شعاع آفتاب


صبح جب ميري نگہ سودائي نظارہ تھي
آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھي
ميں نے پوچھا اس کرن سے ''اے سراپا اضطراب!
تيري جان ناشکيبا ميں ہے کيسا اضطراب
تو کوئي چھوٹي سي بجلي ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمن اقوام کي خاطر جواں
يہ تڑپ ہے يا ازل سے تيري خو ہے، کيا ہے يہ
رقص ہے، آوارگي ہے، جستجو ہے، کيا ہے يہ''؟
''
خفتہ ہنگامے ہيں ميري ہستي خاموش ميں
پرورش پائي ہے ميں نے صبح کي آغوش ميں
مضطرب ہر دم مري تقدير رکھتي ہے مجھے
جستجو ميں لذت تنوير رکھتي ہے مجھے
برق آتش خو نہيں، فطرت ميں گو ناري ہوں ميں
مہر عالم تاب کا پيغام بيداري ہوں ميں
سرمہ بن کر چشم انساں ميں سما جائوں گي ميں
رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلائوں گي ميں
تيرے مستوں ميں کوئي جويائے ہشياري بھي ہے
سونے والوں ميں کسي کو ذوق بيداري بھي ہے؟