سير فلک


تھا تخيل جو ہم سفر ميرا
آسماں پر ہوا گزر ميرا
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئي
جاننے والا چرخ پر ميرا
تارے حيرت سے ديکھتے تھے مجھے
راز سر بستہ تھا سفر ميرا
حلقہ صبح و شام سے نکلا
اس پرانے نظام سے نکلا
کيا سناؤں تمھيں ارم کيا ہے
خاتم آرزوئے ديدہ و گوش
شاخ طوبي! پہ نغمہ ريز طيور
بے حجابانہ حور جلوہ فروش
ساقيان جميل جام بدست
پينے والوں ميں شور نوشانوش
دور جنت سے آنکھ نے ديکھا
ايک تاريک خانہ سرد و خموش
طالع قيس و گيسوئے ليلي
اس کي تاريکيوں سے دوش بدوش
خنک ايسا کہ جس سے شرما کر
کرہ زمہرير ہو روپوش
ميں نے پوچھي جو کيفيت اس کي
حيرت انگيز تھا جواب سروش
يہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے ، نور سے تہي آغوش
شعلے ہوتے ہيں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہيں مرد عبرت کوش
اہل دنيا يہاں جو آتے ہيں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہيں