نوائے غم


زندگاني ہے مري مثل رباب خاموش
جس کي ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبريز آغوش
بربط کون و مکاں جس کي خموشي پہ نثار
جس کے ہر تار ميں ہيں سينکڑوں نغموں کے مزار
محشرستان نوا کا ہے اميں جس کا سکوت
اور منت کش ہنگامہ نہيں جس کا سکوت
آہ! اميد محبت کي بر آئي نہ کبھي
چوٹ مضراب کي اس ساز نے کھائي نہ کبھي
مگر آتي ہے نسيم چمن طور کبھي
سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھي
چھيڑ آہستہ سے ديتي ہے مرا تار حيات
جس سے ہوتي ہے رہا روح گرفتار حيات
نغمہ ياس کي دھيمي سي صدا اٹھتي ہے
اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتي ہے
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
ميري فطرت کي بلندي ہے نوائے غم سے