(16)


قوموں کے ليے موت ہے مرکز سے جدائي
ہو صاحب مرکز تو خودي کيا ہے ، خدائي!
جو فقر ہوا تلخي دوراں کا گلہ مند
اس فقر ميں باقي ہے ابھي بوئے گدائي
اس دور ميں بھي مرد خدا کو ہے ميسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائي
در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں يافت
اے بندئہ مومن تو کجائي ، تو کجائي
خورشيد ! سرا پردئہ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائي