کبھي اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميں

 
کبھي اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہيں مري جبين نياز ميں
طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کيا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردئہ ساز ميں
تو بچابچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزيز تر ہے نگاہ آئنہ ساز ميں
دم طوف کرمک شمع نے يہ کہا کہ وہ اثرکہن
نہ تري حکايت سوز ميں، نہ مري حديث گداز ميں
نہ کہيں جہاں ميں اماں ملي، جو اماں ملي تو کہاں ملي
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز ميں
نہ وہ عشق ميں رہيں گرمياں،نہ وہ حسن ميں رہيں شوخياں
نہ وہ غزنوي ميں تڑپ رہي، نہ وہ خم ہے زلف اياز ميں
جو ميں سر بسجدہ ہوا کبھي تو زميں سے آنے لگي صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں