پھول کا تحفہ عطا ہونے پر


وہ مست ناز جو گلشن ميں جا نکلتي ہے
کلي کلي کي زباں سے دعا نکلتي ہے
''
الہي! پھولوں ميں وہ انتخاب مجھ کو کرے
کلي سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے''
تجھے وہ شاخ سے توڑيں! زہے نصيب ترے
تڑپتے رہ گئے گلزار ميں رقيب ترے
اٹھا کے صدمہ فرقت وصال تک پہنچا
تري حيات کا جوہر کمال تک پہنچا
مرا کنول کہ تصدق ہيں جس پہ اہل نظر
مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
کبھي يہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
کسي کے دامن رنگيں سے آشنا نہ ہوا
شگفتہ کر نہ سکے گي کبھي بہار اسے
فسردہ رکھتا ہے گلچيں کا انتظار اسے