مري نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامي

 
مري نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامي
ديا ہے ميں نے انھيں ذوق آتش آشامي
حرم کے پاس کوئي اعجمي ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامي
حقيقت ابدي ہے مقام شبيري
بدلتے رہتے ہيں انداز کوفي و شامي
مجھے يہ ڈر ہے مقامر ہيں پختہ کار بہت
نہ رنگ لائے کہيں تيرے ہاتھ کي خامي
عجب نہيں کہ مسلماں کو پھر عطا کر ديں
شکوہ سنجر و فقر جنيد و بسطامي
قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ، ورنہ
تري نگاہ ميں تھي ميري ناخوش اندامي!