پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!


ڈالي گئي جو فصل خزاں ميں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہيں ہري ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہيں ہے اسے برگ و بار سے
ہے تيرے گلستاں ميں بھي فصل خزاں کا دور
خالي ہے جيب گل زر کامل عيار سے
جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق ميں طيور
رخصت ہوئے ترے شجر سايہ دار سے
شاخ بريدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
ناآشنا ہے قاعدئہ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ
پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!