شعاع اميد
(1)


سورج نے ديا اپني شعاعوں کو يہ پيغام
دنيا ہے عجب چيز ، کبھي صبح کبھي شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا ميں
بڑھتي ہي چلي جاتي ہے بے مہري ايام
نے ريت کے ذروں پہ چمکنے ميں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ ميں آرام
پھر ميرے تجلي کدہ دل ميں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بيابان و در و بام
 

(2)


آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتي ہيں شعاعيں
بچھڑے ہوئے خورشيد سے ہوتي ہيں ہم آغوش
اک شور ہے ، مغرب ميں اجالا نہيں ممکن
افرنگ مشينوں کے دھويں سے ہے سيہ پوش
مشرق نہيں گو لذت نظارہ سے محروم
ليکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
پھر ہم کو اسي سينہ روشن ميں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش
 

(3)


اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ ، صفت جوہر سيماب
بولي کہ مجھے رخصت تنوير عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گي نہ ميں ہند کي تاريک فضا کو
جب تک نہ اٹھيں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کي اميدوں کا يہي خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے يہي خاک ہے سيراب
چشم مہ و پرويں ہے اسي خاک سے روشن
يہ خاک کہ ہے جس کا خزف ريزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہيں وہ غواص معاني
جن کے ليے ہر بحر پر آشوب ہے پاياب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھي دلوں ميں
محفل کا وہي ساز ہے بيگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدير کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بيزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر