www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

شخصیت
حیاتِ اقبال
سوانح
سنین کے آئينے میں
سوانحی مواد
کتابیات
اکثر پوچھے گئے سوالات

پانچواں باب

مجھ سے ماورا کیا ہے؟
(۱۹۳۱-۱۹۳۸)

جاوید نامہ


 

جس وقت اقبال اپنا خطبۂ صدارت لکھ رہے تھے اور برطانوی سلطنت کے اندر یا اس سے علیحدہ ایک مستحکم مسلم ریاست کی تجویز پیش کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے تو اُنھی دنوں وہ اپنے سب سے بڑے شاہکارجاوید نامہپر بھی کام کررہے تھے جو ۱۹۲۷ء اور ۱۹۳۱ء کے درمیان مکمل ہوا۔ یہ کتاب ان جیسے بڑے شاعر کے لیے ایک غیرمعمولی طور پر عظیم کام تھا کیونکہ اس میں انھوں نے کائنات کے ایک روحانی منظر کی تصویرپیش کرنے کا سوچا تھا جس کی تکمیل خدا کے ساتھ مکالمہ پر ہونی تھی۔
جاوید نامہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اقبال نے خود اسے اپنی زندگی کا' نچوڑ'کہا اور بلاشبہ اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ان کی سوچ کے تمام تر مختلف اجزأ کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تمام تر شاعرانہ کیفیات اورطریقۂ اظہار کا ایک خلاصہ بھی پیش کرتا ہے۔ فطری منا ظر سے ان کوگہری دلچسپی تھی لہٰذا مابعدالطبیعیاتی فطرت کے مناظر کی تصویر کشی میں ان کی اسی دلچسپی کا بڑا خوبصورت اظہار نظر آتا ہے، اوردوسری طرف رزمیہ نظم کی صنف کا حق ادا کرتے ہوئے انھوں نے نظم کوبہت جاندار کرداروںسے سجایا ہے۔ زُروان، جو زرتشت کے مطابق زمان ومکان کی روح ہے، اُفق کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے اور اپنے پَروں کو ہمیشہ وقت کی کسی نئی جہت میں کھولتا ہے جبکہ شیطان ایک متاثر کُن بوڑھے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جو جسم کے اندر موجود روح کو بھی دیکھ لینے پر قادر ہے۔
سب سے دلچسپ باب مریخ پر موجود ایک ایسی نسل کے بارے میں ہے جو روحانی ہے۔ شر پر مبنی روح نے ان کے جدّ ِ امجد کو بھی ورغلانے کی کوشش کی تھی، جس طرح آدم کو ورغلایا گیا تھا، مگر اس نے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں اس کی اولاد مادّے اور روح کے تضاد کا شکار ہونے سے بچ گئی اور اب وہ ایک ایسی زندگی گزارتے ہیں جو قحط سالی، غربت، محتاجی اور ظلم و جبر سے پاک ہے۔ یہ خوش حال بستی اقبال کی مثالی دنیا ہے اور یہ محض ہمارے اندر کے شیطان ہی جو ہمیں زمین پربھی ایک ایسی ہی دنیا کی تعمیر سے روکتے ہیں۔ مذہب کی جبرپرمبنی تباہ کن تعبیریں اور عزتِ نفس کی کمی اس کے چند بڑے اسباب ہیں۔
اس کتاب کی اصل اہمیت تو البتہ اس سب سے کہیں آگے ہے اور ابھی تک کسی کو اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا۔ ڈبلیو بی ییٹس نے ایک بار ہومر کی نظم ایلیڈ کویونانی تہذیب کی آمد کا پیش خیمہ کہا تھا اوردانتے کی ڈوائن کامیڈیکو عیسائی تہذیب کا خلاصہ کہا تھا جو کہ دوہزار سال پر محیط تھی۔ اسی لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جاویدنامہ دراصل اس ہزاریے کا نمایندہ قرارپانے کا متقاضی ہے جواُس وقت ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھاجب اسے لکھا گیااور جو اَب شروع ہوا ہے۔ ا س کتاب میں مشرق اور مغرب کا فرق ہمیں نظر نہیں آتا۔ یہاں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کو نہایت دل سوزی کے ساتھ جگہ دی گئی ہے۔ اقبال کی اس روحانی کائنات میں کسی کو محض مذہبی عقائد کی بنا پر سزا یا جزا کا مستحق قرارنہیں دیا گیا: گوتم بدھ اورزرتشت پیغمبروں کے درمیان جگہ پاتے ہیں اور ایک ہندوشاعر جنت الفردوس میں دکھایا جاتا ہے جبکہ دوغدّار (جو دونوں اتفاق سے مسلمان ہیں) ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس کائنات کو ایک مسلمان کی نظرسے دیکھاگیاہے (''قرآن میں بہت سی دنیائیںموجود ہیں، ظاہر اور پوشیدہ، اور تمہیںاپنے لیے ایک ایسی دنیا منتخب کرنی چاہیے جو تمھارے لیے مناسب ہو، ''جمال الدین افغانی فلکِ عطارد پر کہتے ہیں) ۔ لیکن تین چیزیں اس کتاب کو آفاقی اعتبار سے قابل ِتوجہ بناتی ہیں۔ اول، عقائد کے مابین مکالمے کی ایک پُرخلوص اور ذمہ دارانہ کوشش جو ہماری دنیا اور دانتے کی دنیا کے درمیان فرق ظاہر کرتی ہے جہاں تعصّب شاعرانہ صلاحیت پر حاوی نظر آتا ہے۔ دوم، اس کتاب کی ساخت ہی تہذیبوں کے اختلاط کو ظاہر کررہی ہے جو کہ خاص ہماری صدی کی پہچان ہے۔ مثال کے طور پر'تمہیدِ آسمانی ' (جو ہمیں فاؤسٹ کی یاد دلاتی ہے) اور 'ابوجہل کا نوحہ'جو ملٹن کی اس مشہور نظم کی یاد دلاتا ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے بارے میں ہے۔ مشرقی ادب کی روایات اور مغربی ادب کی روایات کا یہ غیرمحسوس امتزاج بذاتِ خوداس نئی ہزاری میں دنیا کی تہذیبوں کی تشکیلِ نو کی علامت ہے:ہم ایک ہیں!
مگر اس نظم کے آفاقی اور عالمگیر ہونے کی سب سے بڑی دلیل وہ جرأت مندانہ حقیقت پسندی ہے جس سے حالات کو دیکھا گیا ہے۔ خدا محض جمال ہی نہیں ہے، وہ جلال بھی ہے اور قہاربھی ہے۔ جب شاعر خالقِ حقیقی سے دنیا کی تقدیر کی جھلک دکھانے کو کہتا ہے تو اسے کوئی گلابوں کا باغ نظر نہیں آتا بلکہ خون کی ایک ایسی چادر نظر آتی ہے جو زمین کے پورے اُفق پر پھیلی ہوئی ہے۔ اپنی تمام تر مذہبی وابستگی اور روحانیت سے شغف کے باوجود اقبال یہ نہیں بھولے کہ اس دنیا میں انسان کو محض اپنے وسائل ہی پر انحصار کرنا ہے۔ عقائد اور روحانیت صرف ہماری خودی کو مزید عظیم تر بنانے کاکام کرتے ہیں مگریہ بذاتِ خود ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ بالآخر ہمیں یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ تقدیر کسی کا لحاظ نہیں کرتی اور فطرت کے اپنے ہی تقاضے ہیں جن میں وہ کوئی رعایت نہیں کرتی۔
اس نظم کا ایک اور کرشمہ یہ بھی ہے کہ اس کے کئی شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں جبکہ یہ فارسی میں لکھی گئی تھی اور ایک ایسے وقت میں جب یہ زبان ہندوستان میں اپنا وجود کھوتی جارہی تھی (اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اقبال کی یہ شاہکار نظم ان کی سب سے کم شایع ہونے والی نظم ہے) ۔ 'دینِ مُلاّ فی سبیل اللہ فساد' (مُلاّ کا دین خدا کے نام پر فساد برپا کرنا ہے) اور'جعفر ازبنگال و صادق ازدکّن۔ ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن (بنگال کا جعفر اور دکن کا صادق۔ شرمندگی ہیں آدمیت ، دین اور وطن کے لیے) ۔ یہ محض دو مثالیں ہیں ان ضرب الامثال کی جو زبان زدِ عام ہیں اور وہ لوگ بھی اسے استعمال کرتے ہیں جوفارسی نہیں جانتے۔

The cosmology of Javid nama


 

اقبال کا تصورِ کائنات ان کے شاعرانہ تخیل کا ہمیشہ ایک اہم حصہ رہا ہے مگر اس چیز پر بہت کم توجہ دی گئی ہے، خصوصاً ان کے اپنے ملک میں۔
جاوید نامہ کی تخلیق اقبال کے ذہن میں کئی برسوں میں جاکر ہوئی اور یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ اس کی تخلیق کا آغاز اس وقت ہی ہوچکا تھا جب انہو ںنے اپنی پہلی شاہکار نظم 'ہمالہ'لکھی، کیونکہ اس نظم میں بھی یہی کوشش کی گئی ہے کہ فطرت کے مظاہر میں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اس سے کچھ زیادہ دکھایا جائے۔ دوسری نظموں کو بھی، جیسے 'سیرِ فلک' (۱۹۱۰) ایک تخیّلاتی جہنم کے تصور کے ساتھ اور 'حضورِرسالت مآبؐمیں' (۱۹۱۲) روحانی دنیاکے پس منظر کے ساتھ، اپنی اپنی جگہ مختصرمگر مکمل جاویدنامے قراردیا جاسکتا ہے۔ حتیّٰ کہ خداسے مکالمہ، جو جاویدنامہ کا نقطۂ اختتام ہے، بھی پہلے کئی بار ان کی نظموں میں آچکا ہے جن میں 'شکوہ' (۱۹۱۱) ، 'جوابِ شکوہ' (۱۹۱۲) اور 'خدااور انسان کے درمیان مکالمہ ' (۱۹۲۳) تو بہت واضح مثالیں ہیں۔
تخلیق ِ کائنات کا شاعرانہ بیان، جواس نظم کی پہلی تمہید ہے، ابتدأ سے ہی ان کا ایک پسندیدہ موضوع رہا اور انھوں نے اس کو کئی نظموں میں لیاجیسے 'عشق اور موت' (جو ٹینی سن سے ماخوذ ہے) ، 'محبت ' (۱۹۰۶) ، اور 'تسخیرِ فطرت' (۱۹۲۳)۔
لہٰذا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ اس تمام دور میں اپنا ایک تصور ِ کائنات وضع کرتے رہے تھے۔ جاویدنامہ کا ادبی چیلنج محض یہ تھا کہ انھیں اتنے برسوں پر محیط ان بکھرے ہوئے اجزأ کو جوڑ کر کائنات کی ایک مکمل تصویر پیش کرنی تھی، وہ تصویرجوان کے ذہن میں موجود تھی۔
انھوں نے دوسری دنیا کوایک وسیع کائنات کی شکل میں خیال کیا ہے جس میں کہیں کہیں اچھے اور بُرے مقامات کے ٹکڑے بھی لگائے گئے ہیں، جزا وسزا کے لحاظ سے۔ چاند، عطارد، مشتری اور جنت، پُرفضا مقامات کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو تمام مقدس روحوں کے لیے کافی ہو: ان کے اندر کا انفرادیت پسند آخرت کی زندگی میں بھی یکسانیت پسند نہیں کرسکتا تھا۔ چاند کو ایک پُرسکون گوشے کے طور پرپیش کیا گیا ہے جو روحانی غوروفکرکے لیے بے حد مناسب ہے اور اسی لیے ہندودانا وشوامترا نے یہاں رہنا پسند کیا ہے۔ شاعر یہیں سروش کے نغمہ کو محسوس کرتا ہے (جو غیب سے مضامین لانے والا فرشتہ ہے) اور یہیں مختلف پیغمبروں کے طواسین موجود ہیں جن میں نوعِ انسانی کی مابعدالطبیعاتی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اقبال بھی اپنی وفات کے بعد یہیں رہنے کے آرزو مند ہوں، جیسا کہ بعد میں بالِ جبریل (۱۹۳۵) کے پہلے حصّے کی سولھویں غزل میں دُعا کریں گے: ''یارب! یہ جہانِ گزراں خوب ہے لیکن''۔
جمال الدین افغانی جیسے سیماب فطرت مصلح کو ، ظاہرہے، عطارد پر ہی سکون مل سکتا تھااور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اقبال کے لینن کو بھی، بالِ جبریل میں خدا کے ساتھ ایک جارحانہ مکالمہ کے بعد اسی گوشہ میں بھیجا جاتا۔
پھر وہ ارواح بھی ہیں جنھیں ہمیشہ سفرمیں رہنا پسند ہے۔ اپنے سیاسی تصورات میں تو اقبال کئی لحاظ سے ایک اجتماعیت پسند تھے ، مگر اپنے کائناتی تصور میں وہ ان لوگوں کی عظمت کے قائل نظر آتے ہیں جنھوں نے دوسروں سے بے پروا ہوکر اپنے انداز کی ذاتی زندگی گزارنا چاہی۔ حلاّج، طاہرہ اور غالب، جنت قبول کرنے سے انکار کرنے پر، تیزرفتار اور مستقل وسعت پذیرسیّارے مشتری کے گرد گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
اور جنت، انصاف پسند حکمرانوں، ولیوں، اورپاکباز خواتین کا مقام ہے۔ اصل میں یہ ان لوگوںکی جگہ ہے جنھوں نے اصولوں کے مطابق ایک سیدھی سادی اور سچی زندگی گزاری۔ بے شک وہاں حوریں بھی نظرآتی ہیںمگر اقبال ان آسمانی دوشیزاؤں کے ساتھ وقت ضایع کرنے کے بجائے اُلوہی حُسن کی شعاعوں سے لطف اندوز ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور جاویدنامہ کے اس منظر میں ہمیں ان کے ابتدائی زمانے کی نظم'عاشقِ ہرجائی' (۱۹۰۹) کی مکمل تائید ملتی ہے۔ وہاں شاعر یہ مانتا ہے کہ 'نسوانی حسن'ان کی فطرت کے لیے بجلی کی سی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کا 'عشق بے پرواہ بھی ہے'، اور کہتا ہے کہ اصل میں وہ الُوہی حسن کی تلاش میں ہے اسی لیے اس کی جستجودنیاوی حسیناؤں پر ختم نہیں ہوتی۔ بالکل اسی کیفیت کا مظاہرہ شاعر یہاںبھی کرتا ہے، جب خداکے مقام سے چند قدم دور حُوریں اس کا راستہ روکتی ہیں تو وہ ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور آگے بڑھ جاتا ہے حتّٰی کہ جو غزل وہ محض مروتاً ان کو سناتا ہے اس میں بھی کسی رومانویت کا شائبہ تک نہیں ہے۔
ناخوشگوار مقامات میں زہرہ، زحل اور جہنم ہیں (جہنم جاویدنامہ کے منظر سے تو غائب ہے مگر ان کی ابتدائی دور کی نظم 'سیرِ فلک'میں ہمیں اس کی ایک تصویر نظر آتی ہے) ۔ یخ بستہ اور ویران سیارہ زہرہ ، قدیم اقوام کے جھوٹے خداؤں کا مسکن ہے اور قابلِ فہم طور پر ظالم وجابر اور بُرے حکمران یہاں ایک اندھیرے سمندر کی تہہ میں سڑرہے ہیں۔ زحل، خوفناک طوفان، بجلی کے کڑاکے او رخون کا سمندر لیے، ان لوگوں کے واسطے ہے جنھوں نے اپنی قوم کو دھوکا دیایعنی غدار جنھیں جہنم نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔
آسمان کو اس طرح سے اچھی اور بُری ارواح میں تقسیم کرتے ہوئے انھوں نے کم ازکم ایک سیارے کو اُس خیالی دنیا کی تخلیق کے لیے مخصوص کیا ہے جو ہمیشہ سے ان کو مسحور کرتی تھی۔ بلاشبہ یہ سیارہ مریخ ہے جو اُن دنوں کے سائنس فکشن لکھنے والوں کے مطابق گرم اور جلتا ہوا تھاجبکہ مرغدین کی مثالی تہذیب میں ہمیں اقبال کی ایک اپنی ہی سائنس فکشن جنم لیتی نظر آتی ہے جس میں روحانیت اُن حیرت انگیز مشینوں کی جگہ لے لیتی ہے جو اُن دنوں کے فکشن لکھنے والوں کے یہاں نمایاں نظر آتی تھی (بلکہ اس میں ہم مستقبل کے ٹولکائن کی جھلک بھی دیکھ سکتے ہیں) ۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ کائنات کی یہ تصویر ہمیں ان کی بعد کی شاعری میں باربار اُبھرتی نظر آتی ہے، خاص طور پر اُردو میں۔ بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کی کئی نظمیں ہمیں اسی تصویر کے بہت سے دوسرے پہلو اُجاگر کرتی نظر آتی ہیں، جہاں ہمیں عالمِ برزخ سے مکالمے سنوائے جاتے ہیں، شیطان کا تذکرہ بھی کئی بار ملتا ہے، ، لینن اور فرشتوں کے ساتھ خدا کی گفتگو، اور ظاہر ہے تخلیق سے متعلق اقبال کے تصور کی مزید جھلکیاں۔
ان کی بعد کی اردو نظموں کو اگر ہم اُس کائناتی تصور کے تناظر میں دیکھیں جو یہاں بیان کیا گیا ہے تو اُن کے معنی مزید واضح ہوجاتے ہیں۔ مثلاً بالِ جبریل کے اس شعرکو اگر اِس تناظر میں نہ دیکھیں تو پھر ا س کی کیا وضاحت کی جاسکتی ہے:
مدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کردے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند؟

گول میز کانفرنس


 

۱۹۳۱ء سے لے کر زندگی کے آخر تک اقبال کی سیاست کا محض ایک ہی مقصد تھا ہندوستان کی مسلم قوم کو متحد کرنا۔ اُس تاریک سال میں جب مولانا محمد علی جوہر پہلی گول میز کانفرنس کے دوران فوت ہوگئے اور جناح نے واپس نہ آنے کا فیصلہ کرلیا، اقبال نے اپنی قوم کے حق میں ایک بڑی خدمت یہ کی کہ جولائی میں کلکتہ کے اخبار دی اسٹیٹسمین میں ایک کُھلا خط شایع کیا، جس سے یقینا بہت سے پڑھنے والوں کو دھچکا لگا ہوگا۔ سرفرانسس ینگ ہزبینڈ کے ایک نظریہ کو لے کرجس میں اس نے اپنے لوگوں کو دعوت دی تھی کہ دنیا کو بچائیں، اقبال نے لکھا کہ ہندوستانی اس میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان تلخی ختم بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ دونوں جانب سے تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ دکھایا جائے۔ ''حالات کو پھر سے راہ پرلانے کے عمل میں عام طورپر اسی ضروری چیز سے مدد لی جاتی ہے، ''انھوں نے اپنے برطانوی قاریوں کے سامنے ایک مربیاّنہ قسم کا انداز اختیار کیا۔ ''مطابقت پذیری تاریخ میں نئی نہیں ہے۔ یہ زمانے کی ابتدأ سے لے کر اب تک کئی بار ہوتی رہی ہے،'' (یوں جیسے انہو ںنے خود اس سارے عمل کواپنی آنکھوں سے دیکھا ہو) ، اور پھر وہ براہِ راست کہتے ہیں۔ ''یورپ کی تاریخ کو ذرا مختلف حالات کا سامنا رہا ہے۔ ''اس کے بعد وہ اپنے اصل موضوع پر آگئے، ''یہ صحیح ہے کہ ہمیں اس ملک میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت پذیری کی ضرورت ہے۔۔۔''
اور اس معاملے کی فوراًہی وضاحت کردی گئی:اگر انگریزہندوستان کے مسلمانوں کو ایک سیاسی فریق کے طور پر قبول نہیں کرتا اور تمام اقتدار انڈین نیشنل کانگریس کے حوالے کردیتا ہے تو ہندوستان کے مسلمان گاندھی کے برسرِ اقتدار آجانے کے بعد ان کے عدم تعاون کے ہتھکنڈے خود اُنھی کے خلاف استعمال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اقبال انگریزوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ اس مقصد کے لیے ''تقسیم کرو اور حکومت کرو''والی پالیسی کو استعمال نہ کریں (اگرچہ اقبال نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی) ۔ جس مہارت سے انھوں نے اپنے استدلال کو آگے بڑھایا، اس سے یہ نظر آتا ہے کہ ان کی لنکنز اِن کی تربیت کو اتنے سال گزرنے کے بعدبھی زنگ نہیں لگا تھا۔ ابھی تک تو صرف علی گڑھ کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے روشن خیال مسلمانوں پر نوآبادیاتی حکمرانوں کی تقسیم کرنے والی حکمتِ عملیوں کا نتیجہ ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ اب اقبال اس پورے استدلال کا رُخ ہی بدل رہے تھے۔ مگر یہ کافی نہ تھا کیونکہ شاعرِ مشرق اپنے سفیدفام حکمرانوں کوابھی کچھ اور چونکانا چاہتے تھے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اقتدار سے الگ رکھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ''پورا مسلم ایشیا روسی اشتراکیت کی گود میں چلا جائے جو کہ مشرق میں انگریزوں کی برتری پر ایک آخری وار ثابت ہوگا، ''انھوں نے کہااور پھر یہ اعلان بھی کردیا:''چونکہ بالشوزم میں محض خدا کا اضافہ کردیں تو یہ عین اسلام کے مطابق ہوجاتا ہے لہٰذا مجھے اس میں کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ، وقت کے ساتھ ساتھ، یاتو اسلام روس کو تحلیل کردے یا روس اسلام کو۔ نتیجہ کا انحصار، میرے خیال میں، بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ہندوستانی مسلمان کو نئے آئین میں کیا مقام دیا جاتا ہے۔ ''
ظاہر ہے کہ یہ ایک سیاسی اقدام تھا۔ یہ پورا خط ہی ایک سیاسی بیان تھا اور ان کے تشکیلِ جدید والے لیکچرزمیں سے نہیں تھا۔ مگر بدقسمتی سے اس نے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کو کنفیوژکردیا جن پر اقبال نے یہ ترکیب آزمائی تھی بلکہ ان کے بہت سے چاہنے والوں کو بھی دھوکے میں ڈال دیا جنھوں نے ان کے اس بیان کو بالشویک کے بارے میں اقبال کا نقطۂ نظر سمجھ لیا۔ اقبال کے اپنے فلسفہ کے اصول کے مطابق یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ مذہبی تصورات قدرتی طور پر نشونما پاتے ہیں میکانکی انداز میں نہیں لہٰذا خدا کے تصور کو ایک سیاسی نظام کے ساتھ اس طرح نہیں جوڑا جاسکتا جیسے کسی قدیم عمارت کے ساتھ ایک نئے کمرے کا اضافہ کردیا جائے؛اسے تو دلوں میں بویا جاتا ہے تب جاکے اس روحانی بیج سے ایک فرد کے لیے وجود کی تمام دوسری حقیقتیں پھوٹتی ہیں۔
اقبال نے اپنے اس بیان میں کئی اورجگہ بھی لفظوں کو بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا۔ انھیں ہندؤوں کی حکمرانی پر کوئی اعتراض نہ ہوگا''اگر ہندؤوں میں حکومت کرنے کا سلیقہ اور قابلیت ہو، ''انھوں نے کہا۔ ''مگر میں دوخداؤوں کی پرستش نہیں کرسکتا۔ یا توصرف [ہندو]ہو یا صرف انگریز، مگر دونوں اکٹھے نہیں۔ ''اس میں ایک لطیف معنی یہ پوشیدہ تھے کہ جس طرح انگریز ہندوستان پر لوگوں کی مرضی کے بغیر حکمرانی کررہے ہیں، گاندھی بھی، فرقہ وارانہ مسئلے کو پہلے حل کیے بغیر، غیر ملکی حکمرانوں سے کہہ رہے تھے کہ اقتدار اُن کے حوالے کرکے چلے جائیں، دراصل وہ مسلمانوں پر ہندوں راج کو مسلط کرنے کی ترکیب نکال رہے تھے۔ ایسی صورت میں اقبال کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اپنی اصل فطرت کو آزادی یا جمہوریت کی مقدس نقاب کے پیچھے نہ چھُپاؤ۔
اقبال کو اگلی دونوں گول میز کانفرنسوں میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی یعنی دوسری اورتیسری گول میز کانفرنس۔ یہ سفر ۱۹۳۱ اور ۳۳۔ ۱۹۳۲میں کیے گئے اور اپنے سیاسی مینڈیٹ کے علاوہ اقبال نے اپنا ساتواں اور تشکیلِ جدید کے سلسلے کا آخری لیکچر بھی دیا۔ دونوں مرتبہ جاتے ہوئے اور وہاں سے آتے ہوئے بہت سے مقامات کا دورہ بھی کیا جن میں سے ہر ایک کو انھوں نے ایک شاہکار نظم کے ذریعے یادگار بنادیا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس


 

اس دوران ان کے پرانے ہم جماعت سر فضلِ حسین نے چاروں مسلم سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا (آغاخان کے مالی تعاون سے)۔ کُل ہند مسلم کانفرنس کے نام سے اس پلیٹ فارم کو اقبال کا پُرخلوص تعاون حاصل ہوا اور انھوں نے مارچ ۱۹۳۲ء میں اس کے سالانہ جلسہ کی صدارت بھی کی۔
''جو کوئی بھی ایک ناسازگار ماحول کو تبدیل کرنا چاہے، پہلے اپنے اندر کی ذات کو مکمل طور پر بدل ڈالے، ''انھوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرنے کے بعدکہ ہندوستانی مسلمانوں نے بہت عرصہ سے اپنی اندرونی حیات کی گہرائیوں کو دریافت کرنا چھوڑ دیا ہے، کہا۔ ''ہمارا مقصد تو واضح ہے۔ یعنی آنے والے آئین میں اسلام کے لیے ایک ایسا مقام حاصل کرنا جو اُس کو اِس ملک میں اپنی قسمت آزمانے کے مواقع فراہم کرسکے۔ اس مقصد کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ مسلم قوم کی ترقی پسند قوتوں کو اُبھارا جائے اور ان کی اب تک خوابیدہ رہنے والی توانائیوں کو منظم کیا جائے۔ زندگی کا شعلہ دوسروں سے مستعار نہیں لیا جاسکتا؛اسے تو ہر شخص کو اپنی روح کے معبد میں خود ہی روشن کرنا پڑتا ہے۔ ''
اس کے بعد انھوں نے ایک ''نیم سیاسی، نیم ثقافتی'' پروگرام کی تجویز پیش کی جو کہ اُس نمونے پر مبنی نظر آتا ہے جو انھوں نے اپنے حالیہ سفر کے دوران میں مسولینی کے اٹلی میں دیکھا تھااور اس ''کسان لیگ'' سے بھی متاثر لگتا ہے جس نے ۱۹۲۰ کے عشرے میں چین کے ثقافتی ارتقا میں اہم کردار اداکیاتھا۔
دوسال سے کم عرصے میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ نہ تو ان کے پرانے دوست سر فضل ِ حسین، اور نہ ہی عزت مآب آغا خان، ہندوستان میں مسلمان قوم کے لیے صحیح رہنما ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اب ان کی توجہ محمد علی جناح کی طرف مبذول ہوگئی جن کے بارے میں کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے کہا کہ یہ وہ واحد شخص ہے جو علاقہ کے مسلمانوں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔












'Is Religion Possible?'


 

''نہ قرونِ وسطیٰ کی صوفیانہ تکنیک، نہ قومیت پسندی اور نہ ہی جدلیاتی سوشلزم ایک مایوسی کا شکار انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرسکتی ہے، ''اقبال نے اپنے لیکچر'کیا مذہب ممکن ہے؟'میں کہا جو ۱۹۳۲ء میں لندن کی ''ارسطو سوسائٹی'' کے زیراہتمام دیا گیا تھا اور مذہب ہی، جو اپنے اعلیٰ ترین اظہار میں نہ تو جامد عقیدہ ہے، نہ پاپائیت، اورنہ ہی محض رسم ہے، جدید انسان کو اخلاقی طور پر تیار کرسکتا ہے کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکے جو جدید سائنس کی ترقی کا ایک لازمی نتیجہ ہے اور اس کے لیے ایک ایسے یقین کو برقرار رکھتا ہے جو اسے اس دنیا میں ایک شخصیت بنانے اور آخرت میں اسے برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ ''یہ لیکچر مجموعی طور پر تشکیلِ نوکے پچھلے چھ لیکچر ز کا اعادہ تھا (اور ساتویں باب کے طور پر شامل کیا گیا جب دوسال بعد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے کتاب کا نیا ایڈیشن شایع ہوا) ۔ اقبال اب آگے بڑھنے کے لیے تیار تھے او ریہی انھوں نے کیا۔
''میں نے اپنی زندگی کے پچھلے ۳۵سال اس سوچ میں گزارے ہیں کہ اسلام کو موجودہ ثقافت اور تہذیب سے کس طرح متطابق کیا جائے، اور یہی اس پورے عرصے میں میری زندگی کا مرکز رہا ہے، ''انھوں نے اگلے سال کے اوائل میں اپنی واپسی کے موقع پر دیے جانے والے ایک استقبالیہ میں کہا۔ ''میرے حالیہ سفروں نے کسی حد تک مجھے یہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ یہ اس مسئلہ کو پیش کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام جدید ثقافت سے کمتر ہے۔ میری رائے میں صحیح طریقہ اس کے الٹ ہے، یعنی جدید ثقافت کو اسلام سے متطابق کیا جائے۔''
جس فلسفیانہ سوچ میں انھوں نے اپنی تقریباً پوری زندگی صرف کردی، اس سے یوں دستبردار ہوجانا یقینا ان کی جرأتِ زندانہ کی دلیل ہے مگر اب بھی انھوں نے عاجزانہ رویے کو پوری طرح خیرباد نہیں کہا تھا۔ اپنی برتری ثابت کرنے کی بے چینی عام طور پر خوف اور احساس ِکمتری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش ہوتی ہے، خواہ اس کے لیے کوئی بھی راستہ کیوں نہ اپنانا پڑے۔ اقبال کے بیان کی اہمیت کا اندازہ اس حل سے نہیں لگایا جاسکتا جو انھوں نے تجویز کیا بلکہ اس بات سے لگایا جانا چاہیے کہ انھوں نے اس مسئلہ کو محسوس کیا اور ایک ایسے فکری نقطہ ٔنظر پر پہنچنے کی پُرخلوص کوشش کی جو تہذیبوں کی جنگ سے الگ اور بلند ہو۔ اس نئی سوچ کے ساتھ انھوں نے جو پہلا موضوع منتخب کیا وہ 'مسلم فکر میں زمان ومکان کا تصور تھا'اور یہی انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سامنے تجویز کیا جب اس نے انھیں روڈز میں لیکچرز کی ایک سیریز پیش کرنے کی دعوت دی۔ وہ فوراً ہی اس موضوع کے لیے مواد جمع کرنے میں مشغول ہوگئے مگر پھر بالآخر یونیورسٹی نے اس موضوع کو بے حد الجھا ہوا قرار دے کر مسترد کردیا۔
ایک طرح سے یہ آخری مابعدالطبیعیاتی موضوع تھا جو اقبال نے لیا۔ اس کے بعدان کا اگلا انتخاب مسلم فقہ کی نئی تعبیر تھا۔ یہ موضوع ان کے دل کے قریب بھی تھا اور ان کے ایک چاہنے والے نے ایک دفعہ انہیں'مجدد' کا لقب بھی دیا جس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:''یہ میں نہیں ہوں۔ موجودہ دور کا 'مجدد'وہ ہوگا جو مسلم فقہ کی نئی تعبیر کرے گا۔ ''ان کی زندگی کے آخری چند برسوں میں ان کی توجہ کا مرکز مسلم فقہ کی نئی تعبیر کرنے کے لیے اصول مرتّب کرنا ہی رہا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پروجیکٹ بھی تھا جس پر وہ کام کرنا چاہتے تھے۔ یہ قرآن پر اپنے نوٹس تحریر کرنے کا کام تھا۔ یہ دونوں مقاصد مالی مسائل اور ان کی گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے پورے نہ ہوسکے۔
یہاں ایک چیز کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ شاعری اور فلسفہ کے برعکس قانون وہ چیز ہے جس کا سیاسی اقتدار کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ صوفیأ نے روزمرہ کے مذہبی واخلاقی احکامات پر عمل کرنے کے ایک ناگزیر ذریعے سے زیادہ فقہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اسلامی قانون کے بارے میں اقبال کے نظریہ اوریہی مقصد رکھنے والی بعد کی مختلف تحریکوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کی اصل دلچسپی اسلامی قوانین کے نفاذ کے ذریعے ظلم و جبر اور غربت کوختم کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک آزاد ملک میں ان قوانین کے نفاذ کا آغاز ان شِقوں سے ہونا چاہیے جو عوام کو آزادی کا احساس دلائیں اور اُن کے لیے شہری حقوق اور بہتر معیارِ زندگی کو ممکن بنائیں۔ دوسری طرف بہت سی ایسی تحریکیں جو اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے شروع کی گئیںبدقسمتی سے ایک عام آدمی پر مذہب کے نام پر پابندیاں عائد کرنے سے اس کام کاآغاز کرتی تھیںجبکہ استحصالی قوتوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طرف ان کی کوئی توجہ نہ تھی۔

بال جبریل


 

اقبال کی قانون کی پریکٹس۱۹۳۰ء کے عشرے کے شروع میں ان کے اکثر سفر میں رہنے اور بعد میں ان کی مستقل بیماری کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوچکی تھی۔ یہ بیماری ان کی آواز کے تقریباً ختم ہوجانے سے شروع ہوئی تھی اور بعد میں کارڈیک دمہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ انھوں نے اس کے علاج کے لیے دو مرتبہ بھوپال جاکر الیکٹروتھراپی بھی کروائی مگر کم سے کم موجودہ معیار کے مطابق یہ علاج کچھ بے قاعدہ ہی نظر آتا ہے۔ ان کی عزیز شریکِ حیات سردار بیگم ۱۹۳۵ء میں وفات پاگئیں (ذاتی گھر میں منتقل ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد) اور لگتا ہے کہ وہ اس کمی کے احساس سے مکمل طور پر کبھی چھٹکارا نہ آسکے۔ انھوں نے گھر کے ''زنانہ''حصے میں آنا بہت کم کردیا تھا، اپنے بالوں کو رنگنا چھوڑ دیا تھا اور خود کو ''اضافی''قرار دینے لگے تھے۔ انھوں نے ایک روحانی تعلق کا تذکرہ بھی کیا جس کے ذریعے مرحومہ سردار بیگم نے انھیں بتایاکہ ان کا حساب کتاب ہوچکا ہے اور وہ اب برزخ میں نہیں رہیں۔
نواب آف بھوپال کی طرف سے ۵۰۰ روپے کا وظیفہ بروقت ثابت ہوا اور اقبال کی پوری زندگی میں یہ واحد مددہے جو انھوں نے کسی حکمران سے قبول کی۔ اس کے جواب میں انھوں نے ضرب ِکلیم کو اپنے سرپرست کے نام معنون کیا۔
بالِ جبریل ۱۹۳۵ء میں سامنے آئی۔ اس کے اور جاوید نامہ کے درمیان صرف افغانستان کے ایک منظوم سفرنامے کا فاصلہ ہے (اقبال نے افغانستان کا سفر ۱۹۳۳ء میں وہاں کی حکومت کی دعوت پر تعلیمی پالیسی کے بارے میں مشورہ دینے کے لیے کیا تھا)
بال ِجبریل میں نظموں کو ایک نئے انداز سے ترتیب دینے کا تجربہ کیاگیا۔ پہلے سولہ ٹکڑے جو بظاہر غزلیںلگتے ہیں (مگر ان میں سے بعض غزلیںنہیں ہیں) نمبروار ہیں اور سولہویں ٹکڑے کے بعد بغیر کسی وضاحت کے یہ نمبر دوبارہ ایک سے شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں ایک لطیف اشارہ یہ نظر آتا ہے کہ پہلے حصے میں خدا کواور دوسرے میں انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ان کے بعد رباعیات ہیںاو رکتاب کا دوسرا نصف حصہ نظموںپر مشتمل ہے جن میں اقبال کی چند بہترین نظمیں بھی شامل ہیں۔ ان نظموں کو بھی ان کے موضوع کے حوالے سے ایک خاص ترتیب میں رکھا گیا ہے کہ جتنا آپس میں مربوط کر کے پڑھا جائے اتنا ہی ان کا تاثر اور معنی نمایاں ہوتے ہیں۔ مثلاً 'لینن خدا کے حضور میں'الگ سے بھی بے حد شاندار ہے لیکن اگر اسے اگلی دونظموں 'فرشتوں کاگیت'اور 'فرمانِ خدا'کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تواس مثلث کے نئے معنی سامنے آئیں گے۔ اسی طرح مجدد سرہندی کے مزار پر لکھی جانے والی نظم کو الگ سے دیکھیں تو ہلکے پھلکے انداز میں لفظوں کی ایک کاریگری دکھائی دے گی لیکن اگر اگلی چند نظموں کواس کے ساتھ شامل کرکے پڑھا جائے تو پنجاب کی سیاست کے ایک سیرحاصل مطالعے کا ابتدائیہ نظر آتی ہے۔
کتاب اور اس کے ذیلی عنوانات کی اس ترتیب کی کلید لفظوں میں نہیں بلکہ لفظوں کی عدم موجودگی میںچھپی ہوئی ہے:اس کتاب میں کوئی پیش لفظ موجود نہیں، یہاں تک کہ فہرست بھی نہیں ہے۔ اگر اس کتاب کے دومصرعوں پر مشتمل ابتدایے پر غور کریں تو فہرست کی عدم موجودگی یہ چیز ظاہر کرتی نظر آتی ہے کہ اس شاہکار کو الگ الگ نظموں کے مجموعے کی بجائے ایک مربوط کتاب کے طور پرلینا چاہیے۔ یہ دومصرعے دراصل ہندوشاعر بھرتری ہری کا کے ایک شعر کا ترجمہ ہیں:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
بالِ جبریل اور جاوید نامہ کے مابین خاصی مماثلت نظر آتی ہے۔ اس کی زیادہ تر نظموں میں منظر نگاری اور پس منظر کو بیان کرنے پر خاصا زور نظر آتا ہے اگرچہ اس کی بہترین نظم'مسجد قرطبہ'آزاد قوموں کے فن تعمیر کے اصولوں پر مبنی ہے جو اس سے قبل زبور ِعجممیں بندگی نامہ میںتفصیل سے بیان کیے گئے تھے۔
انھیں مسجد قرطبہ کی کس چیز نے اس قدر مسحور کیا تھا؟''وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا، ''اندلس سے وطن واپس آنے کے بعد اپنے روزمرہ کے ملنے والوں کی ایک بے تکلف محفل میں وہ کہتے نظرآتے ہیں۔ ''قصرِ زھرا دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجدِ قرطبہ مہذب دیووں کا مگر الحمرأ محض مہذب انسانوں کا!''بیان ہوا ہے کہ اتنا کہنے کے بعد وہ مسکرائے اور مزید کہا:''میں الحمرأ کے ایوانوں میں جابجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی، دیوار پر 'ھوالغالب' لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا: 'یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو!''
لہٰذا مسجدِ قرطبہ کی عظیم عمارت، فن میں شان و شوکت کے عنصر کو غالب دیکھنے کے ان کے ذوق کی تسکین کرتی تھی۔ یہ قدرتی طور پر اُس بات کا احساس دلاتی ہے جس سے یہ نظم شروع ہوئی :وقت حیرت انگیز طور پر ہر چیز کو مٹا ڈالتا ہے مگر ایک ایسا نقش جسے کسی ''مردِخدا''نے تخلیق کیا ہو وہ وقت کی دست برد سے آزاد ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ قدرتی آفات تو بہرحال اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں مگر اقبال نے اس چیز کو نظر اندازکردیا ہے کہ اگر کسی مردِ خدا کا تخلیق کیا ہوا ایسا فن پارہ جو نظریاتی اعتبار سے ابدی ہو، اگر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو اس کی توجیہہ کرنے کے لیے اپنے اس اصول میں وہ کیا تبدیلیاں کریں گے۔ بہرحال ایک نظم کی اصل وقعت اس کے حسن میں ہوتی ہے اس کی سائنسی صداقت پر نہیں جیسا کہ انھوں نے بہت عرصہ پہلے اپنی نوٹ بک میں تحریر کیا تھا۔
جوں جوں نظم اپنے ابتدائی بلند تصوّر کے اوپر اٹھتی جاتی ہے، اِس پُرشکوہ عمارت کی شان و شوکت میں ایسی چیزوں کی مماثلت محسوس ہونے لگتی ہے جو ہمارے گرد و پیش میں زیادہ انسانی اور زندہ ہیں۔ مثلاً ایک سچے مومن کا قلبِ گداز یا ایک کسان زادی دوشیزہ کا قریبی کھیت میں بے دھیانی میں گایا ہُوا سریلا گیت یا خود شاعر کا پیغمبرانہ تخیّل۔ (ایک نقاد نے صحیح اندازہ لگایا ہے کہ شاعر نے گویا مسجد پرنظم نہیں لکھی بلکہ اس کے فن ِ تعمیر کی عظمت اور شان وشوکت کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے) ۔
''مردِ خدا''اور ''مردِ مسلمان'' اس نظم میں ایک ہی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے۔ ''مردِ خدا''جس کا عمل غیر فانی ہوسکتا ہے وہ کوئی بھی ایسا شخص ہوسکتا ہے جسے عشق نے مسحور کردیا ہو: جاوید نامہ میں اقبال نے ہندوشاعروں کو مرتبۂ کمال پر فائز دکھایا ہے جبکہ بالِ جبریل میں جوشِ کردار کو سکندرِ اعظم، نپولین اور مسولینی سے منسوب کیا گیا ہے۔ مردِ مسلمان''مردانِ خدا'' کی ایک قسم ہے۔
اگرچہ نظم کی روح بنیادی طور پر آفاقی ہے اور کہیں بھی اس آفاقیت کا دامن نہیں چھوڑا گیامگر اس نے اپنا مخصوص اسلامی مزاج بھی قائم رکھا ہے جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ شاعر مسلم فکر اور تاریخ کی عظمت کی ایک جھلک سے دوسری جھلک دکھاتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ماضی حال میں بدل جاتا ہے اور حال کو مستقبل کی ایک جھلک دکھاتا نظر آتا ہے۔
بال ِ جبریل کی مجموعی ترتیب میں'مسجدِ قرطبہ' سے پہلے 'دعا'آتی ہے۔ 'مسجدِ قرطبہ'میں شان و شوکت کی جس قدر اثر انگیز تصویر کشی کی گئی ہے، اگلی نظم اس کے قطعی برعکس ہے۔ یہ مختصر نظم'قید خانے میں معتمد کی فریاد'ہے جس میں ہسپانیہ کے آخری دنوں کے مورش حکمران معتمد کوجسے ایک افریقی حملہ آور نے قید میں ڈال دیا تھا، انتہائی حسرت و یاس کے عالم میں فریاد کرتا دکھایا گیا ہے۔ مزید تین مختصر نظمیں ہسپانیہ کے مسلم دور کے موضوع پر لکھی گی نظموں کے مجموعہ کو مکمل کرتی ہیں:'عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت، ''ہسپانیہ' اور 'طارق کی دعا' (آخرالذکر پر بعض لوگوں نے یہ تنقید بھی کی ہے کہ اس میں واقعہ بیان کرتے ہوئے تاریخی حقائق کا خیال نہیں رکھا گیاکیونکہ اس افریقی سپہ سالار کی اصل تقریر میں اس سے کہیں مختلف جذبات کا اظہار کیا گیا تھا جو اس نظم میں بیان کیے گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ ایک خوبصورت اور بے حد مقبول نظم ہے) ۔

The Blow of Moses and What Should Now be Done?


 

اگلے سال دو کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ اردو میں ضربِ کلیم اور فارسی میں پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق۔
اول الذکر کا ذیلی عنوان 'عصرِحاضرکے خلاف اعلانِ جنگ' رکھا گیا اور اس میں مذہب، تعلیم، فن، حالاتِ حاضرہ اور عورت کے مسئلہ پر اقبال کے نقطۂ نظر کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ اس میں ناصحانہ انداز کی نظمیں ہیںاور اقبال کی باقی تمام شاعری کے مقابلے میں (خاص طور پر ان کی ابتدائی نظموں کے مقابلے میں) اس کی جن نظموں کے حوالے استعمال کیے جاتے ہیں وہ جامد اور بے لچک ناصحانہ انداز لیے ہوئے نظر آتی ہیں۔ مگر یہ اس لیے ہے کہ چند نظموں کو باقی تمام سے الگ کرکے پڑھا جاتا ہے جبکہ اگر پوری کتاب کو اس کی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کتاب کی ابتدائی نظمیں ہی یہ بات واضح کرتی ہیں کہ شاعر کو خود بھی اپنے انداز کی ناملائمت کا اندازہ ہے مگر موضوع کی سنجیدگی کے اعتبار سے یہ ضروری ہے۔
اقبال اب تقریباً ساٹھ سال کی عُمر کو پہنچ چکے تھے اور اپنی طویل علالت کی وجہ سے بھی وہ یقینا اس کتاب کواپنے آفاقی سماجی تشکیلِ نو کے تصور کے اظہارکے لیے آخری موقع سمجھ رہے ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے اس کام کو جلد نمٹادینے کا خیال لازمی طور پر رہا ہوگا۔ مگراس کے باوجود اس میں موجود اسلامی نظمیں پوری دنیا پر محض اسلامی عقیدے کی حکمرانی کا منظر پیش نہیں کرتیں۔ بلکہ ایک نظم میں تو یورپ میں اسلامی تبلیغ پر ایک طنزیہ تنقید بھی کی گئی ہے اور خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ غریب اقوام کے استحصال کا خاتمہ محض گوروں کو مسلمان بنادینے سے نہیں ہوگا کیونکہ معرب کے سیاسی نظام کی بنیاد مذہب پر نہیں بلکہ نسل پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ پوری عالمی برادری کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی پیدا کرنا ہے نہ کہ عقیدے کے پرچار کے لیے محض زبانی جمع خرچ۔ مسلمان قارئین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اسلام کے ترقی پسند رُخ کی طرف توجہ مبذول کریں اور دنیا کے سامنے ایک انسانیت پسندی پر مبنی نمونہ پیش کریں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان سے پہلے سرسید نے کیا تھا، اقبال بھی اپنے مسلمان قارئین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ تقدیر جیسے بیکار اور لاحاصل خیالات اور مذہبی رہنماؤں کی اندھی تقلید سے نکل کر قدم آگے بڑھائیں۔
کو پہلے سے لکھی گئی تقدیر اور اور مذہبی علمأ کی اندھی تقلید جیسے رویوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
'مکہ اور جنیوا' ایسی بہت سی نظموں میں سے ہے جس میں 'اسلام کا مقصود فقط ملت ِ ِآدم 'بتایا گیا ہے:
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمیعتِ اقوام کہ جمیعتِ آدم؟
اپنی تمام زندگی نسل انسانی کی وحدت قائم کرنے کے لیے اسلامی فکر کی تشکیلِ نو میں صرف کرنے کے بعد، وہ یہاں ایک بار پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عقیدے کواگر حیات بخش قوتوں سے الگ کردیا جائے تووہ محض توہمات کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے:
ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
نظم 'تسلیم ورضا' میں وہ کہتے ہیں:
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
یہ کتاب پڑھنے والوں کو چونکا دینے والے لوازمات سے بھی خالی نہیں ہے، خصوصاً مسلمان پڑھنے والوں کو:
اگر نہ ہو تجھے اُلجھن تو کھول کرکہہ دوں
وجودِ حضرتِ انساں نہ روح ہے ، نہ بدن
اگر مسلمان اقبال کے آفاقی سطح کی سماجی تشکیل ِنوکے مشن کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو انھیں زندگی اور مذہب سے متعلق اپنے بہت سے نظریات کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا، اوران کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر تنقیدی فکرکی جانب مائل کرنا ہی اس کتاب کی تمام نظموں کا مقصد ہے؛چاہے وہ نظمیں ترغیبی نوعیت کی ہوں یا فکری۔
مگر اس کتاب کے ناصحانہ مزاج نے بھی اس کی شاعرانہ خوبصورتی کو بہت زیادہ متاثر نہیں کیا ہے بلکہ اس کے کچھ حصے تو ایجازواختصار میں اقبال کی تمام اردو نظموں کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ فن اور ادب سے متعلق حصہ بغیر کسی زیبِ داستاں کے بھی بے حد رنگین محسوس ہوتا ہے، جبکہ حالاتِ حاضرہ پر مبنی نظموں میں اندازِ بیان کو بہت عمدہ طریقہ سے سیاسی مباحث سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔
فارسی مثنوی اُس صنف میں اقبال کا آخری شاہکار ثابت ہوئی اور ایک لحاظ سے یہ اس بحث کو بھی مکمل کرتی ہے جو اسرارِ خودی میں شروع کی گئی تھی۔ (دیکھیے باب ۳) ۔ اب اقبال کی صحت نے بھی جواب دینا شروع کردیا تھا اور انھوں نے اس خیال میں پناہ لینی شروع کردی تھی کہ اس دنیا میں ان کا جو کام تھا وہ ایک مناسب انداز میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔





محمد علی جناح


 

یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ محمد علی جناح سے اقبال کی پہلی ملاقات کب ہوئی۔ شاید انھوں نے ۱۹۱۱ء کے لگ بھگ جناح کا نام پہلی مرتبہ سُنا ہو جب انھوں نے وائسرائے کونسل میں ایک قدیم مسلم قانون کا کیس بڑی کامیابی سے لڑا تھا۔ اقبال اس سارے معاملے کے بارے میںکچھ شبہات رکھتے تھے اور اس کو ایک ایسا معاملہ سمجھتے تھے جو اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ اس کے بارے میں شور مچایا جارہا تھا۔ اپنی ایک ظریفانہ نظم میں انھوں نے کہا:
قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی
پوچھو تو وقف کے لیے ہے جائداد بھی؟
''میثاق لکھنؤ'' جو جناح صاحب کی ابتدائی سیاسی زندگی کا ایک شاندار کارنامہ ہے، وہ اقبال کے نزدیک ایک زبردست گراوٹ تھا، کیونکہ اِس پیکٹ کے نتیجے میں پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو عملاً اقلیت میں تبدیل کردیا تھا اور انھوں نے جناح پر ایک طنزیہ شعر بھی لکھا تھا:
لندن کے چرخِ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کے محمد علی جناح
(اس شعر میں پہاڑ سے مُراد شملہ ہے)
۱۹۲۹ء میں اقبال اور جناح مسلم لیگ کے مخالف کیمپوں میں تھے، اسی اختلاف کی وجہ سے جناح اور سر محمد شفیع ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۰ء تک ایک دوسرے سے الگ رہے۔ اسی سال اقبال اس میٹنگ میں شرکت کرنے دہلی گئے جس میں جناح نے اپنے ''چودہ نکات'' پیش کرنے تھے اور نہ کرسکے۔ بہرحال اگلے سال تک دونوں میں کسی حد تک ایک دوسرے کا احترام پیدا ہوچکا تھااورجب لیگ دوبارہ متحد ہوئی تو۱۹۳۰ء کے سالانہ اجلاس کی صدارت کا دعوت نامہ اقبال کو جناح کی مکمل منظوری کے ساتھ بھیجا گیا۔
۱۹۳۱ء میں سر شفیع کی وفات نے بھی یقینا اقبال کواس ضرورت کا احساس دلایا ہوگا کہ وہ جناح کو ایک نئی روشنی میں دیکھیں اور انھیں اس کا موقع بھی ملا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تیسری گول میز کانفرنس کے دوران اقبال جناح کی ہیمپ سٹیڈ والی قیام گاہ پر اکثر ان کے مہمان ہوتے تھے۔ اقبال ان لوگوں میں سے بھی سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے جناح کو ان کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے پر راضی کیا۔ پرانے سیاسی اختلافات کے باوجود جناح ہندوستان کے وہ واحد رہنما تھے جن کی قدآور شخصیت اقبال کے عظیم تخیل پر پوری اُترتی تھی۔
پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے ایک پارلیمانی بورڈ تشکیل دینے کے معاملات طے کرنے کے سلسلے میں دونوں کی ملاقات اپریل۱۹۳۶ء کے آخری ہفتہ میں اقبال کی لاہور والی قیام گاہ پر ہوئی۔ جناح کو قائدِ اعظم کا خطاب ابھی نہیں ملا تھا مگر اقبال یقینی طور پر ان کو یہ درجہ دے چکے تھے۔ انھوں نے اپنے بارہ سالہ بیٹے جاوید کو بتایا کہ ان کے گھر ایک عظیم شخصیت آنے والی ہے اور جب جناح نے اُس شرمیلے لڑکے سے پوچھا کہ وہ بڑا ہوکرکیا بننا چاہتا ہے تو اس کو جواب دینے میں جھجکتے دیکھ کر جناح نے کچھ تبصرہ کیا جس کے جواب میں اقبال نے کہا:''وہ منتظر ہے کہ آپ اسے یہ بتائیں کہ اُسے کیا بننا چاہیے۔''
بعد ازاںپارلیمانی بورڈ قائم ہوگیا اور اقبال نے پنجاب کے مسلمانوں کو جناح کی مسلم لیگ کے زیرِ سایہ جمع کرنے میں ایک اہم کردار اداکیا۔ یہ خاصا مشکل کام تھا اور اقبال کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ہاں اتنا ہوا کہ جناح ، سرسکندر حیات کے ساتھ ، جوصوبہ کے یونینسٹ لیڈر تھے اور جن پر اقبال قطعی بھروسہ نہیں کرتے تھے، ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر بہرحال مسلم لیگ کو اس صوبہ میںمقبول بنانے میں بہت بڑی حد تک اقبال کی خدمات کا دخل تھا۔
''ان کے خیالات بنیادی طور پر میرے اپنے خیالات سے ہم آہنگ تھے، ''جناح نے ان خطوط کے مجموعے کے پیش لفظ میں لکھا جو اقبال نے ان کو لکھے تھے، ''اور ہندوستان کو درپیش آئینی مسائل کے ایک محتاط جائزے اور مطالعے کے بعد مجھے بھی اُسی نتیجے پر پہنچاتے ہیں۔ ''
اپنے ایک خط میںجب وہ اس بات کی وضاحت کررہے تھے کہ ۱۹۳۵ء کا آئین عام لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کرتا، انھوں نے جناح کو لکھا:''لیگ کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا وہ ہندستان کے مسلمانوں کے محض اونچے طبقے کی نمایندہ بن کر رہنا چاہتی ہے یا مسلم عوام کا جنھوں نے اب تک، قابلِ فہم طور پر، اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ ''عوام کے معاشی مسائل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا، ''خوش قسمتی سے اس کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں اور اسے جدید تصورات کی روشنی میں وضع کرنے میں مضمر ہے۔ اسلامی قانون کے ایک گہرے اور محتاط مطالعے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانونی نظام کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ ''لہٰذاایک مسلمان ریاست یا ریاستوں کی ضرورت تو ناگزیر نظر آتی ہے۔
جیسا کہ جناح نے اپنے پیش لفظ میں لکھا، ان خیالات کو ''اپنے مناسب وقت پر مسلمانانِ ہندکے کسی ایک رائے پر متفق ہوجانے کی شکل میں اظہار ملا جس کی مثال ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو منظور ہونے والی کُل ہند مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور ہے، جو قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ ''اور یہ واقعہ اقبال کی وفات سے لگ بھگ دو سال کے بعد کا ہے۔

Debates with Ahmedis and the Nationalist Ulema


 

اپنے آخری دنوں میں اقبال نے دو بڑے تنازعوں میں کچھ دلچسپی لی۔
ان میں سے ایک کا آغاز ۱۹۳۵ء میں اس وقت ہوا جب پنجاب کے گورنر نے مسلمانوں کے سامنے احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی تجویزپیش کی۔ احمدی تحریک قادیان کے مرزاغلام احمدنے جو ایک مذہبی مبلّغ تھے، انیسویں صدی کے آخر میں شروع کی تھی۔ بعد میں انھوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور مطالبہ کیا کہ تمام مسلمانوں کو انھیں ماننا چاہیے۔ مسلمانوں کے بہت سے فرقوں میں حضرت عیسیٰ ؑکے دوبارہ ظہور کا عقیدہ عام ہے اور مرزاغلام احمد نے مسیحِ موعود ہونے کا دعوی ٰ بھی کیا تھا۔
اقبال نے شروع شروع میں تو اس تحریک کی قوت اور سماجی روح کی تعریف کی۔ ان کی ابتدائی نثر میں ہمیں کہیں کہیں اس کے حق میں کچھ ذکر بھی ملتا ہے (مگر ان کی شاعری میں نہیں، سوائے ان کے بالکل ابتدائی دور کی ایک نظم کے جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ان کی ہے بھی یا نہیں) ۔ وہ اس تحریک کے بانی کے مذہبی تصورات سے کبھی اتفاق نہ کرسکے کیونکہ اس میں پیغمبرِ اسلامؐ کے آخری نبی ہونے کی تردید ہے (اقبال کے مطابق مسیحِ موعود کی اصطلاح ہی دوغلی ہے) کیونکہ ایک مافوق الفطرت نجات دہندہ اسلامی روح کے منافی ہے۔ ۱۹۳۵ء میں وہ کُھلم کھلا حکومت سے یہ مطالبہ کرنے لگے تھے کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک قوم قرار دیا جائے، بالکل اسی طرح جیسے۱۹۱۹ء میں سکھوں کو ہندؤوں سے الگ قرار دے دیا گیا تھا۔
اقبال تو احمدیوں، انگریزوں اور انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا (آخرالذکر کا اظہار جواہر لعل نہرو کے لیکچرزکی ایک سیریز کی شکل میں سامنے آیا جس کے جواب میں اقبال نے اس موضوع پر ایک سیر حاصل آرٹیکل لکھا) ۔
دوسرا تنازعہ مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میںسخت الفاظ استعمال کرنے سے شروع ہوا۔ مولانانے، جوقدامت پسند نظریات رکھنے والے دیوبند کے ایک بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے، اخبارات میں یہ بیان دیا کہ قوم، وطن سے بنتی ہے۔ اقبال نے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمّت کی اور ایک فارسی نظم کے پہلے شعر میں انھوں نے کہا:''غیرعرب دنیا ابھی مذہب کے اسرار کو نہیں پاسکی، ورنہ دیوبند کے حسین احمد ایسی بوالعجبی کس طرح کرسکتے تھے!''اس کے نتیجے میں شروع ہونے والا تنازعہ اقبال کی زندگی کا آخری فکری تنازعہ ثابت ہوا اور یہ خاصا برمحل بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں ان کا مخالف قدامت پسند مکتبۂ فکر کی نمایندگی کررہا تھا اور علاقائیت کی حمایت کررہا تھا۔۔۔یہ وہ دوتصورات ہیں جن کے خلاف اقبال ساری عمر جنگ کرتے رہے اور یہ ایک شخص میں جمع ہوگئے تھے۔











وفات


 

مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کا سفر کرنے کی خواہش ان کے اندر شدت اختیار کرگئی تھی۔ اور اسی حوالے سے انھوں نے فارسی نظموں کے آنے والے مجموعے کا نام ارمغانِ حجاز (حجاز کا تحفہ) رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے معاونین حیران رہ گئے جب بالآخراُنہوں نے اس کی فہرست لکھوانی شروع کی:کیا وہ یہ اُمیدچھوڑ چکے ہیں کہ وہ اس کتاب کو پیغمبرِ اسلام کی سرزمین پر مکمل کریں گے؟
پروفیسر حمید احمد خان جو ۱۰نومبر ۱۹۳۷ء کی شام دودوستوں کے ہمراہ ان سے ملنے آئے انھوں نے ملاقات کا احوال بیان کیا ہے:
ڈاکٹر صاحب (اقبال) بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے تکیے کے سہارے
لیٹے لیٹے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ''کون صاحب ہیں؟''
یہ سوال سن کر ہم کسی قدر حیران ہوئے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہے بگاہے حاضر ہوئے سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت و عنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیلِ گرما کے بعد اگرچہ چند مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا، پھر بھی ڈاکٹر صاحب کا سوال میری سمجھ میں نہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا: ''جی میں ہوں، حمید احمد خاں - سعید اللہ اور عبدالواحد'' اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹر صاحب نے معمول کے مطابق اپنی اُس لمبی اُستادانہ ''ہوں!'' سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لاتعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اُس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اِن کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: '' ڈاکٹر صاحب! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیں؟''
''پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔۔۔''
انھیں موتیا کا عارضہ لاحق تھاجس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے اس کا آپریشن نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ''اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجائے سوچتا ہوں جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں، ''انھوں نے حمید احمد خاں کو بتایا۔ پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ تکیے سے سر اٹھا کر کہا، ''عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے، میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے۔ ''
۷فروری ۱۹۳۸ء کو انھوں نے وہ نظم لکھوائی جوان کی آخری اردو نظم ثابت ہوئی (جبکہ انھوں نے اس کے بعد فارسی میں کچھ اور شعر بھی کہے) ۔ یہ نظم ان کے شاعرانہ کیرئیر کا ایک بے حد موزوں اختتام محسوس ہوتی ہے، جس کا عنوان 'حضرتِ انسان'رکھا گیا اور جسے ان کے تجویز کردہ اردو مجموعے میں شامل ہونا تھامگر پھر اسے ارمغانِ حجاز کے بالکل آخر میں چند دوسری اُردو نظموں کے ساتھ رکھا گیا جنھیں ایک علیحدہ مجموعے کی شکل دینا ممکن نہیں تھا۔
بلاشبہ کچھ نظمیںایسی بھی ہیں جو ا ن کی موت کی پیش گوئی محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے یہ فارسی رُباعی جواسی حوالے سے بہت مشہور ہوئی:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ نآید
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دِگر دانائے راز آید کہ نآید؟
۲۰ اپریل کی شام ڈاکٹروں نے ان کی حالت کو نازک قرار دیااور اگلے دن سے ان کی دوا بدلنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کی اُمید کم تھی کہ وہ رات گزار پائیں گے۔ ان کے بیٹے جاوید رات گئے ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اقبال کی نظر کمزور ہو چکی تھی لہٰذا اُنہوں نے پوچھا کہ کون آیا ہے۔ یہ سُن کر کہ جاوید ہے، وہ مسکرائے اور پُرمسرت لہجے میں کہا:''جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں!'' (فارسی میں جاوید کے معنی 'غیرفانی' یا 'ہمیشہ رہنے والے'کے ہیں) ۔ پھر انھوں نے چودھری محمد حسین سے، جو ان کے متو ّلیوں میں سے ایک تھے، درخواست کی کہ جب جاوید بڑے ہو جائیں تو انھیں جاویدنامہ کے آخر میں شامل 'جاوید سے خطاب'ضرور پڑھ کر سنائیں۔ جاوید اپنے والد کو آخری بار دیکھ رہے تھے۔
فجر سے ذرا پہلے اقبال نے اپنے سینے پر کچھ بوجھ محسوس کیا اور ڈاکٹر کو بلانے کوکہا۔ ان سے کہا گیا کہ اتنی صبح ڈاکٹر کوبلانا مناسب نہ ہوگا کیونکہ وہ رات بھروہیں رہا تھا اور کچھ دیر پہلے ہی گیا تھا۔ ''پھر تو بہت دیر ہوجائے گی، ''انھوں نے کہا اور پھر اپنا وہ فارسی کا قطعہ دہرایا جوانھوں نے کچھ ہی دن پہلے مکمل کیا تھا۔ کوئی فوراً ڈاکٹر کوبلانے گیا مگر کسی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کا آخری وقت آگیا۔
کہا جاتا ہے کہ آخری لمحات میں انھوں نے درد میں کمی کرنے والی دوائیں لینے سے انکار کردیا تھاکیونکہ دواؤں میں نیند تھی جبکہ وہ جاگتے ذہن کے ساتھ موت کا تجربہ کرنا چاہتے تھے اور اسے کسی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا ملازم علی بخش انھیں تھامے ہوئے تھاتاکہ انھیں کچھ آرام آسکے جب انھوں نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''یہاں، ''اور ایک آہ کے ساتھ اپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی۔



اقبال اکادمی پاکستان