اذان


اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
آدم کو بھي ديکھا ہے کسي نے کبھي بيدار؟
کہنے لگا مريخ ، ادا فہم ہے تقدير
ہے نيند ہي اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زہرہ نے کہا ، اور کوئي بات نہيں کيا؟
اس کرمک شب کور سے کيا ہم کو سروکار!
بولا مہ کامل کہ وہ کوکب ہے زميني
تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذت بيداري شب سے
اونچي ہے ثريا سے بھي يہ خاک پر اسرار
آغوش ميں اس کي وہ تجلي ہے کہ جس ميں
کھو جائيں گے افلاک کے سب ثابت و سيار
ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئي لبريز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار!