس غلطی کو پکڑ کے شعر کو دفن کر دیتے۔

اس میں ’’حور و فرشتہ‘‘ کلیدی الفاظ (stress words) ہیں، ان کے بہت بڑے معنی ہیں۔ آپ ذرا علامت سازی اور تمثیل کی قوت دیکھیے کہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کی توخود علامتیں بنتی آئی ہیں، یہ خود symbolize ہوتے آ رہے ہیں۔یہ خود علامتوںکا موضوع ہیں لیکن یہاں ان کو علامت بنا دیا گیا۔ یہ ایک بڑی جست ہے۔ حور و فرشتہ ایک بالاتر سطحِ وجود کا تصور پیدا کرتے ہیں۔ جو بھی سطحِ وجود بالاتر ہو وہ علامت نہیں بنتی بلکہ علامت کا موضوع بنتی ہے۔ علامت کہتے ہیں حاضر کو اس طرح استعمال کرنا کہ غائب کی کچھ presence، کچھ حضوری میسر آ جائے۔ حور و فرشتہ دونوں عالمِ غیب میں ہیں۔ سو غیب کے امور کو مزید غائب در غائب کی علامت بنانا یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ تو ایک تو حور و فرشتہ اس میں مرکزی کلیدی لفظ ہیں۔ اس کے علاوہ تخیلات، نگاہ اور تجلیات۔ ان کو دیکھنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ یہاں اقبال نے انسان کو وجود یا حقیقت کی تین سطحوں پر مرکز میں جا کر بٹھا دیا۔ وُہ تین سطحیں کیا ہیں؟ حور، عالمِ خُلدیعنی subtle manifestation ۔ فرشتہ، عالمِ ملکوت یا عالم امر جو اس سے اوپر کا عالم ہے۔ حور کا محل و مقام جنت ہے۔ فرشتہ جنت سے اوپر کے عالم میں اپنی موجودگی رکھتا ہے یعنی عالم امر یا عالم ملکوت۔تیسرا عالم ہے عالمِ ذات وصفات، یعنی تجلّیات۔ تجلیات کسے کہتے ہیں؟ presence without mediation حضور بلا واسطہ، درمیانی وسیلے کے بغیر حضورِ حق۔ تجلی کہتے ہیں کسی حقیقت کا ظہور جو مظہر کا پابندنہ ہو، جسے وسائط اور وسائل کی ضرورت نہ ہو، جسے مظاہر کی حاجت نہ ہو یعنی حضورِ محض (pure presence) یا ظہور خالص(pure manifestation) ۔تو تجلّیات کی نسبت حق سے ہے۔فرشتہ حق کا عالمِ امر ہے یعنی domain of commands۔ حور اس کا وہ درجہ ہے جہاں وہ ظاہر ہے، مظاہر میں۔ اب ان تین عالموں، ان تین اقلیموںکے علاوہ ہمارے آپ کے اندر ہستی اور اس کے حقائق کی سطحوں کا کوئی اور تصور نہیں ہو سکتا۔ جنت عالم امر نہیں عالم خلق ہے، ملکوت عالمِ خلق نہیں عالم امر ہے، تجلیات ان سے ماورا ہیں تو عالمِ حق ہیں یعنی حق، امر، خلق۔ اور ان درجوں پہ اقبال نے نثر میں بھی کلام کیا ہے۔ تو تجلیات کا تعلق حق سے ہے، فرشتوں کا تعلق امر سے ہے۔ حور کا تعلق خلق کے درجہ لطیف (subtle degree) سے ہے اور تینوں میں ایک چیز مشترک ہے: دوام ۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ دنیا کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ دنیا دوام کی شرط کو پورا نہیں کر رہی۔ علامہ نے یہ کیا ہے کہ وجود کی یہ تین سطحیں جو دائمی ہیں، ان تین دائمی سطحوں پر ’انسان مرکزی‘ کا سامان کر رہے ہیں۔ عام تصور مرکزیتِ انسانی کا یہ ہے کہ وہ کائنات کا مرکز ہے۔ یہ تو عام تصور ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انھوں نے اس تصور کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انسانی مرکزیت کا عام اور عامیانہ بیان ہے۔ انسان مرکز ہے ان تین سطحوں کا جن تین سطحوں کو زوال نہیں، جن تین سطحوں کو فنا نہیں ہے۔ یعنی انسان وجود اور حقیقت کے فعل و انفعال میں فعّال وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر آپ کیا تصور کریںگے کہ جہاں انسان نہیں ہے وہاں کا بھی مرکز ہے۔ یہ تصور کتنا خوبصورت ہے۔ یہ تو ہے اس شعر کا معنی۔ حور و فرشتہ کو ہم نے کھول دیا۔ اب لیجیے تخیلات کو: تخیل کہتے ہیں حقیقت کو صورت بنا سکنے والی ذہنی قوت کو۔ یہ تخیل کی آخری جامع تعریف ہے۔ تو علامہ کہتے ہیں کہ میں کیونکہ خود حقیقت ہوں لہٰذا میرے اندر وہ قوت ہے کہ میں حقائق کو، غائب امور کو، صورت دے سکتا ہوں۔ اب یہ کس سے ظاہر ہے۔ ’حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں‘، یعنی حور و فرشتہ اس طرح ہو نہیں سکتے جو میرے تخیل کے خلاف ہو۔ حور و فرشتہ کو خلق ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ میرے حدودِ تخیل میں رہ سکیں۔یہ کتنی بڑی بات ہے!۔یہاں یہ بھی غور فرمائیے کہ علامہ نے کہا ہے ۔ ’’خلل‘‘ اور یوں حور و فرشتہ اور تجلیات میں فرق مراتب ملحوظ رکھا ہے۔تجلیات کا ادب پوری طرح ملحوظ رکھا ہے، اسیر اور خلل، خلل یہاں اہم لفظ ہے۔وہ کہہ رہے ہیں۔کہ حور و فرشتہ بنے ہی اس لیے ہیں کہ میرے تخیلات کے پابند رہیں۔اگر آپ غور کریں تو پورے نظام خلق میں فرشتوں اور حوروں کا وجود انسان کی ذہنی، روحانی اور وجودی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ حور اور فرشتے کو وہ ہونے کی اجازت نہیں ہے جو میرے تخیل سے باہر ہو۔ جو اندازِ وجود (mode of being)  میرے تخیل سے باہر ہے وہ حور اور فرشتے کو اختیار کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ تو بہت ہی بڑی بات ہے۔ عام لوگ تو زیادہ سے زیادہ یہ کہیں گے کہ ہم مسجود ملائک ہیں۔ مطلب یہ عام دہرائی جانے والی باتیں ہیں۔ اگر مرکزیتِ آدم کا یہ مسئلہ آدمی کے لیے ایک روحانی اور وجودی اور انتہائی اہم مسئلہ بن جائے تو پھر وہ اس مرکزیت کو اس طرح بیان کرے گا۔ آپ انسانی مرکزیت کے بہت سے بیانات سے مانوس ہیں لیکن انسانی مرکزیت کے بیان کا یہ درجہ ہمارے تجربے میں نہیں تھا۔

عالمِ جنت ہو یا عالمِ امر ہو، عالمِ جنت یعنی نتائجی دُنیا ہو یا عالمِ امر یعنی اسبابی دُنیا ہو، یہ دونوں انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دنیا اپنی بنیاد و اساس میں، دُنیا اپنے نتائج میں دونوں اعتبار سے انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اوراقبال اس کو اپنی اصطلاح میں تسخیرِ عالم کہتے ہیں۔

تیسرا بہت اہم لفظ ہے ’’نگاہ‘‘۔ نگاہ اور تخیل میں کیا فرق ہے؟ کائنات میرے علمی اور عقلی وجود کی مظروف ہے۔ یہ تخیلات ہو گیا۔ اگر فلسفیانہ زبان میں ہم کہیں تو یوں کہیں گے کہ میرا ذہنی وجودکائنات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کائنات، یہ مادی دنیا، یہ ظہورِ لطیف اور یہ غیر مادی اقلیم (non material world) ان تینوں سطحوں پر یہ میرے عقلی اور ذہنی وجود کے احاطے میں ہے۔ میرے ایک عارفانہ اور عاشقانہ وجود میں بھی ہے۔ وہ وجود عالمِ حق میں بھی مرکزیت رکھتا ہے۔ میرا ذہنی وجودعالمِ خلق کا مرکز ہے۔ عالم خلق کی تمام سطحوں کا مرکز ہے۔ یہ میرا عقلی وجود ہے۔ میرا ایک روحانی اور عاشقانہ وجود بھی ہے۔ وہ وجود عالمِ حق میں بھی بہت اہم پوزیشن رکھتا ہے۔ ’’نگاہ‘‘ کیا ہے، نگاہ انسان کے عارفانہ اور عاشقانہ وجود کی وہ قوت ہے جو اس کی مراد و مقاصد، اس کی منازل کو حاصل کرنے کے لیے درکار ہے۔ انسان کے ذہنی وجود کا موضوع و ہدف کائنات ہے، انسان کے روحانی وجود کی منزل اور مقصود خدا ہے۔ ’’نگاہ ‘‘ اقبال کے یہاں اکثر انسان کے روحانی وجود کے آلے کے معنی میں استعمال ہوتی ہے کہ میرے دیکھنے کو اللہ نے اپنے دیکھنے کے لیے بنایا ہے، مجھے نظر اللہ نے اس لیے دی ہے کہ میں اُسے دیکھ سکوں۔مولانا روم کے الفاظ میں :۳۰؎  

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

مجھے تخیل اس لیے دیا ہے کہ کائنات میرے احاطے سے باہر نہ نکل پائے۔ تو کہتے ہیں کہ میری مرکزیت اور مُرادِ الٰہی ہونے کا منظر صرف عالمِ خلق ہی میں نظر نہیں آتا بلکہ یہ ناچیز اس طرح بنایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو بلاواسطہ تجلیات ہیں ان میں بھی میرا لحاظ کار فرما ہے۔ اللہ کا اتنا ہی ظہور ہے جتنا انسان کی سمائی اور برداشت میں ہو۔ یہ خلل ہے میری وجہ سے۔ یہ تحدید اللہ نے ڈال دی کہ خود کو پورا ظاہر نہیں کرتا۔ اتنا ظاہر کرتا ہے جتنے کا یہ متحمل ہو سکے۔اب آپ سمجھے کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ نے اپنے امر و خلق اور اپنے ظہور میں، سب چیزوں میں، میرا خیال رکھا ہے۔ اللہ نے کوئی ایسی چیز تخلیق نہیں کی جو میری مرکزیت کا انکار کرے، اللہ نے کوئی ایسا امر نہیں دیا جس میں مجھے مخاطب نہ بنایا گیا ہو، جو میری ضرورت سے لا تعلق ہو، حتیٰ کہ اللہ نے اپنا کوئی ایسا اظہار نہیں کیا ہے جو میری برداشت سے زیادہ ہو۔ یہ خلل کہتے ہیں رخنہ اور کمی کو ، کہ اللہ چاہتا تو اپنا پورا اظہار کرتا لیکن پورا اظہار اس لیے نہیں کیا کہ وہ میری برداشت سے باہر تھا۔ اللہ نے اپنا ہر اظہار اس لیے کیا ہے کہ وہ اپنا دیکھنے والا مجھے بنا چکا ہے۔ اس کا دیکھنے والا میرے علاوہ کوئی نہیںہے تو وہ میری وسعت دید میں رہ کر خود کو ظاہر کرتا ہے،میری حدِ ’’نگاہ‘‘ تک ہی ظہور کرتا ہے۔

اب کلیدی الفاظ سے بڑھ کر شعر پر نظر کیجیے۔ بڑی شاعری کے ایک وصف پر کامل اتفاق ہے۔ وہ اتفاق ایسا ہے کہ اگر یہ وصف نہ پایا جائے تو شاعری کا کوئی نمونہ بڑا نہیں کہلائے گا۔ اسے کہتے ہیں شرافتِ معنی (nobility of content) کہ اس کے معنی اتنے مکمل ہوں کہ انھیں اپنے ادراک اور اظہار دونوں کے لیے کسی آرائش کی ضرورت نہ ہو۔ فنی زبان میں اسی کو معنی آفرینی بہ درجہ کمال کہتے ہیں۔معنی اور مضمون کا فرق نظر میں رہے ۔معنی مکمل ہو جائے تو مضمون سے اپنی علیحدگی یا امتیاز کو گوارا نہیں کرتا۔ شعور جب اپنے کسی خیال یا اپنے کسی فہم یا اپنے کسی حاصل کو حتمی ترتیب و تنظیم فراہم کر دے تو وہاں معنی اور مضمون کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں شرافتِ معنی (nobility of content) ۔جن لوگوں نے فکشن، ناول، افسانہ وغیرہ پڑھا ہو یا مذہبی تحریریں ہی پڑھی ہوں انھیں یہ بات معلوم ہے کہ nobility اس شرف کو کہتے ہیں جس میں تقابل نہ پایا جائے یعنی ایسی بڑائی جو تقابل کا نتیجہ نہ ہو۔ تو اگر کسی چیز میں تقابل نہیں پایا جا رہا یا جو تقابل کا نتیجہ نہیں ہے تواس میں کثرت اور امتیاز نہیں پایا جائے گا۔یعنی مضمون اور معنی کا فرق باقی نہیں رہے گا۔ تو شرف معانی کو کسی آرائش کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کو ہم نے پہلے یوں کہا تھا کہ اس پوری غزل میں شاعرانہ پن نہیں ہے لیکن یہ اردو شاعری کی روایت میں بڑی غزلوں میںسے ایک ہے۔ خود اقبال کی غزلوں میں بہت بڑی غزل ہے ۔

اس غزل کا دوسرا وصف ہے universality  ۔ایک بلا قید اور بلا شرط ہمہ گیری۔ ایسی کلّی آفاقیت، ادراک اور اظہار دونوں سطحوں پر ایک کامل خالص پن اور purity کے ساتھ ظہور کرتی ہے۔ جس طرح ادراک و اظہار دونوں میں شرف و علو ہو تا ہے، اسی طرح صفا و محضیت بھی ہے۔ یعنی وہ منتہائے معنی جس کو ادراک و اظہار میں آرائش اور تزئین کی ضرورت نہ ہو۔ یہ اس کا دوسرا وصف ہو گا۔ اخلاص یا purity کسے کہتے ہیں؟ اخلاص کہتے ہیں جس کو تزئین اور آرائش کی ضرورت نہ ہو۔ اسی وجہ سے اس میں دوسرا وصف یعنی صفا و اخلاص بھی اپنی شدت اور وسعت کے ساتھ موجود ہے۔ شدت کے ساتھ یوں کہ یہاں ’’میں ‘‘ یعنی انا کو ایک آدرشی، مثالی حیثیت دے کر خود اس اصول پر قدم جمانے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔ اسی کو ہم idealization of self یا idealization of ego کَہ رہے ہیں۔ ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں ‘‘، اس مصرع میں اپنی اس حقیقت ذاتیہ پر، ideal ego پر واقعتا، بالفعل قدم جمانے کی شدید ترین کوشش پائی جا رہی ہے۔ یعنی اپنی خودی کے دونوں سروں کو مربوط اور متوازن اور لازم و ملزوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ خودی کے دو، سرے کیا ہیں جن سے باہر خودی کا کوئی تصور اور کوئی ماحول فرض بھی نہ کیا جا سکے۔ جیسے زمین کا north pole اور south pole سے باہر کوئی وجود نہیں ہے۔ اسے فرض بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انا کے دو، سرے ہیں۔ ایک اس کا نہائی اور اصلی سرا، اس کی اساس حقیقی ہے۔ ایک اس کی فعلی واقعی صورت ہے۔ اس شعر میں یا اس پوری غزل میں اپنی selfhood کو اس کے اصلی اور واقعی دونوں سروں پر عملاً استعمال کرنے کی شدید جدوجہد نظر آتی ہے۔ اسی کو ہم اس غزل میں وسعت معنی قرار دیتے ہیں، یعنی ایک ایسی وسعت جس میں اضافہ مہمل ہے ۔purity کسے کہتے ہیں؟ جس میں اضافہ محال ہو، یا مضر ہو۔ جس میں کمی محال نہ ہو تو مضر ضرور ہو۔ تو آپ ذرا دیکھیے کہ اس میں دو necessary ends of meaning ہیں۔ وہ کیا ہیں، جن کے باہر خود وجود ہی کا کوئی تصور نہ کیا جا سکے۔جن کے باہر وجود کا تصور اپنے کسی بھی مصداق سے عاری ہو۔ وہ ہے خدا اور انسان، اور بیچ میں کائنات۔ اس شعر میں آپ غور فرمائیں اور اس پوری غزل میں غور فرمائیں کہ یہ دونوں ہی ساتھ ساتھ جڑی حالت میں اظہار پاتے ہیں۔یہ پوری غزل انسان اور خدا کے تعلق کے منتہا کے ادراک اور اس کے اظہار کا عمل ہے جس میں بیچ میں کائنات اس لیے آ جاتی ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے میں ضم نہ ہونے دے۔ کائنات کی ساری وجودی معنویت یہ ہے کہ خدا اور انسان کا امتیاز برقرار رہے۔ کائنات کی وجودی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ وہ فاصلہ ہے جو خدا اور انسان کو ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہونے دے گا۔ اسی وجہ سے خدا اور انسان کی غیریت کے تمام دلائل مبنی بر وجودِ کائنات ہیں۔

اب آپ دیکھیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس غزل کی معنی آفرینی کا عمل ایک ترتیب سے سلسلہ وار چل رہا ہے۔ سلسلہ وار چلنے سے ہماری کیا مراد ہے؟ sequence کا، حلقہ وار تسلسل کا لفظ کیوں استعمال کیاجا رہا ہے؟ اس سے تیسرے بڑے وصف کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ بڑی شاعری ، بڑی تخلیق یا بڑی فکر کا تیسرا ہمہ گیر وصف کیا ہے؟ حقائق کی (historicization) !یعنی انھیں واقعی فعلی حیثیت دینا۔ حقائق جو اپنی مطلق ساکن حالت میں شعور میں حاضر ہیں، اُن حقائق میں حرکت کا عمل دکھانا، اُن حقائق کو وقوع پذیری کے پیرائے میں لے آنا۔تاریخ انسانی میں جو بہت سے تقدیری فقرے کہے گئے ہیں (بعض فقرے ایسے ہوتے ہیں جن میں تبدیلی کا کوئی امکان ذہن میں آ جائے تو آدمی کو خود سے نفرت ہو جائے،)اُن میں ہیگل کا ایک فقرہ ہے۔ اس نے کہاکہ سارا مسئلہ یہ ہے کہ How to actualize the real یا How to realize the actual ۔ یعنی realizing the actual اورactualizing the real ۔ یہ پورے انسان اور کائنات اور علم اور عقل اور شعور اور ہر عمل، چاہے وہ کائناتی ہو یا انسانی ہو، ان کا مقصد واحد ہے۔ہیگل کس تناظر (perspective) میں کَہ رہا ہے؟ یہ کہ حقیقت کے ساتھ شعور کے تعلق کا منتہا یہ ہے، یعنی حقیقت تک رسائی کے منتہا پر پہنچا ہوا شعور کیا کرتا ہے؟ یا تو reality کو actualize کرتاہے، اصل کو واقعی میں بدلتا ہے یا actuality کو realize کرتا ہے۔ یہ واقعی کو اصول سے جوڑتا ہے۔ یہ حرفِ آخر ہے، آپ اس پہ جتنا غور کرتے جائیں گے، آپ کو یہ سوچنا بُرا لگے گا کہ میں اس میں کوئی رخنہ یا سقم نکال لوں۔ تو آپ یہ دیکھیں کہ اس پوری غزل میں تخلیقی اور فکری عمل ایک اکائی بن کر کار فرما ہے، یعنی یہ پوری غزل شعور کی مجموعی قوت کو جمالیاتی ذہن کی تحویل میں دے کر حقائق کا بیان کر رہی ہے۔ تو اس غزل کا جو پورا نظام تخلیق ہے اس کو اگر ایک عنوان دینا پڑے تو آپ بلا تکلف ہیگل کا یہ تاریخی فقرہ استعمال کر سکتے ہیں۔ گویا بڑائی کے تین کائناتی اور مشترک اوصاف جو اس غزل کے خواص میں ہیں، اس غزل کی بناوٹ میں ہیں، وہ اس شعر سے بھی ظاہر ہیں۔معنی کی بلندی کا حال آپ نے دیکھ لیاکہ وجود اپنی تین انتہائی اطراف سمیت اس بیان میں آ گیا۔ اس شعر میں وجود کے تین انتہائی اطراف کیا ہیں: خدا، انسان اور کائنات۔ ’’حور و فرشتہ‘‘ یعنی کائنات اپنے منتہا میں ایک ساکن واقعیت ہے جس میں زمان و مکان ہوں لیکن فنا نہ ہو۔ یعنی کائنات کا وجودی نقص فنا ہے۔ کائنات اپنے جس مرحلہ ہستی پر اس وجودی نقص سے نجات پاتی ہے اس مرحلے کے وہ بنیادی کردار یا عناصر ہیں: ’’حور و فرشتہ‘‘ ، جہاں زمانہ بھی ہے اور مکانیت بھی ہے، کیونکہ کائنات کا ایسا تصور لغو ہے جس میںزمان اور مکان نہ پایا جائے۔ تو عالمِ ملکوت اور عالمِ خُلد میں زمان بھی ہے مکان بھی ہے لیکن زمان اور مکان کا جبری اور آفاقی لازمہ یعنی فنا وہاں نہیں ہے۔

ہم نے کہا کہ اس شعر میں کائنات کو اس کی اپنی اصل پہ رکھ کے اس کے وجودی منتہا پردکھایا گیا ہے۔ اقبال کیونکہ انسان کے بارے میں محض جمالیاتی تصورات نہیں رکھتے یعنی اقبال نے انسان کی حقیقت پر شاعروں کی طرح جمالیاتی نظر سے غور نہیں کیا بلکہ انھوں نے انسان کی حقیقت پر ایک عارفانہ قوت کے ساتھ غور کیا اور اس غور کے نتائج کو جمالیاتی شعور کے لیے بھی قابلِ قبول بنایا۔ اقبال کی شاعری کے تمام بنیادی تصورات پر یہ بات صادق آئے گی۔ تو اقبال کا تصورِ انسان شعور (consciousness) اور وجود (being) کا مجموعہ ہے۔انسان کیا ہے شعور اور ہستی کا حرکی (dynamic) مجموعہ، جو اپنے شعور میں توسیع کے عمل پر بھی قادر ہے اور اپنے وجود میں بلندی کے مراحل طے کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔یہ اقبال کا وہ تصور انسان ہے جو اُن کی شاعری سے الگ ان کی فکرکے دیگر مظاہر میں بھی ملتا ہے۔ یہی فکر یا یہی تصورِ انسان بہت خوبصورتی سے اس شعر میں بیان ہوا ہے۔ یعنی انسانی شعور توسیع پذیر ہے، اور ان دونوں توسیعات میں انسان ایک خودمختار فاعل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی انسان وہ ہستی ہے جس کا شعور اور جس کا وجود توسیع کے کسی بھی اتفاقی مرحلے پر استوار نہیں ہے بلکہ اس کے اندر وجود اور شعور دونوں کی توسیع ارادی ہے، اختیاری ہے۔ جس نے بھی The Reconstruction پڑھی ہو وہ یہ بات جانتا ہے۔ یہاں دیکھیے کہ جو بات شاید The Reconstruction میںاتنی قوت سے نہ آئی ہو وہ اس شعر سے پیدا ہو گئی۔ The Reconstruction میںکیوں نہیں آئی ہو گی؟ اس لیے کہ The Reconstruction میںچیزوںکے بیان میں جمالیاتی قوت کو شریک نہیں کیا گیا۔ یہاں جمالیاتی قوت کے شامل ہو جانے سے اس میں شدت زیادہ پیدا ہو گئی ہے اور اس کوکمالِ اظہار میسر آ گیا۔ شعور کیا ہے اور وجود کیا ہے، خود توسیعی کا یہ عمل دونوں کیسے کر رہے ہیں؟ وجود کی وسعت ہے کائنات۔ ’’حور و فرشتہ‘‘ سے وابستگی رکھنا اور اس کے بعد خُدا سے بھی ایک موثر تعلق رکھنا یہ وجود کی وسعت ہے۔ شعور کی وسعت ہے’’تخیل‘‘ اور ’’نگاہ‘‘ کہ یہ شعور تخیل کے نچلے درجے پہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کا شکاری ہے اور ’’نگاہ‘‘ کے بلند درجے پہ ’’تجلیات‘‘ میں خلل ڈالنے والا ہے۔ اس زاویہ فکرکو ضرور یاد رکھیے گا جو اس شعر میں طرح طرح کی باتیں آپ کو سجھائے گا۔

وجود ’’نگاہ‘‘ سے ظاہر ہے۔ ’’نگاہ‘‘ سے یوں ظاہر ہے کہ شعور اپنے موضوع میں اگر خلل ڈالے تو شعور نہیں ہے۔ خلل ڈالنا وجودی قوت سے ہے اور ’’حور و فرشتہ‘‘ کو اسیر کرنا شعور کی قوت ہے۔ یہ ’’نگاہ‘‘ وہ نگاہ ہے جس کے بارے میں مولانا نے فرمایا کہ ’’آدمی دید است‘‘۔ مولانا کی اصطلاح میں جو ’’دید‘‘ ہے وہ علامہ کے الفاظ میں ’’نگاہ‘‘ ہے۔

ظاہر ہے اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ شعور کن حقائق کا احاطہ کر سکتا ہے اور کن حقائق کا نہیں کر سکتا ۔ یہ احاطہ نہ کر سکنے کے باوجود ان حقائق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ کے ظہور کا جو پورا سانچا ہے وہ انسان کی استعداد دید کے مطابق ہے اور اُسے نظارے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ظہور کے تمام اسالیب انسان کے شعورِ حق کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنائے ہوئے ہیں۔ دیکھیں میں پھر ایک بار عرض کرتا ہوں کہ یہ ایک نازک موضوع ہے کہ ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں‘‘۔ علم کلام اور فلسفیانہ تصوف میں یعنی ہمارے علم العقائد اور ہمارے علم الحقائق دونوں میں یہ بات مسلمہ ہے کہ ذاتِ خداوندی اپنی کنہ ذات (Divine Self as such) میں ظہور سے ماورا ہے۔ذات باری تعالیٰ کا جو نظامِ ظہور ہے وہ خود اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرتا۔ تجلیات کہتے ہیں نظامِ ظہور کے طریق و انواع کو۔ نظام ظہور کی ایک ساخت اور تعمیر ہے۔ ہر تجلی اس کا عنصرِ تعمیر، جزوِ ترکیبی ہے۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ تیری تجلیات ایسی ہیں جن کو تو نے پابند کر رکھا ہے کہ وہ تیری کل ذات کا اظہار نہیں بنیں گی، تیرا مکمل ظہور نہیں بنیں گی،  تو تیرا یہ فیصلہ کہ تیری کل ذات ظاہر نہیں ہو گی تیرا مرتبہ ذاتیہ، کنہِ ذات (Self as such) ظہور میں نہیں آئے گا،یہ میری ہی وجہ سے تو ہے۔ خلل کے یہ معنی ہیں۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت کے دو اصول بتائے جاتے ہیں جو متکلم بھی مانتے ہیں اور صوفی بھی جانتے ہیں۔ وہ اصول (principles) ہیں تنزیہ اور تشبیہ۔ تنزیہ یعنی transcendence ، تشبیہ یعنی immainence یا incomparability اور similarity ۔ تشبیہ کا انکار بھی کفر ہے، تنز یہ کا انکار بھی کفر ہے۔ یعنی اللہ کے ظہور کا انکار بھی کفر ہے۔ اللہ کے خفا کا انکار بھی کفر ہے۔ جس نے تشبیہ کو مانا اور تنزیہ کو نہ مانا وہ مشرک ہے۔ جس نے صرف تنزیہ کو مانا اور تشبیہ کو نہیں مانا، خُدا اس کا ذہنی تصور ہے، وہ خدا کو موجود فی الخارج نہیں مانتا۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں یا اللہ ! یہ جو اپنی ذات کی معرفت کے دو اصول آپ نے بنائے ہیں یہ آپ نے میرے ہی لیے تو بنائے ہیں۔ یعنی آپ کاظہور میری ایک ضرورت کے لیے ہے اور آپ کا خفا بھی میری دوسری ضرورت کو مکمل کرتا ہے۔ آپ کا ظہور میری عاشقانہ اُمنگ کو پورا کرنے کے لیے ہے اور آپ کا خفا میری عارفانہ استعداد کے لحاظ سے ہے۔ اس کو علامہ نے ’’خلل‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا۔ ’’خلل‘‘ کس چیز کو کہتے ہیں، ایک تو اس میں تاثر ہے وہ میں نے آپ سے عرض کر دیا کہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کے مقابلے میں انھوں نے اپنے آپ کو شکاری بنا لیا، ان سے بلند کر دیا۔ دوسری طرف اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کو چھوٹا بنایا ’’خلل‘‘ کا لفظ استعمال کرکے۔ فرض کیا میں آپ کے کسی کام میں مخل ہوتا ہوں تو میں آپ سے یہی کہوں گا کہ معاف کیجیے گا آپ کی مصروفیت میں خلل پڑا! تو یہ ادب ہے۔ ’’خلل‘‘ کا لفظ ادب کی رعایت سے ہے۔ ’’خلل‘‘ کا مطلب جو اس شعر میں ہے بہت آسان ہے۔ اس شعر میں ’’خلل‘‘ کا مطلب ہے کہ نفسِ وجود اور اظہارِ وجود ایک جیسا نہ ہو تو یہ ’’خلل‘‘ہے۔’’خلل‘‘ کہتے ہیں کل مافیہ، پورے مشمول کا جزوی ظہور۔ ’’خلل‘‘ کہتے ہیں بوتل پہ ڈاٹ لگانا۔ آپ نے پانی کو نکلنے سے روکا۔ ’’خلل‘‘ روک کو کہتے ہیں۔ ’’خلل‘‘ خرابی کو نہیں کہتے۔ ’’خلل‘‘ کا مطلب ہے رکاوٹ، روک لگا دینا۔ اب آپ دیکھیے کہ کتنے بڑے معنی پیدا ہو گئے۔ یا اللہ آپ کی ذات کا ظہور ممتنع اور محال ہونے کا سبب بھی میں ہوں اور خود اس ظہور کے واقع ہونے کی وجہ بھی میں ہوں۔ آپ ظاہر بھی میرے لیے ہیں، مخفی بھی میرے لیے ہیں۔ کائنات کا کوئی اور مظہر اس طرح کی ضرورتیں رکھتا ہی نہیں ہے۔scheme of conciousness کا مرکز بھی انسان ہےscheme of beingness کا مرکز بھی انسان ہے، اب آپ بتائیے دونوں جہات میں توسیع کی انتہا کرکے نہیں دکھا دی ورنہ یہ سب کَہ دینا تو آسان ہے کہ انسان مرکز کائنات ہے،انسان مقصود کائنات ہے۔ یہ cliche ہیں۔ ان کا کیا مطلب ہے۔ جب میں آپ سے کہوں گا ان کو کھولیے تب پتا چلے گا کہ آپ یہ مانتے ہیں یا رٹا ہوا فقرہ ہے۔ فرض کریں پانچویں جماعت کا ایک بچہ کہتا ہے کہ اللہ خالقِ کائنات ہے اور غزالی کہتے ہیں کہ اللہ خالقِ کائنات ہے۔ لفظوں میں مشترک ہیں لیکن کیا ان کا اس فقرے سے وابستہ فہم بھی مشترک ہو سکتا ہے۔

یہاں خلل کا فاعلِ نحوی انسان ہے، فاعل حقیقی اللہ ہے۔ اس شعر سے یہ ظاہر ہے۔ یہ کوئی تکلف سے نہیں کَہ رہے، کیونکہ تجلیات پہ ’’خلل‘‘ نافذ تھوڑی کیا جا سکتا ہے۔ تجلیات میں تو صاحب تجلی ہی ناپ تول رکھے گا ۔ میرا کیا اثر تجلیات پہ پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے ’’خلل‘‘ کا فاعل اللہ ہے۔ اللہ جس نے یہ طے کیا کہ میں جیسا ہوں کسی دوسرے پر ویسا ظاہر نہیں ہوں گا ۔ میرا کل ظہور صرف میرے لیے ہے۔

لیکن یہ جان لینے کا اس شعر کی تفہیم میں کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ یہ تو اعتقادی بات ہے اورظاہر ہے یہ شعر اس کے خلاف نہیں جا رہا ورنہ جب ہم اس میں ایک مذہبیت پیدا کریں گے تو وہ ایک حدیث سے پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ حدیث مبارکہ ہے، اس مفہوم میں یا اس سے ملتے جلتے مفہوم میں کہ اللہ کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، یعنی اللہ کا پورا نظامِ تجلیات، اس کا اسلوبِ ظہور ، خود کو ظاہر کرنے کا انداز، میرے شعور اور میری وجودی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شعور اپنے منتہا پر دیکھے ہوئے تک محدود نہیں ہے۔ مکمل شعور وہ ہے جس کے لیے ان دیکھا دیکھے ہوئے سے زیادہ حقیقی ہو۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ تجلی تو دیکھنے کے لیے ہے۔ تو اپنی تجلیوں سے جتنا ماورا ہے وہ ماورائیت اور تیری تنزیہ بھی میرے شعور کو تیری تجلی سے زیادہ سیراب کر رہی ہے۔ جیسے صدیقین یعنی عارفوں کے بھی سب سے بڑے امام حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایک فقرہ ہے کہ جب ادراک اپنے ہی ادراک سے عاجز رہ گیا تو میں نے جانا کہ خدا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شعور مرتبہ غیب میں اپنے مسلّمات اخذ کرتا ہے، مرتبہ حضور میں مسلّمہ نہیں تراشتا۔ یعنی خدا کی معرفت کا سب سے یقینی حال یہ ہے کہ وہ ماورائے معرفت ہے۔ جس نے ماورائے معرفت ہونے کو شعور کا حال بنا لیا وہ عارف ہے۔

شعور نام ہے ایک انفعالِ محض کا، total passivity کا ۔ یہ انفعال جب مکمل ہوتا ہے تو وہ اپنے ہدف کے غیاب پر راضی ہو جاتا ہے۔ اپنے ہدف کے جزوی اظہار اور کلی غیاب پر راضی اور قانع ہو جانا، یہ شعور کا منتہائے عمل ہے۔ یعنی خُدا کے ساتھ میرے شعور کا کیا تعلق ہے۔ میں جزوی اظہار اور کلی غیاب پہ راضی ہوں۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر سارے پردے اُٹھا بھی دیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا۔ کیوں نہیں ہو گا کہ میں پہلے ہی سے جزوی ظہور اور کلی غیاب کی اپنے شعور کو پوری طرح سرشار کر دینے والی معرفت رکھتا ہوں۔

اس شعر کا ایک پہلو اور دیکھ لیں جس پر ہم اپنی دانست میں اس شعر کے اوصاف پورے کر لیں گے۔ حقیقت کی بناوٹ اسمائی ہوتی ہے، افعالی نہیں ہوتی۔ حقیقت اسم ہے، فعل نہیں ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے۔ اس شعر میں اسم اور فعل کے فاصلے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس شعر میں معنی کا مزاجِ حرکت اور اندازِ نمو ایک حلقہ در حلقہ تسلسل کا ہے۔ حلقہ وار تسلسل کا مطلب ہے کہ حقیقت کی اسمائی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک افعالی تناظر فراہم کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقت اسم ہے جیسے اللّٰہ احد حقیقت ہے اور اس کے دونوں اجزا اسماء ہیں۔ اسم کہتے ہیں معنیِ صاف کے ظرف کو، container of crystalized meaning یا container of frozen meaning  یعنی منجمد معنی کے ظرف کو۔مطلب ہے کہ یہ حتمی ادراک ہے، last perception ہے۔ جو چیز ادراکِ آخریں ہو گی وہ حقیقت ہے جس کے آگے شعور خود اپنی جستجوئے تحقیق کو روک دیتا ہے یا جس نقطے پہ وہ حقیقت ہے، شعور وہاں اپنی پیش رفت کے عمل کو ختم کر دیتا ہے۔یہ حقیقت مفرد ہو گی، اسمائی ہو گی۔ شعور کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ حقیقت کی اس بلوریں ساخت کو ایک فعلی بہائو دیتا ہے۔ یوں شعور اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر عہدہ برآ ہوگیا کہ اُس نے اپنے مسلّمات کو ایک فعلی بہائو دے دیا، اس نے اپنے معنی و مفہوم کو ایک واقعیت کے عمل سے گزار دیا۔ اب یہ مکمل شعور ہے ۔ اب آپ یہ دیکھیے کہ اس شعر کی بناوٹ فعلی ہے۔ ’’حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں ‘‘ یہ ایک ترتیب و تسلسل (sequence) چل رہا ہے۔جہاں ’’ہے ‘‘ تھا، وہاں ’’ہوگا‘‘ کا صیغہ آ جائے تو پوری بات کی بناوٹ فعلی ہو جاتی ہے۔ یہ اس کا چوتھا وصف ہے۔ فعلی بناوٹ کیوں درکار ہے؟ اس لیے کہ حقیقت ماورائے شعور ہونے کی حالت میں موجبِ یقین بن جاتی ہے، حقیقت ماورائے علم ہونے کی حالت میں لائق تصدیق ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نظامِ تشبیہ اس لیے بنایا ہے کہ اس کا غیبِ مطلق لائقِ تصدیق اور قابل ایمان ہو جائے۔ تشبیہ کیا ہے؟ تشبیہ حقیقت کی فعلی ساخت ہے۔ تنزیہ کیا ہے؟ حقیقت کے مراتبِ ذاتیہ۔ تو اُس تنزیہ اور تشبیہ کے اصول کو اس شعر میں بھی جاری و ساری رکھا گیا ہے۔ اس طرح کی بڑی بڑی باتوں کا فہم اگر نہ بھی میسر آئے تو کم از کم اس سے مناسبت حاصل کرنا چاہیے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ہمیں بہت سی چیزیں ایسی اچھی لگتی ہیں جو ہماری سمجھ میںنہیں آئی ہوئی ہوتیں۔ انسان چیزوں کے ساتھ تعلق میں سمجھ میں آنے کی شرط نہیں رکھتا۔ یہ غیر فطری بات ہے۔ انسان چیزوں کا ایک شکوہ بھی محسوس کرنے کے قابل ہے چاہے اس شکوہ کا تجزیہ نہ کر پائے۔ مجھے کیا معلوم کہ ہمالیہ کس طرح بنا ہو گا، کب وہ سمندر میں دفن تھا اور کس طرح ابھرا ہو گا۔ اس کا معدنیاتی اور ارضیاتی تجزیہ تو میں جانتا ہی نہیں، کچھ بھی نہیں جانتا لیکن ممکن ہے کہ ہمالیہ کی رعنائی اور حسن، اس کا شکوہ مجھ پر ایک ماہر ارضیات سے زیادہ اثر کرتا ہو۔ گویا ہمالیہ سے متاثر ہونا ہمالیہ کو سمجھنے سے کم تر عمل نہیں ہے۔ ہم پر ان شعروں سے جیسے جھر جھری سی آ جائے اور ان کا شکوہ یا ہیبت ہی ہم پہ طاری ہو جائے، چاہے ہم اس کی شرح نہ کر سکیں۔گو ہم اپنی لطیف شعوری ضرورتیں پوری نہ کر سکیں لیکن اپنی بہت سی وجودی ضرورتیں بہر حال پوری کر لیں گے۔ پھر ہمارے وجود میں گراوٹ نہیں پیدا ہو گی۔ چونکہ انسان چیزوں کے ساتھ تعلق میں دو طریق عمل یا دو ذرائع رکھتا ہے۔ ایک فہم کا، understanding کا، دوسرا  ذوق کا، چکھنے کا۔بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کا فہم اور ذوق یکساں عین یکدگر ہو جائے۔ جس چیز کو پسند کرتا ہے اُسے سمجھتا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تو بیس کروڑ میں بیس آدمی بھی نہیں ہوتے تو ہم بجائے اس کے کہ ان بیس آدمیوں میں شامل ہونے کا ایک بلاوجہ کا خبط پال لیں تو کیا اس سے بہتر یہ نہیںہے کہ جو بھلائیاں موجود ہیں انھی کو استعمال کریں۔ جو مواقع فراہم ہیں ان کو برت لیں۔میسر موقع یہ ہے کہ ذوق اگر ہے اور فہم نہیں ہے تو آپ کسی بڑے نقصان میں نہیں پڑے۔ اور اگر فہم ہے اور ذوق نہیں ہے تو آپ دوکوڑی کے آدمی ہیں جس کو کہتے ہیں عالمِ بے عمل۔ تو ہمارے لیے یہ راستہ تو کھلا ہوا ہے کہ یہ جان لیں کہ بات کتنی بڑی کر دی، رونگٹے کھڑے ہو گئے، دل زور سے دھڑکنے لگا، انسان کو ایسا دکھا دیا۔تو بھائی! انسان کو جیسا علامہ نے دکھا دیا ویسا دیکھ لو، سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ تو اس سے کبھی نہ گھبرائیں کہ چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آ رہیں۔ یہ وہم کبھی نہ پالیں کہ بعض چیزوں کو اچھی طرح نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے گویا ہم پر اُن سے تعلق کا ہر روزن بند ہو گیا۔ بالکل نہیں ہوا۔ ایک روزن بند ہے۔ چیزیں اپنی تحسین اور قدر شناسی کا زیادہ تقاضا ذوق سے کرتی ہیں۔ بڑی چیز کبھی اپنے فہم کا تقاضاپہلے قدم پہ نہیں کرتی۔ بڑا موضوع سب سے پہلے یہ تقاضا کرتا ہے کہ میرا ادراک کرو، محسوس کرو، واہ وا کہو، یہ پیدا کر لیں۔ اس کے لیے شاعری بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن شریف جن لوگوں پہ اُترا تھا،جو اس کے پہلے مخاطب اور سامع تھے ان کے مقابلے میںبہت سے لوگ امت میں بعد میں پیدا ہوئے جو صحابہؓ سے زیادہ قرآن کی تفسیر کر سکتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے زمخشری کی طرح صرفی نحوی تفصیلات کوئی صحابی بتا سکتے تھے۔ یا رازی کی طرح فلسفیانہ تاویلات کوئی کر سکتا تھا یا ابو حیان جیسا زبان کا فنی علم کسی کو تھا۔ نہیں، تو فہم میں بعد میں آنے والے بہت آگے بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ ذوق کہاں سے لائیں گے۔ مطلب قرآن ان کے لیے ایک building act  تھا، ایک وجودی عمل تھا ذہنی عمل نہیں، فہم کی سرگرمی نہیں تھاکیونکہ وُہ اصحابِ ذوق تھے تو اگر یہ شعر مفہوم اور عملِ ذہنی نہیں بن پا رہا تو چھوڑو جانے دو۔ کسی کو موقع نہیں ملا شاعری پڑھنے کا، موقع نہیں ملا زبان شناسی کا تو کیا ہوا! اس سے وجودی تعلق تو ہو سکتا ہے، ایک عمل وجودی تو اس سے اخذ کر سکتے ہو۔ مفہوم اخذ کرنے کا عمل، پورا نہ ہو اس میں تو آپ معذور ہیں اور آپ کو کوئی تحقیر سے نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر وجودی تعلق ہی ناقص ہو تو اس میں آپ کو کون معذور مانے گا۔آپ دیکھیں نا کوئی کہتا ہے کہ آخری گنتی کیا ہے، چلو سنکھ ہی لے لیتے ہیں۔ اب مجھ سے کوئی کہے کہ ایک سنکھ پیڑ لگے ہوئے ہیں ایک سیارے پر یا ایک سنکھ موتیوں سے بھرا ہوا سمندر۔ اب مجھے سنکھ کا کچھ نہیںمعلوم کہ یہ کتنے کھرب ہوا ہے۔ نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی اس کا مصداق ہے، کچھ بھی تو نہیں ہے نا میرے پاس، لیکن یہ سنکھ کا لفظ کہ ایک سنکھ موتی !! یہ ذوق ہے اور یہ یاد رکھیے گا۔ اس آدمی کے آدمی ہونے میں نقص ہے جس میں نامعلومیت شوق کو مہمیز نہ کرے۔ چیزیں نامعلوم ہونے کی حالت میں زیادہ پرکشش نہ ہوں تو آپ کے آدمی ہونے پہ شبہ ہے۔ یہ ذوق ہے۔ حافظ کا شعر ہے آپ کو سُنا رہا ہوں۔اس کو ہم کیا سمجھا لیں گے، سراسر تکیہ اور انحصار ذوق پہ کرنا پڑتا ہے:۳۱؎  

گر بادِ فتنہ ہر دو جہاں را بہم زند

ماو چراغِ چشم و رہِ انتظارِ دوست

اگر فتنے کی آندھی دونوں جہانوں کو اُلٹ پلٹ کر دے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک آندھی چلی جس نے زمین و آسمان کو تلپٹ کر دیا، اب ایک سپاٹ میدان پڑا ہے، عدم کامیدان ، اس میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔اس میدان میں بس ہم ہیں، ہماری آنکھوں کے چراغ ہیں اور دوست کے انتظار کا راستہ۔ اب اس میں وہ بد ذوق آدمی ہے جو پوچھے کہ شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ اتنی لمبی ’’رہِ انتظار‘‘ کسی نے پینٹ نہیں کی ہو گی۔

تخیل کہتے ہیں دیکھی ہوئی صورت کو ان دیکھی صورت پر منطبق کرنا۔ ’’نگاہ‘‘ کہتے ہیں دیکھی ہوئی چیزوں سے مدد لیے بغیر غیب سے شعور اور وجود کے تعلق کے تمام تقاضے پورے کر دینے والی قوت۔ بس یہ یاد رکھیے گا اس شعر کے یہ دو بہت اہم لفظ ہیں۔ تخیل کا میدان تشبیہ ہے، عالمِ تشبیہ، اور نگاہ کا میدان عالمِ تنزیہ ہے۔

 گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند

میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

دیر و حرم اور کعبہ و سومنات ہم معنی لفظ ہیں، ان کی تکرار کیوں ہے یعنی کعبہ و سومنات کے ساتھ دیر و حرم کی کیا ضرورت ہے۔جب دیر و حرم کَہ دیا تو کعبہ و سومنات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیر و حرم اور کعبہ و سومنات میں کیا مناسبت اور کیا نسبت ہے۔ یہ شعر ایسے بنا ہے جیسے آپ دو دھاگوں کا ایک کپڑا بنائیں اور دونوں دھاگے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، یعنی تانا دشمن ہے بانے کا۔ پھر بھی دونوں کپڑا بنانے میں شریک ہیں۔ ان کی لڑائی سے کپڑا بنا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ ان کا ایک دوسرے سے جدلیاتی تکمیلی تعلق ہے۔(dialectical complementariness) یعنی متصادم ہم آہنگی ہے۔

اس شعر میں تشبیہ جس اصول کے طور پر آتی ہے، یہ تشبیہ کسی عذر یا کسی نارسائی سے نہیں پیدا ہوتی۔ تشبیہ اپنی جگہ ایک اصول ہے اور اس کامطلب ہے کہ صورت بھی حقیقی ہے۔عارفانہ وحدت پرستی میں کہا جاتا ہے کہ صورتیں غیر حقیقی ہیں، وہمی ہیں۔ تو تشبیہ کا اصول اس نقطہ نظر کو درست محل میں رکھنے کا تقاضا کرتا ہے اور تشبیہ کے principia ہونے کی جہت یہ ہے کہ وجود اور شہود جڑواں ہیں۔ وجود حقیقت الحقائق ہے اور شہود وجود کی صورت ہے۔ جس طرح وجود سے چیزیں پھوٹی ہیں اسی طرح شہود سے وجود کا ادراک اور شعور پیدا ہوتا ہے، اسی سے وجود کے مظاہر پھوٹتے ہیں۔ اس جہت سے صورت بھی بہ درجہ خود حقیقی ہے یعنی صورت غیر اصلی نہیں ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے۔ اسی غزل کے دوسرے شعر میں آیا تھا ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں‘‘۔ ’’نگاہ‘‘ کیا ہے؟ یہ ’’تحقیق‘‘ ہے۔ تحقیق کا مطلب ہے صورت سے حقیقت تک پہنچنا۔ کثرت سے وحدت تک پہنچنا۔ ’’نگاہ‘‘ تحقیق ہے۔ ’’نگاہ‘‘ کا مطلب ہے حق کی صورتوں سے حق کی ذات تک پہنچنا۔ اس مصرعے میں’’نگاہ‘‘کا مطلب یہی ہے ۔ اگر ہم ’’نگاہ‘‘ کا مطلب آزاد رکھ کے بھی کریں تو یوں کہیں گے کہ عقل کا وہ عملِ تحقیق جو صورت سے حقیقت تک پہنچنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن کیونکہ یہاں تجلّیات کا لفظ آ گیا ہے لہٰذا ہم ’’نگاہ‘‘ سے عرفانی تحقیق کے معنی لیں گے کیونکہ تجلّیات وغیرہ عقل والوں کی اصطلاح نہیں ہے۔ تو اس حوالے سے ’’تحقیق‘‘ شعورِ عرفانی کی وہ حرکت ہے جو ثابت شدہ صورتوں کو تسلیم شدہ حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے۔ گویا یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال خود آ کے بتا گئے ہیں۔یہ کَہ رہے ہیں کہ میرا جذبہ عرفان اتنا زیادہ ہے کہ تیرا ہی نظام ظہور، تیری اپنی ہی صورتیں، اُس جذبہ تحقیق کوسہارتی نہیں ہیں۔ اس جذبہ تحقیق کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ ان میں جو اپنی اپنی حقیقت کی طرف نشان دہی کا ایک ضابطہ رکھا ہوا ہے۔ اس ضابطے میں میرے جذبہ تحقیق سے خلل اور رخنہ پڑ جاتا ہے، وہ صورتیں اپنی استعداد سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ ہے خلل۔ خلل میں جو کثرتِ معنی چھپی ہوئی ہے اس کا ایک مزید جزو ہم بتا رہے۔ اب آپ نے دیکھا کہ نگاہ جستجو کا ایک آلہ ہے، نگاہ جستجو کا مبدا ہے،یہی جستجو جس کا مبدا عمل میں آ رہا ہے۔ ’’گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند‘‘۔ کیونکہ مجھے ظہورِ آفاقی کے پورے نظام میں اپنی مُراد کا حصول نہیں ہو سکا ہے، تو میں نے آفاق میں تیرے ظہور کے اصول ایجاد کیے ہیں، یعنی آفاق میں اپنے زورِ تحقیق سے تیرے لیے ایسا ماحول ایجاد کیا ہے جس میں تو آفاقی تنگنائیوںسے بے نیاز ہو کر اُسے اپنا مظہر بنا سکے۔ یہ نازک مضمون ہے اس کو کھولنا ہوگا۔ جستجو تو ہم سمجھ چکے کہ صورت سے اس کی حقیقت تک پہنچنا۔ اس جستجو کا پورا میدان صورت کا میدان ہے۔ دوسرا یہ کہ صورت کے میدان کے بارے میں صاحبِ جستجو کو یہ تجربہ یقین تک پہنچا چکا ہے کہ اس میں حقیقت کی سمائی نہیں ہے۔ یہ حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتی، یہ حقیقت کے مکمل اظہار سے قاصر ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد اب علامہ یہ کَہ رہے ہیںکہ اسی کارگاہِ صورت میں ، اسی اقلیم صورت میں، انسان ایسے تصورات عملاً برپا کرکے دکھا رہا ہے جو حقیقت کی سمائی بھی رکھتے ہوں اور اس کو ظاہر بھی کر سکیں۔

تنزیہ کا ہدف رکھنے والے عمل کا میدانِ کار صورت ہی ہوتا ہے ورنہ تو تنزیہ، محض ایک تصور بن کے رہ جائے۔ اسے بھی کھولتے ہیں۔’’نگاہ‘‘ کہتے ہیں جس کا مقصود حالت تنزیہ میں ہو لیکن جس تک پہنچنے کا راستہ تشبیہ سے گزرتا ہو۔ تو ’’نگاہ‘‘ حقیقت کے ادراک کے اس عمل کو کہتے ہیں جو صورتوں سے ہوتا ہوا حقیقت تک پہنچے۔

اصل مسئلہ ہے موجود ہونا۔ موجود ہونے کی دو ضرورتیں ہیں۔ ظاہر ہونا اور مخفی ہونا۔ موجود ہونے میں ایک جزویت ہے۔ اس کے لیے اظہار ضروری ہے۔ موجود ہونے میں ایک اصلیت ہے جس کے لیے خفا ضروری ہے۔ یعنی ہم جتنے ظاہر ہیں ہم اس سے زیادہ ہیں۔ ہم جتنا بھی ظاہر ہوتے جائیں گے ہمارا مرکز ہستی یعنی ہماری انا ، اس سے زیادہ ہو گی، اس سے ماورائیت کی حالت میں ہو گی۔ کیونکہ اگر وجود کے تمام مراتب میں یہ ماورائیت (transcendence) نہ ہو، قانونِ وجود یہ نہ ہو تو پھر ذات کا قیام اور تصور محال ہو جائے گا۔ ذات کسے کہتے ہیں (ego) ،انا، خودی جو بھی نام دے دیں۔ تو میں اپنے پورے اجزائے اظہار سے الگ اور زیادہ ہوں، ان اجزاء سے غیر مربوط اور غیر منسوب رہے بغیر ۔ کیونکہ اگر میرے اجزائے اظہار ہی کو کُل ’’میں‘‘ سمجھ لیا گیا تو پھر یہ اجزائے اظہار مشترک ہیں۔ یہ سب میں پائے جاتے ہیں تو ذات یا ’’میں‘‘ کے لیے ضروری ہے امتیاز۔انا نام ہے کہ ’’میں‘‘ ، ’’تو‘‘ نہیں ، ’’وہ‘‘’’میں ‘‘ نہیں۔ تو اگر ہم نے اظہار تک اپنے وجود کو محدود کر لیا تو یہ امتیاز باطل ہو جائے گا۔ اگر ہم نے اظہار تک اپنے وجود کو محدود کر لیا تو یہ نچلا مرتبہ وجود ہے۔ وجود کے اعلیٰ مرتبے میں یہ ضرورت اور زیادہ شدت سے وارد ہو گی۔ اس کے کچھ اور بھی معنی ہیں لیکن وہ بعد میں سہی۔ فی الحال اتنا بیان کافی ہے۔ تنزیہ کہتے ہیں خود کا خود سے بلند ہونا۔ ہم بعض ظاہری اسباب کی بنیاد سے ’’میں ‘‘ ہیں اور ہم بعض غیر ظاہری اسباب کی بنیاد پر بھی ’’میں‘‘ ہیں۔

گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند

میری تحقیق کامیدانِ کار صورت ہے اور اس کا مطلوب صورت سے ماورا ذات ہے۔ جب اس نے اس پورے نظامِ صورت کی بے استعدادی اور تنگی کا مشاہدہ کر لیا کہ اس میں حقیقت الحقائق کے اظہار کی، اس کا مظہر بننے کی اور میرے جذبہ تحقیق کو مہمیز لگا دینے والے مقصود اور ہدف بننے کی استعداد ہی نہیں ہے، یعنی اس کی کسی بھی صورت میں وہ صلاحیت نہیں ہے جو میرے لیے اگلی منزلوں کا قابلِ تسلیم اور اطمینان بخش اشارہ بن سکے۔وجود کا نظام کیا ہے! اظہار نے وجود کے نظام کی پابندی کرتے ہوئے دیر و حرم کااصول وضع کیا۔ دیر و حرم کا دائرہ بنایا اور دیر و حرم کے اس اصولی تصور کو جو صورتوں کے اصل نقائص کا ازالہ کرنے کے لیے بنایا تھا اس تصور کو میں نے صورتوں کی اقلیم میں وارد اور برپا کرکے بھی دکھا دیا۔ دیر و حرم وہ اصولی تصور ہے جو صورت میں اپنے حقائق کا مظہر بننے کی استعداد پیدا کر سکتا ہے، کعبہ و سومنات اس تصور کے عملی مصداقات ہیں۔ مزید یہ دیکھیے کہ حالانکہ میری جستجو ہی نے دیر و حرم کا اصول وضع کیا تھا لیکن اپنے ہی وضع کیے ہوئے اصول کی طاقت پر چلتے ہوئے جب میں نے اس کا عملی امتحان کیا تو پتا چلا کہ میرا تصور اپنے مصداق پیدا ہو جانے کے باجود اس طرح کی صورتوں پر منتج ہوا ہے جس سے غیر مطمئن ہو کر میں نے وہ تصور تراشا تھا۔ یعنی جذبہ تحقیق نے دیر و حرم کی نقش بندی کروائی۔ عملِ تحقیق نے اس ’’نقش بندی‘‘کو بھی ناکافی جانا۔ یہ ہے فغاں‘ ’’میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں‘‘

جذبہ تحقیق حق کی دید تک پہنچنے کا نام ہے ۔ تو دید کے بارے میں تمام تصورات صورت اساس ہیں۔ یہ ہمارا جذبہ تحقیق ہے جو ہمیں اس بات کو باور کرنے پر مائل کرتا ہے کہ ہم صورت کی اُس آخری قسم تک پہنچ سکتے ہیں جہاں صورت اور اس کی حقیقت میں دوئی نہ رہ جائے۔ پس جذبہ تحقیق اس جگہ تک پہنچنے کا نام ہے۔

کعبہ و سومنات میں کعبے کو اگر ہم لے لیں تو کعبے کی تعمیر امرِ ربی سے ہوئی ہے۔ میرے اقتضائے فطرت کو دیکھتے ہوئے۔ یعنی کعبہ خدا کے حکم سے میرے اقتضا کی تسکین ہے۔ دوسرا مرحلہ یہی تھا کہ جستجو کس درجے میں ہے اور فغاں کس درجے میں ہے۔ جستجو فطرت کے درجے میں ہے، فغاں فعلیت کے درجے میں ہے۔یہ حقیقتِ انسانی کا بیان ہے اور حقیقتِ انسانی کے اس درجے کا بیان ہے جہاں وہ حق سے متقابل حالت میں پہنچ کر اپنے فطری کمال کو عمل میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ جو میری جستجو، میری نگاہ، میرے تخیلات، یہ حقیقتِ انسانی کا ہمارے اندر عمل میں آ جانا ہے۔ یہ گویا کلِ انسان ہے جو اپنی فطرت سے اپنی دوری کو ختم کرکے اپنی فطرت کی آواز بننے پر قادر ہو گیا ہے۔’گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند‘ کیونکہ میرے اندر فطرت فعّال حالت میں موجود ہے، لیکن میری ہستی کے جو قیود ہیں، مجھے جس ماحول میں رہنا سپردہوا، اس ماحول کی بندشوں کی وجہ سے میری فطرت کا فعال ہونا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ میری فطرت حضورِ الٰہی پر مبنی ہے، میری حالت غیاب پر قانع ہے۔ یعنی میری حالت غیاب کے اصول پر ہے جبکہ میری فطرت حضور کے اصول پر ہے۔ ان دونوں کے ٹکرائو کو میں حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں اپنی حالت کو اپنی فطرت کے مطابق بنا کر اسے دوبارہ اس حضورِ اصلی پر بحال کرنا چاہتا ہوں جس کا میری فطرت کو حال اور تجربہ حاصل ہے۔ تو یہ جستجو کسی پہلی مرتبہ ملنے والے مقصد کی جستجو نہیں ہے ۔ یہ ملے ہوئے مقصود، حاصل شدہ مقصود، کو اپنے دوسرے مرتبہ وجود میں گم ہو جانے کی وجہ سے دوبارہ ڈھونڈنے اور پانے کی کوشش ہے۔ یہ جستجو کسی نامعلوم کی جستجو نہیں ہے، یہ جستجو کسی مجہول کی جستجو نہیں ہے۔ اس نکتے کو ذہن میں رہنا چاہیے۔ یہ جستجو کھوئی ہوئی حالت کی جستجو ہے، یہ جستجو فطرت کے اصلی مشمول و مافیہ کو دوبارہ پانے کی جستجو ہے، یہ جستجو میرے زمانِ ظہور کو اس مکانِ غیاب پر وارد کرنے کی کوشش ہے۔ میں نے دورِ حضور کو اس عہدِ غیاب پر حاکم بنانے کی کوشش کی ۔ یہ ہے جستجو دیر و حرم کی نقش بند کہ جس حضور میں میں نے وحدت اور کثرت کے اصلی ہونے کے احوال حاصل کیے تھے اُن احوال کی میں تجدید کرنا چاہتا ہوں اس عالمِ حجاب میں۔ اس وجہ سے دیر و حرم کی نقش بندی کر رہا ہوں لیکن میرا یہ پورا عمل ایک المیے پر ختم ہوا ہے۔ میرا یہ پورا عمل میری نارسائی میں کمی نہیں کر سکا۔ میرا یہ پوراعمل میری حالتِ حجاب کو رفع نہ کر سکا۔ یہ ہے یہ شعر کہ میں نے دیر و حرم کی نقش بندی اپنی فطرت کے احوال پر کھڑے ہو کر کی تھی، ان کا اعادہ کرنے کے لیے کی تھی، ان کو دوبارہ عمل میں لانے کے لیے بھی تھی، لیکن کیونکہ اس کوشش میں نظامِ صورت کے قوانین کا خیال رکھنا لازم ہے لہٰذا اس نظامِ صورت کے اندر جو راسخ نقائص ہیں وہ میری اس جستجو کی تکمیل میںبھی آڑے آ گئے۔

اب پھر عرض کرتا ہوں کہ میری فطرت کا مرکزی حصہ یہ ہے کہ وحدت اور کثرت دونوں حقیقت الحقائق کے اوصاف ہیں اور دونوں اپنی اصلی حالت میں ماورائے صورت ہیں۔ وحدت بھی اصلی ہے، کثرت بھی اصلی ہے، اُس حقیقت سے منسوب ہو کر۔ اور وحدت وکثرت کے حقیقی ہونے کا پہلا مرتبہ ماورائے صورت ہے۔ اُس ماورائے صورت مرتبے کا شعور مجھے فطرتاً حاصل ہے۔ یہ میری فطرت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے کہ میں نے حق کو اس کے ظہور کے قطبین کے ساتھ تجربہ کیا۔ وحدت و کثرت حق کے ظہورِ اوّلین کے قطبین ہیں۔ حق وحدت سے بھی اُسی طرح ماورا ہے جس طرح کثرت سے ماورا ہے۔ وحدت اس کے لیے ایجابی بندش ہے اور حق ہوتا ہی وہ ہے جو بندش قبول نہ کرے۔ تو وحدت ایجابی قید ہے اور کثرت سلبی بندش ہے۔ حق کو لازماً وحدت والا ہونا چاہیے، حق کو لازماً کثرت نہ رکھنے والا ہونا چاہیے، یہ ایک ایجابی بندش ہے، دوسری سلبی بندش ہے، تو حق خود بندش ہی سے ماورا ہے، بندش کی ان دو بنیادی قسموں سے بھی ماورا ہے تو حق فی نفسہٖ وحدت اور کثرت دونوں سے ماورا ہے۔ وحدت اور کثرت دونوں حق کے ہم عمر مظاہر ہیں۔حق سے جڑے ہوئے مظاہر کی تاریخ اگر نکالی جائے تو اِن مظاہر کا اصول وحدت و کثرت ہے۔ ایسی وحدت جو کثرت کو جُھکا نہیں سکتی،ایسی کثرت جو وحدت کو ڈھانپ نہیں سکتی کہ میں اس بظاہر باہمی تضاد کا انداز رکھنے والی حالتِ ظہور سے مانوس کرکے بھیجا گیا ہوں۔ تو ظہور اپنی اوّلین حالتوں میں ایک دو پروں والے مقدس پرندے کی طرح ہے۔ مجھے اس پرندے کے دونوں پروں کے سائے میں رہنے کا اپنی تاریخِ فطرت میں تجربہ حاصل ہے لیکن یہاں بھیج کر کثرت بھی فساد پذیر ہو گئی، کثرت بھی حق سے جوڑنے کے لیے ناکافی ہے اور یہاں پائی جانے والی صوری وحدت بھی حق تک آپ سے وابستہ ہونے یا رہنے کے لیے ناکافی ہے۔ میں نے صورت کے اس پورے نقص کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہونے کے لیے دیر و حرم کا اصول اپنی فطرت سے اخذ کیا۔ وحدت اور کثرت کے حقیقی ہونے کا اصول اپنی فطرت سے اُبھر کر میرے شعور میں آیا۔ یہ ہے نقش بند کا مطلب۔ تو اپنی فطرت کے دیے ہوئے اس تصور کو جب میں نے کعبہ و سومنات سے نسبت دے کر دیکھا تو یہ پایا کہ ان تصورات میں جو معارف اور جو تجربات اور جو احوال سمٹے ہوئے ہیں اُن معارف اور احوال کی کوئی تسکین بھی ان سے نہیں ہو رہی ۔ کیوں؟ کیونکہ صورت کا خاصہ یہ ہے کہ اگر معنی کو مصور کر دیا جائے تو بھی صورت کا قاعدہ یہ ہے کہ صورت معنی پر غالب آ کے رہتی ہے۔ معنی کو آپ مصور کر بھی دیں تو بھی اس نظام صورت کے جبر کی وجہ سے معنی صورت پر غالب نہیں رہ پاتے۔ کعبہ و سومنات دراصل وحدت اور کثرت کے حقیقی ہونے کو محفوظ حالت میں ظہور دینے اور مستحضر کروانے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن صورت کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ معانی کو کھالیتی ہے، یہ معانی پر غالب آ جاتی ہے۔ معانی پر غالب آ جانے کی وجہ سے خود یہ کعبہ و سومنات بھی اپنی بنائے قیام سے گویا خالی ہو گئے اور یہ میری فطرت کے اس تجربے کی تصدیق کرنے سے قاصر رہ گئے ہیں جو مجھے وحدت اور کثرت کے حقیقی ہونے کے بارے میں حاصل ہے۔

’’فغاں‘‘ یہاں بہت بامعنی لفظ ہے۔ جانا ہواانجان بن جائے تو آدمی جو شکایت کرتا ہے وہ فغاں ہے۔ فغاں نامعلوم کے نامعلوم رہنے پر نہیں کی جاتی، فغاں نا مشہود کے غائب رہنے پر نہیں کی جاتی، فغاں تصوراتی چیز کے حاصل نہ ہونے پر نہیں کی جاتی۔ فغاں کی جاتی ہے کہ جس کو میں خوب جانتا تھا اس نے منہ موڑ لیا ہے یا اپنے آپ کو ڈھانپ لیا ہے اور میرے ہرجتن کے باوجود اپنی دوبارہ رونمائی پر راضی نہیں ہے۔ یہ فغاں ہے۔ دیکھیے حریم ذات میںہلچل پیدا کرنے کے لیے نوائے شوق چاہیے ، بتکدہ صفات میں غلغلہ پیدا کرنے کے لیے بھی نوائے شوق چاہیے، اور چونکہ ذات و صفات حقائق کے مبدا ہیں تو وہاں تو نوائے شوق سے کچھ اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ صورت کے تابع نہیں ہے لیکن صورت کے نظام میں یہ نوائے شوق فغاں بن گئی۔ جو نوائے شوق فاتحانہ انداز میں عروج کر رہی تھی وہ نوائے شوق ایک کراہ بن کر رہ گئی ہے عالمِ صورت میں --- یعنی ادنیٰ مرتبہ اسے کہتے ہیں کہ بڑے نتائج پیدا کرنے والی قوت کند ہو کر رہ جائے۔ یہ فغاں وہی ہے جو اوپر نوائے شوق ہے، یہ یاد رکھیے گا۔ نوائے شوق کیا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ اُس تک پورا نہیں پہنچ سکتا لیکن پھر بھی اس کی کشش غالب ہے مجھ پر اور اس کی کشش موجب ہے میری پیش قدمی کی اور فغاں کہتے ہیں کہ یہاں کام نہیں بنے گا۔ میرے اندر موجود تصویر کے لیے یہ فریم چھوٹا ہے۔

’’رستخیز‘‘ بھی بہت اہم لفظ ہے۔ رستخیز کا لفظی مطلب تو حشر ہے۔ یعنی قیامت ۔ تو رستخیز میں آپ دیکھیے کہ کیا معنویت ہے۔ رستخیز کا پہلا مطلب ہے اس نظامِ صورت کی فنا اور اگلے نظامِ صورت کی بنیاد ڈالنا۔ اگلے نظام کی تاسیس، اس نظام کی فنا۔ رستخیز کا مطلب ہی، صورتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہے۔ یہاں سے نکلیں گے تو اگلے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ یہ ہے قیامت کہ’ میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں‘ کہ کعبہ و سومنات میں میری فغاں سے ایک قیامت برپا ہے یعنی میری فغاں کعبہ و سومنات کو صورت کے اصول پر کھڑا نہیں رہنے دے گی اور ان کو اپنی اس موجودہ حالت سے نکال کر حق کا واقعی مظہر اور ظرف بننے کی استعداد فراہم کرے گی۔ رستخیز کبھی غیر نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ رستخیز کا لفظ جب بھی آئے گا تو سمجھ لیں کہ اس کا نتیجہ یقینی ہے۔ قیامت کبھی بلا نتیجہ نہیں ہوتی۔اس نتیجے کا تعلق اُسی چیز سے ہوگا جس کو یہاں فنا کیا جا رہا ہے۔تو کعبہ و سومنات میں رستخیز کا مطلب ہے کہ کعبہ و سومنات اپنی صوری بندشوں سے نکل کر اپنی معنوی بنیاد پر قائم ہوں گے۔

اس میں دو مسائل پیدا ہوئے۔ پہلے مسئلے کا حل تو یہ ہے کہ کعبے کی بنیاد ڈالی گئی تھی اللہ کا سب سے بڑا مظہر بنانے کے لیے۔ اللہ کا سب سے بڑا مظہر بننے کا ثبوت اس کاقبلہ ہونا ہے، تو جو مظہر قبلہ ہو گا یعنی اللہ کی طرف یکسوئی کا ذریعہ ہو گا اُسے گویا اللہ نے اپنی مظہریت کاملہ تفویض کی ہے۔ کعبے کی اصل یہ ہے کہ وہ ہمیں اللہ کی طرف یکسو رکھنے کے لیے نشان بن کے رہے ۔ کعبے کی یہ اصل ہماری صورت خوئی کی وجہ سے برقرار نہیں رہ سکتی۔ ہم نے کعبے کو اللہ کی طرف یکسوئی کا زندہ معنوی روحانی مرکز بنانے کی بجائے کچھ اور بنا کر رکھ دیا۔ اب کعبہ اللہ کو ظاہر کرنے سے زیادہ اللہ کو چھپانے والی ایک صورت بن کر رہ گیا ۔اسی طرح سومنات تھا ۔ سومنات بنا تھا اللہ کے ظہور کی دوسری اصل یعنی کثرت کو محفوظ رکھنے کے لیے، کثرت کو مصور کرنے کے لیے، کثرت کو مرکز دینے کے لیے ۔ وہاں بھی یہ ہوا کہ وہ جس کثرت کامظہر بننے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، اس کثرت کے اظہار کے جو عناصر تھے اُن عناصر کو اصول و مقاصد کا درجہ دے دیا۔ گویا وہ بھی صورت کے بالکل تابع ہو گیا۔صورت کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب صورت کھلنے والا دروازہ نہیں ہے ،صورت غالب آ کر مقفل دروازہ بنتی ہے۔

یہ وہی بات ہے کہ دلالتیں خود مدلول بن جائیں، علامت ، معلوم کی جگہ لے لے، signifier خود signified بن جائے۔ شعر یہ کَہ رہا ہے کہ اس عالمِ صورت میں حقیقت سے متعلق رہنے کے لیے جو دو صورتیں داخل کی گئی تھیں اظہار اور ادراک دونوں سطحوں پر، ان کو بھی صورت کے غلبے نے متاثر کر دیا، وہ خود ایک صورت بن کر رہ گئے۔ صورت کے دوکام ہوتے ہیں ، حجاب بن جانا اور اپنے سے اوپر اور ماورا کو ظاہر کرنا۔ تو صورت غالب آ کر ہمیشہ حجاب بنتی ہے، اب یہ خود صورت بن گئے ہیں یعنی اللہ کو ظاہر کرنے کے بجائے، اللہ کی شانِ وحدت و کثرت کو ظاہر کرنے کے بجائے، اس کے اوپر پڑا ہوا پردہ بن گئے۔ تو فغاں اسی حالت میں کر رہا ہوں کہ یا اللہ! جو آئینہ آپ نے اپنے دیکھنے کو دیا تھا، اس پہ اچانک گرد کدورت آ گئی، اس پر اچانک کسی نے پردہ ڈال دیا ہے۔ بس یہی فغاں ہے۔ اس غزل کا یہ شعر روایتی ہے، یعنی بہت لوگوں نے کہا ہے لیکن اقبال نے اس کو الگ فضا میں استعمال کیا ہے۔

اللہ نے جو کچھ کیا ہے اس کا اقتضا میری فطرت میں رکھا ہے۔ اللہ نے دیر و حرم کی شکل میں اپنے ساتھ عارفانہ اور عاشقانہ نسبت کا اقتضا میری فطرت میں رکھا ہے اور کعبے کی شکل میں اسی اقتضا کی تکمیل کی۔  سومنات شکار ہوا ہے شانِ کثرت کو نہ سمجھنے سے، کعبہ اوجھل ہوا ہے شانِ وحدت کو نہ سمجھنے سے۔ دونوں ایک ہی درجے پر آگئے لیکن اگر ہم کہیں گے کہ مکتہ المکرمہ کے وسط میں بنی ہوئی ابراہیمی عمارت اور گجرات میں محمود غزنوی کا ڈھایا ہوا سومنات یہاں ایک کر دیا گیا ، تو ایسا نہیں کیا گیا ۔

غرض اس شعر سے آپ ایک قیمتی بات اخذ کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ کثرت کے بارے میں مروج تصور کی اصلاح کر سکیں، کیونکہ اللہ کی دو شانیں ہیں، وحدت اور کثرت۔اگر فلسفیانہ انداز میں بات کریں تو یہ کہیں گے کہ وحدت ایک ایسا جامع اور مانع تصور ہے جس کا موجد ذہن ہے۔ اس دعوے کے زور کو آپ کم نہیں کر سکتے۔ آپ جو بھی وحدت کہیں گے ، اس کا بانی ذہن ہے۔ یہ ایک عجیب طرح کی قید لگ جاتی ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اللہ ماورائے وحدت ہے۔ دوسرے یہ کہ وحدت کا کوئی ایک مطلب بھی کثرت سے تقابل اور نسبت کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ وحدت ایک ایسا لفظ اور معنی ہے جو کثرت کے تجربے اور شعور سے حاصل ہوا ہو۔ اس کے بارے میں ہم کیسے کہیں گے کہ وحدت اس کے لیے بھی جاری اور وارد ہے۔ وحدت ہمارے ادراک کی ضرورت ہے، اللہ کے ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کی ذات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ذات کے بارے میں ہمارے شعور و ادراک کا ایک مقولہ ہے یا اسلوبِ ادراک ہے۔

اللہ تعالیٰ جن جن صفات کو اپنے سے منسوب کرتا ہے ان سے اسماء بھی بناتا ہے۔ اس کے بہت بڑے معنی ہیں جس کا لب لباب یہ ہے کہ کثرت حقیقی ہے۔ یہ تکلف ہے کہ اللہ رحمن ہوتے ہوئے قہار ہے۔ مطلب ان کے درمیان معنوی لین دین کرنا یہ نرا تکلف ہے۔ تکلف یہ ہے کہ وہ قہر بھی کرتا ہے تو تقاضائے رحمت سے کرتا ہے۔ اسم اورمسمٰی میں عینیت وجودی ہے، غیریت شہودی ہے۔ یہ غلط ہے کہ یہ ہمارا ادراک ہے۔ اگر اسم اور مسمٰی عین یک دیگر ہیں تو کثرت حقیقی ہے۔اسم نام ہے ظہور کو اصول بنانے کا۔ اسم عبارت ہے ظہور کی اصل قائم کرنے سے۔ ظہور نام ہے اصولِ کثرت کی کار فرمائی کا۔ کثرت اگر اصلی نہ ہو تو ظہور باطل، بے معنی، لغو اور مہمل ہے جبکہ ظہور کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ ظہور اس ذات کے بارے میں میرے ادراک و شعور کی کل متاع ہے ۔ تو ہم صرف ذات کے نام سے تنزیہ قائم کرتے ہیں اس کا کوئی شہود نہیں رکھتے۔ کوئی شعور نہیں رکھتے۔ اس ذات کو ماننے کے جتنے آداب اور مراحل اور صورتیں ہیں وہ کثرت کے اصلی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ تو کثرت اگر اصلی نہ ہو تو خدا کے ماننے کے لیے جو اثباتِ شعوری درکار ہے وہ ممکن نہیں رہے گا۔اگر یہ کہا جائے کہ اللہ حالتِ تنزیہ میں ہے اور رحمن ہے ، رحیم ہے، غفار ہے، قہار ہے ، محی ہے، ممیت ہے تو میرا سارا ادراک کثرت ہے۔ جیسے ہی آپ کثرت کے اصلی ہونے کو ہٹائیں گے ویسے ہی اللہ میری نظر میں، میرے شعور کی نظر میں ایک تصور رہ جائے گا۔ اسی وجہ سے ابن عربی نے کہا تھا کہ تنزیہ کا، تنزیہ محض کا مطلب تعطیل ہے۔ تعطیل کہتے ہیں تصور کو۔ تصور میری مخلوق ہے یعنی منزہ محض ذہن کی مخلوق ہے، وحدتِ محض ذہن کی مخلوق ہے۔

بہرکیف یہ شعر اس خاندان کا ہے جس سے غالب کا یہ شعر متعلق ہے:۳۲؎  

دیر و حرم آئینہ تکرارِ تمنا

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

یہ کَہ رہے ہیں کہ میرا شوق واماندہ نہیں ہے لہٰذا میں پناہ نہیں تراش رہا، میں فغاں کر رہا ہوں۔ بس یہی مسئلہ ہے جو غالب اور ان میں مشترک ہے۔ ’’آئینہ تکرارِتمنا‘‘ دُنیا کی سب سے بامعنی ترکیبوں میں سے ایک ہے۔دیر و حرم کو ’’آئینہ تکرارِ تمنا‘‘ کہنا حکیمانہ شاعری کا معجزہ ہے۔ تمنا وہی ہے جس کو ہم نے اقتضائے فطرت کہا اور اقبال اسے ’’جستجو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ گرچہ میری تمنا دیر و حرم کی آئینہ ساز ہے۔(آئینہ ساز اور نقش بند ہم معنی ہیں) اور’’ تکرارِ تمنا‘‘ان کے ہاں جستجو ہے کہ یہ جستجو پائی ہوئی چیز کی جستجو ہے ۔ وہ بھی یہ کَہ رہے ہیں کہ یہ تمنا اپنے پیدا ہونے کا جواز رکھنے والی حالت حضور سے پہلی مرتبہ پیدا ہوئی اور اب غیاب میں پھر اُبھر رہی ہے۔ حضور میں پیدا ہوئی اور غیاب میں ابھر رہی ہے لہٰذا اُس نے دیر و حرم بنا لیا۔ آئینے میں بھی نقش قائم کیا جاتا ہے۔ آئینہ سازی کی بجائے انھوں نے نقش بندی کہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ غالب نے اپنے شعر میں سے اپنے آپ کو نکال دیا، علامہ نے اپنے آپ کو داخل رکھا اور کہا کہ میری منتہا فغاں پر ہے۔ غالب کی انتہا دستبرداری پہ ہے۔ میں فغاں کرتا ہوں، میں مایوس نہیں ہوں۔ فغاں کہتے ہی اُسے ہیں کہ جہاں مایوسی کے اسباب ظاہر ہوں، امید کا پہلو مخفی ہو۔ روتا آدمی ہی ہے۔ رونا صرف اظہارِ غم کے لیے تھوڑی ہے ، رونا تسکین غم کے لیے ہے۔ رونے کا اصل مقصود تسکین ہوتا ہے، التہاب نہیں۔ غالب کہتے ہیں کہ میں رونے پہ بھی تیار نہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ نہیں، میں روتا رہوں گا کیونکہ مجھے رونے سے اُمید ہے کہ میری تمنا بر آئے گی۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس شعر کے بارے میں اٹھائے گئے نکات کا خلاصہ کر لیتے ہیں۔ اس شعر کی معنوی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس میں اس سے پہلے کے دونوں اشعار کی تکمیل کی گئی ہے اور اگلے اشعار کا معنوی جواز اور معنوی اساس فراہم کی گئی ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ شعر گنتی کے اعتبار سے بھی بیچ کا شعر ہے کہ یہ اپنے اوپر کے شعروں کو ایک تکمیلی ارتکاز کے ساتھ اپنے اندر سموتا ہے اور اگلے شعروں کو اُن کا معنوی پھیلائو فراہم کرتا ہے۔ فنی اصطلاح میں یہ شعر گویااس غزل کا موکد (emphasizer) ہے۔ اس سے پہلے کا شعر ایک لاہوتی معنویت (divine meaningfullness) کا ماحول رکھتا ہے۔اس کے بعد والا انسانی معنویت کا منظرنامہ ہے۔ ان دو کے بیچ ایک برزخ کے طور پر یہ شعر ہے، اس لیے اس کی بہت اہمیت ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے۔ اس شعر میں انتہائی عرفانی مسلمے کو ایک معنوی حرکت دی گئی ہے، یعنی ایک معنوی dynamism دیا گیا ہے۔ وہ عرفانی مسلمہ یہ ہے کہ حق ایک تو ذات کے طور پر حقیقت ہے اور دوسرے انسان میں موجود اقتضا کے طور پر بھی موجود ہے۔ یعنی حق کے موجود ہونے کے دو انداز ہیں، دو یکساں طور پر مستند انداز۔ ایک انداز ہے اس کا بذات خود موجود ہونا اور دوسرا انداز ِموجودیت انسان کے فطری اقتضا کی بنیاداور منتہا کے طور پر موجود ہونا ہے۔ حق اپنے طور پر اپنے آپ میں اپنی ذات سے موجود ہونے کی حالت میں منزہ محض ہے، pure transcendence کا نام ہے۔ اس کو اپنے موجود ہونے کے لیے نہ کسی اختیار کی ضرورت ہے، نہ کسی ارادے کی ضرورت ہے، نہ موجود ہونے کے دیگر قیود و شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو کہتے ہیں ، محضیت  (pure transcendence) ۔یہ تنزیہ محض اپنا ایک متوازی تناظر بھی رکھتی ہے۔انسانی فطرت کا بنیادی اقتضا بن کر حق موجود ہونے کے دونوں انداز کی بنیاد بن جاتا ہے۔ موجود ہونے کا ایک طرز ہے تنزیہ اور ماورائیت، ایک انداز ہے تعلق اور نسبت۔ حق اپنے علاقہ و نسبت یا اپنی تشبیہ کو انسانی فطرت میں اقتضا کے طور پر حاضر ہو کر پورا کرتا ہے۔ یہ ہے اس غزل کے معنی کی انتہائی بنیاد۔ اس کو چھوئے بغیر اس غزل کے مضامین اوراس میں استعمال ہونے والے لفظوں کا صحیح غلط مطلب آپ کو کہیں دور تک نہیں پہنچائے گا۔ اب دیکھیے،یہ شعر کَہ کیا رہا ہے۔

شعر یہ کَہ رہا ہے کہ حق میری فطرت کے اقتضا کے طور پر دو شانیں رکھتا ہے۔ شانِ وحدت اور شانِ کثرت۔ اپنے مرتبہ ذاتیہ میں as suchness میں شانِ وحدت رکھتا ہے اور اپنے اندازِ ظہور میں شانِ کثرت رکھتا ہے۔ یا یوں کَہ لیں کہ اپنے وجود میں واحد ہے اپنے شہود و شعور میں کثیر ہے۔ تو کَہ رہے ہیں کہ میری فطرت کا جو بنیادی ترین معاملہ اور اقتضا ہے اس میں یہ دونوں شانیں ایک طرح کے غیر شعوری حضور کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے اندر حقائق ایک تمّوج۳۳؎ رکھتے ہیں، فہم نہیں رکھتے۔ آپ جتنا ادراک و شہود کو گہرائی میں کھنگالیں گے تو چیزیں تموج میں بدلتی چلی جائیں گی، مفہومات سے ہٹتی چلی جائیں گی۔ اقتضا اسی کو کہتے ہیں کہ جہاں حقیقت اپنے اصلی تمّوج کے ساتھ موجود ہو یعنی حقیقت صرف موجود ہونے کا نام نہیں ہے حقیقت شہود اور perception کا بھی نام ہے۔

یہاں ایک اور نکتہ واضح کر لیجیے۔’’واحد‘‘ ماورائے وحدت ہے۔ اسے جان لینا چاہیے، ہم واحد کہتے ہیں اپنے اظہار کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ وہ واحد کیا ہے تو ہم اس کے واحد ہونے کے اقرار کو باقی رکھتے ہوئے یہ کہیں گے کہ وہ وحدت سے بھی ماورا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں وہ موجود ہے لیکن جیسے ہی ہم اس موجود ہونے کا فنی تجزیہ کریں گے تو ہم کہیں گے کہ وہ ایسے موجود ہے کہ وجود سے ماورا ہو کر موجود ہے۔۳۴؎ وجود کی دو شرطیں ہیں، ذات کے دو احوال ہیں، وجود اور شعور، یعنی جس طرح ذات کے اقرار کے لیے اس کے وجود کا اقرار ضروری ہے اتنا ہی ذات کے اقرار کے لیے اس کے شہود کا اقرار ضروری ہے۔ اس شہود کو perception کہتے ہیں ۔ شہود اس حضور کو کہتے ہیں جسے آفاق میں اظہار کی لازمی ضرورت نہ ہو۔ ذات کا ذات ہونا وجود اور شہود کا حامل ہونا ہے تو اس کی جہتِ شہود ہماری فطرت کے اقتضا کے طور پر موجود ہے۔ اس کی شانِ وجود اس کی ذات کی تعریف کے طور پر موجود ہے۔ بہ اعتبارِ وجود ہم اس کی معرفت یا اس کی جانب زاویہ نگاہ، اس کی طرف دیکھنے کے ہر زاویے کو وحدت کے اصول پہ رکھیں اور بہ لحاظ شہود اس کو دیکھنے کا کوئی بھی زاویہ ایسا نہیں ہو سکتا جو کثرت کے حقیقی ہونے کے تصور پہ نہ کھڑا ہو۔ آپ دیکھیں یہ کہاں پہنچ کے بات ہو رہی ہے کہ اس کو سوچیں گے تو سانس اُکھڑ جائے گی، بیان کرنے میں تو دم ہی نکل جائے گا۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ جستجو بمعنی اقتضا ہے۔ جستجو اور اقتضا میں وہ فرق ہے جو عام خاص میں یا کُل اور جز میں ہوتا ہے۔ اقتضا عام ہے ، کل ہے، اس اقتضا کا شعور میں، اپنے عمل میں، آنا جستجو ہے۔ اس اقتضا کی حرکت جستجو ہے۔ تو جستجو بمعنی اقتضا ہے کہ میں اپنی اقتضا کے بموجب حق کے ساتھ تعلق کی ہر سطح کو جس طرح حق سے طلب کرتاہوں اور میرے مطالبے پر حق کی تشکیل کے جو آفاقی اسالیب پیدا کیے جاتے ہیں وہ اسالیب میرے لیے غیر تشفی بخش ہیں۔ حق اپنی ان دونوں شانوں کے ساتھ جس قدر میرے اقتضا کی بناوٹ میں حاضر ہے اتنا اپنے ظہور کی کسی بھی سطح پر حضور نہیں رکھتا۔ یہاں صحتِ ظہور کا انکار نہیں ہے۔ یہاں کمالِ ظہور کے نہ ہونے کا نوحہ پڑھا جا رہا ہے۔

دیر و حرم کی ’’نقش بندی‘‘ اصل وا صول کی سطح پر ہے۔ کعبہ و سومنات اس کی واقعیت ہے جس کا فاعل انسان نہیں ہے۔ انسان اس کی واقعیت کو بھی وحدت مانتا ہے،برحق مانتا ہے، خود کو اس میں محفوظ جانتا ہے۔ فغاں کا سب سے بڑا سبب کیا ہوتا ہے؟ جو سب سے بڑی فغاں ہوتی ہے وہ اس طرح کا ایک phrase ہوتا ہے کہ میں سب کچھ مانتا ہوں مگر! ۔۔۔۔ بس یہ فغاں ہے۔ اس سے بڑھ کے کوئی فغاں نہیں ہو سکتی۔ فغاں کوئی پیاس میں پانی نہ ملنے کی فریاد کی طرح نہیں ہے۔ فغاں یہ ہے کہ سب کچھ مانتا ہوں، کعبے کو بھی مانتا ہوں، سومنات کو بھی مانتا ہوں سب کچھ مانتا ہوں مگر۔۔۔۔۔ جیسے علامہ کا یہ شعر ہے:۳۵؎  

فقیہ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری

مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

دوسرے انداز سے کہیں تو یوں کہیں گے کہ حق کا ہر ظہور میرے جذبہ شہود کے لیے حقیقی ہونے کے باوجود ناکافی ہے۔ یہ ہے اس شعر کا مضمون۔ظہور اور شہود میں فرق ہے۔ اصطلاح میں شہود انفسی ہوتا ہے،ظہور آفاقی ہوتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ میرا معاملہ یہ ہے کہ میرا شہودِ حق، حق کے نظام ظہور سے زیادہ ہے۔ اب اس کے نتیجے میں جو ہو رہا ہے اس کو یہ فغاں کَہ رہے ہیں۔یہ فغاں عدم توازن کا نتیجہ ہے۔ یہ فغاں اتنی حقیقی ، اتنی سچی اور اتنی پُر تاثیر ہے کہ وہ خود اوضاع اور صورتوں کو تحویل و تبدل کی امنگ عطا کر دیتی ہے۔ رستخیز کا مطلب ہے صورتوں کے اندر دوبارہ صورت پذیر ہونے کا جذبہ پیدا ہو جانا۔ قیامت یہی ہے۔

اس کے شعری حسن بھی بہت ہیں۔ جیسے دیر و حرم اور کعبہ و سومنات میں ایک مناسبت ہے، جستجو اور فغاں میںایک مناسبت ہے، ’’نقش بندی‘‘ اور ’’رستخیز‘‘ میں مناسبت ہے۔ اسی طرح اس میں بہت سی مناسبتیں ہیں۔اس شعر میں جو بڑے مقابل مفہوم و الفاظ ہیں وہ جستجو اور فغاںہیں۔ آپ دیکھیے کہ دو بڑے مشابہات انھوں نے بتا دیے دیر و حرم اور کعبہ و سومنات کی شکل میں اور ایک تضاد کی رعایت سے بھی دو کردار رکھ دیے ۔ جستجو اور فغاں۔ یہ بہت قدرت کلام ہوتی ہے کہ آدمی مناسبت کی دونوں قسموں کو انتہا پہ لے جا کر برت کے دکھا دے۔ مناسبت کی دو ہی تو قسمیں ہیں، تشابہ اور تضاد۔ تشابہ بھی انتہا پہ دکھا دیا ’’دیر و حرم ‘‘ اور ’’کعبہ و سومنات‘‘ میں اور تضاد کو بھی انتہا پہ دکھا دیا ’’جستجواور فغاں میں۔‘‘

 گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود

گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

’’گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دل وجود‘‘یہ مصرع بہت خوبصورت ہے اور یہ مصرع ہمارا امتحان ہے کہ تم اعلیٰ درجے کا شعری ذوق رکھتے ہو یا نہیں۔ اعلیٰ درجے کا شعری ذوق لفظی محاسن کو محسوس کرنے کا نام ہے، تشریح اور توضیح اور تفسیر کا نام نہیں۔

تیز ‘ کا لفظ اقبال کا مہر کردہ لفظ ہے۔ اردو شاعری میں ’تیز‘کا لفظ اقبال سے زیادہ گہری معنویت اور احساساتی شدت کے ساتھ کسی نے استعمال نہیں کیا۔ ہر بڑے شاعرکے کچھ الفاظ ہوتے ہیں جس پر اس کی مہر لگی ہوتی ہے تو تیز کا لفظ ان چند الفاظ میں سے ایک ہے جن پر اقبال کی مہر لگی ہوئی ہے۔ آپ پوری اُردو شعری روایت میں تیز کے ایسے استعمالات نہیں دکھا سکتے جو اقبال کے ہاں بکھرے پڑے ہیں،جیسے ع ’’ دگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی‘‘ ۳۶؎ ،’’مشام تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا‘‘۳۷؎  

غور فرمایئے کہ کتنا منضبط تخلیقی ذہن تھا! جمالیاتی ذہن کا منضبط ہونا تقریباً نا ممکنات میں سے ہے۔ ابتدائی دو شعروں میں حق کے وجود اور شہود کو موضوع بنایا اور اس شعر میں اپنے شعور اور علم کو موضوع بنایا یعنی حق میں جو وجود اور شہود ہے وہی ہر موجود پر وارد ہوگا۔ موجود ہونے کا لازمی تقاضا جو ہمارے موجود ہونے کے لیے ضروری ہے وہ ہے شعور اور وجود، علم اور وجود، علم اور انا ، اقبال کی اصطلاح میں کہیں تو شعور اور خودی۔ تو اب عین اس معیار ہستی پہ اپنا تجزیہ کر رہے ہیں۔ یہ اگلے دو شعر ہیں۔اس میں پہلے اپنی perception یعنی اپنے ادراک و شعور کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ ’’گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود‘‘۔ اس شعر میں اپنے علم کی حقیقت بیان کر دی۔ اگلے شعر میں اپنے وجود کی حقیقت بیان کر رہے ہیں۔

پہلے اس شعر کے لفظوں کے معنی کو کھولتے ہیں۔ ’’نگاہِ تیز‘‘ کا مطلب ہے حقیقت کی غیبی بناوٹ تک یقینی علم پیدا کر لینے والی رسائی رکھنا، یعنی حقیقت کے حضور تک پہنچنے والی علمی قوت۔ حقیقت جس کا عالم ہستی غیب ہے، اس کے حضور تک پہنچ سکنے والی صلاحیت جس کا حاصل علم ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں ’’نگاہِ تیز ‘‘ اور ’دلِ وجود‘ کا ایک مطلب ہے وجود کا مرکز۔ وہ مرکز جہاں وجود کی حقیقت مندرج ہو وہی دلِ وجود ہے۔ ’’دلِ وجود ‘‘کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ عالم صورت سے گزر کر حقیقت کی جانب متوجہ ہونا۔ میرے موجود ہونے کی ایک لازمی قوت جو بعض مرتبہ اپنی درست کار فرمائی میںوجود کی حقیقت تک پہنچ جاتی ہے۔ ’’دلِ وجود ‘‘ کا چوتھا مطلب ہے حقیقت کا ئنات۔ کبھی تو میری نظر اپنے جذبہ معرفت سے حقیقت تک پہنچ جاتی ہے اور کبھی اپنے ہی توہمات میں ایسی الجھ کے رہ جاتی ہے کہ علم کو بھی برباد کرتی ہے، معلوم کو بھی مسخ کر دیتی ہے۔ آگے ایک لفظ ہے ’’توہمات‘‘۔ توہمات ،تخیلات کی قبیل سے ایک لفظ ہے۔ ’’تو ہم‘‘ اور’’ تخیل‘‘ میں کیا فرق ہے؟ اس کی اصطلاحی تعریف ہے خیال کا شعور کی صورتوں پہ ایسا تصّرف کہ نئی صورتیں قائم ہو جائیں۔ یہ خیال ہے، یعنی خیال بلحاظِ صورت بھی انفس کو آفاق سے زیادہ سرمایہ دار بناتا ہے کیونکہ انسانی شعور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انفس کو آفاق سے زیادہ بڑا بنائے۔ یہ انسانی شعور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے مشمولات اور مافیہ باہر کی صورتوں سے زیادہ ہوں۔ انسانی شعور کے تمام مسائل کا حل اس میں ہے ۔ خیال تو اس لیے ہوتا ہے کہ آفاق جس مجموعہ صور کا نام ہے شعور اس سے بڑا انبارِ صورت اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے۔ صورتوں کابڑا انبار بنانے کی قوت تخیل ہے۔ اسی طرح کائنات مجموعہ معانی بھی ہے۔ جہاں صورت پائی جائے گی وہاں معانی بھی پائے جائیں گے۔کائنات ایک دنیائے معانی ہے اور انسانی شعور اس سے بڑا جہانِ معانی اپنے اندر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس کا آلہ ہے توہّم۔۳۸؎  کیونکہ انسانی شعور کا بڑا مسئلہ ہے کہ حقیقت کا ظہورِ صاف دریافت کرے۔ حقیقت کا ظہورِ صاف بلا واسطہ مظاہر ہی ہو گا۔ تو یہ انسانی شعور ہے جو اس ظہور بلا مظاہرکا گھر بنتا ہے۔

عام لفظ کے طور پر کیونکہ یہ منطق کی اصطلاح بھی ہے۔ منطق ایسا علم ہے جس میں ان دو اصطلاحوں کو علم کی فنی تعریف کی تفصیل میں ایک بنیادی کردار کی حیثیت دی جاتی ہے تخیل کا مطلب ہے محسوسات پر تصرف کرنا۔۳۹؎

غیر موجود کو موجود کر دکھانا یہ توہّم ہے ۔ یہ وہمی لوگوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ عارفوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ جب عارفوں میں ہو گا تو کہیں گے کہ وہ حقیقت جو غیر موجود فی الآفاق ہے اُسے حاضر فی الذہن کرنا، حاضر فی الانفس کرنا، یہ توہّم ہے کیونکہ حقیقت اپنی نوعیت کے اعتبار سے آفاق میں سما نہیں سکتی، شعور یا قلب جو بھی نام دیں اس میںاس کی سمائی ہے۔ تو غیر حاضر فی الآفاق کو حاضر فی الانفس کرنا توہّم ہے۔۴۰؎

یہ سمجھنا چاہیے کہ اس شعر میں توہّم کے دونوں رنگ اور انداز ہیں اور بہت باریکی کے ساتھ ہیں۔ کوئی اناڑی آدمی پڑھے گا تو وہ کہے گا کہ یہاں ’’توہمات‘‘ اصطلاح نہیں ہے عام لفظ ہے۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ کبھی تو میں حقیقت تک پہنچ جاتا ہوں اور کبھی حقیقت کے بارے میں اپنے واہموں کا شکار ہو جاتا ہوں۔ اب یہ مطلب بظاہر تو ٹھیک ہی لگ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ میری perception ، میرا شعور، ایسا ہے، میری شانِ علم ایسی ہے کہ کبھی یکسو ہو کر حقیقت کائنات تک مار کرتی ہے اور کبھی خود سے اوپر اٹھ کر اپنے اندرپیدا ہو جانے والی صورت حقائق میں الجھ کر یا ان پر ضرورت سے زیادہ یقین کرکے حقیقت الحقائق تک پہنچنے کی مزید کھوج نہیں کرپاتی۔یہ دو مصرعے عقل اور توہم کے بیان میں ہیں۔

یہ شعر کَہ رہا ہے کہ کبھی میری عقل کائنات کی طرف متوجہ ہو کر اس کی حقیقت تک پہنچ جاتی ہے، کبھی یہی عقل میرے ’’توہمات‘‘ میں الجھ کر بے بس ہو جاتی ہے۔ یہ ہے اس شعر کی نثر۔ اب اس میں کئی اصول بیان کیے ہیں ۔ اس شعر میں یہ بتایا گیا ہے کہ عقل کی رسائی کائنات اور اس کے در و بست تک ہے۔ عقل کائنات اور اس کی حقیقت کو اپنا موضوع بنا سکتی ہے۔ لیکن حقائق کی جو اصل اقلیم ہے وہاں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں رکھتی۔ عقل حقائق کے ہر اس تصور تک پہنچ سکتی ہے جو مبنی بر صورت ہو۔ اب اگر عقل اپنی اس مجبوری سے بغاوت کرنا چاہے گی اور حقائق تک مار کرنا چاہے گی تو پھر وہ گویا حقائق کی غیر اصلی صورتوں میں الجھ کر رہ جائے گی۔ یہ اس کا پہلا درجہ ہے۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ یہاں ’’توہمات‘‘ مثبت کے ساتھ منفی معنویت بھی رکھتے ہیں ۔ اب اس میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ’’توہمات ‘‘ اپنے مثبت ترین معنی میں بھی حقائق کا بدل نہیں ہوتے یعنی علم وجود کا بدل نہیں ہو گا، وجود کا عکاس ہوگا۔ دوسرے مصرعے سے اس بات کو گویا سامنے لا کر دکھا دیا گیا ہے۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ وہ عقل جو کبھی حقیقت کائنات تک پہنچ جاتی ہے وہ عقل جب خالقِ کائنات کے حقائق دریافت کرنے کے درپے ہوتی ہے تو اس کے لیے پھر میرے ’’توہمات‘‘ میں الجھ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یعنی کائنات کو موضوع بنا کر ، عقل کو کسی وسیلہ علم ، کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہے لیکن حقائق کو موضوع بنا کر عقل کو ایک وسیلہ علم کی الگ سے ضرورت ہے ۔

 اس شعر کی ساخت بتا رہی ہے کہ یہ دو جہانِ وجود اور دو جہانِ شعور کا بیان ہے۔ ایک آفاق ہے ، ایک عالم حقائق ہے۔ عقل آفاق کے لیے کافی ہے ، حقائق کے لیے ناکافی ہے۔ یہ اس کا مضمون ہے۔’ توہمات‘ کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ اس کے مشمول و مافیہ کا کوئی تعلق آفاق سے نہیں۔

اس کو ذرا ایک سٹیج سا بنا کے دیکھیں کہ دلِ وجود یعنی حقیقتِ وجود کیا ہے؟فلسفیانہ معنوں میں تو دلِ وجود ہدف ہے پورے شعور کا۔ دل وجود ہدف ہے عقل کا،شعور کا، کیونکہ یہ ہدف بنایا گیا ہے نظام الوجود کا۔ نظام الوجود کی حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ وجود اور شہود یا ہستی اور علم عین یکدگر ہیں۔ تو ہستی اور علم یا وجود اور شعور کے عین ہونے کی سطح سختی کے ساتھ محض حق کی صفت اور خاصہ ہے۔ تو اب یہ فرض کریں کہ منزل ہے دلِ وجود تک پہنچنا۔ اس کے لیے سواری مجھے ملی ہے عقل کی تو یہ سواری مجھے کبھی منزل تک پہنچا دیتی ہے اور کبھی منزل کے بارے میں پیدا شدہ میرے ہی حاصلاتِ شعور میں منزل کے نام سے مجھے منزل کے دھوکے میں مبتلا رکھتی ہے یعنی کبھی یہ مجھے حقیقت وجود کے اصل اور کنہ پر پہنچاتی ہے اور کبھی مجھے یہ وجود کے بارے میں اپنے ادراک و شعور میں اُلجھا کے رکھتی ہے۔ اب اس شعر کے گویا دو کردار ہوئے ’’نگاہ ‘‘ اور ’’وجود‘‘۔ نگاہ اور وجود کو ہم لیں گے شعور اور وجود ، علم اور ہستی۔ کبھی میرا علم وجود کے ساتھ identical ہو جاتا ہے اور کبھی میرا علم وجود تک پہنچنے کے بجائے وجود کے بارے میں اپنے ہی قائم کردہ تصورات تک پہنچتا ہے۔ دلِ وجود اور اس کی تقدیر میں حضور نہیں یعنی حضور حقیقت کا حضور نہیں اس کے پاس جتنا بھی حضور ہے وہ اپنا بنایا ہوا ہے اس کی تقدیر میں حضور نہیں یعنی یہ حقیقت کا جو بھی حضور رکھے گی وہ اس کے تصورات ہوں گے۔

یہ کہنا کہ حقیقت مکمل طور پر نامعلوم ہے۔ یہ بات غلط ہے اور یہ کہنا کہ حقیقت مکمل طور پر معلوم ہے، یہ فقرہ بھی غلط ہے۔ بس یہ شعر یہ کہتا ہے کہ حقیقت معلوم بھی ہے، حقیقت نامعلوم بھی ہے۔ حقیقت ممکن العلم بھی ہے، حقیقت ممتنع العلم بھی ہے۔ اس میں بڑی گہری بات ہے۔ حقیقت دانستن کے لیے بھی اور دیدن کے لیے بھی شعور کا موضوع ہے۔ عقل کی دو تمنائیں ہیں، شعور کی دو آرزوئیں ہیں، یافتن اور دیدن ، رسیدن اور دیدن، رسیدن میں عقل قابل اعتبار ہے مگر دیدن کی لیاقت نہیں رکھتی۔ اس کا دیدہ خود ساختہ ہے اس کا یافتہ حقیقی ہے۔

اب آخر میں سمیٹ کر یوں کہتے ہیں کہ ایک غیب کی پہچان آفاق سے ہوتی ہے یعنی یہ کل آفاق بھی ایک غیب کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ میری ’’نگاہ تیز‘‘ آفاق سے منسلک غائب تک رسائی رکھتی ہے۔ میری ’’نگاہ تیز‘‘ آفاق کو دیکھ کر اس کی حقیقت بوجھ لیتی ہے لیکن جہاں حقائق کا غیب اصلی ہے اور آفاق کی نسبت سے نہیں ہے اس کی perception میں میری نگاہ تیز قاصر ہے یعنی حقائق جو آفاق سے منسوب نہ ہوں، ان کے بارے میں یہ تصورات تو رکھتی ہے علم نہیں رکھتی اور جو حقائق غائب رہنے کی حالت میں بھی آفاق میںظہور پذیر ہیں ان تک رسائی رکھتی ہے۔ ’’توہمات‘‘ میرے خیال میںیہی ہے کہ توہمات کا منفی رنگ یہاں اس کے مثبت رنگ پر غالب ہے۔

 تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

اس شعر کا عجیب مطلب ہے کہ اب آفاق کے باطن میں کوئی حقیقت باقی نہیں رہی۔ اب کائنات میرے اظہار پا جانے کے بعد کسی بھی راز کی امین اور حامل نہیں رہی۔ اب حقیقت کا کائناتی رول ختم ہو گیا ۔ میرے وجود پا لینے سے یعنی میرے ظاہر ہو جانے سے حقیقت کی، کائنات کے اندر ہونے کی حالتیں سب بروئے کار آ گئیں۔تو اب کائنات میرے ظہور کے بعد اس لفظ کی طرح ہے جس کے تمام معانی ظاہر ہو گئے کہ میں کائنات میں تیرا آخری راز تھا۔ یہاں راز بمعنی خدا کا راز ہے، یہ تو اس کا مضمون ہے لیکن وہ اسے آخری نہیں کَہ رہے ہیں، وہ کَہ رہے ہیں کہ میں بھی اک راز تھا یعنی صورت میں حقیقت کی سمائی کا جو بھی حال تھا وہ میں تھا۔ مجھے جب تو نے ظہور دے دیا تو اب کائنات میں راز کو سمیٹنے کی کوئی حالت باقی نہیں رہی۔ مضمون اس کا یہ ہے ۔

اب ذرا اس کی جمالیاتی خوبیاں دیکھیں۔ اسی میں اس کے معنی بھی نکلیں گے۔ ’’تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا‘‘بہت خوبصورت ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے کَہ رہے ہیں کہ تونے مجھے فاش کر کے گویا اب یہ بتا دیا ہے کہ تجھے پانے کا کوئی اور مقام پوشیدہ حالت میں نہیں رہا۔ انسان کے آ جانے سے یہ پتا چل گیا کہ خدا کو اگر پایا جا سکتا ہے تو انسان میں پایا جا سکتا ہے۔اب تیرے پانے کی دیگر جگہوں کا، دیگر مقامات کا تصور میرے ظہور سے غائب ہو گیا تو تیرے اندر بہت بڑی کشش تیرے غائب ہونے کی بنیاد پر تھی۔ مجھے ظہور دے کر تونے اپنے غیاب کو ختم کر دیا ہے۔آپ سمجھے کہ کتنا بڑا مضمون ہے۔ ’’مجھ کو بھی فاش کر دیا‘‘ میں ’’بھی‘‘ کے دو استعمال ہیں۔ مجھ سے پہلے بہت سے راز فاش کر دیے لیکن اس کی نفی کر رہا ہے۔میں ہی تو ایک راز تھا یعنی کائنات میں ایک ہی راز تھا اور تونے مجھ کو بھی فاش کر دیا۔ ایک تو ’’بھی‘‘ کا یہ استعمال ہے اور دوسرا یہ کہ ’مجھ کو بھی فاش کر دیا‘ میں ’’بھی‘‘ میں مخفی تاکید اور ارتعاش خود خدا تک پہنچتا ہے۔

تو مطلب یہ ہے کہ مجھے فاش کرکے گویا تونے خود کو فاش کر دیا۔ یہ بھی روایتی معنی میں ہوا۔پوری اس کی کڑیاں ملتی ہیں کیونکہ روایتی مفہوم میں انسان مظہرِ شانِ جامع ہے۔ شانِ جامع کہتے ہیں اللہ کی اس شان کو جس میں اس کی تمام صفات یکجا ہوں اور تمام یکجا ہو کر ایک مجموعی معنویت رکھتی ہوں۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ شانِ جامع اللہ کی وہ شان ہے جس میں اس کی تمام صفات، فعّال حالت میں یکجا ہیں۔ شان میں فاعلی جہت ضرور ہو گی اگر فعلیت اس میں سے نکال دی جائے تو وہ شان نہیں ہے۔ شان کی ایسی حالت جو بر سرِ عمل ہے۔ اس شانِ جامع کا مظہر انسان ہے۔ باقی کائنات ایک ایک دو دو صفات کی مظہر ہے لیکن انسان اس شانِ جامع کا مظہر ہے۔ تو مجھے فاش کرنے کا مطلب ہے اپنے آپ کو ظاہر کر دینا، پورا۔ تو نے یہ کیا غضب کیا۔ ’’غضب کیا‘‘ داد کا کلمہ بھی ہے۔ تونے یہ کیا غضب کیا کہ تو نے اپنے چھپے رہنے کا سامان ختم کر دیا۔ یہاں غضب کیا کا مطلب ہے کہ تو نے مجھے ظاہر کر کے اپنے غیاب کو ختم کر دیا۔ اب آپ دیکھیں کہ یہ شعر اپنے اس معنی اور مضمون کے ساتھ اس غزل کا فطری اور بے ساختہ اختتام ہے۔ یہ غزل خدا اور کائنات کے سیاق و سباق میںانسان کا بیان ہے۔ وہ کیا ہے۔مجھے فاش کرکے خدا نے خود کو فاش کرایا۔ آفاق کا راز انفس ہے ، انفس کا بھید خدا ہے۔ آفاق کا بھید ظاہر کر دیا تو بھید کا بھید بھی ظاہر ہو گیا:۴۱؎  

تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا رازداں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

کہ خودی کی خود نگری، خود شعوری گویا خدا کا شعور ہے۔ یہ اقبال کا بہت محکم مسئلہ ہے کہ خودی کا شعور خدا کا شعور ہے۔ خودی کی functioning گویا خدا کی ’ہمکاری‘ ہے :۴۲؎  

کرا جوئی چرا در پیچ و تابی

کہ او پیداست تو زیر نقابی

یا اللہ تونے وجود اور علم دونوں کو اپنے آخر پہ پہنچا دیا۔ یا اللہ تو نے علم اور وجود دونوں کو اپنی انتہا پہ پہنچا دیا۔ یعنی کچھ تو چھپا رہنے دیا ہوتا۔ کچھ تو رسائی سے باہر رہنے دیا ہوتا۔یہ کیا غضب کر دیا۔ یہ داد کا کلمہ بھی ہے۔ خوشی کا کلمہ بھی ہے۔’ غضب‘ اُن چند الفاظ میں سے ایک ہے جو انتہائی مثبت معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: غضب کا کام کیا۔

ہم نے اس غزل کی پوری بناوٹ بیان کر دی اس کی طرف پورے اشارے کر دیے۔ پہلے دو شعر لاہوتی ہیں، مراتب الٰہیہ سے متعلق ہیں، تیسرا شعر موکد ہے، جمع کنندہ ہے اور آخری شعر حقیقت انسانیہ میں سے ہے۔ اس غزل کا پورا خیال اور مضمون یہ ہے کہ انسان اور اس کی وجودی عظمت کو خدا اور کائنات دونوں کے تناظر میں دیکھا اور دکھایا گیا ہے ۔ تو اس کا فطری اختتام یہی بنتا ہے کہ انسان اور اس کی عظمت اس بات سے سمجھو کہ اس کے ظہور نے خدا کو ظاہر کر دیا۔کچھ لوگ اسے حمدیہ غزل کہتے ہیں مگر حمدیہ غزل نہیں ہے، یہ عجیب طرح کی غزل ہے۔

اس غزل کاجو آخری شعر ہے اس میں معنی کا زور بہت ہے کیونکہ اسے اقبال نے اپنی روایت کے مطابق بلور کی طرح مرتب معانی پہ ختم کیا ہے ۔ اقبال کی مشکل ترین منظومات کا آخری شعر بہت واضح ہوتا ہے۔ اکثر آپ کو یہی ملے گا۔ آخری شعر گویا پوری چیزوں کا خاتم ہوتا ہے۔ اس میں سادگی اور سلاست بہت ہوتی ہے نیزکلیت بہت ہوتی ہے۔ تو کلیت کہتے ہی اُسے ہیں کہ جس میں کثرتِ معنی کے امکانات کو روا نہ رکھا جائے۔ اس کے بغیر کلیت نہیں پیدا ہو گی۔ اس وجہ سے یہ شعر وسعت معنی کا شعر نہیں ہے، یہ شعر شدت معنی کا شعر ہے۔ اس سے پہلے کے چاروں اشعار میں وسعت معنی ایک بنیادی وصف تھا۔ آخری شعر میں اقبال کی شعری تکنیک کے مطابق ایک مرتکز شدتِ معنی ہے۔۔۔۔ تو ہم اس کی تنوع رنگارنگی کے ساتھ شرح نہیں کریں گے۔ یہ بتا دیں گے کہ یہ مضمون یہاں پر اس طرح مکمل ہوا ہے کہ انسان کا ظہور خدا کی تجلی صفات ہے، اس کا ظہورِ صفات و افعال ہے یعنی خدا نے پورے کارخانہ وجود کو پیدا کیا خود کو ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ جانا جائے اور اپنے اس سلسلہ ظہور کو یعنی اپنی سلسلہ تجلیات کو مکمل کیا ہے انسان کو وجود دے کر ۔

 

حواشی

۱-            شعور کا مستقل مادّہ شاید بعض لوگوں کے لیے مبہم ہو۔ اس لیے اتنی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ شعور باعتبارِ اصل، محض سمجھنا جاننا وغیرہ نہیں ہے، بلکہ ایک ’’حال‘‘ ہے، حقیقت کے ساتھ خلقی مناسبت کی بنا پر بننے والا ایک ’’ذوق‘‘ ہے جو صورتوں کی وجودی سطح کو بلند کرتا رہتاہے، اور اُن کی جبری تحدیدات کو توڑ کر اُن کے ادراک کی تاثیر اور کیفیت کو اُن احوال میں ضم کرتا رہتا ہے جو حقائق کے حضور (presence) یا استحضار (recollection) سے مخصوص ہیں۔ شعور کا یہی جوہر یا یہی مرکزجو احوالِ حضور کا خوگر ہے، شعور کا مستقل مادّہ ہے۔ یہ حرکت میں آ جائے تو شعور کی تمام انواع کی کفالت کرتا ہے، اور انھیں خود سے اوپر اُٹھ کر آپس میں مربوط ہونے کی قوت فراہم کرتا ہے۔

۲-            شیخ اشراق شہاب الدین سہروردی کے رسالے آوازِ پر جبرئیل کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ ہماری فکریات کی اس صنف کا اختصاص یہ ہے کہ یہاں نثر میں رہتے ہوئے بھی شعر کے تمثیلی اسلوب اظہار سے قریب ترین پیرایہ بیان اختیار کیا جاتا ہے۔ ابن سینا کے تمثیلی قصے اور شیخ اشراق کے رسائل اس کی نمائندہ مثالیں ہیں۔ حوالے کے لیے دیکھییمجموعہ مصنفات شیخ اشراق، تدوین ، ہنری کربین، تہران ۱۳۷۳۔

3-            Baal-i-Jibreel, or Gabriel's Wing, is like an Amazonian rainforest: you discover things on your own, you discern patterns amid chaos and you may name each new species, for the poems often defy conventional  categories. But no matter how you make your way through this linguistic rainforest, you cannot miss the point that Nature is not an object. It is a presence and a key player in the making of the Perfect World.

۴-            سب کو مشق کرلینی چاہیے کہ جو شعر پکڑ میں نہ آنے پائے اس کو ہمیشہ ایک منظر بنالیا کریں، اس کو ایک تصویر جیسا بنا لیاکریں تو ان شاء اللہ وہ سمجھ میں آجائے گا۔ اگر اس کے باوجود نہ آسکے تو بھی اس کا ذوق پیدا ہوجائے گا یعنی دیکھ لینا بھی بہت موثر چیز ہوتی ہے، وہ سمجھ میں نہ بھی آئے تو ایک زندہ تعلق بہرحال نہ سمجھی ہوئی چیز سے پیدا ہوجاتا ہے، اس کو ذوق کہتے ہیں، توجیسے ایک مٹھائی ہے، اس کا نام آپ کو نہیں معلوم، کھالی تو آپ کو نام معلوم نہ ہونے کا بڑا نقصان نہیں ہوا، اس طرح ذوق پیدا ہوگا۔

5-            What is Symbolism? The answer to this question has been known to change altogether a man's life; and ignorance of it can reasonably be said to have produced all the gravest problems of our times. Symbolism is the universal language of the Sacred, of Religion, art, ritual, liturgy and higher poetry.

۶-            وتلک الامثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون (الحشر ۵۹:۲۱)

                ’’ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔‘‘

7-            While Iqbal's cotemporaries were lamenting the state of the world with its shaky institution and rudderless situation with the dominant mood of melancholy, without suggesting a viable alternative, Iqbal had a message of hope. The dominant mood of Iqbal's time was "A desperate search for a pattern." The search was desperate because it seemed futile to look for a pattern in reality. In the late stage of secular modernity, when Iqbal pondered over the problems of his age, melancholy had become a collective mood. It could be termed as one of the major concerns of Iqbal at that time. Melancholy used to afflict individuals who felt rejected and exiled from the significance of the cosmos. By Iqbal's day it had turned into a cultural malady deriving from a world that has been drained of all meaning and which had come to cast doubt on all traditional sources- theological, metaphysical, and historical. In terms of its mindset or worldview we presently live in what has been called the 'Age of Anxiety', and Iqbal, feeling the pulse of the times, looks beyond symptoms to find the prime cause.

۸-            اس کو تصوف کا رنگ بھی کَہ سکتے ہیں اور اس کو جیسے ایک holistic view جو لوگ بنانا چاہتے ہیں وہ اصل کو ہمیشہ transcendence میں رکھتے ہیں، کوئی ایسا world view نہیں بنایا جاسکتا جس میں ideal یا origin وہ مکمل transcendence میں نہ ہو، اب ہمیں اس کی طرف جانا ہے۔

۹-            کلیات اقبال اردو، (بال جبریل)، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور، ۲۰۰۷، ص ۴۵۵۔

۱۰-         یہ شعر راجا بھرتری ہری کی تصنیف (شٹک تریم)کے پہلے حصے موسومہ ’’نیتی شٹک‘‘ کے چھٹے اشلوک سے ماخوذ و مقتبس ہے۔پورا اشلوک اس طرح ہے:

کسی شخص کا اپنے عقلی استدلال کے زور سے کسی مورکھ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنا ایسا ہی بے سود ہے جیسا کسی شخص کا مست ہاتھی کو کنول کے ڈنٹھل سے روکنا یا شرش کے نازک ریشوں سے ہیرے میں چھید کرنا۔

(شرح بال جبریل ، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، عشرت پبلشنگ ہائوس لاہور،۲۰۰۰ئ، ص ۴۵-۴۴،)

11-          In Iqbal's view, Modern Westerners, forsaking clear thinking, allowed themselves to become so obsessed with life's material underpinnings that they had written science a blank check; a blank check for science's claims concerning what constituted Reality, knowledge and justified belief.

                This was the cause of our spiritual crisis. It joined other crises as we entered the new century-- - the environmental crisis, the population explosion, the widening gulf between the rich and the poor. The crisis that the world found itself in as it swung on the hinge of the 20th century was located in something deeper than particular ways of organizing political systems and economies. This is how Iqbal perceived it. In different ways, the East and the West were going through a single common crisis whose cause was the spiritual condition of the modern world. That condition is characterized by loss- the loss of religious certainties and of transcendence with its larger horizons. The nature of that loss is strange but ultimately quite logical. When, with the inauguration of the scientific worldview, human beings started considering themselves the bearers of the highest meaning in the world and the measure of everything, meaning began to ebb and the stature of humanity to diminish. The world lost its human dimension, and we began to lose control of it. Endless progress through the technological application of continuous scientific discovery-- -  this is what modernity's scenario comes down to. It was founded on the illusion that the scientific method was omni competent. Iqbal had the perception that it was inevitable that sooner or later it would bump into reality-- -  in this case, history. And it did, in Iqbal's day, with a vengeance.

۱۲-         مرزا اسد اللہ خان غالب، دیوان غالب، الفیصل، لاہور، ۱۹۹۵ئ، ص ۶۹۔

۱۳-         شیخ محمود شبستری، گلشن راز، (مترجم: مولوی محمد شاہ الدین قریشی قادری)، اللہ والے کی قومی دکان، لاہور، ص ۱۳۰۔

۱۴-         شیخ اکبر نے کائنات کی تخلیق اور عملِ آفرینش کی لم اور سبب پر جس طرح گفتگو کی ہے اور انبیا و رسل بھیجنے کی ضرورت جس انداز سے بیان کی ہے وہ کم ہی کسی مصنف نے کی ہوگی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وحی کی بنیاد اور اساس کیا ہے یعنی یہ کہ شیخ اکبر یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وجود کائنات میں وہ کیا چیز ہے جس کے سبب دنیا میں رسولوں کی بعثت اور پیغامِ خداوندی کا ظاہر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ عام طور پر اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت یا ہدایت خداوندی کا تقاضا ہے۔ شیخ اکبر نے اس نکتے کی توضیح کے لیے خود حقیقت الٰہیہ کے بارے میں زیادہ گہرائی سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی تحریروں میں جابجا شیخ اکبر نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ کائنات اور مظاہر کائنات بہ۔اعتبار حقیقت کس طرح ایک الوہی اساس رکھتے ہیں اور اپنی اصل میں ہر چیز اپنے خالق و کردگار سے کس طرح جڑی ہوئی ہے۔ اسمائے الٰہیہ کا اس کائنات سے کیا تعلق ہے! اس نکتہ کی شرح کرتے ہوئے ان کا اندازِ بیان بہت سے مقامات پر علمِ کلام کے ماہرین کی طرح عقلی یا استدلالی ہوگیا ہے، ’’منطق سے سلجھا ہوا۔‘‘ باب ۶۶ کا طرزِ کلام یہ نہیں ہے۔ یہاں ان کا اسلوب ایک اور رنگ لیے ہوئے ہے، تمثیل و تخیل کا رنگ، بلکہ کسی حد تک قصہ کہانی کا رنگ، جس میں انھوں نے اس نکتے کے ابلاغ کی کوشش کی ہے کہ اسمائے الٰہیہ کے آثار effects دنیا میں کس طرح ہویدا ہوتے ہیں اور ان کی تاثیر کائنات میں کیونکر کارفرما ہوتی ہے۔ اس غرض سے انھوں نے اسمائے الٰہیہ کو گو یا مجسم کردیا ہے یا یوں کہیے کہ ان کو شخصیات بنا دیا ہے۔ اس طریق کار کی مثال اسلامی مآخذ میں بہت کم ملے گی۔ یہ کام بے دھیانی میں نہیں ہوا۔ انھیں خوب پتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ابتدا ہی میں اپنے قاری کو متنبہ کردیا ہے کہ اس سلسلے میں ’’کثرت یا اجتماعِ وجودی‘‘ کا وہم نہ کرنا۔ یہی نہیں فتوحات میں دوسرے مقامات پر بھی اپنا موقف وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ مثلاً جلد چہارم میں لکھتے ہیں:

و ھل لھا اعیان وجودیۃ ام لا ففیہ خلاف بین اھل النظر و اما عندنا فما فیہا خلاف انھا نسب و اسماء علی حقایق معقولۃ غیر وجودیۃ فالذات غیر متکثرۃ بہا لان الشیء لا یتکثر الا بالاعیان الوجودیۃ لا بالاحکام و الاضافات والنسب۔

                اسمائے الٰہیہ اعیانِ وجودی بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس مسئلے پر فکر استدلالی والے متکلمین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس مسئلے پر کوئی نزاع نہیں۔ ہمارے لیے یہ نسبتیں اور نام ہیں جو حقائق معقولہ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کی وجودی حیثیت نہیں ہے۔ ذاتِ الٰہی ان کی وجہ سے کثرت کا شکار نہیں ہوجاتی کیونکہ کسی شے میں کثرت صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اعیانِ وجودیہ (یعنی وجود خارجی رکھنے والی اشیا/ ہستیاں) پائی جائیں۔ احکام، نِسب۔َ۔ اور اضافات properties, altributions, relationships کے پائے جانے سے کوئی چیز کثیر نہیں ہوجاتی۔

۱۵-         اس نکتے پر تصوف کے اس اصول کی روشنی میں غور فرمائیے: الذات للتعلّق والصفات للتخلّق

۱۶-         حبی حرکت اسے کہتے ہیں جس سے یہ سارے موجودات صادر ہوئے، جس سے ظہور ہوا۔ حبی حرکت مایہ ظہور ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

 

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

۱۷-         علم نام ہے نہ سمجھ آنے والی چیزوں کو حافظے میں رکھنے کا۔ سمجھ میں آنے والی چیزوں کو دوسری جگہ رکھنے۔ اس سے کبھی گھبرانا نہ چاہیے۔ آدمی کا مادہ علم انجانے پن کی کیفیت اور طاقت اور تجربے کا نام ہے۔ تو اس سے نہ گھبرائیں کہ کیا چیز فی الحال سمجھ میں آرہی ہے کیا چیز نہیں آرہی۔ بعض مرتبہ ایک چیز سمجھ نہیں آتی لیکن وہ اپنی وقعت کے زور کی وجہ اپنا ذوق ضرور پیدا کردے گی، فہم ان شاء اللہ پھر کبھی حاصل ہوجائے گا۔

۱۸-         وحدت الوجود کے لیے جدائی بے معنی چیز ہے۔ اصل میں وہ زیادتی کرتے ہیں وصال وغیرہ کی شاعرانہ اصطلاحات لے کر۔ یعنی وصال شاعرانہ معنی میں سے لے کر انھیں وحدت الوجود سے چپکا دیتے ہیں۔ مثنوی کے آغاز میں جس وصال کا ذکر ہے وہ اپنی حقیقت سے واصل ہونے کا ہے۔

19-          I have conceived the Ultimate Reality as an Ego; and I must add now that from the Ultimate Ego only egos proceed. The creative energy of the Ultimate Ego, in whom deed and thought are identical, functions as ego-unities. The world, in all its details, from the mechanical movement of what we call the atom of matter to the free movement of thought in the human ego, is the self-revelation of the 'Great I am'. Every atom of Divine energy, however low in the scale of existence, is an ego. But there are degrees in the expression of egohood. Throughout the entire gamut of being runs the gradually rising note of egohood until it reaches its perfection in man. That is why the Quran declares the Ultimate Ego to be "nearer to man than his own neck-vein". Like pearls do we live and move and have our being in the perpetual flow of Divine life.

۲۰  ہر چیز ہے محو خود نمائی

ہر ذرّہ شہید کبریائی

بے ذوق نمود زندگی، موت

تعمیر خودی میں ہے خدائی

رائی زور خودی سے پربت

پربت ضعف خودی سے رائی

                کلیات اقبال ،اردو، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور ،۲۰۰۷ئ، ص ۳۸۳۔

۲۱-         وحدت الوجودی مکتب فکر کی طرف سے اس پر اعتراضات آئے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اقبال کو اپنا مخالف سمجھ کر، اپنے دفاع کی جہت سے تو نشانہ اعتراض بنایا لیکن اقبال کے تصورِ وجود اور نظریہ خودی کو سمجھا نہیں اور پھر یہ کہ وہاں ایک کم علمی بھی پائی جاتی ہے۔

                یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان دونوں کی logic ایک ہے اس کا نتیجہ مختلف ہے اور اس منطق کے بھی جو بنیادی درمیانی مراحل ہیں وہ بھی مختلف ہیں۔میری رائے میں یہ دونوں اوّل سے آخر تک مختلف ہیں لیکن یہ کہ اگر ہم بالفرض گفتگو کو مختصر کرنے کے لیے مان بھی لیں کہ اس کے مقدمات ویسے ہی ہیں جیسے وجودیوں کے ہیں تو بھی نتائج بہرحال مختلف ہیں۔ یہ بھی کہنا درست نہ ہو گا کہ اقبال نے وحدت الوجود کی نئی تعبیر، نئی تشکیل کی کیونکہ اقبال کسی بھی پہلو سے وحدت الوجودی نہیں ہیں چاہے وہ پہلو فلسفیانہ ہوں چاہے عارفانہ ہوں ہاں یہ کَہ سکتے ہیں کہ یہ اپنا مکمل فلسفہ رکھتے ہیں۔

۲۲-         واسطہ غایت کے لیے ضروری ہے۔ اس نے غیبِ مطلق کو حضور میں ڈھال لیا ہے تو اسے اب ہماری کیا ضرورت ہوئی۔ بت کدہ صفات میں بچائو بچائو کا شور اس لیے برپا ہوا ہے کہ ہمیں موجود رہنے کی بنیاد فراہم کرو۔ ہمارا وجود جس جواز اور جس مصلحت پر مبنی ہے اس جواز اور مصلحت کو فوت نہ ہونے دو۔ان کی حیثیت واسطے کی تھی، تو اب ان کاواسطہ ہونا بھی مجروح ہوگیا۔

۲۳-         یہ یاد رہے کہ اللہ کا ظہور حبّی ارادی ہے۔ اس کا چھلکنا غیر ارادی نہیں ہے، چھلکنا ارادی ہے لہٰذا تخلیق کا مبدء و مصدر ہے۔ اللہ کے لیے چھلکنا اضطراری نہیں ہے۔ اس کا مطلب وحدت الوجود میں بھی الگ ہے۔’’حب‘‘ چاہا گیا۔ اسے چاہا گیا ہے ارادے میں۔

۲۴-         یہ معراج کی طرف اشارہ نہ سمجھا جائے کیونکہ معراج کو اقبال نے خود ایک جگہ کَہ دیا کہ ’’عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘۔ تو وہ دوسری چیز ہے

25-          Iqbal relates his vision that transcended identities to the basic question "What does it mean to be human?" For what is a human being? A body? Certainly, but anything else? A personality that includes mind, memories, and propensities that have derived from a unique trajectory of life-experiences? This, too, but anything more?

                Some say no, but Iqbal disagrees. Underlying the human self and animating it is a reservoir of being that never dies, is never exhausted, and is unrestricted in consciousness and bliss. This infinite center of every life, this hidden self, is no less than the Godhead. Body, personality, and this infinite center- a human self is not completely accounted for until all, three are noted. That was Iqbal's fundamental position.

                Iqbal recognized that this hidden self, the Infinite within, is called by many names but all point to a single Reality. Hindus call it Brahman that is "End of all love-longing.", vouchsafing the "unshakeable deliverance of the heart" in Buddhism which Christianity terms as "Beauty so ancient and so new," for the jews it is "Eternal" which, in Islam, is "closer to us than our jugular veins."

۲۶-         اقبال، کلیات اقبال اردو (ضرب کلیم)، ص ۵۴۶۔

 ۲۷-        خدا کیا ہے کا جواب اگرچہ عقیدے کی سطح پر محفوظ ہو گیا ہے لیکن اس کے عقلی بیان اور تفہیم میں کئی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ فہم کی الجھنوں کو دور کرنے کا یہ کام نثر میں کیا گیا۔ اپنے خطبات میں وہ خدا کے تصور میں در آنے والی ناہمواریوں کو دور کرتے ہیں لیکن اقبال سمجھتے ہیں کہ خدا کے تصور میں در آنے والی ناہمواریوں کے ازالے کا نظام ان پر مدار نہیں رکھتا تو اس میں وہ اتنا زور نہیں لگاتے۔

۲۸-         یہ ہمارا اضافہ نہیں ہے علامہ نے اپنے غیر شعری بیانات میں اس پر زور دیا ہے۔ یہ اقبال کی تشخیص ہے۔ وحی کے دو سِرے ہیں، ایک معرفتِ خداوندی اور دوسرا انسان کی معرفت۔ دوسرا سرا، انسان کا فہم، ہمارے تناظر میں نمو نہیں پا سکا۔ اس کا بیانِ تفصیلی درکار ہے۔

۲۹-         اقبال، کلیات اقبال اردو(بال جبریل)، ص ۳۴۶،

۳۰-         مولانا جلال الدین رومی، مثنوی معنوی(مرتبہ: آر ۔ اے۔ نکلسن)، سنگ میل، لاہور، ۴۰۰۴، دفتر اوّل، ص ۸۷۔

۳۱-         شمس الدین محمد حافظ شیرازی، دیوان حافظ شیرازی، انتشارات فرھنگ قلم، تہران ، ایران، ۱۳۷۹، ص ۱۱۰۔

۳۲-         میرزا اسد اللہ خان غالب، دیوان غالب (نسخہ عرشی) مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۹۲ئ، ص ۶۴۔

۳۳۔         حقیقت ہمارے اندر ایک ایسی کیفیتِ حضور رکھتی ہے جسے ہم ذہن کو واسطہ بنائے بغیر پا لیتے ہیں۔ اسے تشبیہاً ایک حالتِ تمّوج کَہ رہے ہیں۔

۳۴-         الحمد ﷲ الذی جعل الامکان مراۃ للوجوب وصیر العدم مظہر للوجود والوجوب الوجود وان کانا صفتی کمال لہ سبحانہ فھو تعالی ورائھما بل ورآء جمیع الاسماء والصفات و وراء جمیع الشون والاعتبارات و وراء الظہور والبطون و وراء البروز والکمون و وراء التجلیات والظہورات و وراء کل موصول و مفصول و وراء المشاہدات والمکاشفات و وراء کل محسوس ومعقول و وراء کل موہوم و متخیل فھو سبحانہ وراء الورآء ثم وراء الورآء ثم وراء الورآء ۔

           شیخ احمد سرہندی، مکتوبات ، دفتر دوم ، مکتوب ۱، نور کمپنی، لاہور، ت۔ ن، ص ، ۴-۸۵۲۔

۳۵-         اقبال، کلیات اقبال اردو(بال جبریل)، ص ۳۹۶۔

۳۶-         ایضاً، ۳۵۰۔

۳۷-         ایضاً، ۳۷۲۔

۳۸-         اس اصطلاح کی کلاسیکی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ جب شعور کا تصرف محسوسات میں ہو تو یہ تخیل ہے اور جب معقولات و معانی میں ہو تو یہ ’’توہم‘‘ ہے۔

۳۹-         عام اردو خواں قارئین کے لیے یہ الفاظ اور روز مرہ استعمال میں ان کے معانی کا زیر و بم خاصی الجھن کا سبب بنتا ہے۔ یہ اصطلاحی الفاظ عام بول چال میں ایک کم تر سطح پہ آ جاتے ہیں۔ ہم واہمہ، وہم اور توہم کو Fantasy (غیر حقیقی ، ذہنی اختراع، ہوائی بات، کے معنی میں برتتے ہیں لیکن اس استعمال کو کلاسیکی شعراء کے کلام پر وارد کرنے سے ان میں کوئی بامعنی بات رہ نہیں جاتی جیسے میر کے شعر ’’یہ توہم کا کارخانہ ہے‘‘ میں اگر اس اصطلاحی لفظ کو واہمہ ، بے اصل چیز، خیالی پیکر کے معنی میں لیا جائے تو اقبال کے شعر کی طرح معنی فوت ہو جائیں گے۔ ہمارے ذہن میں اس روز مرہ استعمال کا غلبہ ہونے کی وجہ سے تفہیم کا عمل ایک پست سطح پر آ جاتا ہے۔میرا شعور جو تصرف کرتا ہے وہ معانی کا ’’توہم‘‘ہے، گاہ اس کی رسائی وہاں تک، گاہ نارسائی کا سامنا ۔ اسی طرح اس کی جمع ’’توہمات‘‘ عام طور پر superstition کے مترادف کے طور پر اوہام کے معنی میں استعمال ہوتی ہے کہ فلاں بڑا توہم پرست ہے۔ اس طرح دیکھیے تو علامہ کی غزل میں یہ معانی جڑے ہوئے ہیں کہ وہ تصرف جو ایک معنی سے دوسرے معنی تک منتقل ہونے کے لیے کیا جاتا ہے وہ ’’توہم کا کارخانہ ہے۔‘‘

۴۰-         ابن عربی نے فرمایا الوہم سلطان العارفین۔ غیب کو حاضر کر دکھاتا ہے۔ وہم انسانی شعور کا سب سے آخری اور منتہائی عمل ہے یعنی وہم وہ  واحد فعلِ علم ہے فعلِ دانستن ہے یا فعلِ یافتن ہے جس میں شعور کی تمام قوتیں ایسے شریک ہو جاتی ہیں جیسے تخیل میں نہیں ہوتیں۔ لیکن وہم میں عقل ، جمالیاتی شعور، مذہبی شعور، جتنی بھی شعور کی طاقتیں ہیں، وہ یک جا ہو کر ایک مرکز پر جمع ہو جاتی ہیں۔ وہم مجموعی شعور کا فعل ہے۔یہ مثبت چیز ہے۔

                پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کی رسائی وسائل عالمِ معانی تک ہے یا عالمِ حقیقت تک بھی؟ معانی کا وجود ذرائع جیسا ہے، مقاصد کی مانند نہیں ۔یہ بات ذہن کو زیادہ معلوم ہے کہ معانی ذرائع ہیں ، مقاصد حقائق ہیں، کیونکہ حقیقت کے دو مظاہر ہیں معانی اور صورت۔ معانی میں واسطے کم ہیں، صورت میں واسطے زیادہ ہیں، لہٰذا مظہر عالی معنی ہے اور مظہر ادنیٰ صورت ہے۔ انسانی شعور حق کو اس کی تمام جہتوں میں دیکھنا چاہتا ہے، تخیل سے وہ مظاہرِ ادنیٰ کو ان کی اصل سے نسبت دیتا ہے اور توہّم سے مظاہرِ عالی کوبھی ان کے حصول سے مربوط رکھتا ہے۔

۴۱-         اقبال، کلیات اقبال اردو (بانگ درا)، ص ۳۰۴۔

۴۲-         اقبال، کلیات اقبالفارسی، (پیام مشرق)، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص ۲۲۳۔

 

 

فرہنگ و حواشی

 

نوائے شوق :

۱، عاشق کی پکار جس میں ہجر کا اٹل دُکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یکجا ہو گئی ہو۔

۲، اُس عاشق کی فریاد جو:

ا، غلبہ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کر دے۔

ب ، صفات کا پردہ اُٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزو مند ہو۔

ج ، عشق کے اُن لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو جن کا ہدف ذات ہے، ماوراے صفات ذات۔

د، ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے اس طرح واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز برقرار رہے۔

۳، عاشق کے پورے وجود کا اظہار۔

۴، صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔

حریمِ ذات:

ذاتِ الٰہیہ کا مکان جو صفات سے ماورا اور جہات سے پاک ہے، یہاں کسی کا گزر نہیں۔

نیز دیکھیے : ’لا مکاں

غلغلہ ہاے الاماں:

خدا کی پناہ‘ کا شور، ’یا اللہ خیر‘ کا شور، ’الاماں الحفیظ‘ کی پکار۔

بُت کدہ صفات:

بتکدہ‘ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، ظاہر نے باطن اورصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔’  بُت کدئہ صفات‘کا مطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو کسی بھی طرح کے ظہور کو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھناگویا بُت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہے۔

تخیلات:

تخیل‘  (خیال میں آنا) کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنا نے کا ذہنی عمل

نیز دیکھیے : ’تخیل

نگاہ:

وہ نظر جو:

۱، حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے

۲، ظاہر سے گذر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے

۳، غیب کو شہود بنا لیتی ہے یعنی جو چیزیں حواس کی گرفت سے باہر ہیں، انھیں بھی دیکھتی ہے

۴، کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے

۵، صفات کا پردہ اُٹھا کر ذات کو دیکھنا چاہتی ہے

تجلّیات:

۱۔ ’تجلّی‘ کی جمع

۲۔ ظہورِ صفات جو بلا واسطہ مظاہر اور لامتناہی ہے

نیز دیکھیے : ’تجلّی‘ ، ’ذوقِ تجلّی‘، ’برقِ تجلّی

جستجو:

یعنی حقیقت کی تلاش، اللہ کو پانے کی تڑپ جس میں اُمید کا پہلو غالب ہو۔

دیر و حرم:

(1  مندر اور کعبہ۔

(2  ظہورِ حق کے دو اصول جو کثرت و وحدت اور تشبیہ و تنزیہ پر دلالت کرتے ہیں۔

 (3 ’دیر‘ کا تعلق صفات سے ہے اور ’حرم‘ کا ذات سے۔

نقش بند:

 (1 نقش باندھنے والا، نقاش، مصور۔

 (2 معمار۔

 (3 اَن دیکھے کی تصویر بنانے والا۔

 (4 حقیقت کو اظہار اور معنی کو صورت میں ڈھالنے والا۔

 (5 اپنی سہولت کے لیے حقیقت ِ محض کے تعینات ایجاد کرنے والا۔

فغاں:

 (1 فریاد، چلاّ کے رونا، دُہائی دینا۔

 (2 وصل سے مایوس ہو کر ہجر کے درد و غم کا اظہار جو محبوب کو سنانے کے لیے کیا جائے۔

رستخیز:

قیامت، ہنگامہ، ہلچل۔

کعبہ و سومنات:

دیکھیے: ’دیر و حرم‘۔

چیر گئی دلِ وجود:

وجود کے دل میں جو کچھ ہے، اُس تک پہنچ گئی یعنی ہستی کی انتہائی حقیقت تک رسائی حاصل کر لی۔

توہّمات:

 (1 ’توہم‘ (وہم میں آنا) کی جمع‘ غیر حقیقی کو حقیقی اور حقیقی کو غیر حقیقی سمجھنا۔

 (2 اوہامِ باطل۔