کلي


جب دکھاتي ہے سحر عارض رنگيں اپنا
کھول ديتي ہے کلي سينہء زريں اپنا
جلوہ آشام ہے صبح کے مے خانے ميں
زندگي اس کي ہے خورشيد کے پيمانے ميں
سامنے مہر کے دل چير کے رکھ ديتي ہے
کس قدر سينہ شگافي کے مزے ليتي ہے
مرے خورشيد! کبھي تو بھي اٹھا اپني نقاب
بہر نظارہ تڑپتي ہے نگاہ بے تاب
تيرے جلوے کا نشيمن ہو مرے سينے ميں
عکس آباد ہو تيرا مرے آئينے ميں
زندگي ہو ترا نظارہ مرے دل کے ليے
روشني ہو تري گہوارہ مرے دل کے ليے
ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حيات
ہو عياں جوہر انديشہ ميں پھر سوز حيات
اپنے خورشيد کا نظارہ کروں دور سے ميں
صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے ميں
جان مضطر کي حقيقت کو نماياں کر دوں
دل کے پوشيدہ خيالوں کو بھي عرياں کر دوں