Allama Iqbal's Poetry
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

بال جبریل

مندرجات

اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر...
پُھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے...
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات...
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا...
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب...
دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
اثر کرے نہ کرے، سُن تو لے مِری...
جوانوں کو مری آہِ سَحر دے
کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ...
تری دنیا جہانِ مُرغ و ماہی
دگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش...
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں مَیں
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے...
وہی اصلِ مکان و لامکاں ہے
مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو...
کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ...
عطا اسلاف کا جذبِ دُروں کر
ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہُوا لبریز
یہ نکتہ میں نے سیکھا بُوالحسن سے
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے...
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا...
خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے
اک دانشِ نُورانی، اک دانشِ...
یہی آدم ہے سُلطاں بحر و بَر کا
یا رب! یہ جہانِ گُزَراں خوب ہے...
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں...
یہ کون غزل خواں ہے پُرسوز و نشاط...
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا...
عالِم آب و خاک و باد! سِرِّ عیاں...
تُو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ...
امینِ راز ہے مردانِ حُر کی درویشی
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ...
مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل...
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زِیر...
دل سوز سے خالی ہے، نِگہ پاک نہیں...
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی...
پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی...
یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا...
دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار...
خودی کی شوخی و تُندی میں کبر و...
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ...
زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر...
یہ دَیرِ کُہن کیا ہے، انبارِ خس...
کمالِ تَرک نہیں آب و گِل سے...
عقل گو آستاں سے دُور نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ...
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح...
تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے...
تُو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور...
خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
ہر چیز ہے محوِ خود نمائی
اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ!
خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ...
جب عشق سِکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر...
نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں...
فطرت کو خِرد کے رُوبرو کر
یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے...
تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سِحرِ...
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا...
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ...
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار...
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں...
رہا نہ حلقۂ صُوفی میں سوزِ مشتاقی
ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں...
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک...
نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ...
فِطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ...
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی...
نے مُہرہ باقی، نے مُہرہ بازی
گرمِ فغاں ہے جَرس، اُٹھ کہ گیا...
مِری نوا سے ہُوئے زندہ عارف و...
ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو
کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے...
تھا جہاں مدرسۂ شیری و شاہنشاہی
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمانِ خوش آہنگ
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و...
کمالِ جوشِ جُنوں میں رہا مَیں...
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
رہ و رسمِ حرم نا محرمانہ
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
مکانی ہُوں کہ آزادِ مکاں ہُوں
خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
پریشاں کاروبارِ آشنائی
یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی
ہر اک ذرّے میں ہے شاید مکیں دل
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
خودی کی جلوَتوں میں مُصطفائی
نِگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ و بُو میں
جمالِ عشق و مستی نَے نوازی
وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے
سوارِ ناقہ و محمل نہیں مَیں
ترے سِینے میں دَم ہے، دل نہیں ہے
ترا جوہر ہے نُوری، پاک ہے تُو
محبّت کا جُنوں باقی نہیں ہے
خودی کے زور سے دُنیا پہ چھا جا
چمن میں رختِ گُل شبنم سے تر ہے
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
دُعا
دمِ عارف نسیمِ صبح دم ہے
مَسجدِقُرطُبہ
قید خانے میں معتمدؔکی فریاد
عبد الرّحمٰن اوّل کا بویا ہُوا...
رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہے
ہسپانیہ
کھُلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
طارق کی دُعا
زمانے کی یہ گردش جاودانہ
لینن
فرشتوں کا گیت
فرمانِ خدا
حکیمی، نامسلمانی خودی کی
ذوق و شوق
پَروانہ اور جُگنو
جاوید کے نام
گدائی
مُلّا اور بہشت
دین وسیاست
اَلْاَرْضُ للہ!
ایک نوجوان کے نام
نصیحت
لالۂ صحرا
اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو...
ساقی نامہ
زمانہ
فرشتے آدم کو جنّت سے رُخصت کرتے...
رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے
فطرت مری مانندِ نسیمِ سحرَی ہے
پِیرومُرید
ترا تن رُوح سے ناآشنا ہے
جبریل واِبلیس
کل اپنے مُریدوں سے کہا پِیرِ...
اذان
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
محبت
ستارے کاپیغام
جاوید کے نام
فلسفہ ومذہب
یورپ سے ایک خط
نپولین کے مزار پر
مسولینی
سوال
پنچاب کے دہقان سے
نادِر شاہ افغان
خوشحال خاںکی وصیّت
تاتاری کا خواب
حال ومقام
ابوالعلامعرّیؔ
سنیما
پنچاب کے پِیرزادوں سے
سیاست
فَقر
خودی
جُدائی
خانقاہ
اِبلیس کی عرضداشت
لہُو
پرواز
شیخِ مکتب سے
فلسفی
شاہِیں
باغی مُرید
ہارون کی آخری نصیحت
ماہرِ نفسیات سے
یورپ
آزادیِ افکار
شیر اور خچّر
چیونٹی اورعقاب

ساقی نامہ

ہُوا خیمہ زن کاروانِ بہار
اِرم بن گیا دامنِ کوہسار
گُل و نرگس و سَوسن و نسترن
شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھُپ گیا پردۂ رنگ میں
لہُو کی ہے گردش رگِ سنگ میں
فضا نِیلی نِیلی، ہوا میں سُرور
ٹھہَرتے نہیں آشیاں میں طیُور
وہ جُوئے کُہستاں اُچکتی ہوئی
اَٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
اُچھلتی، پھِسلتی، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نِکلتی ہوئی
رُکے جب تو سِل چِیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چِیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام!
سُناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پِلا دے مجھے وہ میء پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلِ گُل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات
وہ مے جس میں ہے سوزوسازِ ازل
وہ مے جس سے کھُلتا ہے رازِ ازل
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
پُرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے
گیا دَورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دِکھا کر مداری گیا
گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
دلِ طُورِ سینا و فاراں دو نِیم
تجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب!
بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہُوا
لُغَت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہُوا
وہ صُوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبّت میں یکتا، حِمیّت میں فرد
عَجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہیِ
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا!
مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا
مری خاک جُگنو بنا کر اُڑا
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
ہری شاخِ مِلّت ترے نم سے ہے
نفَس اس بدن میں ترے دَم سے ہے
تڑپنے پھٹرکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدّیقؓ دے
جگر سے وہی تِیر پھر پار کر
تمنّا کو سِینوں میں بیدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مری ناؤ گِرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تُو اس کو سیّار کر
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدۂ تَر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوَت و انجمن کا گداز
اُمنگیں مری، آرزوئیں مری
اُمیدیں مری، جُستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے، ٹھِکانے لگا دے اسے!
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شُعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دُود
گراں گرچہ ہے صُحبتِ آب و گِل
خوش آئی اسے محنت آب و گِل
یہ ثابت بھی ہے اور سیاّر بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسِیر
مگر ہر کہیں بے چگُوں، بے نظیر
یہ عالَم، یہ بُت خانۂ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں
کہ تُو مَیں نہیں، اور مَیں تُو نہیں
من و تُو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوَت نشیں
چمک اس کی بجلی میں، تارے میں ہے
یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں، اسی کے بَبُول
اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھُول
کہیں اس کی طاقت سے کُہسار چُور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیں جُرّہ شاہینِ سیماب رنگ
لہُو سے چکوروں کے آلُودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دُور
پھَڑکتا ہُوا جال میں ناصبُور
فریبِ نظر ہے سکُون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات
ٹھہَرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضَر ہے مجاز
اُلجھ کر سلجھنے میں لذّت اسے
تڑپنے پھٹرکنے میں راحت اسے
ہُوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
اُتر کر جہانِ مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاقِ دوئی سے بنی زوج زوج
اُٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
گُل اس شاخ سے ٹُوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پھُوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
اُبھرتا ہے مِٹ مِٹ کے نقشِ حیات
بڑی تیز جولاں، بڑی زود رس
اَزل سے اَبد تک رمِ یک نفَس
زمانہ کہ زنجیرِ ایّام ہے
دَموں کے اُلٹ پھیر کا نام ہے
یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے، رازِ درُونِ حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند
سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند
اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک
من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک
ازل اس کے پیچھے، اَبد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
سِتم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی
وما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کِرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں
یہ بے رنگ ہے ڈُوب کر رنگ میں
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فرازوپس و پیش سے
اَزل سے ہے یہ کشمکش میں اسِیر
ہُوئی خاکِ آدم میں صُورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
خودی کے نِگہباں کو ہے زہرِ ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دُنیا میں گردن بلند
فرو فالِ محمود سے درگزر
خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ عالم، یہ ہنگامۂ رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت
یہ عالم، یہ بُت خانۂ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے، تُو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
تُو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زِشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گُفتار زنگ
فروزاں ہے سِینے میں شمعِ نفَس
مگر تابِ گُفتار کہتی ہے، بس!
’اگر یک سرِ مُوے برتر پَرم
فروغِ تجلّی بسوزد پَرم،
ساقی نامہ

بھی موجود ہے


logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان