کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے


کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے
نياز مند نہ کيوں عاجزي پہ ناز کرے
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
خدا وہ کيا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
مري نگاہ ميں وہ رند ہي نہيں ساقي
جو ہوشياري و مستي ميں امتياز کرے
مدام گوش بہ دل رہ ، يہ ساز ہے ايسا
جو ہو شکستہ تو پيدا نوائے راز کرے
کوئي يہ پوچھے کہ واعظ کا کيا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھي رحمت وہ بے نياز کرے
سخن ميں سوز ، الہي کہاں سے آتا ہے
يہ چيز وہ ہے کہ پتھر کو بھي گداز کرے
تميز لالہ و گل سے ہے نالہء بلبل
جہاں ميں وانہ کوئي چشم امتياز کرے
غرور زہد نے سکھلا ديا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
ہوا ہو ايسي کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے