صقليہ
(
جزيرہ سسلي(


رو لے اب دل کھول کر اے ديدہء خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذيب حجازي کا مزار
تھا يہاں ہنگامہ ان صحرا نشينوں کا کبھي
بحر بازي گاہ تھا جن کے سفينوں کا کبھي
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں ميں تھے
بجليوں کے آشيانے جن کي تلواروں ميں تھے
اک جہان تازہ کا پيغام تھا جن کا ظہور
کھا گئي عصر کہن کو جن کي تيغ ناصبور
مردہ عالم زندہ جن کي شورش قم سے ہوا
آدمي آزاد زنجير توہم سے ہوا
غلغلوں سے جس کے لذت گير اب تک گوش ہے
کيا وہ تکبير اب ہميشہ کے ليے خاموش ہے؟
آہ اے سسلي! سمندرکي ہے تجھ سے آبرو
رہنما کي طرح اس پاني کے صحرا ميں ہے تو
زيب تيرے خال سے رخسار دريا کو رہے
تيري شمعوں سے تسلي بحر پيما کو رہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تيرے ساحل کي چٹانوں پر مدام
تو کبھي اس قوم کي تہذيب کا گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شيراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رويا خون کے آنسو جہاں آباد پر
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کي
ابن بدروں کے دل ناشاد نے فرياد کي
غم نصيب اقبال کو بخشا گيا ماتم ترا
چن ليا تقدير نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
ہے ترے آثار ميں پوشيدہ کس کي داستاں
تيرے ساحل کي خموشي ميں ہے انداز بياں
درد اپنا مجھ سے کہہ ، ميں بھي سراپا درد ہوں
جس کي تو منزل تھا ، ميں اس کارواں کي گرد ہوں
رنگ تصوير کہن ميں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ايام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
ميں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود يہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلوائوں گا